خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ ؍16جون 2023ء

مکہ سے نکلنے سے پہلے قریش نے کعبہ میں جا کر دعا کی کہ ’’اے خدا! ہم دونوں فریقوں میں سے جو گروہ حق پر قائم ہے اور تیری نظروں میں زیادہ شریف اورزیادہ افضل ہے تُو اس کی نصرت فرما اور دوسرے کو ذلیل و رسوا کر۔‘‘

جنگِ بدر کے لیے کفارِ مکہ کی تیاری کی مزید تفصیلات نیز لشکرِ اسلامی کی مدینہ سے روانگی

مَیں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ وہ تمہیں (امیہ بن خَلَف کو)قتل کرنے والے ہیں

ابتدا میں مکی لشکر کی تعداد تیرہ سو تھی۔لیکن بنو زہرہ اور بنو عدی کے لوگ راستے میں اس لشکر سے علیحدہ ہوگئےاس طرح قریش کے لشکر کی تعداد ساڑھے نو سو یا ایک روایت کے مطابق ایک ہزار رہ گئی

زیادہ تر روایات میں مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ بیان ہوئی ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہؓ کے لیے یہ دعا کی کہ اے اللہ! یہ ننگے پاؤں ہیں ان کو سواریاں عطا فرما۔ اور یہ ننگے بدن ہیں انہیں لباس عطا فرما۔ یہ بھوکے ہیں انہیں سیر کردے۔ یہ تنگدست ہیں انہیں اپنے فضل سے غنی کردے۔ چنانچہ یہ دعا قبول ہوئی اور غزوۂ بدر سے واپس آنے والوں میں سے کوئی ایسا شخص نہیں تھا کہ اگر اس نے سواری پر جانا چاہا تو اس کو ایک دو ایسے اونٹ نہ مل گئے ہوں جنہیں وہ استعمال کرسکے۔ اسی طرح جن کے پاس کپڑے نہیں تھے انہیں کپڑے مل گئے اورسامانِ رسد اتنا ملا کہ کھانے پینے کی کوئی تنگی نہ رہی۔ اسی طرح جنگی قیدیوں کی رہائی کا اس قدر معاوضہ ملا کہ ہر خاندان دولتمند ہوگیا

مکرم شيخ غلام رحماني صاحب آف يوکے کا جنازہ حاضر نیز مکرم طاہر آگ محمد صاحب آف مہدي آباد ڈوري برکينا فاسو، مکرم خواجہ داؤد احمد صاحب کینیڈا ،مکرم سید تنویر شاہ صاحب اور مکرم رانا محمد ظفر اللہ خان صاحب مربي سلسلہ کا ذکر خیراور نماز جنازہ غائب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ ؍16جون 2023ءبمطابق 16؍احسان 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

کفّارِ مکہ کی جنگ کے لیے تیاری کے کچھ حالات

بیان ہوئے تھے۔ اس بارے میں مزید تفصیل اس طرح ہے۔ ایک شخص تھا امیہ بن خَلَف اور دوسرا ابولہب۔ یہ جب تیاری ہورہی تھی انہوں نے کچھ جنگ میں جانے میں تامل کیا۔ اس کی تفصیل میں یہ لکھا ہے کہ اس جنگ کے لیے قریشی سردار ہر شخص کو لے جانے کے لیے تقاضا کررہے تھے لیکن

امیہ بن خَلَف جنگ پر جانے سے گریز کررہا تھا۔

مکہ کا ایک سردار عُقبہ بن ابو مُعَیْط امیہ کے پاس آیا اور اس کے پاس خوشبو دان اور دھونی رکھ کر بولا کہ ابو علی! تم یہ عورتوں والی خوشبو کی دھونی لو کیونکہ تم بھی عورتوں میں سے ہو تمہارا جنگ سے کیا کام۔

(سبل الہدیٰ و الرشاد جزء 4 صفحہ 22 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)

ایک دوسری روایت کے مطابق ابوجہل امیہ کے پاس آیا اور اس کو کہا کہ تم مکہ کے سردار اور معزز لوگوں میں سے ایک ہو۔ اگر لوگوں نے تمہیں جنگ سے پیچھے ہٹتا ہوا دیکھ لیا تو وہ بھی رک جائیں گے۔ اس لیے ہمارے ساتھ ضرور نکلو چاہے ایک دو دن کی مسافت تک چلو اور اس کے بعد واپس آجانا۔ دراصل امیہ جنگ پر جانے سے اس لیے خائف تھا کہ اس کے قتل کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرما رکھی تھی اور اس کا اس کو علم تھا۔ چنانچہ بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن معاذؓ عمرے کی نیت سے گئے اور وہ امیہ بن خَلَف کے پاس اترے۔ ان کی پرانی واقفیت تھی۔ امیہ کی عادت تھی کہ جب شام کی طرف جاتا تھا اور مدینے سے گزرتا تو حضرت سعدؓ کے پاس ٹھہرتا۔ امیہ نے حضرت سعدؓ سے جو عمرہ کرنا چاہتے تھے، کہا کہ ابھی انتظار کرو۔ جب دوپہر ہو اور لوگ غافل ہوجائیں تو جا کر طواف کرلینا۔ مسلمانوں کی مخالفت کی وجہ سے یہ احتیاط کی گئی تھی۔ دوپہر ہوئی تو حضرت سعدؓ نے طواف شروع کیا۔ اسی اثنا میں کہ طواف کررہے تھے ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ابو جہل ہے۔ وہ کہنے لگا یہ کون ہے جو کعبہ کا طواف کررہا ہے؟ حضرت سعدؓ نے کہا مَیں سعد ہوں۔ ابوجہل بولا کیا تم خانہ کعبہ کا طواف امن سے کرو گے حالانکہ تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کے ساتھیوں کو پناہ دی ہے۔ حضرت سعدؓ نے کہا ہاں۔ تب ان دونوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا یعنی ابوجہل نے ان کو چیلنج دیا کہ تم کس طرح طواف کرسکتے ہو، تم تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پناہ دینے والوں میں سے ہو۔ بہرحال انہوں نے کہا ہاں۔ میں نے پناہ بھی دی ہے اور میں طواف بھی کروں گا۔ آپس میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا شروع کیا۔ امیہ نے حضرت سعدؓ سے کہا کہ اے سعد! ابوالحکم، یہ ابوجہل کی کنیت تھی، اس پر اپنی آواز اونچی نہ کرو کیونکہ وہ اہلِ وادی کا سردار ہے۔ حضرت سعدؓ نے کہا بخدا! اگر تم نے بیت اللہ کا طواف کرنے سے مجھے روکا تو مَیں اس سے زیادہ سخت روک پیدا کروں گا وہ یہ کہ تم لوگوں کا تجارتی راستہ جو مدینےسے گزرتا ہے یعنی شام کی تجارت کا راستہ، وہ بند کردوں گا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے تھے کہ امیہ حضرت سعدؓ سے یہی کہتا رہا کہ اپنی آواز کو بلند نہ کرو اور ان کو روکتا رہا۔ حضرت سعدؓ غصے میں آئے اور امیہ کو کہنے لگے مجھے تم رہنے دو اور اس کی تائید و حمایت مت کرو یعنی ابوجہل کی تائید نہ کرو۔

مَیں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ وہ تمہیں قتل کرنے والے ہیں۔

یعنی تمہارے قتل ہونے کی پیشگوئی کی ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ وہ لوگ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تمہیں قتل کرنے والے ہیں۔ امیہ نے کہا کیا مجھے؟ حضرت سعدؓ نے کہا ہاں تجھے۔ پھر امیہ نے کہا کہ کیا مکے میں؟تو سعد نے کہا یہ مَیں نہیں جانتا۔ یہ سن کر امیہ بولا خدا کی قسم! محمد جب بات کہتے ہیں (صلی اللہ علیہ وسلم) تو جھوٹی بات نہیں کہتے۔ پھر وہ اپنی بیوی کے پاس واپس آیا اور کہنے لگا کہ کیا تمہیں علم ہے کہ میرے یثربی بھائی نے مجھ سے کیا کہاہے؟ اس نے پوچھا کیا کہا ہے۔ امیہ نے کہا کہتا ہے کہ اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ وہ مجھے قتل کرنے والے ہیں۔ اس کی بیوی نے کہا اللہ کی قسم! محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو جھوٹی بات نہیں کیاکرتے۔ یہ وہ پیشگوئی تھی جس سے امیہ خوفزدہ تھا اور مسلمانوں سے جنگ کے لیے نہیں جانا چاہتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے تھے کہ وہ جب بدر کی طرف نکلے اور مدد طلب کرنے کے لیے فریادی آیا تو امیہ کی بیوی نے اسے کہاکہ کیا وہ بات تمہیں یاد نہیں جو تمہارے یثربی بھائی نے تم سے کہی تھی تو اس نے چاہا کہ نہ نکلے مگر ابوجہل نے اسے کہا کہ تم اس وادی کے رؤسا میں سے ہو تو ایک دو دن کے لیے ہی ساتھ چلو۔ چنانچہ وہ ان کے ساتھ دو دن کے لیے چلا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو قتل کرا دیا۔

(صحیح البخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام حدیث 3632)

(صحیح البخاری کتاب المغازی باب ذکر النبیؐ من یقتل ببدر حدیث 3950 )

بعض سیرت نگاروں نے یہ نکتہ بھی اٹھایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اس کو قتل کریں گے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس کوقتل نہیں کیا تھا تو وضاحت کرنے والےیہ کہتے ہیں کہ مطلب یہ تھا کہ آپؐ اس کے قتل کا سبب بنیں گے ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سوائے امیہ بن خَلَف کے بھائی اُبَی بن خَلَف کے کسی کو قتل نہیں کیا۔ اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگِ احد میں قتل کیا تھا۔ پھر وضاحت کرنے والے ہی کہتے ہیں کہ حضرت سعدؓ نے امیہ کو یہ کہا ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تمہیں قتل کریں گے کیونکہ جیساکہ پہلے بیان ہوچکا ہے۔ روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ آپؐ یا آپؐ کے ساتھی قتل کریں گے۔(غزوات النبیﷺ تالیف علامہ علی بن برہان الدین حلبی،مترجم صفحہ70 ، دار الاشاعت کراچی 2001ء)بہرحال یہ قتل ہوا اور اس میں بحث کی ضرورت نہیں کہ کس نے قتل کیا۔ یہ پیشگوئی تھی جو پوری ہوگئی۔

اسی طرح ابولہب بھی جنگ پر جانے سے خوفزدہ تھا

اور اس نے اپنی جگہ ایک آدمی کو روانہ کیا تھا اور خود جنگ پر نہیں گیا تھا۔ اس کے جنگ پر نہ جانے کی وجہ عاتکہ بنت عبدالمطلب کا خواب تھا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ عاتکہ کا خواب ایسے ہی ہے جیسے کوئی چیز ہاتھ سے لے لی جائے۔یعنی یقینی بات۔

(سبل الھدیٰ والرشاد جزء 4صفحہ21دارالکتب العلمیۃ بیروت1993ء)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس کی تفصیل یوں لکھی ہے کہ ’’صرف دو شخص تھے جنہوں نے ‘‘اس مہم میں ’’شمولیت سے تأمل کیا اور وہ ابولہب اور امیہ بن خَلَف تھے مگر ان کے تأمل کی وجہ بھی مسلمانوں کی ہمدردی نہیں تھی بلکہ ابولہب تو اپنی بہن عاتکہ بنت عبدالمطلب کے خواب سے ڈرتا تھا جو اس نے ضمضم کے آنے سے صرف تین دن پہلے قریش کی تباہی کے متعلق دیکھا تھا اور امیہ بن خَلَف اس پیشگوئی کی وجہ سے خائف تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل ہونے کے متعلق فرمائی تھی اور جس کا علم اسے سعد بن معاذ کے ذریعہ مکہ میں ہوچکا تھا لیکن چونکہ ان دو نامی رؤساء کے پیچھے رہنے سے عامۃ الکفار پر بُرا اثر پڑنے کا اندیشہ تھا اس لئے دوسرے رؤسائے قریش نے جوش اور غیرت دلا دلا کر آخر ان دونوں کو رضا مند کرلیا۔ یعنی امیہ تو خود تیار ہوگیا اور ابولہب نے ایک دوسرے شخص کو کافی روپیہ دینا کرکے اپنی جگہ کھڑا کردیا۔ اور اس طرح تین دن کی تیاری کے بعد ایک ہزار سے زائد جانباز سپاہیوں کا لشکر مکہ سے نکلنے کوتیار ہوگیا۔ابھی یہ لشکرمکہ میں ہی تھا کہ بعض رؤسائے قریش کویہ خیال آیا کہ چونکہ بنوکنانہ کی شاخ بنو بکر کے ساتھ اہل مکہ کے تعلقات خراب ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی غیر حاضری سے فائدہ اٹھا کر وہ ان کے پیچھے مکہ پرحملہ کردیں اور اس خیال کی وجہ سے بعض قریش کچھ متزلزل ہونے لگے مگر بنوکنانہ کے ایک رئیس سراقہ بن مالک بن جعشم نے جو اس وقت مکہ میں تھا ان کو اطمینان دلایا اور کہا کہ میں اس بات کا ضامن ہوتا ہوں کہ مکہ پر کوئی حملہ نہیں ہوگا بلکہ سراقہ کو مسلمانوں کی مخالفت کاایسا جوش تھا کہ قریش کی اعانت میں وہ خود بھی بدر تک گیا لیکن وہاں مسلمانوں کودیکھ کر اس پر کچھ ایسا رعب طاری ہوا کہ جنگ سے پہلے ہی اپنے ساتھیوں کوچھوڑ کر بھاگ آیا …

مکہ سے نکلنے سے پہلے قریش نے کعبہ میں جا کر دعا کی کہ ’’اے خدا! ہم دونوں فریقوں میں سے جو گروہ حق پر قائم ہے اور تیری نظروں میں زیادہ شریف اورزیادہ افضل ہے تو اس کی نصرت فرما اور دوسرے کو ذلیل و رسوا کر۔‘‘

اس کے بعد کفار کالشکر بڑے جاہ وحشم کے ساتھ مکہ سے روانہ ہوا۔ ‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ350-351)اپنی تباہی کی تو خود انہوں نے دعا کرلی۔

ابتدا میں مکی لشکر کی تعداد تیرہ سو تھی۔

(الرحیق المختوم صفحہ 281 ، مکتبۃ السلفیۃ لاہور2000ء)

یہ حوالہ ملتا ہے لیکن بنو زہرہ اور بنو عدی کے لوگ راستے میں اس لشکر سے علیحدہ ہوگئے اس طرح قریش کے لشکر کی تعداد ساڑھے نو سو یا ایک روایت کے مطابق ایک ہزار رہ گئی۔ اس کے بعد ان کے پاس ایک سو یا بعض کے نزدیک دو سو گھوڑے سات سو اونٹ چھ سو زرہیں اور دیگر سامان جنگ بھی مثلاً نیزہ اور تلوار اور تیر کمان وغیرہ کافی تعداد میں موجود تھا۔

(ماخوذ از السیرۃ النبویۃ لابن کثیر صفحہ248-249دارالکتب العلمیۃ بیروت2005ء)
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ352 )

سردارانِ قریش کی ہلاکت کے متعلق جُہَیم بن صَلت کا خواب

ہے، اس کا بھی ذکر ملتا ہے۔ اہل قریش مکہ سے نکلے اور جحفہ میں اترے۔ جحفہ مکہ سے مدینہ کی جانب قریباً بیاسی میل کے فاصلے پر ہے۔ تو جُہَیم بن صَلت نے لوگوں سے بیان کیا کہ مَیں نے یہ خواب دیکھا ہے کہ ایک شخص گھوڑے پر سوار آیا اور ایک اونٹ بھی اس کے ساتھ ہے اور وہ شخص کہہ رہا ہے کہ عتبہ بن ربیعہ کا قتل ہوا اور شیبہ بن ربیعہ قتل ہوا اور ابوالحکم بن ہشام یعنی ابوجہل قتل ہوا اور امیہ بن خَلَف قتل ہوا اور فلاں فلاں اور سرداران قریش میں سے جو لوگ بعد میں بدر میں قتل ہوئے سب کے نام لیے اور پھر اس شخص نے جو آیا تھا اپنے اونٹ کی گردن میں نیزہ مار کر ہمارے لشکر کی طرف چھوڑ دیا تو ہمارے لشکر میں سے کوئی خیمہ ایسا نہ رہا جس کو اس اونٹ کا خون نہ لگا ہو۔ جب یہ خواب ابوجہل نے سنا تو تمسخر اور غصے سے کہنے لگا۔ بنو مطلب میں سے یہ ایک اَور نبی پیدا ہوگیا ہے۔ کل اگر ہم نے جنگ کی تو خوب معلوم ہوجائے گا کہ کون قتل ہوتا ہے۔

(السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ422-423 ذکر رؤیا عاتکہ بنت عبدا لمطلب، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)

بہرحال جیسا کہ بیان ہوچکا ہے ابوسفیان تو راستہ بدل کےچلا گیا تھا۔ اس نے ابوجہل کو پیغام بھیجا کہ جنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہے واپس آ جاؤ اور جیساکہ پچھلی دفعہ بھی بیان ہوا تھا کہ خود ابوسفیان احتیاطاً قافلے سے آگے بڑھ کر پانی کے پاس اترا اور وہاں کسی آدمی سے پوچھا کہ تُو نے کسی کو آتے جاتے دیکھا ہے۔ اس نے کہا مَیں نے کوئی خلاف معمول آدمی کو تو نہیں دیکھا البتہ مَیں نے دو سوار دیکھے ہیں جنہوں نے اپنے اونٹ اس ٹیلے کے پاس بٹھائے اور مشکیزے میں پانی بھر کر چلے گئے۔ ابوسفیان ان کے اونٹ بٹھانے کی جگہ آیا اور ان کے اونٹوں کی مینگنیاں اٹھا کر توڑیں تو ان میں کھجور کی گٹھلیاں تھیں۔ یہ دیکھ کر بولا بخدا! یہ تو یثرب کا چارہ ہے۔ وہ تیزی سے اپنے ساتھیوں کی طرف بھاگا اور اپنے اونٹوں کے منہ پر ضربیں لگا کر انہیں راستے سے پھیر دیا اور ساحل سمندر کی طرف نکل گیا اور بدر کو اپنے دائیں جانب چھوڑ کر تیزی سے روانہ ہوگیا۔

(ماخوذ از السیرۃ النبویۃ لابن ھشام صفحہ422، دارالکتب العلمیۃ بیروت2001ء)

یہ مَیں گذشتہ خطبےمیں پہلے بیان کرچکا ہوں۔بہرحال جب ابوسفیان کو یقین ہوگیا کہ اس نے اپنے قافلے کو محفوظ کرلیا ہے تو اس نے قریش کو یہ پیغام بھیجا کہ تم صرف اپنا قافلہ آدمی اور مال بچانے کے لیے نکلے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اسے بچا لیا ہے اس لیے تم واپس لوٹ آؤ لیکن ابوسفیان کا پیغام سن کر ابوجہل نے کہا بخدا! ہم ہرگز واپس نہیں جائیں گے یہاں تک کہ ہم بدر کے مقام تک پہنچ جائیں۔

بدر عرب کے میلوں میں سے ایک میلے کا مقام بھی تھا جہاں ان کے لیے ہر سال بازار لگتا تھا۔

اس نے کہا کہ ہم وہاں تین دن قیام کریں گے، اونٹ ذبح کریں گے، کھانا کھلائیں گے، شراب پلائیں گے، ہماری کنیزیں ہمارے سامنے گیت گائیں گی۔ سارا عرب ہمارے متعلق اور ہمارے سفر اور ہمارے لشکر کے متعلق سنے گا پھر وہ ہمیشہ ہم سے خوفزدہ رہیں گے اس لیے بڑھتے چلو۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 423۔ دار الکتب العلمیۃ 2001ء)

ایک رعب قائم کرنے کے لیے اس نے کہا کہ ہم نے وہاں جنگی لشکر لے کر جانا ہی جانا ہے۔ ان کے ساتھ قبیلہ بنو زہرہ بھی تھا۔ اس کے بارے میں لکھا ہے اس نے واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ ابوسفیان کو جب یہ پیغام ملا تو یہ سن کر اخنس بن شَرِیق نے جو بنو زہرہ کا حلیف تھا کہا اے بنو زہرہ! اللہ نے تمہارے اموال بھی بچا لیے ہیں اور تمہارے ساتھی مَخْرَمَہ بن نوفل کو بھی نجات بخشی ہے۔ یہ ابوسفیان کے قافلے میں شامل تھا۔ تم گھروں سے اس لیے نکلے تھے کہ مَخْرَمَہ کو بچاؤ اور اپنے مال کی حفاظت کرو۔ تم بزدلی کا الزام مجھ پر عائد کردو۔ لوگ یہی کہیں گے ناں کہ بزدل ہو، جنگ چھوڑ رہے ہو۔ تو کہتا ہے یہ الزام مجھ پر عائد کردو اور واپس چلو کیونکہ نقصان نہ ہونے کی صورت میں تمہیں نکلنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ابوجہل کی باتوں میں نہ آؤ۔ چنانچہ وہ واپس چلے گئے اور بنو زہرہ کا کوئی فرد جنگ میں شریک نہ ہوا۔ اسی طرح بنو عدی بن کعب سے بھی کوئی آدمی جنگ کے لیے نہ گیا اور واپس چلا گیا۔ لشکر قریش آگے بڑھتا گیا۔

حضرت ابوطالب کے بیٹے طالب بھی اس لشکر میں شریک تھے۔

قریش کے کچھ لوگوں کے ساتھ ان کی گفتگو ہوئی۔ قریش نے طنزاً کہا بخدا! اے بنی ہاشم! ہم جانتے ہیں کہ اگرچہ تم ہمارے ساتھ نکل آئے ہو لیکن تمہاری دلی ہمدردیاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں۔ یہ بات سن کر طالب اپنے کئی ساتھیوں کے ہمراہ واپس مکہ لوٹ آئے۔ ایک روایت میں یہ ذکر ملتا ہے کہ طالب بن ابو طالب جبراً مشرکین کے ساتھ بدر گیا تھا مگر نہ قیدیوں میں اس کا پتا چلا اور نہ مقتولین میں ملا اور اپنے گھر بھی واپس نہیں لوٹا۔(تاریخ طبری مترجم جلد دوم صفحہ 137نفیس اکیڈمی کراچی)طبری کا یہ حوالہ ہے۔

بہرحال باقی لشکر جو کہ اب تیرہ سو سے کم ہوکر قریباً ایک ہزار رہ گیا تھا اس نے اپنا سفر جاری رکھا یہاں تک کہ انہوں نے بدر کے قریب ایک ٹیلے کے پیچھے جا کر ڈیرہ ڈال لیا۔

(ماخوذ از السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ423 ذکر رؤیا عاتکہ بنت عبدا لمطلب، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ سے روانگی

اور

مسلمانوں کے لشکر کی تعداد

کے بارے میں لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بارہ رمضان دو ہجری بروز ہفتہ مدینہ سے روانہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تین سو سے کچھ اوپر افراد تھے جن میں چوہتر۷۴ مہاجرین اور باقی انصار میں سے تھے۔ یہ پہلا غزوہ تھا جس میں انصار بھی شامل ہوئے تھے۔ حضرت عثمان بن عفانؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ہی رکنے کا حکم دیا کیونکہ ان کی زوجہ حضرت رقیہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیمار تھیں۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عثمانؓ خود بیمار تھے لیکن زیادہ معروف روایت یہی ہے کہ ان کی اہلیہ محترمہ بیمار تھیں۔ بعض اور

زیادہ تر روایات میں مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ بیان ہوئی ہے۔

صحیح بخاری میں ذکر ہے کہ حضرت بَراء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ان صحابہ نے جو غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے مجھے بتایا کہ وہ تعداد میں اتنے ہی تھے جتنے طالوت کے وہ ساتھی تھے جو اُن کے ساتھ دریا سے پار ہوئے تھے یعنی تین سو دس سے کچھ اوپر۔ حضرت براءؓ کہتے تھے بخدا! طالوت کے ساتھ دریا سے صرف مومن ہی پار گئے تھے۔

(ماخوذ از الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد2صفحہ8 دارالکتب العلمیۃ بیروت1990ء)

(صحیح البخاری کتاب المغازی باب عدّة اصحاب بدر حدیث 3957)

(غزوات النبی ﷺ ازعلامہ برہان حلبی،مترجم،صفحہ 72 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی 2001ء)

ایک روایت میں ذکر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو گنتی کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے گنتی کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ تین سو تیرہ ہیں تو آپؐ بہت خوش ہوئے اور فرمایا: طالوت کے ساتھیوں جتنے ہیں۔

(سبل الہدیٰ والرشاد جزء 4صفحہ25دارالکتب العلمیۃ بیروت1993ء)

حضرت مصلح موعودؓ جنگ بدر میں مسلمانوں کی تعداد کے بارے میں فرماتے ہیں:’’ہم دیکھتے ہیں کہ بدر کے موقع پر صحابہ 313کی تعداد میں نکلے تھے اگر وہ بجائے 313 کے چھ یا سات سو کی تعداد میں نکلتے اور وہ صحابہ بھی شامل ہوجاتے جو مدینہ میں ٹھہر گئے تھے تو لڑائی ان کے لئے زیادہ آسان ہوجاتی مگر

خدا تعالیٰ نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اس جنگ کے متعلق بتا دیا لیکن ساتھ ہی منع بھی فرما دیا کہ جنگ کے متعلق کسی کو بتانا نہیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ بعض گزشتہ پیشگوئیوں کو پورا کرنا چاہتا تھا۔

مثلاً صحابہؓ کی تعداد تین سو تیرہ تھی اور بائبل میں یہ پیشگوئی موجود تھی کہ جو واقعہ جدعون کے ساتھ ہوا تھا وہی واقعہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ کو پیش آئے گا اور جب جدعون نبی اپنے دشمن سے لڑے تھے تو ان کی جماعت کی تعداد 313تھی۔ اب اگر صحابہؓ کو معلوم ہوجاتا کہ ہم جنگ کے لئے مدینہ سے نکل رہے ہیں تو وہ سارے کے سارے نکل آتے اور ان کی تعداد 313سے زیادہ ہوجاتی۔ اِسی حکمت کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے اس امر کو مخفی رکھا تا کہ صحابہؓ کی تعداد 313سے زیادہ نہ ہونے پائے کیونکہ 313 صحابہؓ کا جانا ہی پیشگوئی کو پورا کرسکتا تھا۔ اس لئے ضروری تھا کہ جنگ کی خبر کو مخفی رکھا جاتا اور میدانِ جنگ میں پہنچ کر صحابہؓ کوبتایا گیا کہ تمہارا مقابلہ لشکرِ قریش سے ہوگا۔‘‘

(ایک آیت کی پُر معارف تفسیر،انوار العلوم جلد18صفحہ619)

ایک خاتون تھیں

ام ورقہ بنت نوفل ان کے جذبہ جہاد کے بارے میں

ذکر آتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی جانب روانہ ہونے لگے تو حضرت ام ورقہؓ نے آپؐ سے عرض کیا یا رسول اللہؐ! مجھے بھی جہاد پر جانے کی اجازت دیں میں آپؐ کے ساتھ بیماروں کی تیمار داری کروں گی شاید اللہ مجھے بھی شہادت نصیب فرما دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے گھر میں ہی ٹھہری رہو تمہیں اللہ تعالیٰ شہادت نصیب کرے گا۔ اس صحابیہ نے قرآن کریم پڑھ رکھا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام شہیدہ رکھ دیا تھا۔ چنانچہ عام مسلمان بھی انہیں شہیدہ ہی کہنے لگے تھے۔ پھر حضرت عمرؓ کے دور ِخلافت میں حضرت ام ورقہؓ کے ایک غلام اور لونڈی نے انہیں ایک چادر میں لپیٹ کر بیہوش کردیا یہاں تک کہ وہ وفات پا گئیں۔ اس غلام اور لونڈی کے بارے میں انہوں نے وصیت کررکھی تھی کہ میری وفات کے بعد آزاد ہوں گے۔ قاتلوں کو حضرت عمرؓ کے حکم پر پھانسی دے دی گئی۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ میرے ساتھ چلو شہیدہ سے مل کرآئیں۔

(ماخوذ از السیرۃ الحلبیہ جلد2صفحہ197دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء)

جب اس کے گھر جاتے تھے توحضرت عمرؓ وغیرہ کو بھی ساتھ لے جایا کرتے تھے۔

اسلامی لشکر کی قوت کی تفصیل

اس طرح لکھی ہے۔ ایک روایت کے مطابق اس جنگ میں مسلمانوں کے پاس پانچ گھوڑے تھے۔ بعض کے نزدیک صرف دو گھوڑے تھے ایک حضرت مقدادؓ کا گھوڑا اور ایک حضرت زبیرؓ کا۔ حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ بدر کے دن حضرت مقدادؓ کے علاوہ کوئی اَور گھڑسوار نہیں تھا۔ تو بہرحال روایات میںگھوڑوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد جو ملتی ہے وہ پانچ کی ملتی ہے۔ مسلمانوں کے پاس ساٹھ زرہیں تھیں اور اونٹوں کی تعداد ستر یا اسّی تھی جن پر سب باری باری سوار ہوتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علیؓ اور حضرت مرثد بن ابومرثدؓ ایک اونٹ پر باری باری سوار ہوتے تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدل چلنے کی باری آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ساتھیوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! ہم آپؐ کی باری میں پیدل چلتے ہیں اور آپؐ سوار ہی رہیں۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

تم مجھ سے زیادہ طاقتور نہیں ہو اور نہ ہی مَیں تم دونوں کی نسبت اجر و ثواب سے بے نیاز ہوں۔

(ماخوذ از السیرۃ الحلبیۃ جلد2صفحہ 204-205 دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء)

(ماخوذ از السیرۃ النبویۃ لابن کثیر صفحہ249 دارالکتب العلمیۃ بیروت2005ء)

(غزوات النبی ﷺ تالیف علامہ علی بن برہان الدین حلبی،مترجم صفحہ76 ، دار الاشاعت کراچی 2001ء)

(دلائل النبوۃ للبیہقی جلد 3 صفحہ 32 مطبوعہ دار الریان للتراث قاہرہ 1988ء)

مجھے بھی جنگ کا،اس سفر کا، مہم کا اجر و ثواب چاہیے۔

صحابہ کرامؓ کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا

تھی۔ اس کے بارے میں لکھا ہے کہ راستے میں ایک مقام سے کوچ کرتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہؓ کے لیے یہ دعا کی کہ اے اللہ! یہ ننگے پاؤں ہیں ان کو سواریاں عطا فرما اور یہ ننگے بدن ہیں انہیں لباس عطا فرما۔ یہ بھوکے ہیں انہیں سیر کردے۔ یہ تنگدست ہیں انہیں اپنے فضل سے غنی کردے۔ چنانچہ یہ دعا قبول ہوئی اور غزوۂ بدر سے واپس آنے والوں میں سے کوئی ایسا شخص نہیں تھا کہ اگر اس نے سواری پر جانا چاہا تو اس کو ایک دو ایسے اونٹ نہ مل گئے ہوں جنہیں وہ استعمال کرسکے۔ اسی طرح جن کے پاس کپڑے نہیں تھے انہیں کپڑے مل گئے اور سامانِ رسد اتنا ملا کہ کھانے پینے کی کوئی تنگی نہ رہی۔ اسی طرح جنگی قیدیوں کی رہائی کا اس قدر معاوضہ ملا کہ ہر خاندان دولتمند ہوگیا۔

(ماخوذ از السیرۃ الحلبیۃ جلد2صفحہ 204 دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء)

بعض لوگ مدینہ میں رہے اور بعض

کم عمر مجاہدین

تھے جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس جانے کا حکم دیا ۔ اس کے بارے میں لکھا ہے کہ بدر کی طرف نکلنے کا ارشاد ہرچند کہ عام تھا لیکن اس میں زیادہ تیاری کا موقع نہیں دیا گیا۔ چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ بعض لوگوں نے عرض کیا کہ مدینہ سے کچھ دُور ہماری سواریاں ہیں ہم وہ لے آئیں تو ارشاد ہوا کہ نہیں۔ چنانچہ ان لوگوں کو رہنے دیا یا وہ بغیر سواری کے ساتھ روانہ ہوئے۔ یہاں جو لکھا ہے یہ عام تھا۔ یہ عام تو تھا لیکن پھر بھی پابندیاں تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے موقع بھی نہیں دیا کسی کو تیاری کا کہ لوگ زیادہ تیار بھی نہ ہوجائیں۔ بہرحال لکھا ہے کہ اسی طرح کچھ مخلص ایسے تھے کہ جنہیں کسی نہ کسی عذر کی بنا پر پیچھے رہنے کی اجازت ملی جیسے حضرت عثمانؓ کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ اسی طرح ابو امامہ بن ثعلبہ کی والدہ بیمار تھیں لیکن انہوں نے ساتھ جانے کا ارادہ کرلیا تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ وہ اپنی بیمار والدہ کے پاس ٹھہریں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدر سے واپس تشریف لائے تو ان کی والدہ انتقال کرچکی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قبر پر جا کردعا کی۔ حضرت سعد بن عبادہؓ جو بڑے جوش و خروش سے لوگوں کو سفر کے لیے تیار کررہے تھے ان کو سانپ نے ڈس لیا تو وہ مدینہ میں ہی رہے۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے میں ایک مقام پر رُک کر جو کم عمر مجاہدین تھے انہیں واپس جانے کا ارشاد فرمایا۔ ان میں ایک عُمیر بن ابی وقاص بھی تھے۔ انہوں نے جب بچوں کی واپسی کا حکم سنا تو رونا شروع کردیا جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جنگ پر جانے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ وہ جنگ میں شریک ہوئے اور جامِ شہادت نوش کیا۔ جن کم عمر مجاہدین کو واپس بھیجا گیا ان میں اسامہ بن زید، رافع بن خدیج، براء بن عازب، اُسید بن ظُھیر، زید بن ارقم اور زید بن ثابت شامل تھے۔

(ماخوذ از السیرۃ الحلبیہ جلد2صفحہ202دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء)

(البدایۃ والنہایۃ جزء 5 صفحہ 227 دار ھجر بیروت 1997ء)

(دلائل النبوۃ للبیہقی جلد 3 صفحہ 68 مطبوعہ دار الریان للتراث قاہرہ 1988ء)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’آج وہ زمانہ آیا ہے کہ لوگ اسلام اور ایمان کے لئے قربانی سے بچنے کے لئے عذر اور بہانے تلاش کرتے ہیں اور وقت آنے پر کہتے ہیں کہ ہمیں یہ دقّت ہے وہ روک ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسیہ کے ماتحت مسلمانوں میں قربانی کا وہ جذبہ پیدا ہوچکا تھا کہ مرد اور بالغ عورتیں تو الگ رہیں بچے بھی اسی جذبہ سے سرشار نظر آتے تھے یہاں تک کہ بدر کی جنگ کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو بلایا تا کہ ان میں سے ان لوگوں کا انتخاب کریں جو جنگ کے قابل ہوں۔ اس وقت ایک لڑکے کے متعلق آتا ہے، دوسرے صحابہ اور وہ خود بھی بیان کرتا ہے کہ جس وقت وہ لوگ کھڑے ہوئے وہ بھی اس جوش میں کہ اسلام کی خاطر جان قربان کرنے کا موقع ملے ان میں کھڑا ہوگیا مگر چونکہ قد چھوٹا تھا دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں چھوٹا معلوم ہوتا تھا اس وجہ سے خطرہ تھا کہ شاید منتخب نہ ہوسکے۔ اس لیے وہ اپنے انگلیوں کے بل کھڑا ہوگیا‘‘ پنجے کے بل کھڑا ہوگیا ’’اور ایڑیاں اوپر اٹھا لیں تا قد اونچا معلوم ہو اور چھاتی تان لی تا کمزور نہ سمجھا جائے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ پندرہ سال سے کم عمر کا کوئی لڑکا نہ لیا جائے اور جب آپؐ انتخاب کرتے ہوئے اس کے پاس پہنچے تو فرمایا کہ یہ بچہ ہے اسے کس نے کھڑا کردیا ہے اسے ہٹا دو۔ مگر آج ایسا ہوتا تو شاید ایسا بچہ خوشی سے اچھلنے لگتا کہ میں بچ گیا لیکن جب اس بچہ کو الگ کیا گیا تو وہ اتنا رویا اتنا رویا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رحم آ گیا اور آپؐ نے فرمایا اچھا اسے لے لیا جائے۔‘‘

(خطبات محمود جلد17صفحہ 265)

اس سفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کا جو امیر مقرر کیا تھا اس کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’مدینہ سے نکلتے ہوئے آپؐ نے اپنے پیچھے عبداللہ بن ام مکتوم کو مدینہ کا امیر مقرر کیا تھا مگر جب آپؐ روحاء کے قریب پہنچے جو مدینہ سے 36میل کے فاصلہ پر ہے تو غالباً اس خیال سے کہ عبداللہ ایک نابینا آدمی ہیں اور لشکر قریش کی آمد آمد کی خبر کا تقاضا ہے کہ آپؐ کے پیچھے مدینہ کا انتظام مضبوط رہے۔ آپؐ نے ابولُبابہ بن منذر کو مدینہ کا امیر مقرر کرکے واپس بھجوا دیا اور عبداللہ بن ام مکتوم کے متعلق حکم دیا کہ وہ صرف امام الصلوٰۃ رہیں مگر انتظامی کام ابولُبابہ سرانجام دیں۔ مدینہ کی بالائی آبادی یعنی قباء کے لئے آپؐ نے عاصم بن عدی کو الگ امیر مقرر فرمایا۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ354)

اسلامی لشکر کے جھنڈے کے بارے میں

لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی لشکر کا جھنڈا حضرت مصعب بن عمیر کو عطا فرمایا۔ یہ سفید رنگ کا تھا۔ اس کے علاوہ دو سیاہ رنگ کے جھنڈے بھی تھے جن میں سے ایک حضرت علیؓ کے پاس تھا جس کا نام عقاب تھا۔ یہ جھنڈا حضرت عائشہ ؓکی اوڑھنی سے بنایا گیا تھا اور دوسرا جھنڈا ایک انصاری صحابی کے پاس تھا۔

ایک روایت کے مطابق اسلامی لشکر کے پاس تین جھنڈے تھے۔

مہاجرین کا جھنڈا حضرت مُصْعَب بن عُمیرؓ کے پاس، قبیلہ خزرج کا جھنڈا حضرت حباب بن منذرؓ کے پاس اور قبیلہ اوس کا جھنڈا حضرت سعد بن معاذؓ کے پاس تھا۔

(السیرۃ الحلبیہ جلد2صفحہ 203 دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء)

حضرت خَوَّاتْ بن جُبَیرؓ بھی جنگ میں ساتھ تھے لیکن رستے میں ایک مقام پر پہنچ کر ان کی ٹانگ پر ایک پتھر لگنے کی وجہ سے چوٹ آئی اور خون بہنا شروع ہوگیا جس کی وجہ سے وہ چلنے کے قابل نہ رہے اس لیے مدینہ واپس چلے گئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے بھی مالِ غنیمت میں حصہ رکھا۔ بعض علماء کے نزدیک وہ جنگِ بدر میں شامل ہوئے تھے۔(السیرۃ الحلبیۃ جلد2 صفحہ202 دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء)لیکن صحیح روایت یہی ہے کہ واپس چلے گئے۔

مشرک کی مدد لینے سے انکار کے بارے میں

لکھا ہے کہ مدینہ میں حبیب بن یَساف نامی ایک نہایت طاقتور اور بہادر شخص تھا یہ شخص قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتا تھا اور غزوۂ بدر کے موقع تک مسلمان نہیں ہوا تھا مگر یہ بھی اپنی قوم خزرج کے ساتھ جنگ کے لیے روانہ ہوا اور جنگ جیتنے کی صورت میں اس کو مالِ غنیمت ملنے کی بھی امید تھی۔ مسلمانوں کو اس سے بہت خوشی ہوئی کہ یہ بھی ان کے ساتھ جنگ میں شریک ہورہا ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ ہمارے ساتھ صرف وہی جنگ میں جائے گا جو ہمارے دین پر ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا تم واپس جاؤ ہم مشرک کی مدد نہیں لینا چاہتے۔ حبیب بن یساف دوسری مرتبہ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری مرتبہ بھی اسے واپس بھیج دیا۔ آخر تیسری مرتبہ جب وہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کیا تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہو؟ اس نے کہا ہاں! اور اس کے بعد وہ مسلمان ہوگیا اور نہایت بہادری کے ساتھ جنگ لڑی۔

(السیرۃ الحلبیۃ جلد2 صفحہ204 دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء)

اس سفر کے دوران حضرت سعدؓ کے ہرن کے شکار کے بارے میں

بھی ذکر ملتا ہے۔ راستہ میں ایک مقام پر پہنچ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے فرمایا۔ اے سعد! ہرن کو دیکھو اور اسے تیر مارو۔ راستے میں ان کو ہرن نظر آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور اپنی ٹھوڑی مبارک حضرت سعدؓ کے دونوں کندھوں اور دونوں کانوں کے درمیان رکھی اور فرمایا تیر پھینکو۔ اے اللہ! اس کا نشانہ درست کردے۔ پھر انہوں نے تیر مارا تو ان کا نشانہ ہرن سے خطا نہ گیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور حضرت سعدؓ دوڑتے ہوئے گئے اور اس ہرن کو پکڑا تو اس میں زندگی کی رمق باقی تھی۔ چنانچہ اسے ذبح کیا اور اٹھا کر لے آئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اسے صحابہؓ کے درمیان تقسیم کردیا گیا۔

(سبل الہدیٰ والرشاد جزء 4صفحہ25دارالکتب العلمیۃ بیروت1993ء)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر جاری رکھا۔ جب صَفراء مقام پر پہنچے جو ایک بہت سرسبز اور کھجور کے درختوں پر مشتمل وادی ہے جو بدر کے میدان سے ایک مرحلے کے فاصلے پر واقع ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے دو اشخاص کو بدر کی جانب روانہ کیا اور خود بھی لشکر کے ہمراہ آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ ذَفِران نامی وادی سے گزرتے ہوئے ایک مقام پر پڑاؤ ڈالا جو وادی صَفْراء کے قریب ہی ایک وادی کا نام ہے۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ھشام صفحہ420، دارالکتب العلمیۃ بیروت2001ء)

(معجم البلدان جلد 3 صفحہ 468 ، صفحہ 7 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

دونوں اشخاص جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے بھیجا تھا چلتے چلتے بدر میں جا پہنچے۔ وہاں پانی کے قریب ایک ٹیلے کے پاس اونٹ بٹھائے پھر مشکیزہ لے کر ان میں پانی بھرنے لگے۔ ان دونوں نے وہاں دو لڑکیوں کی آوازیں سنیں جو ایک دوسرے کو پکڑے ہوئے پانی کی طرف آ رہی تھیں۔ ان میں سے ایک دوسری سے کہہ رہی تھی۔ قافلہ کل یا پرسوں آئے گا میں ان کے پاس مزدوری کرکے تیرا قرض اتار دوں گی۔ ان لڑکیوں کے علاوہ ایک اور آدمی بھی وہاں موجود تھا اس آدمی نے کہا تم سچ کہہ رہی ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے آدمیوں نے یہ باتیں سن لیں اور دونوں اپنے اونٹوں پر سوار ہوکر واپس آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر جو کچھ سنا تھا اس کی اطلاع دے دی۔(ماخوذ از السیرۃ النبویۃ لابن ھشام صفحہ422، دارالکتب العلمیۃ بیروت2001ء)بتایا کہ اس طرح ایک لشکر آ رہا ہے۔ تو یہ اطلاع جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچ گئی تو آپ بھی مزید ہوشیار ہوگئے۔ باقی تفصیل ان شاء اللہ آئندہ بیان ہوگی۔

اس وقت میں

کچھ مرحومین کا ذکر

کرنا چاہتا ہوں۔ ایک

حاضر جنازہ

ہے جو

مکرم شیخ غلام رحمانی صاحب یوکے

کا ہے۔ گذشتہ دنوں ان کی بانوے سال کی عمر میں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

یہ حضرت شیخ غلام جیلانی صاحب آف امرتسر صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے تھے اور مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب جن کو لمبا عرصہ کراچی کی جماعت کی خدمت کی توفیق ملی۔ عرصے تک امیر جماعت کراچی بھی رہے۔ ان کے داماد تھے۔ مکرم شیخ غلام رحمانی صاحب کے والد نے 1902ء میں قادیان کا سفر کیا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت حاصل کی اور یہ کہتے ہوئے فوری ایمان لے آئے کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے کا نہیں ہوسکتا۔ غلام رحمانی صاحب 1958ء میں برطانیہ آئے۔ یہاں آ کر الیکٹریکل انجنیئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ پھر لمبا عرصہ یہاں ہسپتال میں ایک میڈیکل ریسرچ کونسل میں کام کیا۔ کئی سال تک بطور نیشنل جنرل سیکرٹری اور دس سال سے زائد عرصہ صدر جماعت ساؤتھ آل (Southall)کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ ساؤتھ آل مشن کی لوکل کونسل سے منظوری کے لیے بہت کوشش کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی کوششوں کو بارآور بھی کیا۔ جب ایک گھر میں مشن ہاؤس قائم کیا گیا تو ایک پڑوسی نے مقامی انتظامیہ سے شکایت کردی۔ انتظامیہ نے صورتحال کا جائزہ لیا اور اس کو بند کرنے کا ارادہ کیا لیکن رحمانی صاحب نے بڑی کوشش کرکے بڑی محنت سے اپنا موقِف انتظامیہ کے سامنے پیش کیا جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیابی ملی اور جماعت کے حق میں فیصلہ ہوا۔ رحمانی صاحب نے سالہا سال تک ساؤتھ آل مشن ہاؤس میں اتوار کی کلاسز منعقد کیں اور نئی نسل کے کئی لوگوں کو اسلام احمدیت کی تعلیم سے روشناس کروایا۔ 1996ء میں آپ نیشنل سیکرٹری وصایا مقرر ہوئے اور جب 2005ء میں مَیں نے وصیت کے بارے میں تحریک کی تھی کہ پچاس فیصد چندہ دہند ضرور موصی ہوں تو انہوں نے بڑی محنت سے اس بارے میں کوشش کی اور تحریک بھی کرتے رہے اور انہوں نےشعبہ وصایا کو کمپیوٹرائزڈ بھی کیا اور آرگنائزڈ کیا۔

مرحوم صوم و صلوٰة اور تلاوت قرآن کریم کے پابند تھے۔ خوش گفتار، دھیمے مزاج کے مالک، کم گو، پیار محبت سے ملنے والے ایک نیک ہمدرد اور مخلص انسان تھے۔ خلافت کے ساتھ عقیدت کا والہانہ تعلق تھا۔ حج بیت اللہ کی سعادت بھی ان کو ملی۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ جمیلہ رحمانی صاحبہ کے علاوہ ایک بیٹے خالد رحمانی اور بیٹی عائشہ ہیں۔ آپ ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب جو الاسلام ویب سائٹ کے چیئرمین ہیں ان کے بہنوئی بھی ہیں۔

لئیق طاہر صاحب مربی سلسلہ لکھتے ہیں۔ ہر ماہ مسجد فضل میں آتے تھے اور چندے کی بڑی رقم اداکرکے رسید لے جاتے تھے۔ اس زمانےمیں مجھے ان کے ساتھ اتنا ہی تعارف تھا لیکن ان کی طبیعت پر ان کی نیکی کا اثر تھا۔ تفصیلی تعارف 1990ء میں ہوا جب ان کی بطور مربی یہاں ساؤتھ آل میں تقرری ہوئی۔ کہتے ہیں ا ن دنوں یہ ساؤتھ آل کے صدر جماعت تھے۔ مشن ہاؤس کی نگہداشت اپنے گھر کی طرح کرتے تھے۔ بیشتر وقت مشن ہاؤس میں رہتے۔ اس کی صفائی ستھرائی کا کام بھی کرتے۔ مشن ہاؤس کی توسیع بھی انہی کے وقت میں ہوئی۔ بہت باادب تھے۔ ہر ایک چھوٹے بڑے سے محبت اور پیار اور بزرگانہ مروت سے پیش آتے تھے۔ سلسلے کے پیسے کی حفاظت کرتے اور انتہائی بے نفس انسان تھے۔ ان کی جو خوبیاں بیان ہوئی ہیں ان میں ایک خوبی مَیں نے بھی دیکھی ہے۔ انتہائی عاجزی تھی اور خلافت سے وفا کا بڑے انتہا کا تعلق تھا۔ اس میں بہت بڑھے ہوئے تھے۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی اور اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔

دوسرا جنازہ غائب ہے۔ رحمانی صاحب کا یہ جنازہ تو حاضر ہے جمعے کے بعد ان شاء اللہ ادا ہوگا اس کے ساتھ کچھ غائب جنازے ہیں۔

غائب جنازوں میں پہلا جنازہ طاہر آگ محمد صاحب کا ہے۔ یہ مہدی آباد، ڈوری، برکینا فاسو

کے ہیں۔ ان کی گذشتہ دنوں وفات ہوئی ہے۔ 44سال ان کی عمر تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔مشنری انچارج صاحب لکھتے ہیں کہ ان کے والد نے 1999ء میں بیعت کی سعادت پائی تھی لیکن انہوں نے بیعت نہیں کی تھی۔ پھر انیس سال کی عمر میں پاؤں میں تکلیف ہوئی اور واگا ڈوگو علاج کے لیے گئے۔ اپنی بیماری میں بہت دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے سیدھا راستہ دکھا۔ اگر احمدیت سچی ہے تو میری راہنمائی کر۔ نوجوانی میں ان کو یہ شوق تھا کہ دین کے بارے میں جانیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا بھی مانگی۔ دورانِ علاج مختلف خوابوں کی بنا پر ان کو تسلی ہوگئی اور واپس آ کر بیعت کرلی۔ پھر انہوں نے جماعت کے سلائی سینٹر سے ہی سلائی کا کام سیکھ لیا اور اسی کو اپنی گزر بسر کا ذریعہ بھی بنایا۔ اس عید پر عیدالفطر میں شہداء کی جو فیملیز تھیں، برکینا فاسو کے جو شہداء تھے۔ ان کے کپڑے سلوانے تھے کوئی درزی کام لینے کو تیار نہیں تھا۔ جب وہاں مربی صاحب (رانا فاروق صاحب) نے ان سے پوچھا تو انہوں نے حامی بھر لی۔ میاں بیوی نے دن رات کام کرکے ستر افراد کے کپڑے عید سے پہلے سی کربھجوا دیے۔ محمد صاحب کو تبلیغ کا بھی بڑا شوق تھا اور بڑی سلجھی ہوئی گفتگو کرتے تھے۔ اگرچہ پڑھے لکھے کم تھے یا نہیں تھے لیکن فرنچ بہت اچھی بولتے تھے۔

ان کی ٹانگ کینسر کی وجہ سے گھٹنے کے اوپر سے کاٹ دی گئی تھی۔ کچھ دن پہلے اچانک تکلیف کادوبارہ حملہ ہوا جہاں سے ٹانگ کاٹی گئی تھی وہ سوجی لیکن ملک کے حالات کیونکہ خراب ہیں، سب راستے بند ہیں۔ واگا ڈوگو میںجہاں بڑا ہسپتال تھا جا نہیں سکتے تھے ۔ تو وہیں مقامی ہسپتال میں ہی چند دن رہے اور پھر وہیں ان کی وفات ہوگئی۔

جب سے احمدی ہوئے تھے انہیں تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ ہمیشہ کوئی طریقہ نکال لیتے تھے۔ سمارٹ فون خریدا تو اپنے امام الحاج ابراہیم بدگا صاحب سے کہا کہ اس میں تبلیغ ریکارڈ کرکے لوگوں کو پیغام بھیجا کریں اور اس طرح تبلیغ کرتےتھے۔ خرچ بھی اس کا خود برداشت کرتے تھے۔ پسماندگان میں ان کی دو بیویاں ہیں اور پانچ بیٹے بیٹیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔ مرحوم کے درجات بلند کرے۔

اگلا جنازہ، ذکر

خواجہ داؤد احمد صاحب

کا ہے۔ یہ 25؍مئی کو اسّی سال کی عمر میں فوت ہوئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ان کے ایک بیٹے خواجہ فہد احمد کیری باس میں مربی سلسلہ ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہمارے خاندان میں احمدیت کا نفوذ میرے دادا خواجہ عبداللطیف صاحب ولد خواجہ احمد دین صاحب کے ذریعےہوا۔ دادا جان کی پرورش ان کے نانا خواجہ غلام محمد صاحب کے گھر میں ہوئی جو اللہ کے فضل سے احمدی تھے۔ کہتے ہیں میرے دادا جان نے ان کی زیر پرورش 1917ء میں تقریباً گیارہ سال کی عمر میں سلسلہ کی بیعت کی اور یوں اپنے سب بہن بھائیوں میں واحد احمدی تھے۔ کینیڈا میں طویل عرصہ ان کو جماعتی خدمت کی بھی توفیق ملی۔ پہلے پاکستان میں جماعت اسلام آباد میں ان کو کافی عرصہ خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ 1974ء میں بطور قائد مجلس خدام الاحمدیہ اسلام آباد حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کے پاکستان قومی اسمبلی میں آمد کے موقع پر بھی ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ اس حوالے سے حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ نے ان کے بارے میں اظہار خوشنودی بھی فرمایا۔ پیشے کے اعتبار سے یہ سول انجنیئر تھے۔ خلافت سے والہانہ محبت اور عقیدت رکھتے تھے۔جماعتی خدمات کی بطریق احسن انجام دہی کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے تھے۔ بوقتِ وفات مقامی سینٹر میں تھے۔ جماعت کی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں تھے۔ گھر کے لیے روانہ ہونے سے تھوڑی دیر پہلے سینے میں کچھ تکلیف کے آثار ظاہر ہوئے اور چند منٹوں میں اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہوگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ چار بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ جیساکہ میں نے کہا ایک بیٹے واقف زندگی ہیں۔ کیری باس میں مربی ہیں، مبلغ ہیں اور وہاں جلسے کی مصروفیات اور جماعتی مصروفیات کی وجہ سے کینیڈا نہیں آ سکے۔ اپنے والد کے جنازے میں شریک نہیں ہوسکے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ مرحوم کے درجات بلند کرے۔

اگلا ذکر ہے

مکرم سید تنویر شاہ صاحب۔

یہ بھی کینیڈا کے، سسکاٹون کے ہیں۔ ان کی گذشتہ دنوں پیراگوئے میں وفات ہوئی۔ وہاں یہ وقف عارضی کے لیے گئے ہوئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ان کے بھی ایک ہی بیٹے ہیں سید رضا شاہ اور وہ مربی سلسلہ ہیں۔ تنویر شاہ صاحب کی والدہ فرخ خانم صاحبہ ترکستان سے اپنے بھائی حاجی جنوداللہ اور اپنی والدہ کے ساتھ قادیان بیعت کے لیے آئی تھیں۔ ان کے بیٹے لکھتے ہیں کہ میرے دادا سید بشیر شاہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب کے نواسے تھے۔ اس طرح ان کی حضرت ام_ طاہر سے بھی رشتہ داری تھی۔ مرحوم جماعت کے بہت وفا دار ممبر تھے۔ تنویر شاہ صاحب ہمیشہ جماعت کی خدمت کے لیے تیار رہتے تھے۔ ان کے بیٹے لکھتے ہیں کہ جماعت کے پروگراموں میں ہمیں ضرور لے کے جاتے تھے اور ہر جمعے کو باقاعدہ سکول سے چھٹی کروا کے جمعے پر لے کے جایا کرتے تھے۔ مالی قربانیوں کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ ہمیشہ تنخواہ سے ایک حصہ اس کے لیے نکالتے اور گھر والوں اور جماعت کو بھی ایسا کرنے کے لیے کہتے رہتے تھے۔ تبلیغ کا بڑا شوق تھا۔ اکثر بتایاکرتے تھے کہ کس طرح ہم جماعت میں اچھی تبلیغ کرسکتے ہیں۔ پیراگوئے میں بھی خوشی سے بتایا کہ ان کی موجودگی میں دو بیعتیں ہوئی تھیں۔ قناعت بھی ان میں بہت تھی۔ کبھی دولت نہیں چاہی اور نہ اس کی حسرت تھی بلکہ جو اللہ نے انہیں دیا ہمیشہ اس پر شکرگزار رہتے تھے۔ انہیں اللہ تعالیٰ پر یقین اور توکل تھا کہ جو بھی ضرورت ہے اللہ پوری کردے گا اور جب کوئی مشکل آتی تو کہتےکہ دعا کرو، اللہ سنبھال لے گا اور اللہ تعالیٰ سنبھال بھی لیا کرتا تھا۔ ان کے بیٹے کہتے ہیں مجھے بار بار کہتے تھے کہ بطور مربی اپنی ذمہ داری سمجھو اور اخلاص سے کام کیا کرو۔ ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ انتالیس سال کا ہمارا ساتھ تھا اور میں نے ان میں کوئی کمی نہیں دیکھی۔ خلیفہ وقت کے ساتھ بہت پیار اور وفا کا تعلق تھا اور بچوں کو بھی اس کی تلقین کیا کرتے تھے۔ صراط مستقیم پر خود بھی چلتے اور بچوں کو بھی چلاتے۔ کہتی ہیں ہماری زندگی کے دوران کبھی بھی کسی کے بارے میں برا بیان نہیں کیا۔ اور پھر سسرالی رشتوں کا بھی خیال رکھتے تھے۔ کہتی ہیں کہ میری والدہ کو جب بھی میری ضرورت ہوئی مجھے خوشی سے ان کے پاس بھیج دیا۔ پیراگوئے کے مربی عبدالنور باطن صاحب کہتے ہیں کہ کینیڈا میں مختلف عہدوں پر انہیں خدمت کی توفیق ملتی رہی لیکن ان میں فخر اور برتری ظاہر کرنے کا کوئی عنصر نہیں تھا۔ ان میں جماعت کی خدمت کا بہت شوق تھا۔ جہاں بھی جاتے بھرپور انداز میں ہمیشہ ایک فرض سمجھ کر نہایت محبت کے ساتھ کام سرانجام دیتے۔ کہتے ہیں ان کی شخصیت کا پیراگوئے جماعت کے نوجوانوں پر گہرا اثر تھا۔ انہیں صبر، مہربانی اور مہمان نوازی سکھائی۔

صدر جماعت رجائنا حبیب الرحمٰن صاحب کہتے ہیں کہ جماعت کے بہت مخلص خادم تھے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ سجی رہتی تھی۔ میں نے انہیں کبھی غصےمیں نہیں دیکھا۔ بہت حلیم اور پیار سے کارکنوں سے کام لیتے تھے۔ خدمت کی وجہ سے تھکن کا احساس کبھی نہیں دیکھا۔ایسا لگتا تھا کہ ان پر ہمیشہ اپنے رب کی رضا حاصل کرنے کی دھن سوار رہتی تھی۔ خلافت سے نہایت درجے کا عشق تھا۔ پیراگوئے کے ایک نومبائع الیاس اولیویرا صاحب ہیں، کہتے ہیںکہ میرا ان سے تعارف تو مختصر وقت کا کچھ عرصےسے تھا لیکن اس مختصر وقت میں انہوں نے میرے لیے اور میرے دوستوں کے لیے، ان لوگوں کے لیے جو راہِ اسلام میں نئے ہیں ایک عظیم ورثہ چھوڑا۔ ان سے ہم نے صبر سیکھا۔ ہم نے ہر وقت مددگار، مہربان اور اچھا بننا سیکھا۔ کہتے ہیں انہوں نے ہمیں سکھایا کہ کسی کو کچھ سکھانے کے لیے بولنا ضروری نہیں ہے بلکہ عملی خدمت کرو تو اسی سے لوگ سیکھ بھی جاتے ہیں اور تبلیغ بھی ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے ساتھ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کے بچوں کو صبر اور حوصلہ دے۔ ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔

ایک ذکر ہے اب

رانا محمد ظفر اللہ خان صاحب

کا جو مربی سلسلہ تھے۔ ان کی بھی گذشتہ دنوں وفات ہوئی ہے۔ یہ رانا عطاء اللہ خان صاحب کے بیٹے تھے۔ اپریل کے آخر میں ان کی وفات ہوئی تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا رانا اللہ دین صاحب کے ذریعے سے ہوا جنہوں نے 1931ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ بیعت کے بعد آپ کی شدید مخالفت ہوئی اور اس مخالفت کی وجہ سے بعض دوسرے رشتہ دار مرتد ہوگئے لیکن آپ احمدیت پر ثابت قدم رہے اور تبلیغ دین کرتے رہے۔ رانا ظفراللہ صاحب نے 1987ء میں جامعہ پاس کیا۔ اس کے بعد مسلسل چھتیس سال تک ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ ان کا خدمت کا زیادہ تر وقت میدان عمل میں مختلف علاقوں میں بطور مربی کے ہی ملا۔

سید نعمت اللہ صاحب افغانی ہیں، جو آج کل گھانا میں مبلغ ہیں کہتے ہیں کہ اچینی پایان پشاور میں جہاں ہم افغانستان سے ہجرت کرکے آئے تھے وہاں یہ مربی صاحب رہ رہے تھے۔ 1999ء اور 2000ء کی بات ہے نہایت سادہ مزاج اور خاکسار اور درویش انسان تھے۔ بہت محنتی اور محبت کرنے والے اور مخلص تھے۔ افغانستان کی جماعت پر مربی صاحب کا بہت بڑا احسان ہے۔ کہتے ہیں ہم تین افغان مربیان کو اللہ تعالیٰ نے انہی کی وجہ سے مربی بنا دیا۔

غریبوں کے بہت ہمدرد تھے۔ چھپ کر غریبوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ ان کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ وفات کی خبر سن کر بہت سے ایسے لوگ مرد اور خواتین تعزیت کے لیے گھر آئے جنہیں ہم میں سے کوئی نہیں جانتا تھا۔ وہ اس وجہ سے بھی پریشان تھے کہ مربی صاحب نے ہمارا خرچ مقرر کیا ہوا تھا اور اپنے رشتہ داروں اور مخیر حضرات سے لے کے ان غریبوں کی مدد کیا کرتے تھے، آپ کی وفات کے بعد ہمارا کیا ہوگا۔ ان کے داماد مربی سلسلہ ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے رانا محمد ظفر اللہ خان صاحب جیسے لوگ بہت کم دیکھے ہیں جو بے نفس ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں میں نے کسی بھی قسم کی اَنا اور تکبر ان میں نہیں دیکھی۔ معاف کرنے میں پہل کرنے والے تھے خواہ دوسرا غلط ہوتا پھر بھی معافی میں پہل کرتے تھے۔ بہت پیار کرنے والے، ہر وقت دوسروں کے کام آنے والے تھے۔ پسماندگان میں والدہ اور اہلیہ کے علاوہ تین بیٹیاں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرے۔ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button