آسٹریلیا۔ ایک تعارف
براعظم آسٹریلیا کو دنیا کے دیگر براعظم اور ممالک کے مقابلے میں غیر معمولی امتیاز حاصل ہے۔جزیرہ کی شکل میں واحد براعظم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے جنوبی نصف کرہ ارض پر موجود ہونے اور خط استوا کے نیچے واقع ممالک کے نیچے واقع ہونے کے باعث Down Underکے منفرد نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔آسٹریلیا سب سے چھوٹا براعظم ہونے کے باوجود دنیا کا چھٹا بڑا ملک شمار کیا جاتا ہے مگر اس کی دنیا کے کسی بھی ملک سے سرحدیں نہیں ملتیں۔بحرہند اور جنوبی بحر الکاہل کے درمیان چھہتر لاکھ چھیاسی ہزار آٹھ سو پچاس مربع میل پر مشتمل یہ وسیع و عریض ملک انگلینڈ سے تقر یباً بتیس گنا بڑا ہے۔اس کا زمینی علاقہ اٹھانوے فیصد سے زائد اور اس کی ساحلی پٹی انسٹھ ہزار چھ سو اکیاسی کلو میٹر پر محیط ہے۔ آسٹریلیا کا سب سے بڑا دریا Murrayدو ہزار تین سوپچھتر کلومیٹر اور سب سے بڑی جھیل نو ہزار پانچ کلومیٹر طویل ہے۔
آسٹریلیا کے قدیم باشندے
کہا جاتا ہے کہ آسٹریلیا کے قدیم باشندےیہاں پینسٹھ ہزار سال قبل افریقہ سے سمندر کے راستے جنوب مشرقی ایشیا سے ہوتے ہوئے آکر آباد ہوئے اور یوں وہ دنیا میں موجودہ قدیم ترین باشندوں کی نسل شمار ہوتے ہیں اور ان کا کلچر دنیا کی تاریخ میں دنیا میں پایا جانے والا قدیم ترین کلچر ہے۔ آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کا دعویٰ ہے کہ وہ آسٹریلیا میں دنیا کے آغاز سے ہی آباد ہیں جیسا کہ ان کے آباؤاجداد ان سے سینہ بہ سینہ بیان کرتے آئے ہیں۔
حضرت مسیح موعود ؑنے آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کے حوالے سے فرمایا: ’’ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں اور نہ ہی اس مسئلہ میں ہم توریت کی پیروی کرتے ہیں کہ چھ سات ہزار سال سے ہی جب سے یہ آدم پیدا ہوا تھا اس دنیا کا آغاز ہوا ہے… اور نہ ہی ہم اس بات کے مدعی ہیں کہ یہ تمام نسلِ انسانی جو اس وقت دنیا کے مختلف حصوں میں موجود ہے یہ اسی آ خری آدم کی نسل ہے۔ہم تو اس آدم سے پہلے بھی نسلِ انسانی کے قائل ہیں…پس امریکہ اور آسٹریلیا وغیرہ کے لوگوں کے متعلق ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اس آخری آدم کی اولاد میں سے ہیں یا کہ کسی دوسرے آدم کی اولاد میں سے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد ۱۰صفحہ ۴۳۲،ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کا سب سے اہم امتیاز ایک خدا کا تصور اور کائنات کی تخلیق کرنے والی ایک بالا ہستی پر ایمان ہے۔مذہبی تاریخ کے اس اہم ترین نکتہ کا پہلی مرتبہ انکشاف حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیفRevelation, Rationality, Knowledge and Truth میں ان الفاظ میں فرمایا۔
آسٹریلیا کے قدیم باشندوں میں خدا تعالیٰ کا تصور
’’اب ہم آسٹریلیا کے قدیم مذاہب کے حوالہ سے ماہرین عمرانیات کے اس نقطۂ نظر کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں کہ کیا واقعۃًخدا کا تصور بتدریج پروان چڑھا ہے؟ یہ جائزہ ان ماہرین کے طرزِ تحقیق میں موجود غلطیوں کو اور بھی واضح کردے گا۔یہ لوگ تحقیق شروع کرنے سے پہلے ہی یہ مفروضہ قائم کر لیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔کیا کوئی انصاف پسند شخص ایسی تحقیق کو سائنسی تحقیق کہہ سکتا ہےکہ جس کے نتائج کا فیصلہ تحقیق کےشروع ہونے سے پہلے ہی کر لیاجائے؟یہ اندرونی تضاد اس وقت اور بھی نمایاں ہو جاتا ہےجب ان ماہرین عمرانیات کو آسٹریلیا سے ملنے والے ناقابلِ تردید شواہد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔…
براعظم آسٹریلیا صرف اس لیے منفرد نہیں کہ یہ باقی دنیا سے کٹا ہوا تھا بلکہ اسی لیے بھی منفرد حیثیت کا حامل ہے کہ اس میں سینکڑوں قبائل پر مشتمل ایسے معاشرتی جزیرے تھے جو ایک دوسرے سے بالکل الگ تھلگ تھے۔امرِ واقعہ یہ ہے کہ یہاں پانچ سو سے چھ سو تک ایسے قبائل تھے جن کے مذہبی اور معاشرتی ارتقا ءکی اپنی اپنی آزادانہ تاریخ تھی جو پچیس سے چالیس ہزار سال پر محیط ہے۔اس دوران سوائے چند سرسری سرحدی رابطوں کے وہ ایک دوسرے سے بالکل الگ رہے۔
یہ رابطے نہ صرف مختصر تھے بلکہ ایک دوسرے کے نظریات،عقائد،روایات اور توہمات کی منتقلی کے لحاظ سے بھی غیر مؤثر تھے۔صرف زبانوں کا اختلاف ہی اس راہ میں حائل نہیں تھا بلکہ یہ لوگ روایتاًدوسروں سے میل جول اور روابط کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ اور یوں ایک دوسرے کو معلومات بہم پہنچانے کے رستہ میں ناقابلِ عبور رکاوٹیں حائل ہو گئی تھیں۔
اگر ماہرینِ عمرانیات کا نقطۂ نظر جو ہستیٔ باری تعالیٰ کے انکار سے شروع ہوتا ہےاپنے اندر کوئی وزن رکھتا تو مظاہر قدرت کی پرستش سے خدائے واحد پر ایمان میں تبدیل ہونے والا آفاقی رجحان تمام قدیم آسٹریلوی قبائل میں بھی نظر آتا۔ لیکن وہاں حقائق کو اس کے برعکس دیکھ کر ماہرینِ عمرانیات جھنجھلاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
آسٹریلیا کے تمام قبائل بلااستثنا تمام کائنات کی تخلیق کرنے والی ایک بالاہستی پر ایمان رکھتے ہیں۔…
ماہرینِ عمرانیات کو آسٹریلیا میں کہیں بھی خدا کے تصور کے تدریجی ارتقاء کے شواہد نہیں ملے۔…(قدیم آسٹریلوی قبائل) کے نزدیک خدا تعالیٰ خوابوں کے ذریعے اپنے بندوں سے ہم کلام ہوتا ہے۔ خوابوں کے ذریعے انہیں اپنی زندگی کے بہت سے اہم واقعات پر قبل از وقت اطلاع دی جاتی ہے۔ان کے ہاں مذہبی راہنماؤں کا باقاعدہ ایک درجہ بہ درجہ نظام موجود ہے جو تعبیر الرؤیا کا علم رکھنے والوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ رہنما نہ تو بیرونی لوگوں سے کوئی رابطہ رکھتے ہیں اور نہ ہی غیر قوم کے کسی شخص کو ان تک رسائی ہوتی ہے۔‘‘(الہام، عقل، علم اور سچائی صفحہ ۱۸۹تا۱۹۵)
آسٹریلیا کے قدیم باشندے کی اصطلاح دو بڑے گروپس کے لیے مستعمل ہے۔پہلا وہ جو آسٹریلیا اور ارد گرد میں اصل میں ابتدا ہی سے بودوباش رکھتے تھے۔دوسرا گروہ وہ جن کو Torres Straitجزیروں کے رہنے والے کہا جاتا ہے۔یہ لوگ آسٹریلیا اور پاپوا نیوگنی کے درمیان واقع جزیروں میں آباد تھے۔ان دونوں کے علیحدہ علیحدہ کلچر یعنی طرزِ معاشرت، زبانیں اورخیالات تھے۔ایک وقت تھا کہ آسٹریلیا میں پانچ سو سے زائد قدیم اقوام موجود تھیں جو گھٹتے گھٹتے ۱۴۵کے قریب باقی رہ گئی ہیں جن میں سے اکثر اقوام بھی مفقود ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔
ان دنوں میں آسٹریلیا کے قدیم باشندے آسٹریلیا کی کل آبادی کا۲.۸% ہیں اور ان کی سو سے زائد زبانیں ہیں جن میں بعض زبانیں تو صرف پچاس یا سو افراد ہی بول سکتے ہیں۔ ان لوگوں کو ۱۹۶۷ءمیں پہلی مرتبہ آسٹریلیا کا شہری تسلیم کیا گیا ہے۔
آسٹریلیا کا معاشرتی اور تاریخی مختصر تعارف
یہاں مذہبی لحاظ سے اکثریت عیسائی ہے۔ عیسائیت کے ماننے والے ۴۳.۹%، لادین ۳۸.۹%، مسلمان ۳.۲%، ہندو ۲.۷%، بدھ ۲.۴%، اور سکھ ۰.۸%ہیں۔ سرکاری زبان انگلش ہے جبکہ گھروں میں ۶۵.۵%لوگ انگلش، دیگر زبانیں ۲۹.۵%بولی جاتی ہیں۔ جن میں مینڈرین ۳.۸%، عربی ۲.۱%، پنجابی ۱.۲%، اور اردو۱.۱%ہے۔
آسٹریلیا میں ڈچ سیاح ولیم جان زون سب سے پہلے یورپی تھے جو ۱۶۰۶ء میں پہلی دفعہ کوئیز لینڈ اور پھر دوسری مرتبہ ۱۶۱۸ء میں ویسٹرن آسٹریلیا آئے۔ ۱۷۷۰ء میں کیپٹن کک نے پہلی دفعہ آسٹریلیا آ کر اسےتاج برطانیہ کے زیر تسلط کرنے کا ارادہ کیا۔ جس کے بعد ۱۷۸۸ء.۔۱.۔۲۶و کیپٹن آرتھ فلپ گیارہ کشتیوں کا بحری بیڑہ لے کر آسٹریلیا آیا اور یہاں مجرموں کو رکھنے کے لیے برطانوی کالونی کا قیام کیا۔ ۱۸۴۸ء تک آسٹریلیا کو صرف اسی مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔
آسٹریلین ۲۶؍ جنوری کو آسٹریلیا ڈے کے طور پر مناتے ہیں جبکہ قدیم باشندے اس دن کو Invasion Dayکے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
۱۸۵۱ء میں آسٹریلیا میں سونے کی دریافت کے بعد دیگر ممالک سے نقل مکانی کرنے والوں کا آغاز ہوا اور دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر بڑے پیمانے پر نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
۱۹۰۱ء۔ ۱۱؍جنوری کوآسٹریلیا کا دستور تشکیل دیا گیا اور آسٹریلیا میں موجود برطانوی کالونیز کوئیز لینڈ، نیوساؤتھ ویلیز، وکٹوریہ،تسمانیہ، ساؤتھ آسٹریلیا اور ویسٹرن آسٹریلیا کو یکجا کرکے کامن ویلتھ آسٹریلیا کا نام دیا گیا اور اس کے آٹھ ماہ بعد پارلیمنٹ پر آسٹریلیا کا پہلا جھنڈا لہرایا گیا۔ اس سے قبل صرف ساؤتھ آسٹریلیا اور ویسٹرن آسٹریلیا میں خواتین کو ووٹ دینے کا حق حاصل تھا۔ ۱۹۰۲ء میں سارے آسٹریلیا میں خواتین کو ووٹ دینے کا حق دے دیا گیا۔
آسٹریلیا کی تاریخ کا ایک اور اہم دن ۲۵؍ اپریل ۱۹۱۵ء ہے جب پہلی جنگ عظیم کے موقع پر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے فوجی دستے Anzac cove on Gallipoli ترکی میں اترے اور جن میں سے ۸۷۰۹ فوجی مارے گئے۔ اس دن کو آسٹریلیا میں قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔