آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات کا اعلیٰ معیار
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۸؍ فروری ۲۰۰۵ء)
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی:
اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیۡلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطۡاً وَّ اَقۡوَمُ قِیۡلًا(المزمل :7)
پھر فرمایا:اس آیت کا ترجمہ ہے کہ رات کا اٹھنا یقیناً نفس کو پاؤں تلے کچلنے کے لئے زیادہ شدید اور قول کے لحاظ سے زیادہ مضبوط ہے۔
یہ وہ قرآنی حکم ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور آپؐ نے اس کا حق ادا کر دیا بلکہ دعویٰ سے پہلے بھی، نبوت سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ کی تلاش میں اسی طرح اعتکاف کیا کرتے تھے۔ اپنی راتوں کو آرام میں یا کسی شوق میں گزارنے کی بجائے عبادتوں میں گزارتے تھے۔ راتوں کی عبادت جب رات گہری ہو، ہر طرف خاموشی ہو، بندے اور خدا کے درمیان کسی قسم کی روک ڈالنے والی چیز نہ ہو، بندے اور اللہ کے درمیان راز و نیاز میں کوئی چیز روک نہ بنے، اس وقت جو اللہ کی عبادت کرنے والے ہوتے ہیں وہ یقیناً اللہ کا قرب پانے والے اور اس کا پیار حاصل کرنے والے ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ خالصتاً اللہ کے قرب کے لئے یہ عبادت بجا لا رہے ہوتے ہیں۔ تبھی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس طرح رات کو اٹھنا اپنے نفس کو پاؤں تلے کچلنے کے برابر ہے۔ بلکہ یہ شیطان کو ختم کرنے اور اپنے نفس پر قابو پانے کا ایسا زبردست حربہ ہے کہ اس کا مقابلہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ اس وقت کے عہد و پیمان اتنےپکّے اور مضبوط ہوتے ہیں کہ ان کو توڑنا ممکن نہیں ہوتا۔ شیطان کی ملونی اس میں ہو ہی نہیں سکتی۔ گویا اللہ تعالیٰ کا خالص بندہ بننے اور اپنے نفس کو ہلا ک کرنے کا اس سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں کہ رات کو اٹھ کر عبادت کی جائے۔ اور یہ عبادت کے اعلیٰ معیار ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے بڑھ کر حاصل کئے۔ بلکہ آپؐ کی قوت قدسی نے صحابہ میں اور امت میں بھی راتوں کو عبادت کے لئے اٹھنے والے پیدا کئے۔
جس سورت کی آیت میں نے پڑھی ہے اس سورت کے آخر میں ہی اللہ تعالیٰ تصدیق فرماتا ہے کہ یقیناً اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ رات کے دو تہائی حصے میں یا آدھے حصے میں یا وقت کے لحاظ سے تیسرے حصے میں توُ نے عبادت کے اعلیٰ معیار قائم کر دئیے، حق ادا کر دئیے۔ ان کی اللہ گواہی دیتا ہے۔ بلکہ ان لوگوں کی بھی گواہی دیتا ہے جو آپؐ کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں۔ ان حکموں پر عمل کرنے کے لئے بے چین رہتے ہیں۔ تو یہ ہے اللہ تعالیٰ کی گواہی اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہ جو ہدایت کی گئی تھی کہ عبادت کے لئے اُٹھ اور ان اندھیری راتوں کی دعاؤں میں اپنے آپ کو بھی مضبوط کر اور اپنی امت کے لئے بھی حصار بن جا۔ اس پر نہ صرف پورا اترا بلکہ اعلیٰ ترین معیار قائم کئے، حق ادا کر دیا۔ دوسری جگہ اس کی ایک اس طرح بھی گواہی ملتی ہے۔ فرماتا ہے کہ
الَّذِیۡ یَرٰٮکَ حِیۡنَ تَقُوۡمُ۔وَ تَقَلُّبَکَ فِی السّٰجِدِیۡنَ (الشعراء:219۔220)یعنی جو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ جب تو کھڑا ہوتا ہے۔ اور سجدہ کرنے والوں میں تیری بے قراری کو بھی۔ پس جس کو خداتعالیٰ یہ سند دے دے کہ تمام سجدہ کرنے والوں میں تیرے جیسا بے قرار سجدہ کرنے والا کوئی نہیں۔ جب تو کھڑا ہوتا ہے تو تیرا کھڑا ہونا عبادت کے لئے بھی خداتعالیٰ کی خاطر ہے، عبادت کے لئے ہے۔ اور جب تیرا سجدہ ہوتا ہے تو وہ بھی خدا اور صرف خدا کے لئے ہے۔ اس کے آگے جھکنے کے لئے ہے۔ اس کا رحم حاصل کرنے کے لئے ہے۔ اپنے لئے بھی اور اپنی امت کے لئے بھی۔ تو ایسے شخص کے بارے میں کون کہہ سکتا ہے کہ وہ دنیاوی لذات کے پیچھے چلنے والا تھا یا ہو سکتا ہے۔
لیکن دنیا میں ایسے لوگ پیدا ہوتے آئے ہیں اور آج کل بھی ایسے پیدا ہو رہے ہیں جو اسلام دشمنی میں خود یا نام نہاد مسلمانوں کو خرید کر، لالچ دے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر گھٹیا اور بیہودہ الزام لگاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو وہ جاہل، اُجڈ اور مشرک لوگ، اس عظیم نبی کی قوت قدسی اور دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے بنتے نظر نہیں آتے۔ لیکن جو لوگ بغض اور کینے اور دشمنی میں اس حد تک چلے جائیں جن کی انصاف اور دین کی آنکھ کام نہ کرتی ہو، اس لحاظ سے بالکل اندھے ہوں، جن کے دل سیاہ ہوں جو خود غلاظت میں پڑے ہوئے ہوں۔ وہ جب بھی دیکھیں گے، اپنی اسی نظر سے دیکھیں گے۔ وہ جب بھی دیکھیں گے ان کو اپنا اندرونہ ہی نظر آ رہا ہو گا۔ اور صاف اور شفاف شیشہ وہی کچھ دکھاتا ہے جیسی کسی کی شکل ہو، جیسا کسی کا رنگ ہو۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شفاف آئینے میں یہ لوگ جب دیکھیں گے تو ان کو اصل میں تو اپنا آپ نظر آ رہا ہو گا۔ نہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر، آپؐ کا حسین چہرہ۔ آپؐ کا حسین چہرہ دیکھنے کے لئے تو پاک دل ہونا ضروری ہے۔ انصاف کے تقاضے پورے کرنے ضروری ہیں۔ خدا کا خوف ضروری ہے، دلوں کے زنگ دور ہونے ضروری ہیں، پھر اس حسین چہرے کی پہچان ہو سکتی ہے۔ بہرحال جیسا کہ میں نے کہا ایسے لوگ جو اسلام کو یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ اپنے زعم میں بدنام کرنے کے لئے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں۔ اور ایسی ایسی بیہودہ گوئیاں کر رہے ہوتے ہیں جنہیں کوئی بھی شریف آدمی پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا۔ اور یہ لوگ اپنے زعم میں بڑے پڑھے لکھے ہونے اور آزاد خیال ہونے کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ دنیا کے سامنے اپنے خیال میں اسلام اور بانی ٔاسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حقائق بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ اصل میں یہ ایسے لوگ ہیں جن کا اپنا چہرہ ان بیہودہ گوئیوں سے ظاہر ہو رہا ہوتا ہے۔