ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب
(حضورِانور کے دورہ Scandinavia مئی ۲۰۱۶ء سے چند واقعات۔حصہ نہم)
حضورِانور ایدہ اللہ کی شفقت اور راہنمائی کی مثال
ہمارے پیارے حضور کا وجود ایسا ہے کہ اگر کبھی آپ کسی سے ناراض ہوجائیں تو فوراً ہی آپ کی محبت اور شفقت کا اظہار بھی ہونے لگتا ہے۔چنانچہ اسی دن پچھلے پہر جب قافلہ ایک سروس سٹیشن پر رکا تو حضورِانور نے صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ کو بلایا اور نہایت شفقت بھرے انداز میں ان کو سمجھایا کہ آئندہ وہ اپنے فرائض کیسے ادا کریں۔
حضورِانور نے فرمایا کہ بطور صدر مجلس آپ کے پاس ہر دورے کے دوران جملہ قافلےکی گاڑیوں کا ریکارڈ ہونا چاہیے۔ آپ کے پاس ہر گاڑی کی فہرست ہونی چاہیے اور یہ بھی کہ کون کون گاڑی میں بیٹھا ہے اور کسی بھی سفر کو شروع کرنے سے پہلے آپ کو چیک کرنا چاہیے کہ ہر کوئی اپنی جگہ پر بیٹھ گیا ہے یا نہیں اور پھر آپ کو قافلہ کو روانگی کا کہنا چاہیے۔
حضورِانور بذات خود اپنے قافلے کی حفاظت اور سیکیورٹی پر خاص توجہ فرماتے ہیں۔ حضورِانور نے ایک عمومی ہدایت سے نوازا ہوا ہے کہ دورہ جات کے دوران قافلہ کی آخری گاڑی مقامی جماعت کے احباب کی ہوگی تاکہ اگر حضورِانور کے قافلہ کی کوئی گاڑی پیچھے رہ جائے تو وہ گاڑی اس کی راہنمائی کے لیے ہمیشہ موجود رہے۔ مزید برآں حضورِانور مستقل استفسار فرماتے رہتے ہیں کہ گاڑیوں کی کیا پوزیشن ہے اور یہ کہ کیا وہ سب اکٹھی ہیں؟
اگلے روز میری منصور احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ سے اس واقعہ کے بارے میں بات ہوئی۔یہ تو واضح تھا کہ وہ اپنی غلطی پر نادم اور شرمسار تھے لیکن ساتھ ساتھ حضورِانور کی شفقت بھری راہنمائی پر بے حد مشکور بھی تھے۔ مکرم صدر صاحب نے بتایا کہ ابتدا میں حضورِانور ہماری غلطی کی وجہ سے سخت ناراض تھے۔ لیکن حضورِانور نہایت محبت کرنے والے، شفیق اور درگزر کرنے والے ہیں اور بعد میں آپ نے ازراہ شفقت مجھے بلایا اور بہت سی ہدایات سے نوازا کہ قافلہ کا انتظام کیسا ہونا چاہیے۔حضورِانور نے یہ بھی فرمایا کہ مجھے جرمنی جانا چاہیے اور وہاں ایک ہفتہ جرمنی کی حفاظتِ خاص کی ٹیم کے ساتھ ٹریننگ حاصل کرنی چاہیے کیونکہ وہ کافی تجربہ کار ہیں۔ حضورِانور کی محبت بے کنار ہے اور ایسی شفقت کا تو میں خود کو کبھی مستحق بھی خیال نہیں کرتا تھا۔
چندcrisps(چپس )کی تلاش
بعد ازاں میں وہاں گیا جہاں محترمہ خالہ سبوحی تشریف فرما تھیں اور مجھے آپ کے پاس کچھ منٹ گزارنے کا موقع ملا۔ ہم گذشتہ شام Stockholm میں منعقد ہونے والی میٹنگ کے بارے گفتگو کرتے رہے اور آپ نے خاکسار سے اس دن صبح کے وقت حضورِانور کی مہمانوں سے ہونے والی ملاقاتوں کے بارے میں بھی دریافت فرمایا۔
یہ بات تو ہمیشہ کی طرح ظاہر ہے کہ محترمہ خالہ سبوحی ایسے(جماعتی) معاملات میں نہایت دلچسپی لیتی ہیں اور بذات خود حقیقی اسلامی تعلیمات کے زیادہ سے زیادہ پرچار کے لیے ایک خاص جوش رکھتی ہیں۔
جس دوران ہم گفتگوکر رہے تھے محترمہ خالہ سبوحی کے ایک عزیز مکرم طارق شاہ صاحب آپ کے لیے coffeeلائے مگر حضورِانور کے لیے نہ لائےکیونکہ حضورِانور ابھی تک تشریف نہ لائے تھے۔ ہم نے چند روز قبل ایک سبق سیکھا تھا جب محترمہ خالہ سبوحی نے ہمیں بتایا تھا کہ حضورِانور کے تشریف لانے پر آپ کوتازہ coffee پیش کرنی چاہیے۔
چند منٹ بعد جب حضورِانور تشریف لائے تو خاکسار نے آپ کی خدمت میں cappuccino پیش کی جو کاغذ کے کپ میں تھی۔Stockholmجاتے ہوئے حضورِانور نے خاکسار کو اپنے بارے میںفرمایا تھا کہ ایسی جگہوں پر آپ ایسے ہی کپ میں نوش فرمانا پسند فرماتے ہیں۔
چند منٹ کے بعد خاکسار حضورِانور اور محترمہ خالہ سبوحی کے پاس گیا اور عرض کی کہ کسی چیز کی ضرورت ہو تو فرمائیں۔ حضورِانور نے فرمایا کہ کیا ان کے پاس نمکین چپس ہوتے ہیں؟
میں فوری طور پہ اس ریستوران پر گیا مگر ان کے پاس چپس دستیاب نہ تھے۔ پھر خاکسار اور مقامی جماعت کے ایک دوست جلدی جلدی باہر نکلے اور ایک قریبی پٹرول پمپ پر پہنچے جو چند سو میٹر کے فاصلے پر تھا، اس میں داخل ہونے پر میں نے دائیں اور بائیں دیکھا اور مجھے تسلی ہوئی کیونکہ وہاں انواع واقسام کے چپس بکثرت موجود تھے۔ ہم نے وہاں سے دو بڑے پیکٹ خریدے۔ انہیں جب حضورِ انور کی خدمت میں پیش کیا تو حضورِانور نے فرمایا کیا یہ حلال ہیں؟ اس پر خاکسار نے عرض کی کہ جی حضور ایک تو سادہ salty flavour ہے اور دوسرا sour cream flavourہے۔حضورِانور نے فرمایا ہم تو ready salted رکھیں گے اور تم دوسرا flavour قافلہ کےممبران کے لیے لے جاؤ۔
پھر میں وہاں گیا جہاں قافلہ کے ممبران تشریف رکھتے تھے۔ مجھے خوشی تھی کہ حضورِانور کی خواہش کے مطابق چپس مہیا ہو گئے تھے۔ دیگر قافلہ ممبران بھی چپس سے خوب لطف اندوز ہوئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ حضورِانور نے ان کے لیے بھجوائے تھے۔مجھے اس بات کی خوشی ہوئی کہ حضورانور اور محترمہ خالہ سبوحی کو چند منٹ coffeeپینے اور چپس کھانے کے لیے میسر آ گئے ہیں۔
بچوں کے play area میں پکڑے جانا
جہاں حضورِانور تشریف فرما تھے وہاں بچوں کے لیے بنایا گیا ایک وسیع play areaبھی تھا۔یہ سروس اسٹیشن کے احاطہ میں ہی تھا اور چند منٹ کے بعد میجر صاحب اور خاکسار دونوں چلتے چلتے اس کے اندر چلے گئے۔جب ہم وہاں کھڑے تھے تو محترم میجر صاحب نے مجھے کہا کہ حضورِانور کو آگاہ کردوں کہ گاڑیاں روانگی کے لیے تیار ہیں، جب بھی حضورِانور پسند فرمائیںتو روانگی ہو سکتی ہے۔ جب میں حضورِانور کو آگاہ کرنے کے لیے جانے لگا تو حضورِانور ہماری طرف تشریف لے آئے۔ حضورِانور نے ہماری طرف دیکھا اور استفسار فرمایا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ جس پر ہم نے عرض کی کہ یہ بچوں کے کھیلنےکی جگہ ہے۔ اس پر حضورِانور نے فرمایاایسا لگتا ہے کہ تم اور میجر صاحب play area کو خوب enjoy کررہے ہیں کیونکہ آپ لوگ اس کے بالکل درمیان میں کھڑے ہیں۔
میں حضورِانور کے تبصرے پر زور سے ہنسا۔ جس پر حضورِانور نے محترمہ خالہ سبوحی کو مخاطب ہو کر فرمایاکہ عابد اور میجر صاحب اس play area کے درمیان میں کھڑے ہیں۔
پھر حضورِانور بیرونی دروازے کی طرف بڑھے اور باہر نکلنے سے پہلے آپ نے ready saltedچپس کا پیکٹ مجھےعنایت فرما دیا۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ وہ پیک تقریباً نصف خالی تھا جس سے ظاہر تھا کہ حضورِانور اور محترمہ خالہ سبوحی صاحبہ کو یہ چپس پسند آئے تھے۔
میں چپس کے اس پیکٹ کو اپنی گاڑی میں لے گیا اور ہم سب نے نہایت خوشی کے ساتھ اس خیال سے بقیہ چپس کھائے کہ چند منٹ قبل حضورِانور اس میں سے تناول فرما رہے تھے۔
الحمدللہ سروس ایریا کے وہ لمحات نہایت پُر لطف اور بابرکت تھے۔خاص طور پر حضورِانور اور محترمہ خالہ سبوحی کو چند منٹ آرام میسر آتے دیکھنا ہم سب کے لیے نہایت خوش کن تھا۔
احمدیوں کے جذبات
۲۱؍مئی ۲۰۱۶ء کو ایک نوجوان خادم یوسف سلمان خان صاحب (عمر ۲۸سال) سے میری ملاقات ہوئی، جن کا حال ہی میں Ryanair Flight Captain کے طور پر تقرر ہوا تھا۔ جب وہ حضورِانور سے ملاقات کے لیے آئے تو انہوں نے اپنا نیا کپتان کا یونیفارم پہنا ہوا تھا۔ اپنی ملاقات کے بارے میں موصوف نے بتایا کہ ہمارے روحانی راہنما کی یہاں موجودگی ایک غیر معمولی سعادت ہے اور اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے۔ہماری زندگیوں میں اس قدر سکون اور اطمینان اس لیے ہے کہ ہمارا ایک روحانی راہنما ہے جو ہماری راہنمائی کرتا ہے۔مجھے یہ حقیقت اس لیے پسند ہے کہ میں جب چاہوں حضورِانور کو خط لکھ سکتا ہوں اور کوئی نہیں جو ہمارے براہ راست تعلق میں دخل اندازی کرے یا اس کو روک سکے۔
یوسف صاحب نے مزید بتایا کہ دورانِ ملاقات میں نے اپنا نیا یونیفارم پہن رکھا تھا اور حضورِانور کا شکریہ ادا کیا کیونکہ آپ کی دعاؤں کے طفیل ہی مجھے یہ نئی نوکری ملی تھی۔
میری ملاقات ایک اَور نوجوان خادم عدیل ظفر صاحب(عمر۳۰؍سال)سے ہوئی جو حفاظت خاص کی سیکیورٹی ٹیم کے ممبر تھے۔ عدیل صاحب نے بتایا کہ میں جذبات سے مغلوب اور سخت حیران ہوں کہ حضورِانور کو یاد تھا کہ میں کون ہوں۔ حضور کوکسی کے بارے علم ہونا دنیا کا سب سے بہترین احساس ہے۔ ہم کس قدر خوش نصیب ہیں کہ خلیفۂ وقت ہمیں اپنے ساتھ ایک ذاتی تعلق رکھنے دیتے ہیں۔
خدام پر حضورِانور کے دورہ کے اثرات کے متعلق عدیل صاحب نے بتایا کہ گذشتہ چند دنوں میں مَیں نے اپنے خدام کے رویے میں نمایاں تبدیلی دیکھی۔میں نے کئی خدام سے بات کی جن میں سے بعض جماعت سے دور ہورہے تھےاور ان سب نے بتایا کہ وہ حضورِانور کی عاجزی کو دیکھ کر کس طرح جذبات سے مغلوب ہوگئے ہیں اور یہ کہ آپ نے ان سے کس قدر محبت سے گفتگو فرمائی۔ حضورِانور کا مقام کس قدر بلند ہے مگر آپ میں تکبر یا تفاخر کا شائبہ تک نہیں اور یہی چیز آپ کے وجود کومنفرد بناتی ہے۔
(مترجم:’ابو سلطان‘ معاونت :مظفرہ ثروت)