قرآن کریم کی تاریخ
قرآن کریم کا نزول
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ماہ رمضان میں نزول کی بابت سورۃ البقرۃ میں بیان فرمایا :شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ۔(سورۃ البقرۃ: ۱۸۶) یعنی رمضان وہ مہینہ ہےجس میں قرآن اُتارا گیا۔پھر ایک جگہ فرمایا:اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ۔(سورۃ الدخان:۴)یقیناً ہم نے اسے ایک بڑی مبارک رات میں اُتارا ہے۔
نازل ہونے والی پہلی سورت
قرآن کریم کی نازل ہونے والی پہلی سورۃ، سورت العلق ہے:اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ (سورۃ العلق:۲) یعنی پڑھ اپنے ربّ کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اےؓ اپنی تصنیف سیرت خاتم النبیینؐ میں قرآن کریم کی تاریخ کے متعلق لکھتے ہیں:’’سب سے اوّل نمبر پر اسلامی تاریخ کا وہ مضبوط قلعہ ہے جو قرآن شریف کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق قرآن شریف کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف خُدا کا کلام ہے جو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر بصورت وحی نازل ہوا۔ یہ نزول آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تیئس سالہ نبوت کی زندگی پر پھیلا ہوا تھا۔ یعنی الہام سے ہی آپ کے دعویٰ کی ابتداء ہوئی اور قرآن شریف کا آخری حصہ اس وقت نازل ہوا جب کہ آپؐ کی وفات بالکل قریب تھی۔ اس طرح اگر آپؐ کی نبوت کے مجموعی ایام کے مقابلہ پر قرآنی آیات کی مجموعی تعداد کو رکھ کر دیکھا جائے تو روزانہ نزول کی اوسط ایک آیت سے بھی کم بنتی ہے۔ کیونکہ جہاں آپؐ کی نبوت کے ایام کم و بیش سات ہزا نوسو ستر بنتے ہیں، وہاں قرآنی آیات کی تعداد صرف چھ ہزار دو صد چھتیس ہے اور چونکہ قرانی الفاظ کی مجموعی تعداد ستتر ہزار نو سو چونتیس ہے اس لیے فی آیت بارہ الفاظ کی اوسط ہوئی۔ جس سے روزانہ نزول کی اوسط کم و بیش نو لفظ سمجھی جاسکتی ہے۔ ان اعداد وشمار سے ظاہر ہے کہ قرآن شریف بہت ہی آہستہ آہستہ نازل ہوا تھا۔ اور گویہ درست ہے کہ قرآن شریف کے نزول میں بعض اوقات ناغے بھی آجاتے تھے اور بعض دوسرے ایام میں ایک ہی وقت میں متعدد آیات اکٹھی نازل ہو جاتی تھیں۔ لیکن پھر بھی قرآن شریف کبھی بھی ایک وقت میں اتنی مقدار میں نازل نہیں ہوا کہ اُسے لکھ کر محفوظ کرنے یا ساتھ ساتھ یاد کرتے جانے میں کوئی مشکل محسوس ہوئی ہو۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ طریق تھا کہ جو جو آیات قرآن شریف کی نازل ہوتی جاتی تھیں انہیں ساتھ ساتھ لکھواتے جاتے اور خدائی تفہیم کے مطابق ان کی ترتیب بھی خود مقرر فرماتے جاتے تھے۔ ‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ ۵ تا ۶)
حضرت مصلح موعودؓ تفسیر کبیر میں تحریر فرماتے ہیں: ’’رمضان کا مہینہ اُن مقدس ایام کی یاد دلاتا ہے جن میں قرآن کریم جیسی کامل کتاب کا دنیا میں نزول ہوا۔ وہ مبارک دن۔ دہ دنیا کی سعادت کی ابتداء کے دن۔ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اسکی برکت کے دروازے کھولنے والے دن جب دنیا کی گھناؤنی شکل اس کے بدصورت چہرے اور اس کے اذیت پہنچانے والے اعمال سے تنگ آکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں جاکر اور دنیا سے منہ موڑ کر اور اپنے عزیزو اقارب کو چھوڑ کر صرف اپنے خدا کی یادمیں مصروف رہا کرتے تھےاور خیال کرتے تھے کہ دنیا سے اس طرح بھاگ کر وہ اپنے فرض کو ادا کرینگے جسے ادا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کیا ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ۲ صفحہ ۳۹۱۔۳۹۲)
اللہ تعالیٰ نور ہے اور اس نور کا اظہار قرآن کریم سے ہوتا ہے۔ بڑی ہستی کے اظہار کے لیے قرآن کریم کا تاریخی لحاظ سے محفوظ ہونابھی ضروری تھا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق اسے محفوظ بھی رکھا۔جس کی مثالیں چودہ سو سال بعد بھی پیش کی جاتی ہیں۔
مثلاًولیم میورنے لکھاکہ دنیا کے پردہ پر غالباً قرآن کے سوا کوئی اور کتاب ایسی نہیں جو بارہ سو سال کے طویل عرصہ تک بغیر کسی تحریف اور تبدیلی کے اپنی اصلی حالت میں محفوظ رہی ہو۔پھر نولڈکے جو جرمنی کا عیسائی مستشرق تھا۔ قرآن کریم کے متعلق لکھتا ہے:آج کا قرآن بعینہٖ وہی ہے جو صحابہؓ کے وقت میں تھا۔
مضمون کے اختتام پر امام الزماں حکم و عدل حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اقتباس پیش ہے:’تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے اُن کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا۔ نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔ اور تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘(کشتی نوح،روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۳)
قرآن کریم تاریخی لحاظ سے اس قدر محفوظ ہے کہ اپنی حفاظت اور ترتیب کے لحاظ سے ساری کتابوں کا لب لباب اور سر چشمہ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم کو پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین