میرے پیارے بابا جی مولوی عبدالغفور صاحب
میں جب اپنے بچپن کو یاد کرتی ہوں تو مجھے اپنے کشادہ صحن والے گھر میں انتہائی باوقار شخصیت کرسی پر بیٹھی نظر آتی ہے۔جن کےسر پر سفید ٹوپی، خوبصورت سفید داڑھی والا چہرہ، سادہ شلوار قمیص میں ملبوس اور پائوں میں پشاوری چپل پہنے، یہ بہت ہی پیارے اور بہت ہی پیار کرنے والے میرے پیارے بابا جی یعنی میرے دادا جان مولوی عبدالغفور صاحب ہیں۔
آپ کی حیثیت ہمارے گھر میں ایک مرکز کی طرح تھی۔ ہمارے گھر کے سربراہ تھے۔ گھر کا نظام انہی کے ہاتھ میں تھا۔ ہمارے والدین نے ہمیں عملی طور پر یہ سکھایا ہے کہ گھر کے بزرگ ہی گھر کے سربراہ ہوتے ہیں۔باباجی اپنے وقت کے اچھے تعلیم یافتہ تھے۔ انگریزوں اور ہندوؤں کے ساتھ سرکاری دفاتر میں کام کرتے رہے تھے۔شارٹ ہینڈ اور ٹائپنگ میں بھی بہت مہارت رکھتے تھے۔ لہٰذا آپ نے ہم بچوں کو تعلیمی میدان میں بہت مدد کی۔ہمیں باقاعدگی سے ہوم ورک کرواتے۔ خاص طور پر انگلش اور اردو کی ٹرانسلیشن کرواتے۔ سکول کی چھٹیوں کے دوران ہمیں ایک روٹین کے مطابق کام کرواتے۔ قرآن سکھانا، نماز سکھانا اور مختلف دعائیں سکھانا آپ کی مصروفیات میں شامل تھا۔مجھے وہ دن بہت اچھی طرح یاد ہیں جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے دعائوں کی تحریک کی تھی تو آپ ہر روز بلاناغہ عشاء کی نماز کے بعد ہم سب بچوں کو جن میں ہم بہن بھائی اور ہماری بڑی پھوپھو جن کی وفات ہو گئی تھی کے بچوں کو اپنے پاس بٹھا کر اونچی آواز میں وہ مخصوص دعائیں پڑھاتے تھے۔ اس وقت ہم سب بچوں کی عمریں دو،تین سال سے لے کر دس، بارہ سال کے درمیان تھیں۔ میں اگر آنکھیں بند کر کے آپ کو تصور میں دیکھوں تو مجھے آپ آنکھیں موندھے، زیر لب دعائیں پڑھتے ہوئے ہی نظر آئیں گے۔
آپ کا دعائوں پر کامل یقین تھا اور ہر مشکل کا حل دعائوں میں ہی ڈھونڈتے تھے۔میرے والد صاحب جنہیں ہم اباجی کہتے ہیں ان کے ایک ہی بیٹے تھے۔ اباجی صبح جب اپنے دفتر جانے لگتے تو بابا جی کے کمرے میں آ کر ان کے پاس بیٹھ جاتے اور پھر ہم سب بچوں کو بھی وہاں بلا لیتے اور باباجی اجتماعی دعا کرواتے۔یہ ہمارے گھر کا ہر روز کا معمول تھا۔ باباجی اکثر ہمیں اپنی ملازمت کے دوران درپیش مشکلات کے واقعات سناتے اور زیادہ زور اس بات پر دیتے کہ کس طرح وہ مختلف اوقات میں جنگلوں، بیابانوں اور ویرانوں میں نکل جاتے جہاں وہ دنیا کے شور و غل سے دور اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو کر گریہ و زاری کرتے اور اپنے مولا کی مدد کے طلبگار ہوتے۔ اور اللہ تعالیٰ بھی اپنے اس عاجز بندے کی زاری سنتا اور ان مشکلات کو اس طرح حل کر دیتا کہ دیکھنے اور سننے والے حیران رہ جاتے۔ہمارے گھرانے میں احمدیت ہمارے بابا جی کے ذریعے سے آئی ہے۔
میں یہاں پر ان کے چند واقعات تحریر کرتی ہوں جو انہوں نے خود حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی خدمت میں لکھے تھے۔
آپ لکھتے ہیں کہ قبولیت احمدیت کے بعد پارہ چنار میں مسجد کے امام نے ہمارے خلاف مسجد میں وعظ دینا شروع کر دیا۔کہاکہ ان کے ساتھ سلام کرنا بند ہے اوران کے پاس کاروباری مقصد کے لیے بھی نہ جائیں۔ جو لوگ ہمارے دوست تھے اب وہ بھی ہمیں بری نظر سے دیکھنے لگے۔اور ہمارا عرضی نویسی کا کام بھی ماند پڑنے لگا۔بشر ہونے کے باعث ہمیں بہت تشویش ہوئی مگر ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے عقیدے پر قائم رہے۔ انہی دنوں مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ میرے ایک ہاتھ میںلکڑی کی تختی ہے جو کالے رنگ کی ہےاور اس پر سفید رنگ سے والعصرلکھا ہوا ہے۔اور مجھےخواب میں تفہیم ہوئی کہ یہ قرآن شریف کی سورت ہے اس کو پڑھو۔ پڑوس میں ایک احمدی رہتا تھا جو زراعت کے محکمے میں ملازم تھا۔اس سےمیں نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے درس کے نوٹس منگوائےاور سورۃ العصر پڑھی جس پر ہمیں کافی اطمینان حاصل ہوا اور ہم نے لوگوں کی مخالفت کی کو ئی پروا نہ کی۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں رزق میں فراخی عطا کی، اگرچہ مخالف ہمارا رزق بند کرتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ فراخی کے سامان پیدا کر دیتا تھا۔
ایک اور واقعہ میں باباجی لکھتے ہیں: موسم سرما میں ایک رات گیارہ بجے کے قریب میرے دو منزلہ مکان کے دروازے کے پردہ پرتیل چھڑک کر آگ لگا دی گئی۔میری بیوی کو آگ کی بو محسوس ہوئی۔ وہ اوپر چھت پر گئی تو اس کو گلی کی طرف روشنی نظر آئی۔اور معلوم ہوا کہ ہمارے گھر کا دروازہ جل رہا ہے۔اس نے آواز دی۔ میں اور بچے بھاگ کرنیچے اترے۔ ایک ٹب میں پانی بھرا ہوا تھا۔میں نے ہمت کر کے دروازہ کھول دیااور آگ پر لوٹوں سے پانی پھینکا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آگ بڑھنے نہ پائی۔اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں بچا لیا۔ اور اس طرح حضرت مسیح موعودؑ کا الہام کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے، اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے ہوئے دیکھا۔
ایک مرتبہ ہم نے ایک سکھ سے پانچ سو روپیہ گورنمنٹ سکہ کا قرض لیا۔اس سکھ کا آدمی روزانہ والد صاحب کے پاس آکرقرض کی واپسی کا مطالبہ کرتا۔مگر گھر میں ایک پیسہ بھی نہ تھا۔روز مرہ کی آمدنی صرف اتنی تھی جو گھر کی ضروریات پوری کرتی تھی۔والد صاحب بہت پریشان تھے کہ قرض کس طرح ادا کیا جائے۔مجھے یہ حالات دیکھ کر بہت پریشانی ہوئی۔ چونکہ میں اخبار الفضل کا عرصے سے خریدار تھااور اس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے مضامین آتے تھےاور دعا پر زور دیتے تھے۔میں نے بہت غور کیا آخر میرے دل سے آواز اٹھی کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کروں وہی مشکل کشا ہے۔میں دن کے دو بجے کے قریب پارہ چنار سے باہر نکل جاتا اور کسی گڑھے میں جہاں مجھے کوئی نہ دیکھ سکتا، اللہ تعالیٰ کے حضور سر بسجود ہو کررو رو کر دعا کرتا۔اس طرح میں نے کوئی مہینہ، سوا مہینہ مسلسل دعا کی، اور اس کا علم اور کسی کو نہیں تھا۔ایک دن شام کو گھرمیں بیٹھے ہوئے تھے کہ میرے والد صاحب نے کہا کہ آج اللہ تعالیٰ نے غیب سےہماری مشکل کو آسان کرنےکے سامان پیدا کر دیے ہیں۔آپ نے بتایا کہ آج ان کی دکان پر دو افغان باشندے آئےتھے جنہوں نے ایک ہندو کو قرض دینے کےلیے درخواست لکھوانی تھی۔میرے پوچھنے پر انہوں نے مجھےدو ہزا ر کابلی روپیہ فوراً دینے کی حامی بھر لی۔جس سے ہم نے گورنمنٹ کا سکہ حاصل کیا اور سکھ کو قرض واپس کیا۔اور افغان باشندوں کا قرض آسان اقساط پر آرام سے ادا کر دیا۔
ایک جگہ آپ لکھتے ہیں کہ جب میں ٹانک میں تھاجو صوبہ سرحد میں ایک جگہ ہے، میں نے ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں سپرنٹنڈنٹ کی پوسٹ کےلیے درخواست جمع کروائی۔کچھ عرصے بعد سب امیدواروں کو ایبٹ آباد امتحان کےلیے طلب کیا گیا۔وہاں تقریباًبیس پچیس امیدوار آئے ہوئے تھے۔ایک تحریری پرچہ تھا اور پھر انٹرویو تھا۔میرا انٹرویو سب سے آخر میں تھا۔ انٹرویو لینے کےلیے خود ریونیو کمشنر جو انگریز تھا اوراس کے ساتھ ایک ڈپٹی کمشنر تھا۔ انہوں نے میری سروس بک دیکھی تو مجھ سے سوال کیا۔Are you Shia۔کیا تم شیعہ ہو؟ کیونکہ کرم ایجنسی میں شیعہ آبادی زیادہ ہے۔ میں نے جواب دیا۔No sir۔ اس نے کہا،Are you Sunni۔ میں نے کہا،No sir۔ وہ بہت حیران ہوا۔ کہنے لگا، Then what are you?u?۔ میں نے جواب دیا، I am an Ahmadi Muslim۔اس پر اس انگریز نے ڈپٹی کمشنر سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں۔ڈپٹی کمشنر مجھے اردو میں کہتا ہے کہ باقی لوگ تو آپ کو مسلمان نہیں سمجھتے۔میں نے کہا وہ ہمیں مسلمان تصور کریں نہ کریں، ہم احمدی مسلمان ہیں۔اس پر وہ خاموش ہو گیا۔مجھ سے مزید دو تین سو ال کیے اور مجھے رخصت کر دیا۔انٹرویو میں ایک غیر احمدی ڈپٹی کمشنر کی موجودگی میںایسے مذہبی سوالات پوچھنا، مجھے گمان ہوا کہ مجھے تو کچھ بھی نمبر نہیں ملیں گےاور میں فیل ہو جائوں گا۔لیکن مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ اس مقام پر میں نےایک انگریز کو احمدیت سے روشناس کرا دیا ہے۔چند دنوں کے بعد مجھے اطلاع دی گئی کہ میں اس انٹرویو میں فرسٹ آیا ہوںاور لسٹ میں میرا نام ٹاپ پر ہے۔
آپ کا لباس اور غذا انتہائی سادہ تھی۔ گھر میں آپ ہمیشہ سر پر ٹوپی رکھتے اور گھر سے باہر جاتے ہوئے پگڑی پہنتے۔ اپنے پرانے واقعات ہمیں بہت شوق سے سنایا کرتے اور اس میں درس کے پہلو کو نمایاں کرتے۔ہمیں ہمیشہ سادگی، کفایت شعاری اور عاجزی کا درس دیتے۔ہمیں ہمارے والد صاحب کی طرف سے ہدایت تھی کہ باباجی کے پاس کوئی نہ کوئی موجود رہا کرے۔ اگر ہم نے پڑھائی کرنی ہوتی تو ان کے کمرے میں ہی بیٹھ کر کرتے تاکہ باباجی کا خیال بھی رکھیں۔اور اس طرح ہم باباجی کی دعائوں کے وارث بنتے۔
آخر میں میں اپنے پیارے رب کے حضور انتہائی عاجزی سے دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے پیارے باباجی کے درجات بہت بلند فرمائے۔ مغفرت کا سلوک فرمائے۔ اپنی رحمت کی چادر میں لپیٹ لے۔اور اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے۔آپ کی قبر میں بھی نور بھر دے اور آپ کو سراپا نور بنا دے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی دعائیں سب اولاد کے حق میں قبول فرمائے اور ہمیں ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین