خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب فرمودہ ۲۸؍ اکتوبر ۲۰۲۲ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے
سوال نمبر۱:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت ابوبکرؓ کےمقام ومرتبہ کے حوالہ سے کیاروایات بیان فرمائیں؟
جواب: فرمایا:حضرت عمرو بن عاصؓ نے بیان کیا کہ نبیؐ نے ان کو ذات السلاسل کی فوج پر سپہ سالار مقرر کر کے بھیجا اور کہتے ہیں مَیں آپؐ کے پاس آیا۔ مَیں نے کہا لوگوں میں سے کون آپؐ کو زیادہ پیارا ہے؟ آپؐ نے فرمایا عائشہؓ۔ میں نے کہا مردوںمیں سے؟ آپؐ نے فرمایا ان کا باپ۔ میں نے کہا پھر کون؟ آپؐ نے فرمایا پھر عمر بن خطابؓ اور آپؐ نے اسی طرح چند مَردوں کو شمار کیا۔حضرت سلمہ بن اکوعؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے فرمایا ابوبکر سب لوگوں سے افضل اور بہتر ہے سوائے اس کے کہ کوئی نبی ہو۔حضرت انس بن مالکؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہؐ نے فرمایا میری اُمّت میں سے میری اُمّت پر سب سے زیادہ مہربان اور رحم کرنے والا ابوبکر ہے۔حضرت ابوسعیدؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہؐ نے فرمایا بلند درجات والے جو اُن کے نیچے والے ہیں وہ ان کو دیکھیں گے جس طرح تم طلوع ہونے والے ستارے کو دیکھتے ہو یعنی بلند درجات والے ایسے بلند درجہ پر ہوں گے کہ جو نیچے درجے کے ہوں گے وہ ان کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح تم طلوع ہونے والے ستارے کو آسمان کی طرف دیکھتے ہو، آسمان کے افق میں دیکھتے ہو۔ اور ابوبکر و عمر اُن میں سے ہیں۔ یعنی وہ بلند ہیں۔ ان کو لوگ اس طرح دیکھیں گے جس طرح بلند ستارے کو دیکھا جاتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا اور وہ دونوں کیا ہی خوب ہیں۔حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا رسول اللہؐ نے فرمایا ۔کسی کا ہم پر کوئی احسان نہیں مگر ہم نے اس کا بدلہ چکا دیا سوائے ابوبکرؓ کے۔ اس کا ہم پر احسان ہے اور اس کو اس کا بدلہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ دے گا۔نبی کریمؐ نے اپنی آخری بیماری میں فرمایا لوگوں میں سے کوئی بھی نہیں جو بلحاظ اپنی جان اور مال سے مجھ پر ابوبکر بن ابو قحافہ سے بڑھ کر نیک سلوک کرنے والا ہو۔ اگر میں لوگوں میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ضرور ابوبکر کو ہی خلیل بناتا لیکن اسلام کی دوستی سب سے افضل ہے۔ اس مسجد میں تمام کھڑکیوں کو میری طرف سے بند کر دو سوائے ابوبکر کی کھڑکی کے۔یہ صحیح بخاری کی روایت ہے ۔نبی کریمؐ نے فرمایا۔ ابوبکر مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔ ابوبکر دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہیں۔
سوال نمبر۲: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےحضرت ابوبکرؓ کوجنت کی بشارت دیے جانے کے حوالہ سےکیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:سعیدبن مُسَیبْ نے کہا حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے مجھے بتایا کہ انہوں نے اپنے گھر میں وضو کیا۔ پھر باہر نکلے اور کہا میں رسولؐ کے ساتھ لگا رہوں گا اور آج سارا دن آپؐ کے ساتھ ہی رہوں گا۔ یعنی وہ دن انہوں نے آپؐ کی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ مسجد میں آئے اور انہوں نے نبیؐ کی بابت پوچھا۔ لوگوں نے کہا کہ باہر نکلے ہیں اور اس طرف گئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں آپؐ کے پیچھے چلا گیا۔ آپؐ سے متعلق پوچھتا پچھاتا رہا یہاں تک کہ آپؐ بئر اَرِیس ( مسجد قبا کے قریب ایک کنواں تھا، )میں داخل ہو گئے۔ میں دروازے کے پاس بیٹھ گیا اور اس کا دروازہ کھجور کی شاخوں کا تھا۔ جب رسول اللہؐ حاجت سے فارغ ہوئے تو آپؐ نے وضو کیا اور میں اٹھ کر آپؐ کی طرف گیا تو کیا دیکھا کہ آپؐ بئر اَرِیس پر بیٹھے ہیں اور اس کی منڈیر کے وسط میں تھے اور اپنی پنڈلیوں سے کپڑا اٹھائے ہوئے تھے اور آپؐ ان دونوں کو کنویں میں لٹکائے ہوئے تھے یعنی اپنے دونوں پاؤں لٹکائے ہوئے تھے۔ میں نے آپؐ کو سلام کیا۔ پھر واپس مڑا اور دروازے پر بیٹھ گیا۔ میں نے کہا آج میں رسول اللہؐ کا دربان بنوں گا۔ اتنے میں حضرت ابوبکرؓ آئے اور انہوں نے دروازے کو دھکیلا۔ میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا ابوبکر۔ میں نے کہا ٹھہریے ۔ پھر میں نے جا کر کہا یا رسول اللہؐ! ابوبکر ہیں جو اجازت چاہتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا انہیں اجازت دو اور ان کو جنت کی بشارت دو۔ میں آیا یہاں تک کہ میں نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا اندر آ جائیں اور رسول اللہؐ آپؓ کو جنت کی بشارت دیتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ اندر آئے اور رسول اللہؐ کی دائیں طرف آپؐ کے ساتھ منڈیر پر بیٹھ گئے۔ انہوں نے بھی اپنے پاؤں کنویں میں لٹکا دیے جیساکہ نبیؐ نے کیا تھا اور اپنی پنڈلیوں سے کپڑا اٹھا لیا…
سوال نمبر۳: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےصحابہ کرامؓ کوجنت کی بشارت دیے جانے کےحوالہ سےکیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت سعید بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نو ۹ لوگوں کے بارے میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ وہ جنتی ہیں اور اگر دسویں کے بارے میں بھی یہی کہوں تو گنہگار نہیں ہوں گا۔ انہوں نے کہا کیسے؟ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہؐ کے ساتھ حرا پہاڑ پر تھے تو وہ ہلنے لگا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا ٹھہرا رہ اے حرا! یقیناً تجھ پر ایک نبی یا صدیق یا شہید ہیں۔ کسی نے پوچھا : وہ دس جنتی لوگ کون ہیں۔حضرت سعید بن زیدؓ نے کہا رسول اللہؐ ، ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ، طلحؓہ، زبیرؓ ، سعدؓ اور عبد الرحمٰن بن عوفؓ ہیں اور کہا گیا کہ دسواں کون ہے تو سعید بن زید نے کہا وہ میں ہوں۔یہاں یہ بھی واضح ہو جائے کہ اس روایت میں ان دس عظیم المرتبت صحابہؓ کا ذکر ہے جن کو نبی کریمؐ نے ان کی زندگی میں جنت کی بشارت دے دی تھی۔ یہ آنحضرتؐ کے مقرب بھی تھے اور مشیر بھی تھے جن کو سیرت کی اصطلاح میں عشرہ مبشرہ کہتے ہیں یعنی دس وہ لوگ جنہیں جنت کی بشارت دی گئی تھی لیکن یہ مدنظر رہے کہ آنحضرتؐ نے صرف دس کے بارے میں ہی جنت کی بشارت نہیں دی تھی بلکہ اس کے علاوہ بھی متعدد ایسے صحابہؓ اور صحابیاتؓ ہیں جن کو آپؐ نے جنت کی خوشخبری دی تھی۔چنانچہ ان دس کے علاوہ کم و بیش پچاس کے قریب صحابہ و صحابیات کے ناموں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اس کے علاوہ جنگِ بدر میں شامل ہونے والوں جو کہ تین سو تیرہ کے قریب تھے اور جنگِ احد میں شامل ہونے والوں اور بیعتِ رضوان صلح حدیبیہ کے موقع پر شامل ہونے والوں کے متعلق بھی جنت کی خوشخبری دی گئی تھی۔
سوال نمبر۴: حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت ابوبکرؓ کوجنت کی بشارت دیےجانےکی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ’’رسول کریمؐ ایک دفعہ مجلس میں تشریف رکھتے تھے اور آپؐ کے ارد گرد صحابہ کرام بیٹھے ہوئے تھے کہ آپؐ نے یہ ذکر کرنا شروع کر دیا کہ جنت میں یوں ہو گا، یوں ہو گا اور پھر ان انعامات کا ذکر فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے لئے مقدر فرمائے ہیں۔حضرت ابوبکرؓ نے جب یہ سنا تو فرمانے لگے یا رسول اللہؐ! دعا کیجئے کہ جنت میں مَیں بھی آپؐ کے ساتھ ہوں۔ (بعض روایتوں میں ایک اَور صحابی کا نام آتا ہے اور بعض روایتوں میں حضرت ابوبکرؓ کا نام آتا ہے۔) رسول کریمؐ نے فرمایا میں امید کرتا ہوں کہ تم میرے ساتھ ہو گے اور میں اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرتا ہوں کہ ایسا ہی ہو۔ جب رسول کریمؐ نے یہ فرمایا تو قدرتی طور پر باقی صحابہ کے دل میں بھی یہ خیال پیدا ہوا کہ ہم بھی رسول کریمؐ سے عرض کریں کہ ہمارے لئے بھی یہی دعا کی جائے۔ پہلے تو وہ اس خیال میں تھے کہ ہمارے یہ کہاں نصیب ہیں کہ ہم جنت میں رسول کریمؐ کے ساتھ ہوں مگر جب حضرت ابوبکرؓ یا بعض روایتوں کے مطابق کسی اَور صحابی نے یہ بات کہہ دی اور رسول کریمؐ نے ان کے لئے دعا بھی فرمائی تھی تو اب انہیں نمونہ مل گیا اور انہیں پتہ لگ گیا کہ یہ عمل ناممکن نہیں بلکہ ممکن ہے۔ چنانچہ ایک اَور صحابی کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہؐ! میرے لئے بھی دعا فرمائیں کہ خدا تعالیٰ جنت میں مجھے آپؐ کے ساتھ رکھے۔ آپؐ نے فرمایا: خدا تعالیٰ تم پر بھی فضل کرے مگر جس نے پہلے کہا تھا اب تو وہ دعا لے گیا۔‘‘…’’ایک دفعہ رسول کریم ؐنے فرمایا۔ جو شخص فلاں عبادت میں زیادہ حصہ لے گا وہ جنت کے فلاں دروازہ سے گزارا جائے گا اور جو فلاں عبادت میں زیادہ حصہ لے گا وہ فلاں دروازہ سے گزارا جائے گا۔ اسی طرح آپؐ نے مختلف عبادات کا نام لیا اور فرمایا: جنت کے سات دروازوں سے مختلف اعمال حسنہ پر زیادہ زور دینے والے لوگ گزارے جائیں گے۔ حضرت ابوبکرؓ بھی اس مجلس میں بیٹھےتھے۔انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! مختلف دروازوں سے تو وہ اس لئے گزارے جائیں گے کہ انہوں نے ایک ایک عبادت پر زور دیا ہو گا لیکن یا رسول اللہؐ! اگر کوئی شخص ساری عبادتوں پر ہی زور دے تو اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔آپؐ نے فرمایا: وہ جنت کے ساتوں دروازوں سے گزارا جائے گا اور اے ابوبکرؓ! میں امید کرتا ہوں کہ تم بھی انہی میں سے ہو گے۔‘‘
سوال نمبر۵: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے آخرپرکن مرحومین کاذکرخیرفرمایا؟
جواب: فرمایا:1:مکرم عبدالباسط صاحب۔جو امیر جماعت انڈونیشیا تھے۔ ۸؍اکتوبر کو اکہتر سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ۔یہ مولوی عبدالواحد سماٹری صاحب کے بیٹے تھے اور ایف اے تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اکیس سال کی عمر میں ۲۰؍ستمبر ۱۹۷۲ء کو جامعہ احمدیہ ربوہ میں داخل ہوئے۔ ۱۹۸۱ء کے آغاز میں جامعہ احمدیہ ربوہ سے شاہد کا امتحان پاس کیا۔۱۹۸۱ء کو بطور مبلغ اپنے ملک انڈونیشیا واپس تشریف لے گئے۔ ۸۷ء میں مجلس عاملہ انڈونیشیا کے مشورہ سے تجویز ہوا کہ تھائی لینڈ میں تبلیغ کے پیش نظر ایک انڈونیشین مبلغ کو کوالا لمپور ملائیشیا کی نیشنیلٹی حاصل کر کے تھائی لینڈ میں تبلیغ کے لیے بھیجا جائے تو ان کا نام پیش ہوا۔ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے منظوری فرمائی اور یہ وہاں تھائی لینڈ چلے گئے۔ بعد میں پھر ان کا تقرر انڈونیشیا میں ہو گیا اور تادمِ آخر یہ انڈونیشیا میں ہی رہے اور ایک لمبا عرصہ امیر کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ چالیس سال تک ان کا خدمت کا عرصہ ہے۔ پسماندگان میں ان کی اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔
2: زینب رمضان صاحبہ۔آپ یوسف عثمان کامبالایہ صاحب مربی سلسلہ تنزانیہ کی اہلیہ تھیں۔
3: حلیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ شیخ عبدالقدیر صاحب درویش قادیان۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ان کے بیٹے شیخ ناصر وحید صاحب بطور قائمقام ایڈمنسٹریٹر نور ہسپتال قادیان میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔
4: مکرمہ میلے انیسا ایپسائی صاحبہ (کیریباس)۔ میلے انیسا ایپسائی صاحبہ کیریباس جماعت کی پہلی مسلمان اور پہلی احمدی تھیں۔ کسی طرح قرآن مجید کی ایک کاپی دنیا کے اس کونے میں مل گئی۔ ایک ایسی جگہ جہاں دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ کتابیں بھی مشکل سے نظر آتی تھیں۔ جب آپ کو قرآن مجید کا یہ نسخہ ملا تو خود پڑھنا شروع کر دیا۔ ترجمہ ساتھ ہوگا۔ اس کو پڑھنے کے بعد محترمہ میلے انیسا ایپسائی صاحبہ پر قرآن مجید کا اتنا اثر ہوا کہ خود ہی دل میں ایمان لے آئیں اور اسی وقت سے پردہ شروع کر دیا۔ جب جماعت احمدیہ کے پہلے مبلغ سلسلہ حافظ جبرئیل سعید صاحب مرحوم کیریباس تشریف لائے تو انہوں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہاں اس ملک میں کوئی مسلمان ہے تو سب نے محترمہ میلے انیسا ایپسائی صاحبہ کی طرف اشارہ کیا کہ اس پورے ملک میں صرف ایک ہی ہے جو مسلمان ہے۔ خدا کا کیسا فضل ہے کہ محترمہ میلے انیسا ایپسائی صاحبہ نے جب دل میں اسلام قبول کیا تو سال کے اندر اندر ہی حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر مبلغ سلسلہ وہاں پہنچ گئے۔اس بہادر نوجوان عورت نے مبلغ کے پہنچنے سے پہلے ہی اس وقت اپنے خاندان اور دوستوں میں اسلام کی تبلیغ بھی شروع کر دی تھی اور اس وجہ سے اس چھوٹے سے ملک میں جس میں ایک لاکھ کی آبادی تھی مشہور ہو گیا کہ ایک عورت مسلمان ہو گئی ہے۔ اس لیے جب مبلغ سلسلہ حافظ جبرئیل سعید مرحوم کیریباس کے ملک میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی انہیں ایک سلطان نصیر عطا فرما دیا تھا جو جماعت کے لیے تیار ہوا ہوا تھا۔ایک واحد مسلمان ہونے، پردہ کرنے اور لوگوں کو تبلیغ کرنے کی وجہ سے مشہور تھیں۔ جب پہلے مبلغ سلسلہ جبرئیل صاحب کیریباس آئے تو محترمہ میلے انیسا نے بیعت کر لی اور جماعت احمدیہ میں شامل ہو گئیں۔ آپ نے مبلغ سلسلہ کے رہنے کا انتظام کیا، سہولیات کا انتظام کیا، پھر تبلیغ میں لگ گئیں۔ کئی لوگ آپ کی تبلیغ کے باعث جماعت میں داخل ہوئے۔ آپ کو جماعت سے بہت محبت تھی۔