آگیا نزدیک پھر موسم غمِ عاشور کا
آگیا نزدیک پھر موسم غمِ عاشور کا
بس دعا ہے اک سہارا اس دلِ رنجور کا
جس سے ہو جائیں مرے روشن خدایا دو جہاں
پھینک دے مجھ پہ بھی کوئی ایسا چھینٹا نور کا
گنبدِ خضرا و کعبہ کا کبھی دیدار ہو
تا سمجھ پاؤں کہ کیا ہوتا ہے جلوہ طور کا
حوضِ کوثر کے سنے ہیں میں نے چرچے ہر طرف
مجھ کو بھی اک جام دے دے بادۂ کافور کا
منحصر اس جنبشِ لب پر ہے ہر اک قاعدہ
بعد اس کے میں نہیں قائل کسی دستور کا
ہیں شجر پر طائرانِ خوشنما کے آشیاں
لے رہے ہیں لطف سب اس سایۂ بھرپور کا
’’صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے‘‘
ہے یہ پیغامِ نصیحت وقت کے مامور کا
جیتنا ہے سب دلوں کو حِلم سے اور پیار سے
ہم عَلم لے کر چلے ہیں امن کے منشور کا
میرا مرشد میرا آقا دیں کا جو سالار ہے
وہ خدا کا برگزیدہ پسر ہے منصور کا
بس محبت سے اگر وہ دیکھ لے میری طرف
حق ادا ہو جائے ہے لفظوں کے اس مزدور کا
بادشاہوں سے بھلا مجھ کو ظفؔر نسبت ہو کیا
میں تو ہوں چاکر، غلام ادنیٰ درِ مسرور کا
(مبارک احمد ظفرؔ)