خبرنامہ (اہم عالمی خبروں کا خلاصہ)
٭…۱۰؍ذو الحجہ کو عازمین حج کی ایک بڑی تعداد نے فریضۂ حج ادا کیا۔ سعودی ادارہ شماریات کے مطابق اس سال حج میں اٹھارہ لاکھ پینتالیس ہزار پینتالیس مرد و خواتین عازمین نے شرکت کی۔ گذشتہ سال کے مقابلےمیں اس سال حاجیوں کی تعداد نو لاکھ ۲۶؍ہزار زائد ہے۔
٭… گذشتہ ہفتے دنیا بھر میں عید الاضحی منائی گئی۔افریقہ ، امریکہ، کینیڈا اور کئی ممالک میں ۲۸؍جون کو جبکہ برطانیہ، یورپ، پاکستان اور بھارت سمیت ایشیا کے بیشتر ممالک میں ۲۹؍جون کو منائی گئی۔ سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے دنیا بھر میں مسلمانوں نے حسبِ استطاعت جانوروں کی قربانیاں پیش کیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والے احمدیوں کی ایک بڑی تعداد نے مرکزی انتظام کے تحت اپنی قربانیاں افریقہ سمیت دیگر غریب ممالک میں بھجوائیں اور عید کی خوشیوں میں انہیں شامل کیا۔ برطانیہ میں جماعت احمدیہ کاعید الاضحی کا مرکزی اجتماع اسلام آباد ٹلفورڈ میں منعقد کیا گیا جہاں امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نمازعید پڑھائی اور خطبہ عید ارشاد فرمایا۔
٭…سالِ گذشتہ کی طرح پاکستان میں اور خصوصاً محکمہ داخلہ پنجاب، پنجاب پولیس ، وکلاء برادری اور انتظامیہ کی جانب سے احمدیوں کو امسال بھی قربانی کرنے سےجبری طور پر نہ صرف روکا گیا بلکہ مبینہ طور پر ہراساں کیا گیا۔اس حوالہ سے جماعت احمدیہ کی معاندانتہا پسند تحریک لبیک پاکستان کافی سرگرم رہی۔ پولیس اور ان کے کارکنان نے احمدیوں کے گھروں کی خصوصی نگرانی کی ،مبادا کہ وہ قربانی کریں۔ حتی کہ دور بین کے ذریعہ تانک جھانک کر کے چادر چار دیواری کا تقدس بھی پامال کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ٹی ایل پی کے کارکنان کی موجودگی میں پولیس احمدیوں کے گھروں سے جانور ضبط کر کے لے جا رہی ہے۔فیصل آباد میں متعدد احمدی گھرانوں سے بکرے اور بیل پولیس نے اپنے قبضے میں لےلیے اور کہا ہے کہ یہ انہیں عید کے بعد ملیں گے۔
٭…پاکستان میں جماعت احمدیہ کے ایک ترجمان نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ سال سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ احمدی اپنی چار دیواری کے اندر اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی رکھتے ہیں۔ ان کا اشارہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین خان کا وہ فیصلہ تھا جس میں لکھا ہے کہ ’اقلیت کو اس کے مذہبی عقائد رکھنے اور چاردیواری میں ان پر عمل کرنے سے روکنا آئین کے خلاف ہے‘‘۔گذشتہ چند سال سے احمدیوں کو عید کے موقع پر قربانی سے روکا جا رہا ہے، اس سال بھی پنجاب پولیس نے انتہا پسند عناصر کی خوشنودی کے لیے متعدد جگہوں پر احمدیوں کو ہراساں کیا کہ وہ قربانی نہ کریں۔ احمدیوں سے زبردستی شورٹی بانڈز لیے گئے۔‘ان کا دعویٰ ہے کہ عید پر ’احمدیوں کو گرفتار کیا گیا اور ان کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔ احمدیوں نے یہ عید خوف اور تشویش میں گزاری ہے۔پنجاب پولیس کے یہ اقدامات ماورائے قانون ہیں اور آئین پاکستان کے آرٹیکل ۲۰ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی واضح خلاف ورزی ہیں۔‘ ان کے مطابق جماعت احمدیہ نے انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداران سے مل کر انہیں صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے عید پر احمدیوں کو تحفظ دینے اور چار دیواری کے اندر اپنے مذہب پر عمل کرنے کا مطالبہ کیا تھا ’لیکن اکثر جگہ پولیس نہ صرف احمدیوں کو ان کی عبادات بجا لانے میں تحفظ فراہم کرنے سے قاصر رہی بلکہ خود روک پیدا کرتی رہی۔‘
٭…سویڈن میں سٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے باہر دو میں سے ایک دہریہ شخص کی جانب سے قرآن کریم کے نسخے کے صفحات کو پھاڑنے کے بعد نذر آتش کیا گیا۔ قرآن جلانے کے واقعے میں ایک عراقی نژاد شخص ملوث ہے جس نے اس مظاہرے کے لیے عدالت سے باقاعدہ اجازت لی تھی۔ملوث شخص سلوان مومیکا نے سی این این کو بتایا تھا کہ وہ پانچ سال قبل عراق سے سویڈن آیا اور اس کے پاس سویڈن کی شہریت ہے۔
٭…روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے سویڈن میں حکومت کی اجازت پر قرآن پاک کی بےحرمتی کے بعد داغستان میں ایک مسجد کا دورہ کیا ۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے قرآن پاک کی بےحرمتی کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ روس میں قرآن پاک کی بےحرمتی جرم ہے اگر اس طرح کا اقدام روس میں سرزد ہوتا تو سزا دی جاتی۔
٭…پیرس میں ٹریفک پولیس نے پوچھ گچھ کے دوران نوجوان کار سوار کو سینے میں گولی مار دی جس سے اس کی موقع پر ہی موت واقع ہو گئی۔ مرنے والےسترہ سالہ فرانسیسی الجزائری نوجوان کی شناخت نائل کے نام سے ہوئی ہے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ نوجوان کرائے کی گاڑی چلا رہا تھا اور اس کو پولیس نے بلااشتعال گولی ماری ہے۔ پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ نوجوان ڈرائیور نے انہیں کچلنے کی کوشش کی تاہم پولیس کی نوجوان کو گولی مارنے کی ویڈیو سامنے آ گئی جس سے پولیس کی موقف بدلنے کی کوشش ناکام ہوگئی۔پیرس میں نوجوان کے قتل کے بعد مشتعل افراد نے پولیس سٹیشن کے باہر مظاہرہ بھی کیا اور اس دوران کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی۔
٭…فرانسیسی صدر نے اس واقعہ کو ناقابل فہم اور پولیس کے اس ظالمانہ اقدام کو ناقابل معافی قرار دے دیا ہے۔فرانسیسی صدر کا کہنا ہے کہ نوجوان کی ہلاکت نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے، ہمدردیاں اور نیک تمنائیں نوجوان کے خاندان کے ساتھ ہیں۔علاوہ ازیں فرانسیسی صدر نے ملکی صورتحال پر سینئر وزرا ءکے ساتھ اجلاس میں کہا کہ نوجوان کی ہلاکت کے خلاف پُرتشدد احتجاج بلاجواز ہے۔دوسری جانب فرانسیسی وزیر داخلہ جیرالڈ ڈارمینن کے مطابق مظاہروں کے باعث ملک میں پینتالیس ہزار پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔