منظوم شرائط بیعت
ہماری شرط بیعت ہے
کہ صدق دل سے اب ہم نے
اسی کا عہد ہے کرنا
کہ تا وقت دخول قبر
ہمیشہ شرک سے بچنا
اگرچہ کچھ بھی ہو جائے
اگرچہ جاں چلی جائے
بھلے نقصان ہو اپنا
یہی پہچان ہو اپنی
یہی پیمان ہو اپنا
زنا اور جھوٹ بدنظری
ہر اک فسق و فجور و ظلم
خیانت اور فسادوں سے
بغاوت کے طریقوں سے
ہمیشہ بچ نکلنا ہے
یہی اسلوب ہونا ہے
نفس تو جوش مارے گا
بھلے کیسا ہی جذبہ ہو
نہیں مغلوب ہونا ہے
ہمیں محبوب ہونا ہے
بلا ناغہ نمازیں ہوں
تہجد اور درود پاک
مسلسل کرتے رہنا ہے
گناہوں کی معافی کو
مسلسل گڑگڑانا ہے
کہ استغفار کرنا ہے
خدا کی حمد اور تعریف
روزانہ ہم پہ واجب ہے
کہ احساں اس کے وافر ہیں
بھلا ہم اس کے کافر ہیں
خلائق کو عموماً اور
ہر اک مسلم کو ترجیحاً
نہیں تکلیف دینی ہے
نہیں بے چین کرنا ہے
زباں سے ہاتھ سے ان کو
سدا محفوظ رکھنا ہے
بہت ملحوظ رکھنا ہے
انہیں سے لو لگانی ہے
انہیں دل میں بسانا ہے
انہیں اپنا بنانا ہے
بہر قیمت بہر حالت
بہر رنج و بہر راحت
ہو عسر و یسر کی صورت
بلا ہو یا کہ ہو نعمت
وفاداری نبھانی ہے
رضا اس کی جو پانی ہے
اسی کی راہ میں چل کر
ہر اک ذلت اٹھانی ہے
دکھوں پہ مسکرانا ہے
قدم آگے بڑھانا ہے
ہر اک رسم و روایت سے
ہوا و ہوس سے لوگو
خودی کو باز رکھنا ہے
قرآنی حکم کو سر پر
نبی کا قول ہر رہ میں
سدا تسلیم کرنا ہے
یہی تعلیم کرنا ہے
تکبر اور نخوت کو
بکلی چھوڑ دینا ہے
کہ عاجز بن کے رہنا ہے
حلیمی اور مسکینی
ہماری زندگی ہو گی
اسی میں ہم نے جینا ہے
یہی اپنا قرینہ ہے
ہمارے دین کی عزت
ہمارے دیں کی ہمدردی
ہماری جاں سے بڑھ کر ہو
ہمارے مال و عزت سے
ہماری ان اولادوں سے
ہمارے ان اعزاء سے
بہت زیادہ معزز ہو
سدا مشغول ہو جانا
بنی نوع کی محبت میں
جہاں تک بس چلا اپنا
جہاں تک ہو صلاحیت
خداداد اپنی طاقت سے
انہیں ہر فیض دینا ہے
مسیح پاک سے للہ
یہی عقد اخوت ہو
ہر اک معروف میں اس کی
اطاعت ہم پہ لازم ہو
مسیح پاک سے اپنی
محبت یوں مچلتی ہو
اخوت میں بدلتی ہو
کہ جیسے دنیوی رشتوں
تعلق خادمانہ میں
نظیر اس کی نہ ملتی ہو