متفرق مضامین

پہلی شرط بیعت اور شرک

(ریحان احمد۔ مربی سلسلہ)

ایسا نہ کرو کہ کچھ تو تم میں تمہارے نفسانی شر کا حصہ ہو اور کچھ خدا کے واسطے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں سب گناہ معاف کروں گا مگر شرک معاف نہیں کیا جاوے گا۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَیَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَمَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدِ افۡتَرٰۤی اِثۡمًا عَظِیۡمًا(النساء :۴۹)یقیناً اللہ معاف نہیں کرے گا کہ اس کا شریک ٹھہرایا جائے اور اس کے علاوہ سب معاف کر دے گا جس کے لیے وہ چاہے۔ اور جو اللہ کا شریک ٹھہرائے تو یقیناً اس نے بہت بڑا گناہ افترا کیا ہے۔

حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکرہؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بارفرمایا کہ کیا میں تم کو بڑے گناہوں کے متعلق نہ بتاؤں؟ صحابہ نے عرض کیا کہ آپ ہمیں ان سے آگاہ فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانا۔ والدین کی نافرمانی کرنا۔ آپؐ سہارا لے کر بیٹھے ہوئے تھے پھر اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ غور سے سنو جھوٹ بولنابھی۔صحابہ کہتے تھے:آپؐ اسے اتنی بار دہراتے رہے کہ ہم نے کہا:کاش!آپؐ خاموش ہوجائیں۔(بخاری کتاب الشہادات باب ما قیل فی شھادۃ الزور )

حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اپنی امت کے بارے میں شرک اور مخفی خواہشوں سے ڈرتا ہوں۔ راوی کہتے ہیں میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ کی امت آپ کے بعد شرک میں مبتلا ہو جائے گی؟ اس پر آپ نے فرمایا کہ ہاں البتہ میری امت شمس و قمر بتوں اور پتھروں کی عبادت تو نہیں کرے گی مگر اپنے اعمال میں ریاء سے کام لے گی اور مخفی خواہشات میں لوگ مبتلا ہو جائیں گے اور اگر ان میں سے کوئی روزہ دار ہونے کی حالت میں صبح کرے گا پھر اس کو اس کی کوئی خواہش معارض ہو گی تو وہ روزہ ترک کر کے اس خواہش میں مبتلا ہو جائے گا۔( مسند احمد بن حنبل جلد چار صفحہ ۱۲۴ مطبوعہ بیروت)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’بیعت کنندہ سچے دل سے اس بات کا عہد کرے کہ آئندہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو شرک سے مجتنب رہے گا۔‘‘ (اشتہار تکمیل تبلیغ ۱۲؍جنوری۱۸۸۹ء)

نیز سورت النساء کی آیت ۴۹ کی روشنی میں فرمایا: ’’ہر ایک گناہ کی مغفرت ہوگی مگر شرک کو خدا نہیں بخشے گا ۔پس شرک کے نزدیک مت جاؤ اور اس کو حرمت کا درخت سمجھو۔‘‘ ( ضمیمہ تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۳۲۳-۳۲۴ حاشیہ)

آپؑ فرماتے ہیں: ’’دیکھو خدا یہ بھی نہیں چاہتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جاوے۔ بعض لوگ اپنے شرکاء نفسانی کے واسطے بہت حصہ رکھ لیتے ہیں اور پھر خدا کا بھی حصہ مقرر کرتے ہیں۔ سو خدا ایسے حصہ کو قبول نہیں کرتا وہ خالص حصہ چاہتا ہے۔ اس کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک بنانے سے زیادہ اس کو غضبناک کرنے کا اور کوئی آلہ نہیں ہے۔ ایسا نہ کرو کہ کچھ تو تم میں تمھارے نفسانی شر کا حصہ ہو اور کچھ خدا کے واسطے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں سب گناہ معاف کروں گا مگر شرک معاف نہیں کیا جاوے گا۔

یاد رکھو شرک یہی نہیں ہے کہ بتوں اور پتھروں کی تراشی ہوئی مورتوں کی پوجا کی جاوے یہ تو ایک موٹی بات ہے۔ یہ بڑے بیوقوفوں کا کام ہے۔ دانا آدمی کو تو اس سے شرم آتی ہے۔ شرک بڑا باریک ہے وہ شرک جو اکثر ہلاک کرتا وہ شرک فی الاسباب ہے یعنی اسباب پر اتنا بھروسہ کرنا کہ گویا وہی اس کے مطلوب و مقصود ہیں۔ جو شخص دنیا کو دین پر مقدم رکھتا ہے اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ اس کو دنیا کی چیزوں پر بھروسہ ہوتا ہےاور وہ امید ہوتی ہے جو دین و ایمان سے نہیں۔نقد فائدہ کو پسند کرتے ہیں اور آخرت سے محروم۔ جب وہ اسباب پر ہی اپنی ساری کامیابیوں کا مدار خیال کرتا ہے تو خدا تعالیٰ کے وجود کو تو اس وقت وہ لغو محض اور بے فائدہ جانتا ہے اور تم ایسا نہ کرو تم توکل اختیار کرو۔‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ ۱۴۶ ایڈیشن۱۹۸۸ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’شرک خداتعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا ظلم ہے۔…عبادالرحمن کے ساتھ جو شرک کو مخصوص کیا گیا ہے تو یہ صرف ظاہری شرک نہیں کہ بتوں کی پوجا کی جائے بلکہ شرک خفی سے بھی بچتے ہیں۔ ان کی عبادتوں اور دوسرے حقوق کی ادائیگی اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ہوتی ہے اور بڑی باریکی سے اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ان کی کوئی حرکت اور ان کا کوئی عمل کسی قسم کے شرک خفی کا باعث نہ بنے۔ انتہائی محتاط ہوتے ہیں۔ نہ ان کی ملازمتیں ان کی عبادتوں کے سامنے روک بن رہی ہوں۔ …یہ بھی ایک قسم کا شرق ہے۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۵؍ستمبر ۲۰۰۹ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۶؍اکتوبر۲۰۰۹ء)

نیز فرمایا: ’’آج جبکہ شرک کے ساتھ دہریت بھی بہت تیزی سے پھیل رہی ہے بلکہ دہریت بھی شرک کی ایک قسم ہے یا شرک دہریت کی قسم ہے۔ ہم اپنے آپ کو ایک نعرے پر محدود کر کے اور اس پر اکتفا کر کے اپنی دنیا و آخرت سنوارنے والے نہیں بن سکتے۔ نہ ہی ہم انسانیت کی خدمت کے زعم میں اپنی نمازوں اور عبادتوں کو چھوڑ سکتے ہیں۔ جو ایسا کرتا ہے یا کہتا ہے اس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ پس ہمیں اپنے حقیقی مطمح نظر اور مقصود کو ہمیشہ سامنے رکھنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم تمام دینی و دنیاوی انعامات کے حاصل کرنے والے بن سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی حقیقت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۹؍مئی ۲۰۱۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳۰؍مئی ۲۰۱۴ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button