وہ سنگِ در کہ گراں تر زِ سنگِ مرمر ہے
خدا کے فضل کا سایہ ہمارے سر پر ہے
جو سائبانِ خلافت ہمیں میسّر ہے
اُسی وجود کی خُوشبو ہے میری نَس نَس میں
اُسی سے روح معطر، بدن معطر ہے
وہ آستاں کہ نثار اس پہ لاکھ تاج محل
وہ سنگِ در کہ گراں تر زِ سنگِ مرمر ہے
نہ انتہا ہے کرم کی، نہ حدّ جود و سخا
وجود اُس کا عجب بے کراں سمندر ہے
اُسے ملے تو لگا کائنات تھم سی گئی
زباں کلام سے عاجز ہے آنکھ پتھر ہے
اُسے جو دیکھے تو پھر دیکھتا ہی رہ جائے
وہ ہر نگاہ کا مرکز، دِلوں کا محور ہے
علاج ہے وہ مری روح کی اُداسی کا
ذرا سا لَمس بھی تریاق کے برابر ہے
ہر ایک حکم ہے معروف، ہر ادا دستور
رواج و رسم و طریقت میں سب سے بہتر ہے
نِصاب وہ ہے محبت کے اس دبِستاں کا
ورق ورق پہ لکھا ہے حسین پیکر ہے
سَحاب جُود و کرم اب ذرا یہاں بھی بَرس
مری زمیں پہ اتر یہ زمین بنجر ہے
کوئی صَدا ہے لبوں پر نہ کوئی حرف نیاز
شکستہ حال کھڑا بے نوا گداگر ہے
رضائے یار مرا عمر بھر کا سرمایہ
تمام دِرہم و دینار سے بھی بڑھ کر ہے
وہ خواب تھا کہ حقیقت تھی اب نہیں معلوم
دل و نگہ میں ٹھہر سا گیا جو منظر ہے
اسے بتا تو دیا ہے وفورِ الفت کا
وہ عکس کیسے دکھائیں جو دل کے اندر ہے
مرے خدا یہ محبت ہے صرف تیری عطا
کہ بھولنا جسے اِمکان سے بھی باہر ہے
(فرید احمد نوید۔گھانا)