یہ تیر دعاؤں کے چلانے کا ہے موسم
تزئین بدن، دل کو سجانے کا ہے موسم
مولیٰ کی محبت کو کمانے کا ہے موسم
وہ ایک خدا صرف وہی ایک خدا ہے
دنیا کو حقیقت یہ بتانے کا ہے موسم
ہم رسمِ براھیم ادا کر نہیں سکتے
سو عرش کی زنجیر ہلانے کا ہے موسم
تکفیر کے فتوے کہیں اعلانِ جفا ہے
یہ تیر دعاؤں کے چلانے کا ہے موسم
اب ماہِ محرم بھی بہت دُور نہیں ہے
آتا غمِ شبیر منانے کا ہے موسم
عشاقِ نبیؐ، آل محمدؐ کے ہیں چاکر
کردار یہ دنیا کو بتانے کا ہے موسم
اے حلقۂ یاراں کبھی رستہ نہ بدلنا
پیچیده و دشوار زمانے کا ہے موسم
ہم دینِ محمدؐ پہ فدا ہوتے رہیں گے
دلبر کے لیے جان لُٹانے کا ہے موسم
ظلمت کی سیاہ رات کی تنہائی میں اُٹھ کر
اس یار حقیقی کو منانے کا ہے موسم
مٹ جائے وہاں ظلم یا ظالم کی پکڑ ہو
یہ عرشِ معلی کو ہلانے کا ہے موسم
پھیلے ہیں ہر اک سمت جہالت کے اندھیرے
ہر گام دیئے پھر سے جلانے کا ہے موسم
ہم آہ و فغاں نالہ و فریاد کریں گے
اک شور متیٰ نصر مچانے کا ہے موسم
لہرا کے عَلم پھر سے ظفرؔ حمدوثنا کے
اک نعرۂ تکبیر لگانے کا ہے موسم