جلسہ سالانہ کی یادیں
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس جلسہ کی بنیاد ۱۸۹۱ء میں رکھی اس کی شاخیں اب دنیا کے دور دراز کے ممالک تک پھیل چکی ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں ہر سال باقاعدگی سے جلسہ سالانہ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔اس میں مختلف اقوام اور ملکوں سے لاکھوں کی تعداد میں افراد جماعت شامل ہوتے ہیں۔ جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے لیے لوگ باقاعدہ تیاری کرتے ہیں خاص طور پر جلسہ سالانہ یو کے کےلیےکیونکہ اس میں پوری دنیا سے لوگ اس لیے شامل ہوتے ہیںکہ اس جلسہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بنفس نفیس شامل ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے کورونا کی وبا سے دنیا کو نکالا تو دوبارہ احباب جماعت کی ایک کثیر تعداد اجتماعات اور جلسوں میں شامل ہوسکتے ہیں۔ جلسہ کے موقع پربے شمار احمدیوں کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوتا اور خلیفہ وقت کی صحبت سے فیض اٹھانے کا موقع ملتا ہے۔
جلسہ کے مقاصد
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’اس جلسہ سے مدعا اور اصل مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کر لیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلّی جھک جائیں اور ان کے اندر خداتعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زُہد اور تقویٰ اور خدا تَرسی اور پرہیزگاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مؤاخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور اِنکسار اور تواضع اور راستبازی ان میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں۔‘‘ (شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد۶صفحہ۳۹۴)
جلسہ سالانہ بھی ایک بہت بڑا نشان ہے
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’جلسہ سالانہ بھی ایک بہت بڑا نشان ہے جو ہر سال ہمیں یہ بتاتا ہے کہ دیکھو خد اکی راستباز جماعت کس طرح اُٹھتی اور کامیاب ہوتی ہے اور اس کے مخالف کس طرح ناکام اور نامراد رہتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ قادیان میں ہر وقت ہی جلسہ ہوتا ہے اور ہر وقت ہی لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ پھر یہاں کچھ ہندوستان کے، کچھ پنجاب کے، کچھ افغانستان کے، کچھ بنگال کے، کچھ یورپ کے، کچھ عرب وغیرہ کے لوگ رہتے ہیں جو ہماری صداقت کی دلیل ہیں لیکن سالانہ اجتماع سے اس کے علاوہ اور بھی بہت سے نتائج حاصل ہوتے ہیں اور وہ یہ کہ جو کوئی خدا کے لئے کھڑا ہوتا ہے خدا اسے ضائع نہیں ہونے دیتا۔‘‘ (خطبات محمود جلد۴ صفحہ ۵۴۰)
مہمانوں کی عزت
حضرت مصلح موعودؓ مزید فرماتے ہیں:’’جو مہمان تمہارے پاس آئے ہیں ان کی خاطر تواضع میں لگ جاؤ… پس یہ مہمان خدا کے گھر اور خدا ہی کی آواز پر آئے ہیں کیونکہ مامور من اللہ کی آواز خدا ہی کی آواز ہوتی ہے۔ تم لوگ ان کی خبرگیری کرو۔ اگر تمہیں کسی سے تکلیف بھی پہنچ جائے تو اس کو برداشت کرو اور کسی کی ہتک کرنے کا خیال بھی دل میں نہ لائو۔ جو مہمان کی ہتک کرتا ہے وہ اپنی ہی ہتک کرتا ہے کیونکہ مہمان ا س کی عزت ہوتا ہے۔ پس اس سے احمق کون ہے جو اپنی عزت آپ برباد کرے یا اپنا گلا آپ ہی کاٹے۔ تم لوگ ہر طرح سے مہمانوں کی خاطر اور تواضع میں لگے رہو۔‘‘ (خطبات محمود جلد۴صفحہ۲۵۷۔۲۵۸)
تقویٰ میں ترقی
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ہر احمدی جو دنیا میں کسی بھی جگہ بسنے والاہے۔ جب اپنے ملک کے جلسہ سالانہ میں شریک ہوتا ہے یا اَب بعض ذرائع اور سہولتوں کی وجہ سے بعض احمدی جن کو اللہ تعالیٰ نے آسانی اور وسائل مہیا فرمائے ہوئے ہیں دوسرے ممالک کے جلسوں میں بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ ان سب شامل ہونے والوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جلسہ کے انعقاد کا جو مقصد تھا اسے پیش نظر ر کھنا چاہئے۔ اگر یہ مقصد پیش نظر نہیں، اگر جلسہ کے پروگراموں نے ایک احمدی کی روحانی اور اخلاقی حالت میں کوئی بہتری پیدا نہیں کی تو ایسے شامل ہونے والوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کراہت کا اظہار فرمایا ہے۔ اگر تقویٰ میں ترقی نہیں…تعداد بڑھنے سے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ آپؑ کی بعثت کا مقصد تو تب پورا ہوگا جب ہم تقویٰ میں ترقی کریں گے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ۳۱؍اگست ۲۰۰۷ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۱؍ستمبر ۲۰۰۷ء)
جلسہ کے اَیام میں ذکر الٰہی
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’میں احباب کو نصیحت کرتاہوں کہ ان دنوں خدا کی یاد میں کثرت سے مشغول رہیں اور دعاؤں میں خوب لگے رہیں اور اگر اپنے سلسلہ کے مبلغوں کی کامیابی کے لئے دعائیں کریں تو بہت مفید نتیجہ نکل سکتا ہے۔ پس تم لوگ جہاں اپنے نفس کے لئے دعائیں کرتے ہو وہاں مبلغین کے لئے کیوں نہیں کرتے؟ ان کے لئے بھی ضرور کرو اور یاد رکھو کہ جب ان کے لئے کرو گے تو وہ تمہارے اپنے لئے ہوں گی کیونکہ خدا تعالیٰ کہے گا کہ جب یہ میرے اُن بندوں کے لئے دعائیں کرتے ہیں جو میری راہ میں نکلے ہوئے ہیں تو میں اُن کے کام پورے کر دیتا ہوں۔ خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔ آمین‘‘ (خطاب جلسہ سالانہ، ۲۷؍دسمبر۱۹۱۹ء،انوار العلوم جلد۴ صفحہ۵۲۶)
ہمارے گھرانے میں جلسہ کا اہتمام
یہ محض اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ اس نے ہمیں ایسے گھرانے میں پیدا فرمایا جس میں صحابہ ؓحضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت چودھری محمد حیات صاحب رضی اللہ عنہ موجود تھے۔ ہمارے ابا جان چودھری احمد حیات صاحب (اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین) ہمیشہ پورے انتظام سے جلسہ سالانہ ربوہ میں شمولیت کا انتظام کرتے۔ ہم پورا سال جلسہ/ اجتماع کا انتظار کرتے۔ ابا جان شروع میں، جب ہم نے ہوش سنبھالا، میانوالی میں تھے۔ جلسے کی تیاری نومبر میں شروع ہو جاتی۔پانچ دنوں کے کپڑے اور سب افراد خانہ کے بستر باندھے جاتے۔ میانوالی سے ربوہ جاتے ہوئے ٹرین کی بوگیاں بک کروا لی جاتیں۔ ایک زنانہ بوگی میں ہم بچے اور خواتین ہوتیں ساتھ والی الگ بوگی میں مرد حضرات ہوتے جو کہ اکثر جب ٹرین کھڑی ہوتی تو جائزہ لینے آتے کہ سب خیریت ہے۔
سب خواتین لمبے سفر کے لیےگھر سے کچھ نہ کچھ تیار کرکے لاتیں اور کلوا جمیعاً کے طور پہ سب مل کر کھاتے۔ امی جان سپیشل نشاستے کی پنیاں بنا کر لاتیں۔ اس کے علاوہ امی جان اکثر ایک سپیشل مصالحے دار فش فرائی کرکے لاتی تھیں جو کہ سب لجنہ ممبرات کو بہت پسند آتی۔ طویل سفر خدا تعالیٰ کی حمدو ثنا کرتے ہوئے گزارتے۔ ہم دونوں بہنیں دعائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پاکیزہ منظوم کلام مترنم آواز میں گاتیں۔
ہمیں معلوم نہیں کہ امی جان نے کس طرح اور کب، بہت سی دعائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منظوم کلام و قصیدہ یاد کرایا تھا۔ بیت بازی کے مقابلے کا بھی بہت مزہ آتا۔
ایسا پیارا روحانی اور خلوص سے بھرا ماحول ہوتا کہ آج بھی سوچ کے دل خوشی سے لبریز ہو جاتا ہے۔بعض بزرگ خواتین اپنی زندگی کے دلچسپ اور ایمان افروز واقعات سناتیں، اس طرح یہ جلسہ کا سفر بہت یادگار بن جاتا۔
پانچوں نمازیں باجماعت ادا کی جاتیں۔ نماز فجر کے بعد سب لجنہ و ناصرات خوش الہانی سے مناسب آواز سے قرآن کریم کی تلاوت کرتیں، یوں تلاوت قرآن کریم کی آواز سے ایک خوشگوار سماں بندھ جاتا۔
دعائیں کرتے کرتے دن رات کے لمبے سفر کے بعد جب ریل گاڑی ربوہ سٹیشن پہ پہنچتی تو اھلًا و سھلًا و مرحبًا کے نعروں سے فضا گونج اٹھتی۔ بہت سے رضاکار سٹیشن پہ استقبال کے لیے موجود ہوتے۔ ربوہ میں بہت سے خوبصورت گیٹس لگائے گئے ہوتے۔ پورا شہر غریب دلہن کی طرح سجایا گیا ہوتا۔ ہر طرف بینرز لگائے جاتےجن پر درود شریف، جلسے کی اہمیت، استقبالیہ فقرے درج ہوتے۔ ڈیوٹی والے رضاکار اتنی خوشی سے مہمانوں کا استقبال کرتے کہ ایسے محسوس ہوتا جیسے کہ سب آنے والے ان کے ذاتی مہمان ہوں۔ہم جب تک میانوالی یا لاہور سے جلسہ سالانہ ربوہ میں شرکت کے لیے آتے رہےتو ابا جان کے استاد مکرم و محترم مولانا محمد احمد جلیل صاحب(اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔آمین) کے ہاں ٹھہرا کرتے تھے۔ مولوی صاحب ابا جان کو بڑی محبت سے اپنے ہاں ٹھہراتے۔ ان کی اہلیہ بھی بہت چاہت اور خوشی سے ہمارے ساتھ پیش آتیں اور بہت تواضع کیا کرتیں۔
ان دنوں ربوہ کے ہر گھر میں جلسے کے مہمانوں کے ٹھہرنے کا انتظام ہوتا تھا۔ ربوہ میں جا کر عجیب منظر دیکھنے کوملتا۔ رات کے تیسرے پہر صل علی نبینا صل علی محمد کی خوبصورت اورسریلی آوازوں سے فضا گونج اٹھتی۔ سب چھوٹے بڑے جوق درجوق نماز تہجد اور فجر کی ادائیگی کے لیے بڑے ذوق و شوق سے مسجد مبارک کا رخ کرتےتاکہ نماز فجر اپنے پیارے آقا کی اقتدا میں ادا کرنے کا شرف حاصل کر سکیں۔ مسجد میں تل دھرنے کی بھی جگہ نہ ہوتی۔
پیارے اور معصوم بچوں کی صل علی نبینا اور صل علی محمد پڑھنے کی آوازیں آج بھی کانوں میں گونجتی ہیں۔
صبح دال روٹی کے ساتھ ناشتہ کرکے سب تیار ہو کر جلسہ گاہ کی طرف روانہ ہو جاتے۔ جلسے کی کارروائی شروع ہونے سے قبل بہت بڑا زنانہ جلسہ گاہ خواتین اور بچوں سے کھچاکھچ بھرا ہوتا۔مگر مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کہیں پر بچے ادھر ادھر گھومتے نظر نہیں آتے تھے۔ کوئی شور نہیں ہوتا تھا۔ آرام سے سب جلسے کی کارروائی سن رہے ہوتے تھے۔
سارا دن پرالی پہ چادر بچھا کر ہم جلسہ گاہ میں بیٹھ کر جلسہ سنتے اور ساتھ ساتھ امی جان کی نصیحت تھی کہ ان ایام میں انسان کی دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں اس لیے زیر لب کثرت سے دعائیں اور ذکر الٰہی جاری رہتا۔ وہ ایام خاص ایام ہوا کرتے تھے، کسی ٹھنڈ کی کسی سردی کی کسی کو کوئی پرواہ نہ ہوتی۔ لجنہ و ناصرات اورچھوٹے بچے کھلے آسمان تلے جلسہ گاہ میں انہماک سے پرالی پہ چادریں بچھا کر بیٹھے جلسہ سننے میں محو ہوتے۔ ربوہ کے جلسےکےدنوں میں دوپہر کو کھانا نہیں ملتا تھا۔ مائیںصبح ہی چھوٹے بچوں کےلیے دال اور لنگر کی روٹیاں ساتھ لے لیتیں اور دوپہر کو وہی کھالیا کرتیںاور شام کو جلسہ کی کارروائی ختم ہونے کے بعد رات کو اپنی رہائش گاہ پر پہنچتیں۔
رات کو لنگر کے گرما گرم آلوگوشت اور روٹی کا اپنا ہی مزا ہوتا جو کہ مٹی کے پیالوں میں ڈال کر کھاتے تھے۔ ایک قابل ذکر امر یہ ہے کہ ربوہ میں جلسہ گاہ کی طرف جاتے وقت اور شام کو واپسی پہ بہت نظم و ضبط کا مظاہرہ ہوتا۔ ایک طرف مردوں کے گزرنے کا انتظام ہوتا اور دوسری طرف خواتین قطار در قطار چل رہی ہوتیں۔ اتنا منظم نظام بفضلہ خدا صرف اور صرف ہماری جماعت کا ہی خاصہ ہے۔ الحمد للہ علی ذالک
ہمارے ابا چودھری احمد حیات صاحب کی گورنمنٹ سروس کےدور میں، ہم اپنی ہوش میں، پانچ سال تک میانوالی سے مہمان بن کر جلسے میں شامل ہوتے رہے۔
پھر ابا جان کی ریٹائرمنٹ کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم ربوہ شفٹ ہو گئے اور یہاں سکول و کالج میں تعلیم کے دوران ہمیں جلسہ کے ایام میں میزبانی کے فرائض ادا کرنے کی بھی توفیق ملی۔ الحمد للہ علی ذالک
ربوہ میں قیام کے دوران جلسہ کے ایام میں لجنہ ہال (دفتر لجنہ اماء اللہ)میں ڈیوٹی کی لسٹیں لگ جاتیں اور پورے شوق و ولولے سے سب سٹوڈنٹس لجنہ ہال جاتیں اور اپنا نام لسٹوں میں ڈھونڈتیں کہ ڈیوٹی کہاں لگی ہے۔ سب نوٹ کرتیں اور مفوضہ ڈیوٹی کی انجام دہی کے لیے حاضر ہوجاتیں۔ ہم دارالیمن سے پیدل بیرکس (اب ان کی جگہ خوبصورت سرائے مسرور بن گئی ہے)میں ڈیوٹی کے لیے جاتی تھیں۔
وہاں تمام مہمانوں کو گیٹ تک خدام پہنچاتے۔ گیٹ سے استقبالیہ ٹیم کی ممبرات ان کا سامان اٹھاتیں اور ان کو بیرکس کے کمروں میں پہنچاتیں۔
سب کام بہت منظم ہوتا تھا۔ ہر ضلع کے لوگوں کو الگ الگ کمروں میں ٹھہرایا جاتا۔ کیونکہ جب کوئی گیٹ پہ ملاقات کے لیے آتا تو اسی ضلع کے کمرے میں جاکرملاقات کی اطلاع کی جاتی۔
نماز فجر کے فوراً بعد سب کمروں میں ناشتہ دال روٹی پہنچایا جاتا اور سب ناشتہ کرکے تیار ہوتے اور ساتھ ساتھ جلسہ گاہ کی طرف روانہ ہوتے جاتے۔
خلافت رابعہ کے دور کے ایمان افروز اور روح پرور آخری جلسہ سالانہ ربوہ کی کچھ یادیں
اس سال ہمارے گھر کوئی سو سے زیادہ مہمان تشریف لائے۔ ابا جان نے سب کا خوش دلی سے استقبال کیااور ان کی رہائش کا بندوبست اس طرح کیا کہ ہر فیملی کے لیےگھر میں ٹینٹ نصب کیا۔ کچھ مہمان کراچی سے آئے، ان سب کو ایک ٹینٹ لگا دیا۔ کچھ لیہ سے امی جان کے چچا جان کی فیملی میں سے آئے ان کو ایک خیمہ لگا دیا۔ جو ددھیال کی طرف سے تھے ان کو الگ خیمہ لگا دیا۔یوں ہمارے دو کمرے اور بہت بڑا صحن مہمانوں سے کھچا کھچ بھر گیا۔یہ منظر دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پاک منظوم کلام زبان سے جاری ہوگیا۔
مہماں جو کر کے الفت آئے بصد محبت
دل کو ہوئی ہے فرحت اور جاں کو میری راحت
پر دل کو پہنچے غم جب یاد آئے وقت رخصت
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ
ہماری امی فرحت سکینہ اختر صاحبہ پوری تندہی سے لکڑی کا اورمٹی کے تیل والا چولہا جلا کر صبح بہت بڑا پانی کا دیگچہ گرم رکھتیں تاکہ دسمبر کی یخ بستہ سردی میں مہمانوں کو وضو کے لیےگرم پانی مہیا ہو۔ چونکہ سب ہمارے رشتہ دار تھے اس لیے امی جان سب کے ناشتے، چائے، کھانے پینے سب کا بھر پور خیال رکھتیں۔ لنگر کے ناشتے کے ساتھ گھر کی چائے اور کچھ نہ کچھ میٹھا بنا کر سب کو پیش کرتیں۔
ہم دونوں بہنیں تو بیرکس میں ڈیوٹی دینے کے لیےچلی جاتیں اور رات کسی پہر جب فراغت ہوتی تو وہاں سے بھاگم بھاگ گھر پہنچتیں تو گھر ماشاءاللہ مہمانوں اور خیموں سے بھرا ہوتا تھا۔ امی جان سے مختصر بات ہوتی۔ امی جان بتاتیں کہ فلاں فلاں رشتہ دار آئے ہوئے ہیں وہ آپ کو بہت یاد کر رہے تھے۔ مگر ہمیں تو جلسہ کی ذمہ داریاں اور ڈیوٹیز نبھانی عزیز تھیں۔ اللہ تعالیٰ امی جان کی مغفرت فرمائےاور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔آمین۔ انہوں نے اتنے زیادہ مہمانوں کو سنبھالا ہوا تھا مگر مجھے اچھی طرح یاد ہے ہم دونوں بڑی بہنوں کو ایک مرتبہ بھی نہیں کہا کہ گھر کے مہمانوں کی خدمت میں بھی انہیں کوئی مدد درکار ہے۔ بہت پر سکون اور خوش دکھائی دیتیں اور یہ خوشی اور طمانیت ان کے چہرے سے عیاں ہوتی۔
جلسے کے دنوں میں جب بھی، چاہے رات بارہ بجے کے بعد یا ایک روز نماز فجر سے کچھ پہلے ہم کپڑے لینے گھر گئے توامی جان کو ہم نے ہمیشہ جاگتے اور کام نمٹاتے ہی دیکھا۔
امی جان ہمیشہ خندہ پیشانی سے سب مہمانوں کی مہمان نوازی سے فارغ ہو کر جلسہ کی کارروائی کے آغاز سے قبل جلسہ گاہ بھی پہنچ جاتیں۔
ادھر سے ہم بیرکس میں ڈیوٹی ختم کرکے جلسہ گاہ میں پہنچتے وہاں پہ الگ ڈیوٹی لسٹیں آویزاں ہوتیں ان میں اپنا نام ڈھونڈتے اور دیکھتے کہ کہاں پہ ڈیوٹی ہے۔ وہاں تازہ دم ہوکر ڈیوٹی کی سرانجام دہی کے لیے پہنچ جاتے۔
حضرت خلیفةالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ربوہ میں آخری جلسہ سالانہ میں حاضری ماشاءاللہ پونے تین لاکھ کے قریب تھی۔ اتنے مہمان ہونے کے باوجود جلسہ بہت منظم تھا۔ وہ جلسہ ہماری زندگی کا سب سے زیادہ یادگار جلسہ تھا۔ مجھے یاد ہے اس جلسے میں جب حضور انور رحمه اللہ تعالیٰ دوسرے روز لجنہ کے پنڈال میں تشریف لائے۔ خاکسار کو حضور انور کے سامنے تلاوت قرآن کریم کا ترجمہ پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی اور یہ خاکسار کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔ اس روز سارا پہلا سیشن خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواتین مبارکہ کے ساتھ گزرا۔
خلیفه وقت کی بابرکت معیت اور آپؒ کے ارشادات بالکل سامنے بیٹھ کر سننا اور اس بابرکت ہستی کی زیارت کرنا خاکسار کو آج تک بخوبی یاد ہے۔سبحان اللہ۔حضور انور رحمه اللہ کی ولولہ انگیز نصائح سیدھی دل پہ اثر کرتی تھیں۔
جلسہ کے سب خطابات ہی سننے سے تعلق رکھتے تھے۔ اور سب ممبرات پورا جلسہ پوری توجہ سے سنتیں۔ مگر ان جلسوں میں سب سے بڑی کشش خلیفۃ المسیح کی زیارت، قربت اور تقاریر ہوتی تھیں۔ ممبران جماعت چاہے بچہ ہو یا بڑا لجنہ ہو کہ ناصرہ، سب کی ہر ممکن کوشش ہوتی تھی کہ حضور ؒکے ہر خطاب سے قبل جلسہ گاہ میں موجود ہمہ تن گوش اپنے محبوب امام کی زبان مبارک سے نکلنے والے ایک ایک لفظ کو پوری توجہ سے سُنیں۔
علاوہ ازیں جلسہ سالانہ میں شرکت کرنے والے مہمان بہشتی مقبرہ اور قبرستانِ عام میں خلفائے احمدیت، صحابہ ؓحضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اپنے عزیز و اقارب کی قبروں پر دُعا کرنے ضرور جاتے۔
کچھ خاص چیزیں جلسہ سے ہی مختص تھیں۔ ایک قسم کا پتیسہ صرف جلسہ کے ایام میں ملا کرتاتھا۔ وہ ہم بہت شوق سے لے کر کھاتے تھے۔
جلسہ کے ایام کی یادوں میں سردیوں کی سوغاتیں مونگ پھلی،چلغوزے اور ریوڑیاں رات کو سب کزنز کے ساتھ آگ سے ہاتھ تاپتے ہوئے کھانے کا بھی اپنا ہی مزا تھا۔
جرمنی میں جلسہ ہوتا تھا تو امی جان مجھے خاص طور پہ فون کرکے کہتیں کہ خلیفہ وقت جرمنی تشریف لائے ہوئے ہیں۔ خود بھی معمول بناؤاور بچوں کو بھی ترغیب دلاؤکہ کثرت سے درود شریف اور استغفار کا ورد کریں کیونکہ جرمنی کی فضائیں خدا کے فضل سے لبریز ہیں، خدا کے خلیفہ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے وجود کی برکت سے سب دعائیں قبول ہوں گی۔ ان شاءاللہ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں جلسے کے حقیقی مقاصد کو پورا کرنے والا بنائے۔ آمین ثم آمین
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’اس جلسہ سے مدعا اور مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کرلیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلی جھک جائیں اور ان کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیز گاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مواخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکساری اور تواضع اور راستبازی ان میں پیدا ہو اور وہ دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں۔‘‘ (شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد۶ صفحہ نمبر۳۹۴)
ماشاءاللہ بہت خوبصورت انداز بیان ہے فرمودات کے ساتھ مضمون کی اہمیت اور زیادہ واضح ہو گئی ہے اس دور میں جب کہ انسان کتابوں سے دوری اختیار کر تا چلا جا رہا ہے الفضل اور آپ جیسے لکھنے والوں کی بدولت قارئین کے ذوق کو پروان چڑھانے کا سبب ہے ۔اللہ تعالیٰ زور قلم میں برکت عطا فرمائے ۔۔۔