احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
(گذشتہ سے پیوستہ)دونوں اشتہارات کی عبارتیں پیش کرتاہوں کہ کیسے وہ ان خیالات کی تردیدکرتی ہیں:
۱۔ مسجدکی شرقی طرف جیساکہ احادیث رسول اللہﷺ کامنشاء ہے ایک نہایت اونچامنارہ بنایاجائے۔(خطبہ الہامیہ صفحہ ب،روحانی خزائن جلد۱۶ صفحہ۱۶)
۲۔ یہ منارہ مسیح موعودکے احقاق حق اور صَرف ہمت اور اتمام حجت اور اعلاء ملت کی جسمانی طورپرتصویرہے۔(خطبہ الہامیہ صفحہ ث،روحانی خزائن جلد۱۶ صفحہ۲۰حاشیہ)
۳۔ یہ منارہ اس لیے طیارکیاجاتاہے کہ تاحدیث کے موافق مسیح موعودکے زمانہ کی یادگارہو۔(خطبہ الہامیہ صفحہ ث،روحانی خزائن جلد۱۶ صفحہ۲۰)
۴۔ یہ منارہ وہ منارہ ہے جس کی ضرورت احادیث نبویہؐ میں تسلیم کی گئی۔(خطبہ الہامیہ صفحہ ذ،روحانی خزائن جلد۱۶ صفحہ۲۸)
۵۔ جودوست اس منارہ کی تعمیرکے لیے مددکریں گے… وہ ایک بھاری خدمت کوانجام دیں گے۔(خطبہ الہامیہ صفحہ ذ،روحانی خزائن جلد۱۶ صفحہ۲۸)
۶۔ کاش ان کے دل سمجھیں کہ ا س کام کی خداکے نزدیک کس قدرعظمت ہے۔(خطبہ الہامیہ صفحہ ذ،روحانی خزائن جلد۱۶ صفحہ۲۸)
۷۔ جس خدانے منارہ کاحکم دیاہے۔اس نے اس بات کی طرف اشارہ کردیاہے کہ اسلام کی مردہ حالت میں اسی جگہ سے زندگی کی روح پھونکی جائے گی اور یہ فتح نمایاں کامیدان ہوگا۔(خطبہ الہامیہ صفحہ ذ،روحانی خزائن جلد۱۶ صفحہ۲۸)
۸۔ یہ منارۃ المسیح کیاچیزہے اوراس کی کیا ضرورت ہے۔ سوواضح ہوکہ ہمارے سید و مولیٰ خیرالاصفیاءخاتم الانبیاء سیدنامحمدمصطفیٰﷺکی یہ پیشگوئی ہے…(مجموعہ اشتہارات جلد ۳صفحہ۳۱۵)
۹۔ اس پیشگوئی کے پورا کرنے کے لئے دو مرتبہ اسلام میں کوشش کی گئی۔مگرخداتعالیٰ کی قضاوقدرسے…آگ لگ گئی…غرض دونوں مرتبہ مسلمانوں کواس قصدمیں ناکامی رہی۔(مجموعہ اشتہارات جلد۳صفحہ۳۱۵۔۳۱۶)
۱۰۔ اوراس کاسبب یہی تھاکہ خداتعالیٰ کاارادہ تھاکہ قادیان میں منارہ بنے کیونکہ مسیح موعودکے نزول کی یہی جگہ ہے۔(مجموعہ اشتہارات جلد۳صفحہ۳۱۶)
۱۱۔ سواب یہ تیسری مرتبہ ہے اور خداتعالیٰ نے آپ لوگوں کوموقع دیاہے کہ اس ثواب کوحاصل کریں۔جوشخص اس ثوا ب کوحاصل کرے گا وہ خداتعالیٰ کےنزدیک ہمارے انصارمیں سے ہوگا۔(مجموعہ اشتہارات جلد۳صفحہ۳۱۶)
۱۲۔ بعض نادان مولویوں نےاعتراض کیا ہے کہ منارہ پر روپیہ خرچ کرنا اسراف ہے۔…ہمیں تعجب ہے کہ ایسی گستاخی کی باتیں زبان پرلانے والے پھربھی مسلمان کہلاتے ہیں۔(مجموعہ اشتہارات جلد۳صفحہ۳۱۶،حاشیہ)
۱۳۔ اس منارہ کے بنانے سے اصل غرض یہ ہے کہ تا پیغمبرخدا ﷺکی پیشگوئی پوری ہوجائے۔(مجموعہ اشتہارات جلد۳صفحہ۳۱۶،حاشیہ)
۱۴۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ مولوی نہیں چاہتے کہ آنحضرت ﷺکی کوئی پیشگوئی پوری ہو۔(مجموعہ اشتہارات جلد۳صفحہ۳۱۶،حاشیہ)
۱۵۔ اگرقادیان کے منارہ پرراضی نہیں توچاہیئے کہ دمشق میں جاکرمنارہ بناویں۔(مجموعہ اشتہارات جلد۳صفحہ۳۱۶،حاشیہ)
۱۶۔ ہرایک ان میں سے کم سے کم ایک سوروپیہ اس عظیم الشان کام کے لیے پیش کرے۔(مجموعہ اشتہارات جلد۳صفحہ۳۱۷)
۱۷۔ مسیح موعودکے لئے دوپیشگوئیاں تھیں۔ایک پیشگوئی آسمان کے متعلق تھی…جس میں انسانی ہاتھوں کا دخل نہ تھا…[یعنی کسوف و خسوف] دوسری پیشگوئی زمین کے متعلق تھی جو مسیح کے نازل ہونے کی نشانی تھی اور وہ یہ کہ دمشق سے شرقی طرف ایک سفید منارہ انسانی ہاتھوں سے طیار ہونا۔(مجموعہ اشتہارات جلد۳صفحہ۳۱۸)
۱۸۔ابتداء سے یہ مقدرہے کہ حقیقت مسیحیہ کا نزول جونوراور یقین کے رنگ میں دلوں کوخداکی طرف پھیرے گا منارہ کی طیاری کے بعدہوگا۔(مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۳۱۹)
۱۹۔ خدا کے بعض جسمانی کام اپنے اندرروحانی اسرار رکھتے ہیں۔(مجموعہ اشتہارات جلد۳صفحہ۳۱۹)
۲۰۔ پس جیساکہ توریت کے روسے صلیب پرچڑھنے والا لعنت سے حصہ لیتاتھا ایساہی منارۃ المسیح پرصدق اور ایمان سے چڑھنے والا رحمت سے حصہ لے گا۔(مجموعہ اشتہارات جلد۳صفحہ۳۱۹)
۲۱۔ اسی زمانہ میں جبکہ منارہ طیارہوجائے گا مسیحی برکات کا زوروشورسے ظہور و بروزہوگا۔(مجموعہ اشتہارات جلد۳صفحہ۳۱۹)
۲۲۔لوگ اس عظیم الشان سعادت سے حصہ لیں گے …(مجموعہ اشتہارات جلد۳صفحہ۳۱۹)
قارئین کرام!یہ مذکورہ بالادودرجن کے قریب نکات وہ ہیں کہ جوحضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے اپنے دست مبارک سے لکھے گئے صرف دو اشتہارات سے لئے گئے ہیں۔ ان کوپڑھ کرکون کہہ سکتاہے کہ اینٹ اورپتھرکامینارتوکچھ معنی نہیں رکھتا اورنہ ہی حضوراقدسؑ ایساچاہتے تھے۔اورنہ ہی احادیث اس خیال کی تائیدکرتی ہیں۔حق تویہ ہے کہ تمام تراحادیث کودرج کرتے ہوئے حضرت اقدسؑ یہ تحریر فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کامنشائے مبارک ہی یہ تھا کہ مسیح موعودجہاں مبعوث ہوگا اس کے قریب ہی ایک منارہ بھی ہوگا۔اور یہ کہ امت مسلمہ نے اس ظاہری منارہ کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے دومرتبہ میناربھی بنائے لیکن مشیت ایزدی ان کے ساتھ نہ تھی کیونکہ وہ جگہ جہاں منارہ بنایاگیا وہ مسیح موعودؑکی جائے نزول نہ تھی اس لیے قضاء و قدرسے وہ جلادیئے گئے۔اب اگرنبی اکرمﷺ کی منشائے مبارک اور پیشگوئی ایسے ظاہری منارکی بابت تھی ہی نہیں تو حضورؑ یہ فرماتے کہ امت مسلمہ کے ان لوگوں کی غلطی تھی وہ ان احادیث مبارکہ کے منشاء کوہی نہیں سمجھے کہ کوئی ظاہری مینارمقصودنہ تھا۔جبکہ حضورؑ اس کی بجائے یہ لکھتے ہیں کہ وہ جگہ وہ نہیں تھی کہ جہاں مسیح موعودؑ کوآناتھا۔اس لیے ان جگہوں کے مینارزمین بوس کردیئے گئے۔پھران تحریرات میں آپؑ اس منارکی تعمیرکی ضرورت اور اہمیت اور افادیت تفصیل سے بیان کرتے ہوئے اس کام کوایک عظیم الشان کام قراردیتے ہوئے ان لوگوں کی سعادت اور نصیبے کی خوشخبری دیتے ہیں کہ جواس کی تعمیرمیں حصہ لیں گے۔پھراس کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ یہ خداکے حکم سے بنا رہا ہوں۔ ایک روایت میں تویہ بھی ہے کہ حضور ؑنے کاغذ پر نقشہ مینار کھینچا اور فرمایا کہ ’’ مجھے خدا نے فرمایا ہے کہ اِس قِسم کا مینار تم تیار کراؤ۔‘‘(رجسٹر روایاتِ صحابہؓ(غیر مطبوعہ)رجسٹر نمبر۷صفحہ ۳۴۵) پھر اس مینارکی تعمیرپراعتراض کرنے والوں کوگستاخ قراردیتے ہیں اور ایسے ناخلف اور بدنصیب قراردیتے ہیں کہ جوچاہتے ہی نہیں کہ آنحضرتﷺ کی پیشگوئی پوری ہو۔ سوال تویہ ہے کہ حضورؑ توفرمارہے ہیں کہ مجھے خدانے یہ میناربنانے کاحکم دیاہے۔اور ۱۹۰۵ء کے بدرمیں ایک بار پھراشتہارشائع ہوتاہے کہ مینارکی تعمیرکے لیے مزیدچندہ بھیجاجائے۔لیکن ’’مجدداعظم‘‘کے مصنف یہ کہہ رہے ہیں کہ کوئی اشارۂ غیبی اورالقائے ربانی تھاکہ جس کی بنا پرآپؑ کومینارکی تعمیرسے روکا گیاتھا۔یہ کون سا اشارہ غیبی تھا کہ جوآج تک صرف انہی مصنف کے علم میں آیاہے؟اورظاہرہے کہ یہ ایک مفروضہ ہے جومصنف کے اپنے ذہن کی ایک اختراع ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں تھی۔ اس مینارکوبننا تھاکہ خداکے حکم سے اس کوبنایاجارہاتھا۔حضرت محمدمصطفیٰ ﷺکی پیشگوئی تھی کہ میرامہدی اور مسیح جس جگہ ہوگا اس کی نشانی یہ ہے کہ وہاں ایک سفیدمنارہ ہو گا۔ آج تک جومیناربھی اس پیشگوئی کوپوراکرنے کے لیے بنایاگیاوہ جلاکرراکھ کردیاگیا لیکن یہ وہ منارہ تھا کہ جس نے خودبن کرحاسدین ومخالفین کوجلاکرراکھ کردیا۔اس مینار کومسیح موعودؑکے زمانۂ مبارک کی یادگار قراردیاگیاتھا۔اس لیے اس یادگارنے بنناہی تھا اور بدقسمتی ہے اس گروہ کی کہ جوان تمام مقدس ومتبرک یادگاروں سے محروم ہی ہوتا چلا گیا۔سب سے پہلے وہ اس مقدس بستی سے محروم ہواکہ جواس کے رسول کا تخت گاہ تھا۔(دافع البلاء صفحہ ۱۰،روحانی خزائن جلد۱۸صفحہ۲۳۰)۔ اس جنت نظیرقادیان کے ماحول سے محروم ہوئے تو اس بہشتی مقبرہ سے بھی محروم ہوگئے کہ جو خداکی وحی میں مثل الجنۃ قراردیاگیااور جسے خدانے فرمایا کہ کُلُّ مَقَابِرِ الْاَرْضِ لَاتُقَابِلُ ھٰذِہِ الْاَرْضَ،وہ گروہ ان برکات سے بھی محروم ہوگیا جواس مینارکی تعمیرکے ساتھ وابستہ تھیں جن کاظہورمینارکے بننے کے بعد سے شروع ہوناتھاوہ مینارکہ جس پر صدق نیت سے چڑھنے والے کے لیے خداکے مسیح نے رحمتوں کی نویدسنائی تھی۔ قادیان کے جن گلی کوچوں کے ذروں نےمسیحا کے قدم چومے تھے اس خاک سے محروم ہونے والے کہیں کے بھی نہیں رہے۔
بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو
جو تیرے آستاں سے اٹھتا ہے
خداکاوہ مسیح جوچودہ سو سال کے انتظارکے بعد آیا اس نے اپنی تمام تربرکات کواس مینارکے ساتھ وابستہ کردیاتھا۔ اس لیے اس مینارکوتوبنناہی تھا کیونکہ خداکے مسیح نے اس کے بارہ میں یہ کہاتھاکہ ’’ابتداء سے یہ مقدرہے کہ حقیقت مسیحیہ کانزول جونوراور یقین کے رنگ میں دلوں کوخداکی طرف پھیرے گا منارہ کی طیاری کے بعدہوگا… اسی زمانہ میں جبکہ منارہ طیارہوجائے گا مسیحی برکات کازوروشورسے ظہوروبروزہوگا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد۲صفحہ۴۲۵-۴۲۶)
جولوگ اس مینارسے ہی منکرہیں،جواس کواینٹ پتھرکی ایک تعمیرقراردے رہے ہیں وہ ان برکات کے وارث کیسے بن سکتے ہیں۔اور قادیان کوچھوڑکرچلے جانے والے کون سی روح ساتھ لے کرگئے۔قادیان کے منارۃ المسیح کی برکات، اس کی روشنی،اس کا نور دنیابھرکے دوسوسے زائدممالک میں پھیل رہاہے۔مسیح موعودؑ کی یہ تمام تربرکات اور فیوض اسی محمودخلیفہ کے ذریعہ سے دنیامیں پھیلنی شروع ہوئیں جس نے خلیفۃ المسیح بنتے ہی سب سے پہلے منارۃ المسیح کی تعمیرکومکمل کیا۔اور اس تعمیروتکمیل نے ثابت کردیا کہ خداکے اس بھیجے ہوئے فرستادے اور رسول کاجانشین یہ محمودہی تھا کہ خداکے مامورکے بتائے ہوئے اور چھوڑے ہوئے کام اس کے ہاتھوں سے مکمل کروائے کہ اب خداکی فعلی تائید بھی اس کے ساتھ ہے جیساکہ قولی تائیدونصرت۔
اصل بات یہ ہے کہ ہرکام کے لیے ایک وقت مقدرہواکرتاہے۔اوروہ اپنے وقت پرہی ہوتاہے۔ اوراس خدا کی باتوں کے رازکوئی پابھی نہیں سکتا۔بہت سے کام وہ علیم و حکیم خدااپنے رسولوں کے ہاتھ سے شروع کرواتاہے لیکن کبھی ان کی تکمیل ان کی زندگیوں میں ہونہیں پاتی۔نبی اکرمﷺ کوقیصروکسریٰ کے محلات کی چابیاں عطا کی گئیں لیکن اس کی تکمیل آپؐ کی وفات کے بعد خلافت ثانیہ میں ہی ہوئی۔ کچھ ایسی ہی تاریخ سلسلہ احمدیہ میں بھی دہرائی گئی۔ تصنیف و تالیف ہویاتجویزوتعمیر بہت سے کام ایسے تھے جوخداکے اس مسیح نے تجویزفرمائے یاشروع فرمائے لیکن ان کی تعمیل و تکمیل مَثِیْلُہٗ وَ خَلِیْفَتُہٗکے ذریعہ ہوئی۔ (الموعود،انوارالعلوم جلد ۱۷صفحہ۵۵۸) جوکہ حسن واحسان میں اس کانظیربھی تھا۔اوراس کی ایک مثال یہ منارۃ المسیح بھی ہے کہ جو۱۹۰۳ء میں شروع توہوگیا لیکن اس کی تعمیرمیں التوا ہوگیا۔
(باقی آئندہ)