مہمان نوازی کی اہمیت
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۵؍ جولائی ۲۰۱۱ء)
مہمان نوازی کی اہمیت اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنی زیادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ بلکہ زیادہ جگہ فرمایا کہ وَابْنِ السَّبِیْل۔ یعنی مسافروں کو اُن کا حق دو۔ وَابْنِ السَّبِیْل جو ہیں یہ مسافر ہیں۔ فرمایا ان کو ان کا حق دو۔ اور ایک دوسری جگہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ السلام کے ذکر میں فرمایا کہ جب مہمان اُن کے پاس آئے تو فوراً بُھنا ہوا بچھڑا اُن کو پیش کیا۔
پھر ہمارے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اُسے چاہئے کہ وہ مہمان کی تکریم کرے۔ (بخاری، کتاب الادب، باب اکرام الضیف و خدمتہ ایاہ بنفسہ حدیث 6135)
یعنی مہمان کی تکریم بھی اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان کے لئے ضروری ہے۔ پس مہمان نوازی صرف ایک دنیاوی فریضہ ہی نہیں ہے بلکہ ایمان کی علامت بھی ہے اور ایک فرض ہے جس کا ادا کرنا بہر حال ضروری ہے۔ تکریم کا مطلب ہے کہ بہت زیادہ عزت و احترام کرنا۔
پھر ایک حدیث میں آپؐ نے فرمایا کہ اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لانے والے مہمان کا جائز حق ادا کریں۔ عرض کیا گیا کہ جائز حق کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ ایک دن اور رات مہمان نوازی۔
بیشک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہمان نوازی کے دنوں کی حد مقرر فرمائی ہے، فرمایا کہ تین دن تک مہمان نوازی فرض ہے تم پر۔ (صحیح مسلم، کتاب اللقطۃ، باب الضیافۃو نحوھا حدیث4513)
ایک دن توکم از کم اُس کا حق ہے اور پھر جیسا کہ مَیں نے کہا کہ تین دن تک فرض بھی ہے۔ لیکن بعض حالات میں کئی دن بلکہ دنوں سے بھی زیادہ لمبا عرصہ، آپؐ نے مہمان نوازی فرمائی ہے۔ اور صحابہؓ کے سپرد بھی مہمان فرمائے۔
بنیادی نقطہ جو آپ نے بیان فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ مہمان نوازی مکمل عزت واحترام کے ساتھ ہونی چاہئے۔ اور یہ عزت و احترام اس لئے ہے کہ مہمان کا حق ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیونکہ کامل شریعت اور احکامات لے کر آئے تھے اس لئے ہر طرح کے لوگوں کا اور ہر پہلو کا آپؐ نے خیال رکھا ہے۔ بعض حدود جو آپؐ نے مقرر فرمائی ہیں جن کا ان حدیثوں میں ذکر ہے۔ وہ مہمانوں کو بھی اُن کے فرض یاد دلانے کے لئے ہیں۔ اس حوالے سے بھی انشاء اللہ تعالیٰ اگلے جمعہ بات ہو گی۔ لیکن اِس وقت جیسا کہ عموماً میرا طریق ہے، مَیں میزبانوں اور ڈیوٹی دینے والے کارکنوں کو توجہ دلاتا ہوں۔ اس لئے اُن کو توجہ دلا رہا ہوں کہ مہمان نوازی کا وصف ایسا ہے جس کے بارے میں جیسا کہ مَیں نے بتایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان کے لئے ضروری ہے اور مہمان کا یہ حق ہے کہ اُس کی مہمان نوازی کی جائے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ’مسافروں کو اُن کا حق دو‘ہم پر یہ فرض عائد کرتا ہے کہ مہمان نوازی کے وصف کو بہت زیادہ اپنائیں۔ صرف یہاں جلسے کے دنوں میں نہیں بلکہ عام طور پر گھروں میں بھی مہمان نوازی احمدی مسلمان کا ایک امتیاز ہونا چاہئے۔ بہر حال یہاں کیونکہ آج جلسے کے حوالے سے بات ہو رہی ہے ہر کارکن کو اور اُس گھر کو جس میں جلسے کے مہمان آ رہے ہیں، یہ خیال رکھنا چاہئے کہ مہمانوں کو صحیح عزت و احترام دیا جائے۔ اگر عام مسافروں کا حق اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا ہے تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں سفر کرنے والوں کا تو بہت زیادہ حق ہے کہ اُن کو عزت و احترام دیا جائے اور اُن کا حق ادا کیا جائے۔ انشاء اللہ تعالیٰ اگلے جمعہ سے جیسا کہ ہم جانتے ہیں جلسہ سالانہ برطانیہ شروع ہو رہا ہے اس لئے دور دراز ممالک سے مہمانوں کی آمد شروع ہو گئی ہے۔ یہ مہمان جماعتی نظام کے تحت بھی ٹھہرے ہوئے ہیں یا ٹھہریں گے اور گھروں میں بھی۔ ان مہمانوں کو خاص طور پر ڈیوٹی دینے والے کارکنان کو بہت زیادہ اہمیت دینی چاہئے۔ اور اللہ تعالیٰ کی خاطر سفر اختیار کرنے والے مسیح محمدیؐ کے ان مہمانوں کی حتی المقدور مہمان نوازی کا حق ادا کرنا چاہئے۔ اور اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب دنیا کے اُن ممالک میں جہاں جماعتیں بڑی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لنگر کا بھی بڑا وسیع انتظام قائم ہو گیا ہے۔ اور یوکے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن ممالک میں سے ایک ہے بلکہ شاید اب تو ربوہ کے بعد اس وقت لنگر خانے کا سب سے زیادہ وسیع نظام یوکے میں ہی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ خلیفۂ وقت کی یہاں موجودگی کی وجہ سے یہ وسعت ہونی تھی لیکن یہاں جو ان مستقل لنگر چلانے والوں کی سب سے بڑی خوبی ہے، وہ یہ ہے کہ تقریباً تمام یا بہت بڑی اکثریت volunteer ہیں جو سالوں سے بڑی خوشی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لنگر کے لئے وقت دے رہے ہیں۔ گو ربوہ اور قادیان کے لنگر بھی بڑے وسیع ہیں، لیکن وہاں باقاعدہ تنخواہ دار عملہ ہے۔ لیکن یہاں کا لنگر مستقل بنیادوں پر volunteersکے ذریعے چل رہاہے۔ تو بہر حال یوکے جماعت نے مہمان نوازی کے اس مستقل فرض کو خوب نبھایا ہے اور نبھاتے چلے جا رہے ہیں۔ اب جلسے کے دن ہیں، جلسے پر بھی ہمیشہ اس مہمان نوازی کے فریضے کو بڑی خوش اسلوبی سے ہمارے کارکنان نبھاتے ہیں۔ یہ باتیں مَیں صرف اس لئے کر رہا ہوں کہ یاد دہانی کروا دی جائے کیونکہ نئے آنے والے بھی اس میں شامل ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس سال بھی تمام کارکنان کو اس فرض کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس مہمان نوازی سے جو ہمارے کارکنان کرتے ہیں یا ہمارے جلسے کے جو انتظامات ہوتے ہیں باہر سے آئے ہوئے غیر از جماعت اور غیر مسلم مہمان ہمیشہ متاثر ہوتے ہیں۔ یہاں بھی اور دوسرے ممالک میں بھی۔ پس جو میزبان کارکنان ہیں آئندہ بھی ہمیشہ اپنے اس تاثر کو قائم رکھنے کی کوشش کریں جو تبلیغ کا ذریعہ بنتا ہے۔ ایک لحاظ سے ہر کارکن جب وہ ڈیوٹی ادا کر رہا ہوتا ہے احمدیت کی عملی تبلیغ کا ذریعہ بن رہا ہوتا ہے۔ اور یہ ہر کارکن کے لئے ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام کارکنان کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اس لنگر خانے کے علاوہ بھی دوسری ڈیوٹیاں بھی ہیں اُن کا بھی حتی الوسع حق ادا کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ جو جو کام کسی کے سپرد کئے گئے ہیں کسی کو تفویض کئے گئے ہیں اُن کی پوری ادائیگی کریں اور پوری ذمہ واری سے اُس کی ادائیگی ہونی چاہئے۔ ہر کام، ہر ڈیوٹی، ہر فرض جو کسی کے سپرد کیا گیا ہے اُس کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ ہر جگہ پر اگر ہر ڈیوٹی کو ایک اہمیت دی جائے گی تو تبھی پورا نظام جو ہے وہ صحیح لائنوں پر چل سکے گا۔ اس لئے اس بارے میں ہر کارکن کو ہمیشہ خیال رکھنا چاہئے تا کہ کسی بھی جگہ کسی بھی شعبہ میں کسی کے کام میں کمی کی وجہ سے، فرض کی ادائیگی میں کمی کی وجہ سے، کسی مہمان کو تکلیف نہ ہو۔ پس یہ بنیادی بات ہمیشہ ہر کارکن کو یاد رکھنی چاہئے۔