جنگ بدر کے حالات و واقعات: خلاصہ خطبہ جمعہ ۲۱؍جولائی ۲۰۲۳ء
٭… آنحضرتؐ نے مسلمانوں کو تاکيد کي کہ قيديوں کے ساتھ نرمي اور شفقت کا سلوک کريں اور اُن کے آرام کا خيال رکھيں
٭… بدر کے بعد ہر گھر ماتم کدہ تھا اور مقتولينِ بدر کے انتقام کے ليے مکہ کا بچہ بچہ مضطرتھا چنانچہ سويق کا واقعہ اور اُحد کا معرکہ اِسي جوش کا مظہر تھا
٭… جنگ بدر نے کفار کي طاقت کو بالکل توڑ ديا تھا اور مسلمانوں کي شوکت اُن پر ظاہر ہو گئي تھي
٭… حضرت عمرؓ کے زمانہ ميں بھي جب صحابہؓ کے وظيفے مقرر ہوئے تو بدري صحابيوں کا وظيفہ ممتاز طور پر خاص مقرر کيا گيا
٭…جلسہ سالانہ یوکے کے حوالے سے مہمان نوازی کی اہمیت کا بیان اور کارکنان اور مہمانوں کو زرّیں نصائح
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۱؍جولائی۲۰۲۳ء بمطابق۲۱؍وفا ۱۴۰۲ ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح،مورڈن،یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۱؍جولائی۲۰۲۳ء کو مسجد بیت الفتوح، مورڈن، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد، تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا: جنگ بدر ختم ہونے کے بعد قیدیوں سے آنحضرتؐ کے حسن سلوک کے بارے میں طبقات ابن سعد میں درج ہےکہ جب بدر کے قیدی آئے تو اُن میں آپؐ کے چچا حضرت عبّاس رضی الله عنہ بھی تھے، آپؐ اُس رات جاگتے رہے تو صحابہؓ میں سے کسی نے پوچھا کہ
اَے الله کے نبیؐ !آپؐ کو کس بات نے جگائے رکھا ہے ؟ فرمایا! عبّاس کے کراہنے کی آواز نے،
تو ایک شخص گیا اور اُس نے آپؓ کے بندھن ڈھیلے کر دیے، رسول اللهؐ نے فرمایا: کیا بات ہے مَیں عبّاس کے کراہنے کی آواز نہیں سن رہا تو ایک شخص نے کہا کہ اُس نے آپؓ کے بندھن کچھ ڈھیلے کر دیے ہیں، آپؐ نے فرمایا: پھر تمام قیدیوں کے ساتھ ایسا ہی کرو۔
سیرت خاتم النبیین ؐمیں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہےکہ آنحضرتؐ نے مسلمانوں کو تاکید کی کہ قیدیوں کے ساتھ نرمی اور شفقت کا سلوک کریں اور اُن کے آرام کا خیال رکھیں، صحابہؓ نے جن کو اپنے آقاؐ کی ہر خواہش کے پورا کرنے کا عشق تھا، آپؐ کی اِس نصیحت پر اِس خوبی سے عمل کیاکہ دنیا کی تاریخ میں اُس کی نظیر نہیں ملتی۔
سر ولیم میور نے قیدیوں کے ساتھ اِس مشفقانہ سلوک کا مندرجہ ذیل الفاظ میں اعتراف کیا
محمد(صلی الله علیہ وسلم) کی ہدایت کے ماتحت انصار و مہاجرین نے کفار کے قیدیوں کے ساتھ بڑی محبت و مہربانی کا سلوک کیا، چنانچہ بعض قیدیوں کی اپنی شہادت تاریخ میں اِن الفاظ میں مذکور ہے کہ خدا بھلا کرے مدینہ والوں کا! وہ ہم کو سوار کرتے اور آپ پیدل چلتے، ہم کو گندم کی پکی ہوئی روٹی دیتے اور آپ صرف کھجوریں کھا کر پڑے رہتے۔ہم کو یہ معلوم کر کے تعجب نہیں کرنا چاہیے کہ بعض قیدی اِس نیک سلوک کےزیر اثرمسلمان ہو گئے اور ایسے لوگوں کو فوراً آزاد کر دیا گیا، جو قیدی اسلام نہیں لائے اُن پر بھی اِس نیک سلوک کا بہت اچھا اثر تھا۔
جنگ بدر اور اِس کے اثرات کے بارے میں لکھا ہے کہ جب فتح بدر کی خوشخبری لے کر عبدالله بن رواحہؓ اور زیدبن حارثہؓ مدینہ پہنچے تو اِن کے منہ سے
فتح کی خوشخبری کا اعلان سن کر الله کا دشمن کعب بن اشرف یہودی جھٹلانے اور کہنے لگا اگر محمد(صلی الله علیہ وسلم) نے اِن بڑے بڑے رؤساء کو مار ڈالا ہے تو زمین کی پشت پر رہنے سے زمین کے اندر رہنا (یعنی زندہ رہنے سے موت) بہتر ہے۔
مولانا شبلی نعمانی اپنی کتاب میں غزوۂ بدر کے نتائج بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ غزوۂ بدر کے معرکہ نے مذہبی اور ملکی حالات پر گونا گوں اثرات پیدا کیے اور
حقیقت میں یہ اسلام کی ترقی کا قدم اوّلین تھا۔قریش کے تمام بڑے بڑے رؤساء جن میں سے ایک ایک اسلام کی ترقی کی راہ میں سدّ آہن تھا فنا ہو گئے۔
عتبہ اور ابو جہل کی موت نے قریش کی ریاست عامہ کا تاج ابو سفیان کے سر پر رکھا جس سے دولت اَموی کا آغاز ہوا لیکن قریش کی اصلی طور و طاقت کا معیار گھٹ گیا۔ مدینہ میں اب تک عبدالله بن اُبی بن سلول علانیہ کافر تھا لیکن اب بظاہر وہ اسلام کے دائرہ میں آ گیا، گو تمام عمر منافق رہا اور اِسی حالت میں جان دی۔ اِس فتح نمایاں نے کفار میں حسد کی آگ بڑھا دی اور وہ اُس کو ضبط نہ کر سکے۔قریش کو پہلے صرف حضرمی کا رونا تھا، بدر کے بعد ہر گھر ماتم کدہ تھا اور مقتولینِ بدر کے انتقام کے لیے مکہ کا بچہ بچہ مضطرتھا ۔چنانچہ سویق کا واقعہ اور اُحد کا معرکہ اِسی جوش کا مظہر تھا۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ جنگ بدر کا اثر کفار اور مسلمانوں ہر دو کے لیے نہایت گہرا اَور دیرپا ہوا اَور اِسی لیے تاریخ اسلام میں اِس جنگ کو خاص اہمیت حاصل ہے حتّی کہ
قرآن شریف میں اِس جنگ کا نام یوم الفرقان رکھا گیا یعنی وہ دن جبکہ اسلام و کفر میں ایک کھلا کھلا فیصلہ ہو گیا۔
بے شک جنگ بدر کے بعد بھی قریش اور مسلمانوں کی باہم اور خوب سخت سخت لڑائیاں ہوئیں اور مسلمانوں پر نازک نازک موقعے بھی آئے لیکن جنگ بدر میں کفار مکہ کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی جسے بعد کا کوئی جرّاحی عمل مستقل طور پر درست نہیں کر سکا۔ تعداد مقتولین کے لحاظ سے بے شک یہ کوئی بڑی شکست نہیں تھی، قریش جیسی قوم میں ستّر بہتر سپاہیوں کا مارا جانا ہرگز قومی تباہی نہیں کہلا سکتا۔پھر وہ کیا بات تھی کہ جنگ بدر یوم الفرقان کہلائی ؟ اِس سوال کے جواب میں بہترین الفاظ وہ ہیں جو قرآن شریف نے بیان فرمائے اور وہ یہ ہیں یَقْطَعَ دَابِرَ الْکَافِرِیْنَ، واقعی اِس دن کفار کی جڑ کٹ گئی، یعنی جنگ بدر کی ضرب کفار کی جڑ پر لگی اور وہ دو ٹکڑے ہو گئی۔
بدر میں فی الواقع قریش کی جڑ کٹ گئی، عتبہ اور شیبہ اور اُمیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط اور نضر بن حارث وغیرہ قریش کی قومی زندگی کے روح رواں تھے
اور یہ روح بدر کی وادی میں قریش سے ہمیشہ کے لیے پرواز کر گئی اور وہ ایک قالب بے جاں کی طرح رہ گئے، یہ وہ تباہی تھی جس کی وجہ سے جنگ بدر یوم فرقان کے نام سے موسوم ہوئی۔
حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اِس بارے میں لکھا ہےکہ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمانوں پر اِس کے بعد بھی مظالم ہوتے رہے اور اُنہیں کفار سے لڑائیاں لڑنی پڑیں مگر اِس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جنگ بدر نے کفار کی طاقت کو بالکل توڑ دیا تھا اور مسلمانوں کی شوکت اُن پر ظاہر ہو گئی تھی۔ جنگ بدر جسے قرآن کریم نے فرقان قرار دیا اِس کے متعلق بائبل میں بھی پیشگوئی پائی جاتی ہے۔اسی طرح قرآن کریم نے ایک گیارہویں رات کی خبر دے کر یہ پیشگوئی کی تھی کہ ہجرت کے پورے ایک سال کے بعد کفار کی ساری طاقت ٹوٹ جائے گی اور مسلمانوں کے لیے فتح و کامرانی کی صبح ظاہر ہو جائے گی ۔چنانچہ عین ایک سال کے بعد جنگ بدر ہوئی جس میں کفار کے بڑے بڑے لیڈر مارے گئے اور مسلمانوں کو اُن پر نمایاں غلبہ حاصل ہوا۔
فضیلت بدری اصحابؓ کی بابت لکھا ہے کہ حضرت جبرئیل نبی کریمؐ کے پاس آئے اور کہا: آپؐ مسلمانوں میں اہل بدر کو کیا مقام دیتے ہیں؟ فرمایا: بہترین مسلمان یا ایسا ہی کوئی کلمہ فرمایا۔جبرئیلؑ نے کہا! اور اِسی طرح وہ ملائکہ بھی افضل ہیں جو جنگ بدر میں شریک ہوئے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہےکہ رسول کریمؐ نے فرمایا: شاید کہ الله تعالیٰ نے اہل بدر پر نظر فرمائی ہے اور کہا کہ جو چاہے عمل کرو مَیں نے تمہیں بخش دیا، سوائے کفر کی حالت کے۔ عام غلطیاں اور گناہ تو الله تعالیٰ بخش دے گا۔ حضور انور ایدہ الله نے تصریح فرمائی کہ یعنی دوسرے لفظوں میں یہاں یہ ضمانت بھی الله تعالیٰ نے دے دی کہ اِن پر کبھی کفر کی حالت نہیں آئے گی اور اِن کا انجام بخیر ہوگا، ایک یہ مطلب بھی اِس کا ہے کہ اگر بعض غلطیاں اور گناہ ہوں گے تو بشری تقاضوں کے تحت ہوں گےتو الله تعالیٰ اُنہیں معاف فرما دے گا۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بھی جب صحابہؓ کے وظیفے مقرر ہوئے تو بدری صحابیوں کا وظیفہ ممتاز طور پر خاص مقرر کیا گیا، خود بدری صحابہؓ بھی جنگ بدر کی شرکت پر خاص فخر کرتے تھے۔
بدری صحابہؓ کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ اِس سے بھی ہو سکتا ہے کہ
آنحضرتؐ نے اِس اُمت میں آنے والے مہدی کی ایک نشانی یہ قرار دی کہ اِس کے پاس بھی ایک کتاب ہو گی جس میں اِس کے پاس اصحابِ بدرکی تعداد کے مطابق ۳۱۳؍اصحاب کے نام ہوں گے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ چونکہ حدیث صحیح میں آچکا ہے کہ مہدیٔ معہود کے پاس ایک چھپی ہوئی کتاب ہو گی جس میں اُس کے ۳۱۳؍اصحاب کا نام درج ہو گا، اِس لیے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ وہ پیشگوئی آج پوری ہو گئی، یہ تو ظاہر ہے کہ پہلے اِس سے اُمت مرحومہ میں کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا کہ جو مہدویت کا مدعی ہوتا اور اُس کے وقت میں چھاپہ خانہ بھی ہوتا اور اِس کے پاس ایک کتاب بھی ہوتی جس میں ۳۱۳؍نام لکھے ہوئے ہوتے اور ظاہر ہے کہ اگر یہ کام انسان کے اختیار میںہوتا تو اِس سے پہلے کئی جھوٹے اپنے تئیں اِس کا مصداق بنا سکتے۔
شیخ علی حمزہ بن علی ملک الطُوسی اپنی کتاب جواہر الاسرارمیں مسیح موعود کے بارے میں لکھتے ہیں:
مہدی اِس گاؤں سے نکلے گا جس کانام کدعہ (دراصل قادیان کے نام کو معرّب کیا ہوا ہے) ہےاور پھر فرمایا کہ خدا اِس مہدی کی تصدیق کرے گا اور دُور دُور سے اُس کے دوست جمع کرے گا جن کا شمار اہل بدر کے شمار سے برابر ہو گا یعنی تین سو تیرہ ہوں گے
اور اُن کے نام بقید مسکن وخصلت چھپی ہوئی کتاب میں درج ہوں گے۔اب ظاہر ہے کہ پہلے اِس سے کسی شخص کو اتفاق نہیں ہوا کہ وہ مہدیٔ موعود ہونے کا دعویٰ کرے اور اُس کے پاس چھپی ہوئی کتاب ہو جس میں اُس کے دوستوں کے نام ہوں لیکن مَیں پہلے اِس سے بھی آئینہ کمالات اسلام میں تین سو تیرہ نام درج کر چکا ہوں اور اب دوبارہ اتمام حجّت کے لیے تین سو تیرہ نام ذیل(رسالہ انجام آتھم) میں درج کرتا ہوں۔
حضرت مسیح موعودؑ اپنی ایک تصنیف خطبہ الہامیہ میں بدر اور چودھویں صدی کی ایک لطیف مشابہت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: (ترجمہ) اور وہ چار سَو کا شمار خاتم النبیین ؐکی ہجرت سے بعد ہے تا دین کے غلبہ کا وعدہ جو کتاب مبین میں پہلے ہو چکا تھا پورا ہو جائے یعنی خدا کا یہ قول آیت وَلَقَدۡ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدۡرٍ وَّاَنۡتُمۡ اَذِلَّةٌ، پس بیناؤں کی طرح اِس آیت میں نگاہ کرو کیونکہ یہ آیت یقینا ًدو بدر پر دلالت کرتی ہے اوّل وہ بدر جو پہلوں کی نصرت کے لیے گزرا اَور دوسرا وہ بدر جو پچھلوں کے لیے ایک نشان ہے۔ پس کوئی شک نہیں کہ یہ آیت ایک لطیف اشارہ اِس آئندہ زمانہ کی طرف کرتی ہے جو شمار کی رُو سے شب بدر کی مانند ہو اور وہ چار سَو برس ہزار برس کے بعد ہے اور یہی استعارہ کے طور پر خدا تعالیٰ کے نزدیک شب بدر ہے۔
اب اِس چودھویں صدی میں وہی حالت ہو رہی ہے جو بدر کے موقع پر ہو گئی تھی جس کے لیے الله تعالیٰ فرماتا ہے وَلَقَدۡ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدۡرٍ وَّاَنۡتُمۡ اَذِلَّةٌ، اِس آیت میں بھی دراصل ایک پیشگوئی مذکور تھی یعنی جب چودھویں صدی میں اسلام ضعیف اور ناتواں ہو جائے گا تو اُس وقت الله تعالیٰ اِس وعدۂ حفاظت کے موافق اِس کی نصرت کرے گا۔
چودھویں صدی وہی صدی ہے جس کے لیے عورتیں تک کہتی تھیں کہ چودھویں صدی خیروبرکت کی آئے گی، خدا کی باتیں پوری ہوئیں اور چودھویں صدی میں اللہ تعالیٰ کے منشا کے موافق اسم احمد کا بروز ہوا اَور وہ مَیں ہوں جس کی طرف اِس واقعہ بدر میں پیشگوئی تھی، جس کے لیےرسول اللہؐ نے سلام کہا۔ مگر افسوس کہ جب وہ دن آیا اور چودھویں کا چاند نکلا تودکاندار، خود غرض کہا گیا۔ افسوس! اُن پر جنہوں نے دیکھا اور نہ دیکھا، وقت پایا اور نہ پہچانا، وہ مرگئے جو منبروں پر چڑھ چڑھ کر رویا کرتے تھے کہ چودھویں صدی میں یہ ہوگا اور وہ رہ گئے جو کہ اب منبروں پر چڑھ کر کہتے ہیں کہ جو آیا ہے وہ کاذب ہے، اِن کو کیا ہوگیا، یہ کیوں نہیں دیکھتے اور کیوں نہیں سوچتے۔
سنو! مَیں بھی یقینا ًاِسی طرح کہتا ہوں کہ آج وہی بدر کا معاملہ ہے، اللہ تعالیٰ اُسی طرح ایک جماعت طیار کررہا ہے، وہی بدر اور اذلة کا لفظ موجود ہے۔ چودہ کے عدد کو بڑی مناسبت ہے، چودھویں کا چاند مکمل ہوتا ہے، اِسی کی طرف الله تعالیٰ نے وَلَقَدۡ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدۡرٍ وَّاَنۡتُمۡ اَذِلَّةٌ میں اشارہ کیا یعنی ایک بدر تو وہ تھا جب رسول اللهؐ نے مخالفوں پر فتح پائی اُس وقت بھی آپؐ کی جماعت قلیل تھی اور ایک بدر یہ (آپؑ کا زمانہ) ہے۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ الله نے ۱۷؍فروری ۱۹۰۴ء کی ڈائری میں مندرجہ الہام حضرت اقدس مسیح موعودؑ جنگ بدر کا قصہ مت بھولو کی بابت فرمایاکہ الله تعالیٰ ہم میں خاص طور پر بدر کی اہمیت کا ادراک پیدا فرمائے اور ہم آنحضرتؐ کے غلام صادقؑ کی آمد کو سمجھنے والے ہوں، الله تعالیٰ کرے کہ مسلمان اُمت بھی اِس واقعۂ بدر کی حقیقت کو سمجھے اور آنحضرتؐ کی غلامی میں آئے ہوئے مسیح موعودؑ کو پہچانے تاکہ دوبارہ مسلمان اپنی کھوئی ہوئی عظمت حاصل کرنے کے قابل بن سکیں۔
خطبۂ ثانیہ سے قبل حضور انور ایدہ الله نے بیان فرمایاکہ ان شاء اللہ تعالیٰ اگلے جمعۃ المبارک سے جماعت احمدیہ یوکے کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے۔اِمسال تین، چار سال کے بعد باہر سے بھی جلسہ میں شمولیت کے لیے مہمان آئیں گے بلکہ مہمانوں کی آمد شروع ہو چکی ہے۔ الله تعالیٰ اِن سب سفر کرنے والوں کے سفر میں آسانیاں پیدا فرمائے اور بحفاظت یہاں سب پہنچیں اور مقصد جلسہ سے حقیقی فیض اُٹھانے والے ہوں، اِسی طرح یوکے میں رہنے والے احباب بھی حقیقی روح اور جذبہ سے جلسہ میں شامل ہوں اور صرف اور صرف یہ بات مدنظر ہو کہ ہم نے جلسہ کے دنوں میں روحانی مائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔
مزید برآں حضور انور ایدہ الله نے ہر شامل جلسہ کی حضرت مسیح موعودؑ کے مہمان سمجھ کر خدمت کرنے کے تناظر میں جلسہ پر ڈیوٹیوں پر متعین کیے گئے کارکنان، مختلف شعبہ جات اور شاملین پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں اور مہمان نوازی کی بابت متفرق تفصیلی نصائح کرتے ہوئے آخر پر تلقین فرمائی کہ ہر ایک کو آنحضرتؐ کی اِس ہدایت پر عمل کرتے رہنا چاہیے کہ ہمیشہ مسکراتے رہو، الله تعالیٰ کرے کہ تمام کارکنان احسن رنگ میں اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دینے والے ہوں اور جلسہ ہر لحاظ سے بابرکت ہو، خاص طور پر ہر احمدی کو اِس جلسہ کی کامیابی کے لیے دعائیں کرتے رہنا چاہیے، الله تعالیٰ ہم سب کو اِس کی توفیق بھی دے۔
٭…٭…٭