اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
۲۰۲۲ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
ایک احمدی کا سفاکانہ قتل
ایل پلاٹ،ضلع اوکاڑہ۔۱۷؍مئی۲۰۲۲ء:۱۸؍مئی ۲۰۲۲ء کواحمدیہ پریس سیکشن کے مرکزی دفتر نے یہ پریس ریلیز جاری کی۔
مذہبی تعلیم حاصل کرنے والے طالبعلم کے ہاتھوں عقیدے کے اختلاف کی بنیاد پر ایک احمدی کی شہادت
جو لوگ جماعت احمدیہ کے خلاف مذہبی انتہا پسندی کو پھیلاتے اور تشدد پر اکساتے ہیں ان کو قانون کے تحت گرفتار کرنا چاہیے۔ترجمان جماعت احمدیہ [(چناب نگر پریس ریلیز):’’۱۷؍مئی کو ایک احمدی ایل پلاٹ اوکاڑہ کے رہائشی مکرم عبدالسلام صاحب کو عقیدے کے اختلاف کی بنیاد پر ایک مذہبی جنونی نے چاقو مار کر شہید کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق شام ۵ بج کر ۴۵ منٹ پر مکرم عبدالسلام صاحب اپنی زرعی اراضی سے واپس اپنے گھر آرہے تھےتو علی رضا عرف ملازم حسین نے ان پر چاقو سے حملہ کر کے ان کو شہید کر دیا۔قاتل فوراً جائے وقوعہ سے بھاگ گیا۔یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ قاتل ایک مدرسہ کا طالبعلم تھا اور اسی گاؤں کا ہی رہائشی تھا۔
عبدالسلام صاحب کی عمر ۳۵ سال تھی اور وہ نہایت ہی رحمدل اور عاجز انسان تھے۔ان کی کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ان کو صرف اپنے احمدی عقیدے کے باعث شہید کیا گیا۔انہوں نے اپنے پیچھے ایک بیوہ اور تین بچے چھوڑے ہیں۔
ترجمان جماعت احمدیہ نے اس بہیمانہ قتل کی مذمت کرتے ہوئے پیچھےرہ جانے والوں کی مکمل دیکھ بھال کرنے کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان میں رہنے والے احمدیوں کی جان اور املاک کی حفاظت کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔حال ہی میں فیصل آباد میں دو ایسی ہی نوعیت کے واقعات ہوئے ہیں۔موجودہ حالات کی وجہ سے احمدی اپنے آپ کو غیر محفوظ خیال کر رہے ہیں۔احمدیوں کے خلاف نفرت انگیز بیان بازی اور تشدد پر اکسانے کا عمل بغیر سزا کے خوف کے جاری ہے۔سکولوں،رہائشی علاقوں اور پُرہجوم جگہوں پریہ ترغیب مذہبی راہنماؤں کی طرف سے سٹکر اور بینر لگا کے کی جاتی ہے۔عارضی سیاسی فوائد کے حصول کے لیے سیاسی راہنما بھی جماعت احمدیہ کےخلاف بے بنیاد الزامات لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ترجمان نے کہا کہ جو لوگ جماعت احمدیہ کے خلاف مذہبی انتہا پسندی کو پھیلاتے اور تشدد پر اکساتے ہیں ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنی چاہیے اور عبدالسلام کے قاتل کو گرفتار کرنا چاہیے۔‘‘
یہاں اس سفاکانہ قتل کےمتعلق کچھ اَور معلومات بھی شامل کررہے ہیں۔
جہاں تک مقتول کا تعلق ہے وہ نہایت ہی اچھی شہرت کے حامل،مہمان نوازاور عقیدے اور ذات پات کو پس پشت ڈال کر غریبوں کی مدد کرنے والے انسان تھے۔ان کی کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہ تھی۔وہ جماعت احمدیہ کے نظام کے ایک عہدیدار تھے۔
قاتل مدرسے کا ایک نوعمر طالبعلم اور بدنام زمانہ تحریک لبیک کا حمایتی ہے۔وہ بریلوی مکتبہ فکر کے مدرسے کا طالبعلم ہے۔ جن سے تحریک لبیک پاکستان والوں کا تعلق ہے جنہوں نے ۲۰۲۱ء کے لانگ مارچ اور حکومت کے خلاف تحریک کے دوران قانون نافذکرنے والے اداروں کے لوگوں پرحملے کیے تھے۔
قاتل نے ان پر ایک بڑے چاقو سے کئی وار کیے۔اس نے ان کےجسم کے اوپر والے حصہ میں اعضائے رئیسہ کو نشانہ بنایا۔خاص کر دل اور آنتوں کو۔ایسا محسوس ہوتا ہےکہ اس کو اچھی طرح آگاہ کیا گیا تھا اور خوب تیاری کروائی گئی تھی۔اس نے یہ بھیانک جرم ان کے بچوں کی موجودگی میں سرانجام دیا۔ اس بھیانک تشدد کا خوف کیسےعمر بھر ان بچوں کوپریشان کرے گا! اس بہیمانہ حملے سے ان کے پیارے بابا موقع پر ہی وفات پا گئے۔
جس مدرسے میں قاتل پڑھتا تھا وہ احمدیت سے نفرت کا پرچار کرتا تھا۔اس سے قبل ایک موقع پر ایک مقرر نے طلبہ اور اساتذہ کو قادیانیوں، مرزائیوں کے خلاف سخت قدم اٹھانے کی ترغیب دی تھی۔احمدیوں کو صرف احمدی ہونےکی وجہ سے اکثر ہی توہین آمیز نام سے پکارا جاتا ہے۔ایسے مدرسے جہاں پُر تشدد،جنگ جوئی اور نفرت کی تعلیم دی جاتی ہو ان کو حکومت اپنی پالیسی کے تحت بند کر سکتی ہے۔
عینی شاہدین کی باتوں سے معلوم ہوتا ہےکہ یہ قتل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ۔قاتل کو اکسایا گیا،تربیت دی گئی اور حمایت فراہم کی گئی۔گاؤں کے کچھ لوگوں اور مدرسہ والوں نے قتل کی تیاری، مقتول کی پہچان اور قاتل کو بھاگنے میں پوری مدد فراہم کی۔
یہ بہت ہی افسوسناک ہے کہ حکومت کی اچھی سوچ بچار کے بعد بنائی گئی عوامی پالیسی اور اس کے نفاذ میں بہت بڑا فرق ہے۔
۲۰۱۴ء میں آرمی پبلک سکول میں ہونے والے قتل و غارت گری کے واقعہ کےبعد حکومت کا نیشنل ایکشن پلان مذہب کے نام پر تشدد اور جنگ جوئی سکھانے والوں کے خلاف اچھی سوچ بچار کے بعد بنایا گیا تھااور اس میں مدرسوں کا نام تک لیا گیا تھا۔ تاہم روزنامہ ڈان نے یہ خبر شائع کی کہ آرمی مبینہ طور پر مدرسوں کی اصلاحات،ایسی تحریکات جن پر پابندی لگائی چکی ہے،فرقہ وارانہ گروہوں،مدرسوں کو غیرملکی امداد اور نفرت انگیز تقاریر کے موضوع پر کسی پیش رفت کے نہ ہونے پر غیر مطمئن ہے۔
یہی بات ’پیغام پاکستان ‘کے متعلق بھی کہی جا سکتی ہے جس کا اعلان ہر جگہ ببانگ دہل کیا جا رہا ہے اور جس کو صدر (اس کو حکومت ہی سمجھا جائے) کی سرپرستی اور سارے پاکستان کے علمائےکرام کی حمایت حاصل ہے۔
دورانِ حراست شہادت
بہاولپور:۱۰؍جنوری۲۰۲۲ء:اصغر علی کلار ایک احمدی جن پر ایک مذہبی مقدمہ درج تھا،۷۰ سال کی عمر میں شہید ہوگئے۔
موصوف نے ۱۹۷۱ءمیں احمدیت قبول کی تھی۔وہ بہت ہی مہذب، انتہائی نیک اور باعمل احمدی تھے۔
ستمبر ۲۰۲۱ء میں احمدیہ مخالف عناصر موبائل فون آئی ڈی کے ذریعے ان کو توہین کے الزامات میں پھنسانے میں کامیاب ہو گئے۔جبکہ موصوف کسی بھی صور ت آنحضور ﷺ کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتےتھے۔بہاولپور کے جامعہ سعیدیہ کے ایک مولوی حافظ جاوید مصطفیٰ نے ان پر تعزیرات پاکستان دفعہ295-C کے تحت مقدمہ درج کروایا جس کی سزا موت ہے۔یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہےکہ احمدیہ مخالف مولوی احمدیوں کو بدنام کرنے کےلیے دھوکا،جھوٹ اور مکروفریب میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
قید کے دوران کلار صاحب صحت کے سنگین مسائل کا شکار ہوگئے۔ان کو وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور میں داخل کروایا گیا۔ ڈاکٹروں نے ان کی اینڈوسکوپی کی اور انہیں خون کی پانچ بوتلیں لگائیں۔
گرفتاری کے بعد کلار صاحب نے ضمانت کی درخواست دی جو ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے زیر غور تھی۔۸؍جنوری کو ایڈیشنل سیشن جج نے پولیس کو کہا کہ ۱۱؍جنوری کو ہونے والی اگلی سماعت پر متعلقہ ریکارڈ پیش کرنے کا کہا۔
کلار صاحب کی صحت بگڑ گئی اور وہ خون کی الٹیاں کرنے لگے۔وہ ۱۰؍جنوری کو اس جھوٹے اور فرضی مقدمے میں گرفتاری کے ۱۵ ہفتے بعد ہسپتال میں وفات پا گئے۔
پشاور میں احمدی کے کلینک پر حملے میں ایک شخص جاں بحق
بازید خیل، ضلع پشاور:۵؍مارچ ۲۰۲۲ء:دو حملہ آور ایک احمدی ڈاکٹر منصور احمد کے کلینک میں داخل ہوئے۔دونوں حملہ آوروں نے مریض کا روپ دھار رکھا تھا۔ان میں سے ایک نے برقع پہنا تھا۔اس نے ہی فائرنگ کی۔ڈاکٹر محمد شاہد احمد ایک غیر احمدی ڈاکٹر جو اس وقت احمدی ڈاکٹر منصور احمد کی جگہ پر بیٹھے ہوئے تھے۔موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔ جاوید احمد جو وہاں پر کام کرتے تھے ان کی ٹانگ پر گولی لگی۔قاتل نے کلینک پر موجود باقی لوگوں پر بھی گولیاں برسائیں لیکن وہ محفوظ رہے۔قاتل موقع سے فرار ہونے میں کامیاب رہا۔
ڈاکٹر محمد شاہد ۳۵ برس کے تھے۔انہوں نے پسماندگان میں ایک بیوہ اور تین بچے سوگوار چھوڑے ہیں۔ڈاکٹر شاہد ڈاکٹر منصور احمد کے کزن کے بیٹے تھے۔
گذشتہ سال ۱۱؍فروری ۲۰۲۱ءکو ایک احمدی ڈاکٹر عبدالقادر کو ایک قریبی میڈیکل سینٹر میں شہید کر دیا گیا تھا۔
چک نمبر ۱۲۸،ضلع ساہیوال :۶؍اگست ۲۰۲۲ء:شمشاد احمد کے والد عبد الشکور ۱۹۷۱ءکی جنگ میں پاکستان آرمی کے بطورسپاہی شہید ہوئے تھے۔آرمی نے ان کی یاد میں ان کے گاؤں میں یادگاری بورڈ نصب کرنے کا فیصلہ کیا اور شمشاد ، ان کی والدہ اور بہن کو بھی مدعو کیا۔
۶؍اگست کو آرمی والے سادہ لباس میں ملبوس ہو کر آئے۔اور گاؤں سے ۲۰ کلومیٹر دور ایک چوک میں بورڈ نصب کرنا شروع کیا۔اسی دوران شمشاد کو ایک کال موصول ہوئی کہ دو مسجدوں میں اعلانا ت ہوئے ہیں کہ لوگ چوک میں اکٹھے ہوں۔جس وقت آرمی والے اپنا کام کر رہے تھے اسی وقت لوگ وہاں جمع ہونا شروع ہو گئے۔جیسے ہی بورڈ نصب ہوا آرمی والے وہاں سے چلے گئے۔بعد میں ہجوم نے اس بورڈ کو توڑ دیا۔وہ وہاں پر لفظ ’شہید‘ لکھے جانے کے خلاف احتجاج کرنے کےلیے جمع ہوئے تھے۔ اس احتجاج کا انعقاد بدنام زمانہ تحریک لبیک نے کیا تھا۔
ہجوم نے شمشاد احمد اور ان کی بہن کو مارا پیٹا۔ موصوف کے خاندان کے چند افراد گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن گاؤں سے آئے ہوئے لوگوں نے ان کو روک کر ان پر تشدد کیا۔بہر حال یہ لوگ کسی نہ کسی طرح وہاں سے نکلنے میں کامیاب رہے۔ کچھ دور جا کر انہوں نے گاڑی کو روکا تا کہ تسلی کر لیں کہ سب ٹھیک ہے۔لیکن اسی وقت وہ ہجوم پھر سے ان کے قریب پہنچ گیا۔تو ان کو فوراً وہاں سے کسی محفوظ جگہ کی تلاش میں نکلنا پڑا۔
موصوف اور ان کی بہن کو ان بدکردار غنڈوں نے بری طرح سے دھمکایا اور تشدد کیا۔ان کی تعداد کوئی ۴۰۰ کے لگ بھگ تھی۔ہجوم چلا رہا تھا کہ ان کو سنگسار کیا جائے۔اس واقعہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی پھیلائی گئی۔
موصوف جلد ہی بھاری دل کے ساتھ واپس جرمنی چلے گئے۔