متفرق مضامین

دہریت، سائنس اور فلسفہ کے منفی اثرات

(بلال احمد۔ متعلم جامعہ احمدیہ یوکے)

آج کا دور مادی ترقی کے ساتھ ساتھ ذہنی قوتوں کی ترقی کو بھی راستہ دے رہا ہے جس کے نتیجہ میں یہ دنیا ایک نئی طرز زندگی کو اختیار کرتی جا رہی ہے، یا یوں کہنا چاہیے کہ یہ دنیا اپنے مقصد حقیقی سےہر لحظہ پَرے ہٹ رہی ہے۔ نتیجۃً انسان خدائی تصرفات اور معجزات کا نہ صرف منکر بلکہ ایسا مخالف بن رہا ہے جو آج سے پہلے کسی بھی امت نے نہ دیکھا ہوگا۔

یہی وہ ابتلاؤں اور فتنوں کا زمانہ ہے جس کے بارے میں حدیث میں خبر دی گئی ہے:يَأْتِيْ عَلَيْكُمْ زَمَانٌ إِلَّا الَّذِي بَعْدَهُ شَرٌّ مِنْهُ۔ (بخاری کتاب الفتن باب: لا يأتي زمان إلا والذي بعده شر منه۔ حدیث ۷۰۶۸)تم پر جو دور بھی آتا ہے تو اس کے بعد آنے والا دور اس سے بھی برا ہو گا۔

یہ حدیث زمانہ حال کی بخوبی عکاسی کرتی ہے اور اس کے ہر مرحلہ کو ما قبل سے مزید خراب ہونے کو اس کا مقدر قرار دیتی ہے۔ اور پیش آنے والے مصائب کا ایک منظر کھینچتی ہے۔ ان مصائب میں سے سب سے اہم اور بڑا مسئلہ خدا اور اس کی ذات اور صفات کا کھلے عام انکار اور موجودہ سائنسی ترقی کو اس کے بالمقابل انسانیت کا علمبردار بنا کر پیش کرنا ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’ان دقیق در دقیق فلسفیانہ اور دہریانہ حملوں کی پہلے وقتوں میں کہاں نظیر مل سکتی ہے اور ان پیچ در پیچ عاقلانہ ہنگاموں کا قرون گزشتہ میں کہاں پتہ لگ سکتا ہے اس قسم کی علمی اور عقلی آفات کسی پہلے زمانہ میں کہاں ہیں جن کا اب اسلام کو سامنا ہوا ہے کب اور کس وقت ایسی مشکلات کسی پہلے زمانہ میں بھی پیش آئی تھیں جو اب پیش آرہی ہیں۔ ‘‘(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۶۲۔۲۶۳حاشیہ)

موجودہ سائنس اور فلسفہ کے منفی اثرات سے متاثر ہو کر لوگوں نے خدا اور اس کی تخلیق پر سوالات اٹھائے ہیں۔ مگر یہ صرف اسی زمانے سے مختص نہیں بلکہ پہلے زمانوں میں بھی لوگ خدا کے وجود اور اس کی تخلیق کو سوالات کا نشانہ بناتے آئے ہیں۔ مگر آج وہی سوالات نئے انداز اور نئے زاویوںسےپیش کیے جاتے ہیں اسی وجہ سے اِس موجودہ زمانے کو دجال کا زمانہ قرار دیا گیا ہے۔

وہ کیا چیز ہے جو انسان کو دہریت کی طرف لے جاتی ہے؟آج کے ماحول کو مد نظر رکھتے ہوئے کئی ایک پہلو اس سوال کے جواب کو واضح کرتے ہیں۔ آج ہر شخص زندگی کی دوڑ میں اتنا مگن ہو چکا ہے کہ وہ اس مقصد حقیقی سے جو خدا نے انبیاء اور مامورین کے ذریعے ان کے آباء تک پہنچایا تھا بالکل دور جا پڑا ہے اور مادیت کو ہی ہر شے کا منبع اور صانع سمجھ بیٹھا ہےاور جب مذ ہبی راہنماؤں نے بھی مادیت سے حصہ کاٹا تو عوام کے خیالات نے اس سے بڑھ کر چھلانگ لگائی اور جب ان نام نہاد راہنماؤں کی باتوں نے اپنی وقعت بالکل کھو دی اور لوگ مذہب سےمتنفر ہونا شروع ہو گئے تو خدا کے عدل اور اس کے نظام کو سوالوں کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔

اس کے علاوہ موجودہ فلسفہ نے دہریت کے لیے مزید ایندھن کا کام کیا اور لوگوں نے اس کے ذریعے خداکے وجود کی تلاش کے لیےتگ و دو کو چھوڑ کر الٹا اس دنیا کا بغیر کسی صانع کےاور اپنے آپ ہی قائم ہونے کا نظریہ پیش کر دیا جس سے لوگوں نے صانع حقیقی کی تلاش اور بھی زیادہ محدود کر دی اور بعض نےخدا کے وجود کی تلاش کے راستہ کو ہی بند کر دیا۔

حضرت مسیح موعودؑ فلسفہ کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’یہ عجیب بات ہے کہ علمی ترقی سے مکر اور فریب کی بھی کچھ ترقی معلوم ہوتی ہے اور اہل حق کو ناقابل برداشت وساوس کا سامنا ہے ایمانی سادگی بہت گھٹ گئی ہے اور فلسفیانہ خیالات نے جن کے ساتھ دینی معلومات ہم قدم نہیں ہیں۔ ایک زہریلا اثر نو تعلیم یافتہ لوگوں پر ڈال رکھا ہے جو دہریت کی طرف کھینچ رہا ہے اور واقعی نہایت مشکل ہے کہ اس اثر سے بغیر حمایت دینی تعلیم کے لوگ بچ سکیں۔ ‘‘(معیار المذاہب، روحانی خزائن جلد۹ صفحہ ۴۶۱-۴۶۲)

حضرت مسیح موعودؑ کی محولہ بالا عبارت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دہریت کے خیالات کی طرف جس چیز نے انسان کو کھینچا ہے اس میں ایک وجہ لوگوں کی ایمانیات کا کم ہونا، دوسرا علمی ترقی کے ساتھ مکر اور فریب میں لوگوں کا بڑھنا اور تیسرا فلسفہ کے ساتھ دینی علوم کی کم علمی ہے جس کی وجہ سے لوگ دہریت کے رَو میں بہتے چلے جا رہے ہیں۔ اس سے بچنا خدائی تصرف اور اس کی مدد کے بغیر ہر گز ممکن نہیں۔

اس کے علاوہ ایک اور وجہ نفسانی جوشوں میں انسان کا جکڑے جانا ہے جس نے انسان کی سوچ کو ایک مرکزی نقطہ سے ہٹا کر پراگندہ خیالات میں مبتلا کر دیا ہے جس کا آخری نتیجہ الحاد کے سوا کچھ نہیں ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ اپنی ایک نظم میں لکھتے ہیں:

جس طرف دیکھیں وہیں اِک دہریت کا جوش ہے

دیں سے ٹھٹھا اور نمازوں روزوں سے رکھتے ہیں عار

(درثمین صفحہ ۱۷۹)

فرمایا : دہریت کا شور تو ہر طرف پھیلا ہے جہاں بھی نظر پھیرو دہریت کو ہی پاتے ہیں۔ دوسرے مصرعہ میں فرمایا کہ دین کا اس کے مقابل پر مذاق اڑاتے ہیں اور نماز روزوں سے بے تعلقی رکھتے ہیں۔

دہریت کی حقیقت از ارشادات حضرت مسیح موعودؑ

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام دہریت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

٭…اللہ تعالیٰ کے تصرفات پر کامل یقین چاہیے۔ جس کا یہ ایمان نہیں ہے اس میں دہریت کی ایک رگ ہے۔( ملفوظات جلد ۳صفحہ ۲۳۰ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

٭…کیا سبب ہے کہ انسان باوجود خدا کو ماننے کے بھی گناہ سے پر ہیز نہیں کرتا؟ درحقیقت اس میں دہر یت کی ایک رگ ہے اور اس کو پورا پورا یقین اور ایمان اللہ تعالیٰ پر نہیں ہوتا ورنہ اگر وہ جانتا کہ کو ئی خدا ہے جو حساب کتاب لینے والا ہے اور ایک آن میں اس کو تباہ کر سکتا ہے تو وہ کیسے بدی کر سکتا ہے۔ (ملفوظات جلد ۳صفحہ ۳۱۵،ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

٭… نزولِ بلا پر بجائے اس کے کہ استغفار کریں جھوٹی تاویلوں سے دل کو تسلی دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میاں بیماری ہوا ہی کرتی ہے۔ یہ دہریت کی علامت ہے۔( ملفوظات جلد ۷صفحہ ۱۱،ایڈیشن ۲۰۲۲ء،حاشیہ)

٭…مسلمان قدامت کا قائل ہے مگر قدامت نوعی کا نہ کہ قدامت شخصی کا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ پہلے کیا چیزیں تھیں اور کیا نہ تھیں۔ اگر اس کے بر خلاف قدامت شخصی کا عقیدہ رکھا جاوے تو وہ دہریت میں داخل ہونا ہوتاہے۔(ملفوظات جلد ۹ صفحہ ۱۲،ایڈیشن ۲۰۲۲ء)

٭…ایک دہریہ تو وہ ہے جو صانع کے وجود کا منکر ہے اور یہ گروہ قدیم سے ہے مگر میں کہتا ہوں فرض کرلو کہ دنیا میں ایسا ایک بھی متنفس نہیں تو بھی ہر وہ جس کو کامل معرفت نہیں وہ بھی دہریہ ہے۔(ملفوظات جلد ۱۰ صفحہ ۲۷۴،ایڈیشن ۲۰۲۲ء)

ان اقتباسات میں جو بات عام نظر آتی ہے وہ موجودہ فلسفے کی غلط توضیح ہے اور اس کی عام فہم باتوں کے غلط مطالب لیناہے جس کی وجہ سے لوگ نیچریت کی طرف جھک جاتے ہیں اور اس دنیا کے صانع کے منکر اور یوم الحساب کے بکلی انکاری ہو جاتے ہیں۔

فطرت میں یہ بات ودیعت کر دی گئی ہے کہ انسان اس بات پر غور کرے کہ اس کی پیدائش کی کیا غرض ہے؟چنانچہ آج ہمیں سائنس اور سائیکالوجی کی شکل میں یہ اس سوال کے تلاش کی جستجو نظر آتی ہے۔تاہم ان علوم میں الٰہی نور کے بناغور و خوض نے رفتہ رفتہ انسان کو دہریہ خیالات کی طرف مائل کر دیا ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ سائنس اور فلسفہ کے متعلق فرماتے ہیں:عیسائیت تو خودبخود گلتی جاتی ہے لیکن بڑا فتنہ اس زمانہ کا دہریت والی سائنس ہے۔( ملفوظات جلد ۷صفحہ۱۶۱، ایڈیشن ۲۰۲۲ء)

وہ سائنس جو چیزوں کے خودبخود وجود میں آنے کی حامی ہے وہ دہریت کی سائنس ہے اور یہی سائنس خدا کے وجود سے لوگوں کو منکر بنا رہی ہے۔

آپؑ مزید فرماتے ہیں: جھوٹا فلسفہ اور طبعی علوم ہمیشہ سے چلے آتے ہیں مگر ان سے خدا نہیں پہچانا جا سکتا۔(ملفوظات جلد ۷ صفحہ۱۶۲،ایڈیشن ۲۰۲۲ء)چنانچہ کئی لوگ نیچریت میں اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ سائنس کو ہی ہر شے کا منبع قرار دیتے ہیں اور پھر یہی چیز ان کو دہریہ بنا دیتی ہے۔

آپؑ فرماتےہیں: وہ جو نیچریت میں حد سے بڑھ گئے ہیں قریب ہے کہ وہ دہریہ ہو جاویں۔(ملفوظات جلد ۱۰ صفحہ ۳۲۶ ایڈیشن ۲۰۲۲ء)

دہریت کیسے ختم ہوسکتی ہے؟

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیںکہ دہریہ پن کو اگر کوئی شے جلا سکتی ہے تو وہ صرف انبیاء کا وجود ہے ورنہ عقلی دلائل سے وہاں کچھ نہیں بنتا۔ کیونکہ عقل کی حد سے تو پیشتر ہی گذر کر وہ دہریہ بنتاہے۔پھر عقل کی پیش اس کے آگے کب چلتی ہے۔(ملفوظات جلد ۷صفحہ ۸۷، ایڈیشن ۲۰۲۲ء)

مزید برآں اس حقیقت کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا:فلسفی دماغ کے آدمی دہریت کو پھیلاتے جاتے ہیں اور اس فکر میں لگے ہوئے ہیں کہ تمام کَل اُلوہیّت کی کسی طرح ہمارے ہاتھ میں ہی آجاوے ہم ہی جب چاہیں وباؤں کو دور کردیں موتوں کو ٹال دیں اور جب چاہیں بارش برسادیں کھیتی اُگالیں اور کوئی چیز ہمارے قبضہ قدرت سے باہر نہ ہو۔ سوچو کہ اس زمانہ میں ان بے راہیوں کا کچھ انتہا بھی ہے ان آفتوں نے اسلام کے دونوں بازؤں پر تبر رکھ دیا ہے اے سونے والو بیدار ہوجاؤ اے غافلو اٹھ بیٹھو کہ ایک انقلاب عظیم کا وقت آگیا۔ یہ رونے کا وقت ہے نہ سونے کا اور تضرّ ع کا وقت ہے نہ ٹھٹھے اور ہنسی اور تکفیر بازی کا۔ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۳)

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم دہریت کے ان تمام اثرات سے اپنے وجود کو بچانے والے ہوں۔ہم انبیائے کرام کے لائے ہوئے پیغام پر اخلاص سے عمل کرتےہوئے خدا تعالیٰ کےقرب کی راہوں کو تلاش کرنے والے بنیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button