عورت کی تخلیق کا مقصد اور مقام (قسط سوم)
عورت بحیثیت بیوی
حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’پھر بیوی کو توجہ دلائی کہ خاوند کے گھر کی، اس کی عزت کی، اس کے مال کی اور اس کی اولاد کی صحیح نگرانی کرے۔ اس کا رہن سہن، رکھ رکھاؤ ایسا ہو کہ کسی کو اس کی طرف انگلی اٹھانے کی جرأت نہ ہو۔ خاوند کا مال صحیح خرچ ہو۔ بعضوں کو عادت ہوتی ہے بلا وجہ مال لٹاتی رہتی ہیں یا اپنے فیشنوں یا غیر ضروری اشیا پر خرچ کرتی ہیں ان سے پرہیز کریں۔ بچوں کی تربیت ایسے رنگ میں ہو کہ انہیں جماعت سے وابستگی اور خلافت سے وابستگی کا احساس ہو۔ اپنی ذمہ داری کا احسا س ہو۔ پڑھائی کا احساس ہو۔ اعلیٰ اخلاق کے اظہار کا احساس ہو تاکہ خاوند کبھی یہ شکوہ نہ کرے کہ میری بیوی میری غیر حاضری میں (کیونکہ خاوند اکثر اوقات اپنے کاموں کے سلسلہ میں گھروں سے باہر رہتے ہیں ) اپنی ذمہ داریاں صحیح اد انہیں کر رہی ۔اور پھر یہی نہیں، اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خاوند کا شکوہ یا زیادہ سے زیادہ اگر سزا بھی دے گاتو یہ تو معمولی بات ہے۔ یہ تو سب یہاں دنیا میں ہو جائیں گی لیکن یاد رکھو تم جزا سزا کے دن بھی پوچھی جاؤ گی۔ اور پھر اللہ بہتر جانتا ہے کہ کیا سلوک ہونا ہے۔ اللہ ہر ایک پہ رحم فرمائے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۶؍اپریل ۲۰۰۷ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۷؍ اپریل ۲۰۰۷ء)
عورت بحیثیت بہو
بہو کی صورت میں عورت کی ذمہ داریاں کچھ مختلف ہوتی ہیں۔ جس طرح کہ ساس سسر کو اپنے والدین سمجھ کر ان کی خدمت کرنا۔ ان کی بات کو اہمیت دینا۔ اور عورت کا یہ عمل خاوند کے لیے ایک بہت ہی پرمسرت عمل ہوتا ہے۔ لہٰذا عورت کے ذمہ سسرال کی خدمت اگرچہ شرعاً واجب نہیں ہے، لیکن اَخلاقی طورپر عورت کو اِس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اُس کے شوہر کے والدین ہیں جس طرح اَپنے والدین کی راحت و آرام کا خیال رکھتی ہے اِسی طرح شوہر کے والدین کی خدمت اور اُن کو خوش رکھنا اورآرام پہنچانا اُس کی اخلاقی ذمہ داری میں شامل ہے۔
عورت بحیثیت بھابھی
اپنی نند، دیور، جیٹھ سب کو اپنے بہن بھائیوں کی طرح سمجھنا۔ ان سے اچھا سلوک کرنا۔ اگر کوئی مشکل میں ہو تو ان کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے ان کی مشکل حل کرنا۔ اس طرح سے عورت ایک اچھی بھابھی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھی دوست ہونے کا کردار بھی ادا کر سکتی ہے۔
عورت بحیثیت ماں
دنیا میں عورت کا ایک ایسا درجہ بھی ہے جس کے قدموں تلے جنت ہے۔ وہ ہے ماں۔ کہتے ہیں کہ محبت کی ابتدا اور انتہا کو دنیا میں ناپنے کا اگر کوئی پیمانہ ہو تو وہ صرف اور صرف ایک لفظ میں مل سکتا ہے اور وہ لفظ ہے ماں۔جس کے پیروں تلے جنت کی بشارت حدیث مبارکہ میں دی گئی ہے۔ حضورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے چند نصائح کرتے ہوئے ارشادفرمایا:’’یہ آپ کی تربیت ہی ہے جو آپ کے بچوں کو اس دنیا میں بھی جنت کا وارث بنا سکتی ہے اور اگلے جہان میں بھی۔ بچوں کے یہ عمل اور آپ کے بچوں کی یہ اعلیٰ تربیت ہی ہے جو ہر وقت بچو ں کو خدا سے جوڑے رکھے گی اور بچوں کو بھی آپ کے لئے دعائیں کرنے کی عادت پڑے گی۔ تو بچوں کی جو آپ کے لئے دعائیں ہیں وہ آپ کو بھی اگلے جہان میں جنت کے اعلیٰ درجوں تک لے جانے کا باعث بن رہی ہوں گی۔
پس اگر احمدی بچوں کی مائیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے والی بنی رہیں۔ آج اگر آپ اپنی ذ مہ داریوں کو صحیح رنگ میں ادا کرتی رہیں، آپ کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہ ہو۔ آپ کی ہر بات سچ اور صرف سچ پر بنیاد رکھنے والی بنی رہی تو جماعت احمدیہ کی آئندہ نسلیں ان شاء اللہ، اللہ سے تعلق جوڑنے والی نسلیں رہیں گی۔ پس ہر وقت اپنے ذہنوں میں اپنے اس مقام کو بٹھائے رکھیں اور اپنی عبادتوں اور اپنے عملی نمونے کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ قرآن کریم کے جتنے حکم ہیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ تمام اعلیٰ اخلاق جن کی طرف ہمیں اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے انہیں حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ہمیشہ نیکیاں بجا لانے کے ساتھ ساتھ نیکیوں کی تلقین بھی کرتی رہیں۔ برائیوں کو ترک کرنے والی بنیں اور پھر اپنے ماحول میں برائیوں کو روکنے والی بنیں۔ معاشرے میں بھی برائیاں پھیلنے نہ دیں۔ آپس میں ایک دوسرے سے حسن سلوک سے پیش آئیں۔ اپنی رنجشوں اور اپنی ناراضگیوں کو بھلا دیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ عورتیں زیادہ دیر تک اپنی رنجشوں کو دلوں میں بٹھائے رکھتی ہیں۔ اگر آپ کے دل میں بغض و کینے پلتے رہے توپھرخدا تعالیٰ تو ایسے دلوں میں نہیں اترتا۔ ایسے دلوں کی عبادت کے معیاروہ نہیں ہوتے جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے‘‘۔ (جلسہ سالانہ آسٹریلیا۱۵؍ اپریل ۲۰۰۶ء خطاب از مستورات مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۲؍جون۲۰۱۵ء)
ایک جگہ فرمایا:’’پھر چھوٹے بچوں سے شفقت کا سلوک کرنا چاہئے۔ جیساکہ ایک حدیث میں عورت کی جو خصوصیات بیان کی گئی ہیں ان میں آیا ہے کہ بچوں سے شفقت کرتی ہیں اور خاوندوں کی فرمانبردارہیں تاکہ اُن کی تربیت بھی اچھی ہو، اُن کی اُٹھان اچھی ہو اور وہ معاشرے کا مفید وجود بن سکیں‘‘۔ (جلسہ سالانہ جرمنی خطاب ازمستورات فرمودہ۲۳؍اگست۲۰۰۳ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۸؍نومبر۲۰۰۵ء)
عورت کا گھر میں رہنا
حضرت اسماء بنت یزید انصاریہؓ سے روایت ہے کہ وہ آنحضورؐ کی خدمت میں حاضرہوئیں۔ اس وقت آنحضورؐ صحابہ کے درمیان تشریف فرما تھے۔ وہ کہنے لگیں :آپؐ پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔ میں آپؐ کے پاس مسلمان عورتوں کی نمائندہ بن کر آئی ہوں۔ میری جان آپؐ پر فدا ہو۔ شرق و غرب کی تمام عورتیں میری اس رائے سے اتفاق کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو حق کے ساتھ مردوں اور عورتوں کے لیے بھیجا ہے۔ ہم آپؐ پر ایمان لائیں اور اس خدا پر بھی جس نے آپؐ کو مبعوث فرمایا۔ ہم عورتیں گھر میں ہی قید اور محصورہوکر رہ گئی ہیں۔ ہم آپ مردوں کی خواہشات کی تکمیل کا سامان کرتی ہیں اور آپ کی اولاد سنبھالے پھرتی ہیں اور آپ مردوں کے گروہ کو جمعہ، نماز باجماعت، عیادت مریضان، جنازوں پر جانا اور حج کے باعث ہم پر فضیلت حاصل ہے۔ اس سے بڑھ کر جہاد کرنا بھی ہے۔ آپ میں سے جب کوئی حج کرنے، عمرہ کرنے، یا جہاد کرنے کے لیے چل پڑتا ہے تو ہم آپ کے اموال کی حفاظت کرتی ہیں۔ لباس کے لیے روئی کاتتی اور آپ کی اولا د کو پالتی ہیں۔ تویا رسول اللہؐ! پھر بھی ہم آپ کے ساتھ اجر میں برابر کی شریک نہیں ہیں۔
حضورﷺ نے اپنا رُخِ مبارک صحابہ کی طرف پھیرا اور فرمایا کہ کیا تم نے دین کے معاملہ میں اپنے مسئلہ کو اس عمدگی سے بیان کرنے میں اس عورت سے بہتر کسی کی بات سنی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! ہمیں یہ ہرگز خیال نہ تھاکہ ایک عورت ایسی(گہری) سو چ رکھتی ہے۔ آنحضورﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے کہ اے عورت! واپس جاؤ اور دوسری سب عورتوں کو بتا دو کہ کسی عورت کے لیے اچھی بیوی بننا، خاوند کی رضا جوئی اور اس کے موافق چلنا، مردوں کی ان تمام نیکیوں کے برابر ہے۔ وہ عورت واپس گئی اور خوشی سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ اور اَللّٰہُ اَکْبَرُ کے الفاظ بلند کرتی گئی۔ (تفسیر الدر المنثور)
حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاس حوالے سے فرماتے ہیں کہ ’’ جو اس طرح تعاون کرنے والی اور گھروں کو چلانے والیاں ہیں اور اچھی بیویاں ہیں ان کا اجر بھی ان کے عبادت گزار خاوندوں اور اللہ کی خاطر جہاد کرنے والے خاوندوں کے برابر ہے۔ تو دیکھیں عورتوں کو گھر بیٹھے بٹھائے کتنے عظیم اجروں کی خوشخبری اللہ تعالیٰ دے رہا ہے، اللہ کا رسولؓ دے رہا ہے‘‘۔ (جلسہ سالانہ یوکے خطاب ازمستورات فرمودہ ۳۱؍جولائی ۲۰۰۴ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۴؍اپریل ۲۰۱۵ء)
ایک اور موقع پر فرمایا:’’پس ہمیشہ اولاد کی فکر کے ساتھ تربیت کرنی چاہیے اور ان کی راہنمائی کرنی چاہیے۔ عورتوں کو اپنے گھروں میں وقت گزارنا چاہیے۔ مجبوری کے علاوہ جب تک بچوں کی تربیت کی عمر ہے ضرورت نہیں ہے کہ ملازمتیں کی جائیں۔ کرنی ہیں تو بعد میں کریں۔ بعض مائیں ایسی ہیں جو بچوں کی خاطر قربانیاں کرتی ہیں حالانکہ پروفیشنل ہیں، ڈاکٹر ہیں اور اچھی پڑھی لکھی ہیں لیکن بچوں کی خاطر گھروں میں رہتی ہیں۔ اور جب بچے اس عمر کو چلے جاتے ہیں جہاں ان کو ماں کی فوری ضرورت نہیں ہوتی، اچھی تربیت ہو چکی ہوتی ہے تو پھر وہ کام بھی کر لیتی ہیں۔ تو بہرحال اس کے لیے عورتوں کو قربانی کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو جو اعزاز بخشا ہے کہ اس کے پاؤں کے نیچے جنت ہے وہ اسی لیے ہے کہ وہ قربانی کرتی ہے۔ عورت میں قربانی کا مادہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ جو عورتیں اپنی خواہشات کی قربانی کرتی ہیں ان کے پاؤں کے نیچے جنت ہے۔ (جلسہ سالانہ سویڈن خطاب از مستورات فرمودہ ۱۷؍ستمبر ۲۰۰۵ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۵؍مئی ۲۰۱۵ء)
میری دعا ہے کہ ہر احمدی عورت اپنے خاوند کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے والی ہو اور اپنے بچوں کے فرائض کا حق ادا کرنے والی ہو۔ اللہ کرے کہ وہ اپنے بچوں کی صحیح رنگ میں تربیت کرے اور ان کی پاک اور بااخلاق ماحول میں پرورش کرے اور اس وجہ سے جنتوں کی وارث بنے‘‘۔
(جلسہ سالانہ نائیجیریا ۲۰۰۴ء۔ اَلاَزْھَارُلِذَوَاتِ الْخِمَار۔ ’’اوڑھنی والیوں کیلئے پھول‘‘ جلد سوم حصہ اول)
(باقی آئندہ)