سیرت صحابہ کرام ؓ

سبط نبی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ

(لئیق احمد مشتاق ۔ مبلغ سلسلہ سرینام، جنوبی امریکہ)

تاریخ اسلام اپنے دامن میں بعض ایسے درد ناک واقعات سموئے ہوئے ہے جنہیںگردش ماہ و سال محو نہیں کر سکتی، اور اِن دل گدازسانحات کی یاد تازہ رہتی ہے ۔انہی میں ایک عظیم سانحہ سبط ِنبی حضرت امام حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا واقعہ ہے۔اس المناک واقعہ کی یاد میں ہر سال اکناف عالم میں پھیلے مسلمان مختلف طریق سے اپنے غم واَلم کا اظہار کرتے ہیں۔نظم ونثر،تحریر و تقریر اور زبان و بیان کے مختلف طریق سے امام عالی مقام اور اہلِ بیت پر ہونے والے مظالم کا تذکرہ کرکے نوحہ خانی کی جاتی ہے، ماتمی جلوس نکالے جاتے ہیں اور شامِ غریباںمنعقد کی جاتی ہے۔اس حوالے سے براعظم ایشیا اور خاص طور پر برصغیر پاک وہند میں متعدد نامور ذاکرین ،حمادِ اہل بیت اور میر انیس اور میر دبیر جیسے نام ایک خاص تعارف رکھتے ہیں۔

ولادت باسعادت

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہٗ اور حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہما کے گھر ہجرت کے چوتھے سال تین شعبان بروز جمعرات آپ کی ولادت ہوئی۔نواسے کی ولادت کی خبر سن کر آقا دو جہاں ﷺ تشریف لائے۔ بچے کو گود میں لیا ، دائیں کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی اور اپنی زبان مبارک بچے کے منہ میں ڈالی۔ پیغمبر خدا ﷺ کا مقدس لعاب دہن حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پہلی غذابنا۔ ساتویں دن عقیقہ کیا گیا ۔سر کے بال اتروائے گئے اور ان کے ہم وزن چاندی صدقہ دی گئی۔

مناقب حُسین رضی اللہ عنہ

جگر گوشئہ رسول ﷺ امام عالی مقام حضرت امام حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات اقدس ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہے جنہیں مظہر اتم الوہیت کی انتہا درجہ کی قربت نصیب ہوئی۔اور آپ کے مناقب و فضائل صحاح ستہ میں بکثرت موجود ہیں۔بخاری کتاب المناقب میں موجود یہ حدیث ِپاک قیامت تک حسنین رضی اللہ عنہما کےمقام ،شان اور عظمت کی گواہ رہے گی۔

٭قال النَّبیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلَّم ھُمارِیحانتایی من الدُّنیا۔ یعنی یہ دونوں دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔

( بخاری کتاب المناقب ،باب مناقب الحسن الحسین رضی اللّٰہ عنہما)

٭حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’حسن اور حُسین دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘

٭حضرت یعلی بن مر ہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’حُسین مجھ سے ہے اور میں حُسین سے ہوں ، اللہ اسے دوست رکھتا ہے جس نے حسین کو دوست رکھا۔‘‘

٭حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ کسی نے پوچھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل بیت میں سے کون زیادہ پیارا ہے۔ فرمایا حسن اور حُسین۔آپ حضرت فاطمہ سے فرمایا کرتے تھے کہ بلائو ہمارے دونوں بیٹوں کو اور ان کو سونگھتے اور سینے سے لگاتے۔

٭حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا والی آیت نازل ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ ، حضرت علی اور حسن حُسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور ان پر ایک چادر ڈال کر کہا ’’اے اللہ یہ لوگ میرے گھر والے ہیں ،سو اِن کی ناپاکی دور کر اور انہیں اچھی طرح پاک کر دے۔‘‘

(ترمذی ابواب المناقب۔مناقب ابی محمدالحسن بن علی ابن ابی طالب،الحسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما)

مقام حُسین اور حکم عدل

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’اس میں کس ایماندار کو کلام ہے کہ حضرت امام حُسین اور امام حسن رضی اللہ عنہما خدا کے برگذیدہ اور صاحب کمال اور صاحب عفّت اور عصمت اور ائمۃ الہدیٰ تھے، اور وہ بلاشبہ دونوں معنوں کے رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آل تھے۔‘‘

(تریاق القلوب ،روحانی خزائن جلد 15،حاشیہ صفحہ 364،365)

’’حُسین رضی اللہ عنہ طاہرمطہّرتھا اور بلاشبہ وہ ان برگزیدوں میں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلا شبہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلب ایمان ہے اور اس امام کی تقویٰ اور محبت الٰہی اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لیے اسوۂ حسنہ ہے اور ہم اس معصوم کی ہدایت کے اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی۔ تباہ ہو گیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الٰہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ میں ایک خوبصورت انسان کا نقش۔ یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں۔کون جانتا ہے ان کا قدر مگر وہی جو اُن میں سے ہیں، دنیا کی آنکھ ان کو شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں۔ یہی وجہ حُسینؓ کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا ۔ دنیا نے کس پاک اور برگذیدہ سے اس کے زمانہ میں محبت کی تا حُسین ؓسے بھی محبت کی جاتی ۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد سوم ،صفحہ 545)

واقعہ کربلا کا پس منظر

کربلا کیا ہے کیا خبر اس کو

جس کے گھر میں یہ واقعہ نہ ہوا

مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ راشد حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہٗ کی شہادت کے بعد 40ھ میں کوفہ کی جامع مسجد میں بیس ہزار سے زائد مسلمانوں نے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کر لی، لیکن حضرت امیر معاویہ ؓ کے ساتھ بعض امور میں نزاع پیدا ہوا اور خون خرابے سے بچنے کے لیے حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت امیر معاویہ ؓسے صلح کر لی، اور ان کے حق میں دستبردار ہو گئے۔حضرت امیر معاویہ ؓنے اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹے یزید کو جانشین مقرر کرکے تمام صوبوں کے گورنروں اور عمال سے یہ عہد لیا کہ ان کی وفات کے بعد یزید عنانِ حکومت سنبھالے گا۔ جب 60ھ میں ان کی وفات ہوئی تو یزید نے حسب نامزدگی و وصیت اقتدار سنبھال کر تمام مسلمانوں کے لیے عہد اطاعت اور وفاداری کا فرمان جاری کر دیا۔مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے انتشار اور تفرقہ سے بچنے کے لیے یزید کی بیعت کر لی ، مگر بعض کبار صحابہ نے اس طریق کو ناپسند کیا اوریزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا ۔ ان میں حضرت امام حُسین، حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم قابل ذکر اور نمایاں نام ہیں۔

حضرت امام حُسین ؓ کی ہجرت

جب مدینہ کے گورنر نے یزید کی بیعت پر اصرار کیا تو حضرت امام حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ماہ رجب60ھ میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ خاموشی سے مکہ کی طرف ہجرت کر گئے اور شعب ابی طالب میں قیام کیا۔اس زمانے میں کوفہ ایسا شہر تھا جس میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عقیدت مند بڑی تعداد میں موجود تھے۔یہاں کے عامل نعمان بن بشیر تھے جو بہت تحمل سے کام کرنے والے انسان تھے۔جب اہل کوفہ کو حضرت امام حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یزید کی بیعت نہ کرنے اور مدینہ سے مکہ ہجرت کرنے کا علم ہوا تولوگ شہر کے معروف اور با اثر لیڈر سلیمان بن صرو خزاعی کے گھر پہ جمع ہوئے اور امام حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں ایک قرارداد پاس کی گئی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ہم تمام اہل کوفہ آپ کے والد ماجد کے وفادار اور جاں نثاراب آپ کو مکمل حمایت کا یقین دلاتے ہیں ،یہاں تشریف لائیے لاکھوں جاں نثار بیعت کریں گے۔ ہم فقط آپ کو عالم اسلام کا واحد خلیفہ دیکھنا چاہتے ہیں،اور آپ ہی اس کے مستحق ہیں۔ یہ قرارداد ایک مکتوب کی صورت قیس اور عبد الرحمٰن نامی اشخاص کے ہاتھ مکہ بھجوائی گئی ۔پھراہلیان کوفہ کی طرف سے پے در پے خطوط بھجوانے کا سلسلہ شروع ہو گیاکہ آپ ہمارے ہاں تشریف لائیں،ہم آپ کو اپنا امیر اور خلیفہ تسلیم کر لیں گے۔ایک خط کا مضمون تھا:’’باغات سرسبز ہو گئے ہیں اور پھل پک چکے ہیں ،اور پیالے چھلک رہے ہیں، آپ جب چاہیں اپنے جمع شدہ لشکر کے پاس آجائیں ۔ آپ پر سلامتی ہو۔‘‘

امن و آشتی کے شہزادے کا نواسہ کسی قسم کی امارت و سرداری کا طالب تھانہ کسی قسم کے خون خرابے اور قتل و غارت میں ملوث ہونے کا ارادہ رکھتا تھا،لیکن یزید کی حکومت سے نکلنا چاہتا تھا تاکہ خلافت کے نام پر جو ملوکیت اور جبرو استبداد کا دَور شروع ہوچکا تھااس کا حصہ نہ بنے اور اپنے دامن کو داغ دار کیے بغیر زندگی بسر کرسکے۔ایسی صورتِ حال میں اہل کوفہ کی طرف سے ہمدردی اور والہانہ محبت و وفا کے اظہار پر مشتمل خطوط ملے تو آپ نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیلؓ کو کوفہ جاکر حالات کا جائزہ لینے کا ارشاد فرمایا۔ حضرت مسلم بن عقیل ؓکوفہ پہنچے اور وہاں کے لوگوں نے آپ کا پر تپاک استقبال کیا، حالات کاجائزہ لینے کے بعدحضرت مسلم بن عقیلؓ نے حضرت امام حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پیغام بھجوایا کہ آپ بے خوف کوفہ آجائیں یہ لوگ آپ کے منتظر ہیں۔

امام عالی مقام کی کوفہ روانگی

مسلم بن عقیل ؓ کی طرف سے تسلی بخش جواب ملنے کے بعد حضرت امام حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے اہل و عیال اور ساتھیوں سمیت سفر کی تیاری شروع کر دی۔بعض بزرگان نے آپ کے اِس فیصلہ کی مخالفت کی، مثلا ًحضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے آپ کو اس سفر سے باز رہنے کی درخواست کی اور کہا کہ اگر جانا ہی ہے تو یمن چلے جائیں۔ اگر کوفہ جانے کا ارادہ پختہ ہے تو عورتوں اور بچوں کو ساتھ نہ لے جائیں۔ امام عالی مقام نے جواب دیا کہ’’استخارہ کے بعد کوئی فیصلہ کروں گا۔ ‘‘اگلی شام حضرت عبداللہ بن عباس نے آپ کی رائے پوچھی تو حضرت امام حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ میں نے کوفہ جانے کا عزم کر لیا ہے۔یہ ذوالحج کا مہینہ تھا اور حج کے ایّام تھے۔حضرت امام حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمرہ ادا کیا اور 3؍ذوالحج60ھ کو رخت سفر باندھا۔ 14؍خواتین سمیت کل 72؍افراد آپ کے ہم رکاب تھے۔ اِس قافلے نے مکہ سے کر بلاتک کے سفر میں 13؍منازل پر پڑائو کیا۔دوران سفر ’’ذات العرق‘‘ نامی جگہ پر آپ کا تیسرا پڑاؤ تھا جہاں آپ کے چچا زاد بھائی عبداللہ بن جعفر مدینہ سے آکر آپ کو ملے اور کوفہ کی بجائے مدینہ واپس چلنے کی تجویز پیش کی،لیکن حضرت امام حُسین نے اسے قبول نہ کیا اور اپنے ارادے پر قائم رہے۔

(تاریخ ابن کثیر،البدایہ والنھایہ، جلد ہشتم۔ واقعات امام حسین ؓ)

صورت حال کا یکسر تبدیل ہونا

مسلم بن عقیل ؓکے کوفہ پہنچنے کے بعد اہل کوفہ کا جوش و خروش بہت بڑھ گیا، اور یزید کی مخالفت میں اضافہ ہونے لگا اس صورت حال کی خبر جب یزید تک پہنچی تو اس نے فوراًعبیداللہ بن زیاد بن ابو سفیان کو کوفہ کا گورنر بنا کر بھجوایا اور حالات پر قابو پانے کی تلقین کی۔عبیداللہ بن زیاد نے آتے ہی شہر کے سرکردہ افراد کو گرفتار کرکے اذیتیں دینا شروع کر دیں۔ مسلم بن عقیل ؓکو بھی گرفتار کرکے نہایت ظالمانہ طریق پر شہید کر دیا گیا ۔حضرت امام حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حامیوں کو تلاش کر کر کے ان کا خاتمہ کیا جانے لگا۔ اور شہر میں اس طرح خوف اور دہشت کی فضا پیدا کی گئی کہ عوام الناس اپنے ارادوں سے پیچھے ہٹنا شروع ہو گئے ،اور کوفہ کی صورت حال یکسر بدل گئی۔جب اس ظالم گورنر کو حضرت امام حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مکہ سے کوفہ کی طرف روانگی کی خبر ملی تو اُس نے آپ کو راستے میں ہی روکنے کے لیے ایک لشکر تیار کرکے بھجوایا جس نے قادسیہ کے مقام پر ڈیرے ڈال کر چاروں طرف اپنے مخبر اور سوار پھیلا کر کڑی نگرانی شروع کر دی۔

حالات کی سنگینی

حضرت امام حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ دورانِ سفر ’’ثعلبیہ‘‘کے مقام پر پہنچے تو آپ کو مسلم بن عقیل ؓ کی شہادت کی اطلاع ملی،اور حالات کی سنگینی کا علم ہوا۔یہ خبر سن کر آپ کے بعض رفقاء نے آپ کو واپسی کی ترغیب دی ،جبکہ مسلم بن عقیلؓ کے خاندان نے کوفہ جا کر اُن کی شہادت کا بدلہ لینے پر اصرار کیا۔اس طرح کوفہ کی طرف سفر جاری رہا،راستے میں کئی عقیدت مند اس قافلے میں شامل ہوتے رہے اور یہ کارواں کوفہ کی جانب رواں دواں رہا۔دوران سفر کوفہ کے کچھ اَور جاں نثاروں کی شہادت کی خبریں آپ کو ملیں اور گورنر کی طرف سے کی جانے والی سختیوں کی تفصیل اور لوگوں کے خیالات کی تبدیلی کا پتہ چلا۔ ان حالات میں امام عالی مقام نے ایک جگہ رک کر اہل قافلہ سے خطاب فرمایاکہ ’’آپ لوگ جانتے ہیں کہ اہل کوفہ جو ہماری محبت کا دعویٰ کرتے تھے اب ہمارا ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔ اس لیے آپ میں سے بھی جوکوئی ہمیں چھوڑ کر جانا چاہے وہ جا سکتا ہے ،اس پر کوئی الزام نہیں ہو گا۔ ‘‘یہ سن کر بہت سے لوگ جو دوران سفر آپ کے ہم رکاب ہوئے تھے تتربتر ہو گئے ،ا ور کم و بیش وہی لوگ بچے جو آغاز سفر سے آپ کے ساتھ تھے۔جب یہ قافلہ اپنی نویں منزل ’’اشراف‘‘پر اترا تو محرم الحرام کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔یہاں حُر بن یزید ایک ہزار سپاہیوں کے لشکر کے ساتھ پہنچ گیا اور امام حُسین کے ساتھیوں کو گھیرے میں لے لیا۔امام حُسین نے اسے بتایا کہ میں اہل کوفہ کے اصرار پر یہاں آیا ہوں اور وہ خطوط دکھائے جو آپ کو بھجوائے گئے تھے۔حُر نے کہا کہ ہمارا ان خطوط سے کوئی تعلق نہیں۔ساتھ ہی اس نے کہا کہ مجھے حکم ہے کہ آپ کو واپس نہ جانے دوں ۔

کربلا میں آمد

دو محرم الحرام کو ابن زیاد کا ایک قاصد حُرکے پاس یہ پیغام لے کر آیا کہ’’جہاں یہ خط ملے وہیں حُسین کو روک لو اور ایسے بیابان میں اتارو جہاںپانی اور آبادی نہ ہو۔‘‘حُر نے یہ خط بآواز بلند سنادیا۔یوں 3؍ذوالحج 60ھ کو سفر کا آغاز کرنے والا یہ قافلہ ایک ماہ میں قریباً نوسو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے 2؍محرم الحرام 61ھ کو کربلا کے میدان میں پہنچ گیا۔ 3؍محرم کو عمرو بن سعدکوفہ سے مزید چار ہزار فوج لے کر پہنچ گیا ، جسے یہ حکم ملاتھا کہ یزید کے نام پر امام حُسین ؓ اور آپ کے ساتھیوں سے بیعت لی جائے ، باقی معاملات بعد میں طے ہوں گے۔ پھر چند دن بعد یہ حکم ملا کہ امام حُسین اور ان کے ساتھیوں پر دریائے فرات کا پانی بند کر دیا جائے۔چنانچہ پانی پر پہرا بٹھا دیا گیا ،اور ان مٹھی بھر افراد کا جینا دوبھر کرنے کے لیے ہزاروں کا لشکر ہمہ وقت تیارو مستعد رہنے لگا۔

پیغام جنگ

نو محرّم کوعمرو بن سعدجنگ کا پیغام لے کر آیا ۔حضرت امام حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے(جو آنے والے حالات کا پوری طرح ادراک رکھتےتھے)ابن سعد سے فرمایا میرے لیے ایک رات کی مہلت طلب کرو ۔تا کہ میں یہ رات خدا کے حضور عبادت، تلاوت قرآن کریم ، دعا اور استغفار میں گزار لوں۔اس کے بعد آپ نے اپنے مٹھی بھر جاں نثاروں کو جمع کیا اور فرمایا:’’تم لوگ میرے بہترین اور وفادار ساتھی ثابت ہوئے۔ خدا تم لوگوں کو ہماری طرف سے جزائے خیر دے۔میں تم لوگوں کو بخوشی واپس جانے کی اجازت دیتا ہوں ۔ رات ہو چکی ہے، ایک ایک اونٹ پکڑو اور ایک ایک میرے اہل بیت کا ہاتھ پکڑو ، اور یہاں سے چلے جائو ۔یہ لوگ تو مجھے ہی ڈھونڈیں گے اور میرے بعد انہیں کسی کی تلاش نہیں رہے گی۔‘‘آ نے والے کل کی سختی اور یقینی موت کو سامنے کھڑا دیکھتے ہوئے بھی اتنی واضح پیشکش کے باوجود نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بھی ساتھی میدان چھوڑنے پر راضی نہ ہوا ، اور عشق و وفا اور صبرو رضا کی ایسی نادر مثال باقی چھوڑی جو رہتی دنیا تک تاریخ اسلام کے ایک زرّیں باب کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔ ساتھیوں کا جواب سننے کے بعد آپ ؓ نے باقی رات بارگاہ ایزدی میں سر بسجودگریہ و زاری اور مولاکریم سے رازونیازمیں گزاری۔

یوم عاشورہ

اگلاروز یوم عاشوریعنی دس محرّم الحرام تھا۔ طلوع آفتاب کے ساتھ ہی حُسینی لشکرا فواج یزیدکے مقابل آکھڑا ہوا۔ چند جاں نثاروں کے مقابل ہزاروں کا لشکرجوش مار رہا تھا۔جنگ کی ابتدا سے پہلے امامِ عالی مقام نے اپنے مقدس ومطہر نانا ﷺکا عمامہ سر پہ باندھا ،اور اونٹ پر سوار ہو کر لشکرِابن سعد کے سامنے فصیح و بلیغ تقریر کی ، جس میں آپ نے خاندان رسول ﷺ کی عظمت و احترام اور اُن سے نسبت کی وجہ سے اپنے مقام ومرتبے کی طرف توجہ دلائی۔ نیز بعض افراد کا نام لے لے کر انہیں بلند آواز سے پکارا اور سوال کیا کہ کیا تم نے مجھے خطوط لکھ لکھ کر اور قاصد بھجوا کر یہ وعدہ نہیں کیا تھا کہ آجائو ،ہم تمہاری مددو نصرت کریں گے۔ان لوگوں کی طرف سے جواب ملا کہ اب ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس اتمام حجت کے بعد حضرت امام حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے خیمے کی طرف لَوٹ آئے، اور ابن سعد نے تیر چلا کر جنگ کا اعلان کر دیا۔جنگ شروع ہو ئی تو خاندان مقدس کے بھوکے پیاسے اور لمبے سفر کی تکان سے چور نوجوان شیروں کی طرح لڑتے ایک ایک کرکے اپنے خون کا نذرانہ پیش کرتے رہے، یہاںتک کہ اہل بیت کے نونہالوں کی باری آگئی، اور وہ بھی ایک ایک کرکے قربان ہو گئے ۔بالآخر حُسین ابن علی ؓباقی بچے،جو دشمن کی صفوں کو چیرتے ہوئے اِدھر سے اُدھر نکل جاتے ۔

شہادت حُسین ؓ

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز فرماتے ہیں :’’روایات میں آتا ہے کہ جب آپ کے لشکر پر دشمنوں نے غلبہ پا لیا تو آپ ؓ نے اپنے گھوڑے کا رخ دریائے فرات کی طرف کیا ، ایک شخص نے کہا کہ ندی اور ان کے درمیان حائل ہو جائو ۔ چنانچہ لوگوں نے آپ کا راستہ روک لیا اور دریا تک نہ جانے دیا ۔ اُس شخص نے آپ کو ایک تیر مارا جو آپ کی ٹھوڑی کے نیچے پیوست ہو گیا ۔ راوی آپ کی جنگ کی حالت کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ عمامہ باندھے وسمہ لگائے ہوئے پیدل اِس طرح قتال کر رہے تھے ،جنگ کر رہے تھے جیسے کوئی غضب کا شہسوار تیروں سے بچتے ہوئے حملہ کرتا ہے،میں نے شہادت سے قبل آپ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اللہ کی قسم! میرے بعد بندگان ِخدا میں سے تم کسی بھی ایسے بندے کو قتل نہیں کروگے جس کے قتل پر میرے قتل سے زیادہ خدا تم سے ناراض ہو۔ واللہ مجھے تو یہ امید ہے کہ اللہ تمہیں ذلیل کرکے مجھ پر کرم کرے گا۔ پھر میرا انتقام تم سے اس طرح لے گا کہ تم حیران ہو جائو گے ۔ اللہ کی قسم! اگر تم نے مجھے قتل کیا تو اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان جنگ کے سامان پیدا کر دے گا اور تمہارا خون بہایا جائے گا اور اللہ اِس پر بھی راضی نہیں ہو گا یہاں تک کہ تمہارے لیے عذاب الیم کئی گنا بڑھا دے ۔ یہ میں بیان کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کو شہید کرنے کے بعد کس طرح سلوک کیا گیا ؟ کوفیوں نے خیموں کو لوٹنا شروع کردیا، حتیٰ کہ عورتوں کے سروں کی چادریں تک اتارنا شروع کر دیں ۔ عمرو بن سعد نے منادی کی کہ کون کون اپنے گھوڑوں سے حضرت امام حُسین کو پامال کرے گا؟ یہ سن کر دس سوار نکلے جنہوں نے اپنے گھوڑوں سے آپ کی نعش کو پامال کیا یہاں تک کہ آپ کے سینے اور پشت کو چور چور کر دیا، اس لڑائی میں حضرت امام حُسین ؓکے جسم پر تیروں کے 45زخم تھے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق پینتیس زخم نیزے کے اور پینتالیس زخم تلوار کے تھے۔ اور تیروں کے زخم ان کے علاوہ تھے۔اور پھر ظلم کی انتہا یہ ہوئی کہ حضرت امام حُسین کا سر کاٹ کر جسم سے علیحدہ کر کے اگلے دن عبید اللہ بن زیاد گورنر کوفہ کے پاس بھیجا گیا ، اور گورنر نے حضرت امام حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سر کوفہ میں نصب کر دیا ۔ اس کے بعد زہر بن قیس کے ہاتھ یزید کے پاس سر بھیج دیا گیا‘‘۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍دسمبر 2010ء ۔ الفضل انٹر نیشنل 31؍دسمبر 2010ء صفحہ 6)

سرورکائنات ﷺ کے اس محبوب نواسے نے 61؍ہجری میںمحرّم کی دس تاریخ کو عصر کے وقت کربلا کے میدان میں جرأت وبہادری کی تاریخ رقم کرتے ہوئے چوّن سال ساڑھے چھے ماہ کی عمر میںجامِ شہادت نوش کیا اور ابدی زندگی کا جام پیا۔

(تاریخ ابن کثیر،البدایہ والنھایہ، جلد ہشتم۔ واقعات امام حسین ؓ)

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب عبید اللہ بن زیاد کے پاس حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سر مبارک لایا گیا جو ایک طشت میں رکھا گیا تھا تو ابن زیاد اپنی چھڑی ان کی آنکھ اور ناک میں مارنے لگا ،اور آپ کی خوبصورتی کے بارے میں کچھ کہا ،تو انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا آپ سب سے زیادہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھے۔ شہادت کے وقت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر کے بالوں اور ڈارھی پر وسمہ کا خضاب لگا ہو اتھا۔‘‘

(بخاری کتاب المناقب ،باب مناقب الحسن الحسین رضی اللّٰہ عنہما)

(شہادت امام حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے تفصیلی مضامین ہفت روزہ الفضل انٹر نیشنل لندن کے 31؍اکتوبر 2014ء، اور روزنامہ الفضل ربوہ کے 3؍دسمبر 2011ء کے شماروں میں ملاحظہ فرمائیے)

کربلا کل اور آج

بغداد سے قریباً سو کلو میٹر دوردریائے فرات کے کنارے واقع’’کربلا‘‘ چٹیل ا ور بے آباد ویرانہ کے سوا کچھ نہ تھا، مگر جگر گوشئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد خاکی کی برکت سے آج یہ سات لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل ایک مرجع خلائق شہر ہے۔ پوری طرح سرسبز و شاداب ، حسین و دلکش فلک شگاف عمارات ،کھلے بازار ،پلاسٹک اور پیتل کی صنعتوںسے مالامال،عبائیں ، قالین بافی اور کڑھائی کے ہنر سے آراستہ لوگوں کا شہر، جہاں سینکڑوں مساجدہیں، بیسیوں سکول کالج اور یونیورسٹیاں علوم کے چشمے بہا رہی ہیں۔ اسلامی دنیا میں مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے بعد مشہور ترین مقامات میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ طلائی گنبد اور بلند و بالا میناروں سے مزین سبط نبی حُسین رضی اللہ تعالیٰ کی آخری آرامگاہ اور حضرت عباس ؓ کا مزارمرجع خلائق ہیں۔ اسلامی کیلنڈر کے ابتدائی مہینے محرم الحرام میں اطراف عالم میں کربلا کا ذکر بڑی کثرت سے گونجتا ہے۔ قریبا ً بیس لاکھ سے زائد لوگ ہر سال زیارت کے لیے یہاں آتے ہیں۔

واقعہ ٔکربلااور جماعت احمدیہ کا مؤقف

مورخہ 8؍دسمبر1992ء کو منعقدہ مجلس عرفان میں ایک شخص نے سوال کیا :’تاریخ اسلام میں اہل بیت کی بہت زیادہ اہمیت ہے،اور واقعہ کربلا کے بارے میں ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ اگر یہ نہیں ہوتا تو آج اسلام زندہ نہیں ہو تا ۔لیکن جماعت احمدیہ کے کتابی لٹریچر میں تو شاید اس بات کا ذکر ہو مگر کسی محفل میں مَیں نے اس کا ذکر نہیں سنا؟‘

اس کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن ،اسلام اس وقت زندہ ہو چکا تھا اور ہمیشہ کے لیے زندہ ہو چکا تھا جب قرآن تکمیل کو پہنچا ہےاور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آخری شارع نبی کے طور پر ہمیشہ کے لیے دنیا کا نمونہ بنا دیا گیا ۔ اس لیے واقعہ کر بلا نے اسلام کو نقصان پہنچایا ہے، فائدہ نہیں پہنچایا۔ نقصان پہنچایا ہے اور گہرا نقصان پہنچایا ہے۔کیونکہ دنیا کے سب سے بڑے محسن کے ساتھ احسان فراموشی کا اظہار کیا گیا ہے، اور آپ کی او لاد سے محبت اور عزت سے پیش آنے کی بجائے اس کی بے حرمتی کی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ اس طرح مذاہب کو زندہ نہیں کیا کرتا کہ اپنے پیاروں کی بے عزتیاں کروا کروا کر مذاہب کو زندہ کرے ۔ اس لیے صرف شیعہ مقررین کا ایک ٹکسالی کا فقرہ ہے، اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔اسلام کی زندگی کا تعلق کربلا سے نہیں ہے۔اسلام کی زندگی کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم اور وہ صحابہ جو آپ نے پیدا کیے ان کے اخلاق ،ان کے اعمال حسنہ سے ہے۔ اور یہ کسی واقعہ کربلا کا محتاج نہیں ۔ واقعہ کربلا سے پہلے بھی تو میدان جنگ میں مسلمانوں کو قربانیاں دینی پڑی ہیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود ایک موقع پر اتنے زخمی ہوئے کہ دشمنوں نے اعلان کر دیا کہ آپ شہید ہو گئے ، انہوں نے شہید تونہیں کہا ، بلکہ کہا قتل کر دیا ہے۔ اور اس واقعہ کا ذکر قرآن کریم نے اس طرح پیش فرمایا کہ اس سے بہت نقصان پہنچا ہے ، تکلیف ہوئی ہے، اور استغفار کرنی چاہیے ان لوگوں کو جو اس واقعہ کے شاہد ہیں ، اور اس کے بد نتائج سے اللہ نے محض اپنے رحم سے ان کو بچا لیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قریبی شہادت سے تو اتنا نقصان پہنچا تھا کہ قر آن کریم نے اس کا ذکر کیا ہے اور اپنے فضل کا اظہار فرمایا ہے کہ خدا کا فضل نہ ہوتا تو وہ تمہیں نہ بچاتا ، اس کا بہت بڑا نقصان ہونا تھا ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسوں کی شہادت سے اسلام زندہ ہو گیا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟

پھر واقعہ ٔکر بلا میرے نزدیک انتہائی دردناک واقعہ ہے جس پر مسلمانوں کو استغفار کرنا چاہیے، اور پہلوں کے لیے بھی استغفار جائز ہے، آئندہ لوگوں کے لیے بھی استغفار جائز ہے۔ قرآن کریم تعلیم دیتا ہے کہ اپنے آبائواجداد کے لیے بھی استغفار کرو ۔ پس میرا تو یہ ردّعمل ہے کہ جب میں یہ دردناک واقعہ پڑھتا ہوں تو استغفار کرتا ہوں ۔ان لوگوں کے لیے بھی جنہوں نے ظلم کیا ہے ، اگر وہ آنکھیں کھول کر ظلم کرنے والے ہیں تو میرا یہ عقیدہ ہے کہ ایسے لوگوں کو سزا کے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا ۔ لیکن اگر غلطیاں ہوئی ہیں ، یا دونوں طرف سے کچھ غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں ، تو اس معاملے میں ہمیں بحث نہیں کرنی چاہیے ، کیونکہ انہوں نے ہمارے سامنے نہیں پیش ہونا ، اور اس لیے بھی تاریخ پر اتنے ابہام کے پردے ہیں کہ شیعہ روایتیں، سُنّی روایتیں ، ا ن کے اندر فرق اور اسناد الگ الگ ، واقعہ ایک مگر مختلف طریق سے بیان ہوا ہوا۔ اس لیے ان باتوں پر جج بیٹھنے کا کس کو حق ہے ، جبکہ ہمارے فیصلے سے فرق بھی نہیں پڑنا ، فیصلہ اللہ نے کرنا ہے اور قیامت کے بعد کرنا ہے۔ تو فضول بحثوں میں امت کو پھاڑا جائے، ا ختلاف کیا جائے۔ یہ اپنے نقصان کے سوا آپ کو کچھ نہیں دے گا۔اسی لیے میں نےکہا تھا نقصان زیادہ ہوا ہے ۔ امت بیچ میں سے دو نیم ہو گئی ،پھٹ گئی،اور اگرایک اُمت شیعہ سنی دو امتوں میں نہ بدلتی تو آج اسلام کی ترقی کہیں سے کہیں پہنچ جانی تھی۔

بہت بڑے نقصان اسلامی تاریخ میں شیعہ اور سنی اختلاف کے نتیجے میں ہوئے ……جن پر تاریخ گواہ ہے …… اس لیے میرے نزدیک اگر آپ اجازت دیں تو معذرت کے ساتھ، میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ اس واقعہ کے بعد اسلام زندہ ہوا ہے۔اس واقعہ سے اسلام کی زندگی کوبڑاسخت صدمہ پہنچا ہے، اور اس کے نقصان آج تک ہم دنیا میں دیکھ رہے ہیں‘۔

واقعہ کر بلا اور ارشادِامام

واقعہ کربلا کے متعلق ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز فرماتے ہیں:

’’اگر پہلے حُسین کو یزید نے حق گوئی کی وجہ سے شہید کیا تھا تو دوسرے حسینؓ کی وجہ سے خدا تعالیٰ یزید کے لشکر کو شکست دے گا، انشا اللہ۔ پس ہم تو اس ایمان پر قائم ہیں ۔ پس اگر محرم کا مہینہ ہمیں کوئی سبق دیتا ہے تو یہ ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کی آل پر ہمیشہ درود بھیجتے رہیں ۔ زمانے کے امام کے مقاصد کے حصول میں درود، دعائوں اور اپنی حالتوں میں پاک تبدیلی پیدا کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔اور یزیدی صفت لوگوں کے سامنے استقامت دکھاتے ہوئے ہمیشہ ڈٹے رہیں ۔ یقیناً اس مرتبہ یزید کامیاب نہیں ہوگا، بلکہ حسینی ہی کامیاب ہو ں گے۔ استقامت کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہی ملتی ہے ، اور اللہ تعالیٰ کی مدد کے لیے اللہ تعالیٰ نے دعا اور صبر کا ارشاد فرمایا ہے ۔ صبر صرف ظلم کو برداشت کرنا ہی نہیں ہے ۔ جو ہو جائے اس پر خاموش بیٹھے رہنا نہیں ہے ، بلکہ مستقل مزاجی کے ساتھ نیک کام کو جاری رکھنا اور کسی بھی خوف اور خطرے سے بے پروا ہو کر حق کا اظہار کرتے چلے جانا ، یہ بھی صبر ہے۔پس حضرت امام حُسین نے جو حق کے اظہار کے نمونے ہمارے سامنے قائم فرمائے ہیں اسے ہمیں ہر وقت پکڑے رہنا چاہیے۔ اور اگر ہم اس پر قائم رہے تو اُس فتح اور کامیابی کا حصہ بنیں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ساتھ مقدر ہے، انشا اللہ۔ دعائوں کی قبولیت کے لیے درود شریف بہت اہم چیز ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے۔ احادیث میں بھی اس کا بہت ذکر آتا ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی درود کی طرف توجہ دلائی ہے ۔اس لیے ہمیں عموماًدرود کی طرف متوجہ رہنا چاہیے اور اس مہینے میں خاص طور پر اس طرف توجہ رکھنی چاہیے۔ جیسا کہ ایک مرتبہ پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے بھی اس کی خاص تحریک فرمائی تھی تو میں بھی اس کا اعادہ کرتے ہوئے یاد دہانی کرواتا ہوں کہ اس مہینے میں درود بہت پڑھیں۔ یہ جذبات کا سب سے بہترین اظہار ہے جو کربلا کے واقعہ پر ہو سکتا ہے ، جو ظلمتوں کو ختم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد چاہنے کے لیے ہو سکتا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھیجا گیا یہ درود آپ کی جسمانی اور روحانی اولاد کی تسکین کا باعث بنتا ہے ۔ ترقیات کے نظارے بھی ہمیں نظر آتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیاروں سے پیار کا بھی یہ ایک بہترین اظہار ہے ۔ اور اس زمانے میں آپ کے عاشق صادق مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقاصد کی تکمیل میں بھی یہ درود بے انتہا برکتوں کے سامان لے کر آئے گا، انشاء اللہ تعالیٰ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان دنوں میں خاص طور پر درود پڑھنے کی زیادہ سے زیادہ درود پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍دسمبر 2010ء ۔ الفضل انٹر نیشنل 31؍دسمبر 2010ء صفحہ 7)

حرف آخر

ابتدائے آفرینش سے کائنات کے قیام کا مقصود و منتہا توحید خالص کا قیام ہے۔حضرت آدم سے لے کرفخر موجودات حضرت محمد ﷺ تک ہر پیغمبر و رسول نے توحید کامل کا درس دیا،اور اپنے پیروکاروں کو خدائے واحد کا پرستار بنایا،اور یہی دین قیّم ہے۔’’وَمَآ اُمِرُوٓااِلَّا لِیَعْبُدُوااللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآءَ وَیُقِیْمُواالصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُواالزَّکٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ‘‘۔(البینۃ:6)
حضرت امام حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اعلائے کلمہ حق کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا،انتہائی بے سرو سا مانی کے عالم میں اپنے جگر گوشوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے بھوک پیاس سے تڑپتےدیکھا۔اپنے گھرانے کی عفیف و عصمت مآب خواتین کو کربلا کے میدان میں بلکتے اور ظالموں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرتے دیکھا، اور خود اپنے پاکیزہ خون سے کربلا کی زمین کوسرخ کیا ،لیکن یہ ہر گز گوارا نہ کیا کہ ان لوگوں کے سامنے سرتسلیم خم کریں جو اسلام جیسے کامل و اکمل دین کی تباہی کے درپےَ ہیں ۔ اسلام کی حفاظت کے لیے قربانی و ایثار، عزم و استقلال،ثابت قدمی اور جاں نثاری کی یہ ایسی عمدہ و اعلیٰ مثال ہے جو ہر مسلمان کے دل میں جوش ا ور ولولہ پیدا کرتی ہے۔لیکن قابل افسوس امر یہ ہے کہ یہ جذبہ محض عارضی اور وقتی ہوتا ہے۔عشرہ محرم ختم ہوتے ہی اس قربانی کی یاد اور مقصد بھلا دیا جاتا ہے۔ امام عالی مقام کی یہ عظیم قربانی اس لیے نہیں تھی کہ مسلمان ہر سال سینہ کوبی یا نوحہ خوانی کریںاور مرثیے لکھیں بلکہ عسر ویسر،تنگی و بلا کے وقت عَلم توحیدبلند رکھنااور اس کی خاطر جان، مال، عزت وآبرو قربان کردینا اس کا مقصد تھا،ہے اور رہے گا۔ موجودہ زمانے میں اسلام چاروں طرف سے دشمنوں میں گھِر اہوا ہے، اُس وقت ایک یزید تھا آج یہ دین مختلف یزیدوں کے نرغے میں ہے۔وہ موعود اقوام عالم جو دین حق کو ادیان باطلہ پر غالب کرنے کے لیے آخری لڑائی لڑنے آیا ہے’’مرثیہ تفرقہِ حالتِ اِسلام‘‘ میںبڑے درد کے ساتھ لکھتا ہے:

مے سَرَّو،گرخُوں بِبارَد،دیدۂ ہر اہل دیں

بر پریشاں حالئیِ اسلام و، قحطُ المُسلمیں

ہر طرف کُفرست جوشاں ،ہمچو افواج یزید

دِین حق بیمارو بیکس ، ہمچو زَین العابِدیں

ترجمہ:

مناسب ہے کہ ہر دین دار کی آنکھ خون کے آنسو

روئے، اسلام کی پریشان حالی اور قحط المسلمین پر۔

افواج یزید کی مانند ہر طرف کفر جوش میں ہے اور

دین حق زین العابدین کی طرح بیمار و بے کس ہے۔

(درثمین فارسی مُترجم صفحہ 154)

پس یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اولین کے دور میں بھی اسلام بدر،حنین ،خندق و کربلا سے گزرتا ہوا کامیابی و کامرانی سے سرفراز ہوا،اور آخرین کے دور میں بھی یہی مقدر ہے۔

امام آخر الزماں علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’سچائی کی فتح ہوگی اور اسلام کے لیےپھر اُس تازگی اور روشنی کادن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے ۔ لیکن ابھی ایسا نہیں ۔ضرور ہے کہ آسمان اُسے چڑھنے سے روکے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں اور ہم سارے آراموں کو اُس کے ظہور کے لیے نہ کھو دیں اور اعزاز اسلام کے لیے ساری ذلتیں قبول نہ کر لیں ۔ اسلام کازندہ ہوناہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے۔وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا ۔یہی موت ہے جس پر اسلام کی،مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے ‘‘۔

(فتح اسلام ،روحا نی خزائن جلد 3صفحہ 11-10)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button