جماعت احمدیہ کا پہلا جلسہ سالانہ اور جلسہ سالانہ کی اغراض و مقاصد
دعویٰ مسیحیت کے بعد کے ایام حضرت اقدس کے لئے نہایت ہی مصروفیت کے ایام تھے مخالف علماء ہر محاظ، پر حضور علیہ السلام کے خلاف آگ بھڑکا رہے تھے مگر حضور بڑے استقلال اور ہمت کے ساتھ کوہ وقار بن کر پیغام الٰہی پہنچانے میں مصروف تھے ، اس غرض کے لیے آپ نے لمبے لمبے سفر بھی اختیار کئے مگر جہاں حضور عقائد کی جنگ میں شمشیر برہنہ لے کر کھڑے تھےوہاں مبائعین کی تربیت سے بھی غافل نہ تھے چنانچہ حضور علیہ السلام نے ارشاد الٰہی کی بنا پر جماعت احمدیہ کی تعلیم و تربیت،دعوت الی اللہ اور دیگر کئی دینی مقاصد کے پیش نظر 1891 ءمیں جلسہ سالانہ کی بنیا د رکھی ۔یہ جلسہ 27 دسمبر 1891 ءکو مسجد اقصی قادیان میں منعقد ہوا جس میں صرف 75 اصحاب شریک ہوئے۔اس جلسہ میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کاتحریرفرمودہ مضمون ’’آسمانی فیصلہ ‘‘ پڑھ کر سنایا۔ جس میں مخالف مولویوں کو چار شرائط کے ساتھ مقابلہ کی دعوت دی مگر کوئی مخالف آپ کے مقابل پر کھڑا نہ ہوسکا۔
اس کے بعد 1891ء میں ہی مذکورہ بالا ’’آسمانی فیصلہ ‘‘شائع ہوا ۔ اس کے ساتھ ہی 30 دسمبر 1891 ءکو حضور نے تمام جماعت کو ایک اشتہار کے ذریعہ اطلاع دی کہ آئندہ ہر سال دسمبر کے آخری ہفتہ میں 27،28،29 دسمبر کو جماعت کا سالانہ جلسہ منعقد ہو ا کرے گا ۔اور اس اشتہار میں جلسہ کی اغراض و مقاصد کا ذکر کیا اور ان برکات کا ذکر کیا جو اس کے ساتھ وابستہ ہیں۔
پہلےجلسہ میں آپ نے مورخہ 30 دسمبر 1891 ءکو حسب ذیل اعلان فرمایا :
’’تما م مخلصین داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سےغرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولا کریم اور رسول مقبول کی محبت دل پر غالب آجائے اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہو جائےجس سے سفر آخرت مکروہ معلوم نہ ہو۔لیکن اس غرض کے حصول کے لیے صحبت میں رہنا اور ایک حصہ اپنی عمر کا اس راہ میں خرچ کرنا ضروری ہے تاکہ اگر خداتعالیٰ چاہے تو کسی برہان یقینی کے مشاہدہ سے کمزوری اور ضعف اور کسل دور ہو اور یقین کامل پیدا ہو کر ذوق او ر شوق اور ولولہ عشق پیدا ہو جائے ۔سو اس بات کے لیے ہمیشہ فکر رکھنا چاہئے اور دعا کرنا چاہیے کہ خداتعالیٰ یہ توفیق بخشے اور جب تک یہ توفیق حاصل نہ ہو کبھی کبھی ضرور ملنا چاہیے کیونکہ سلسلہ بیعت میں داخل ہو کر پھر ملاقات کی پروا ہ نہ رکھناایسی بیعت سراسر بے برکت اور صرف ایک رسم کے طور پر ہوگی اور چونکہ ہر ایک کے لیے بباعث ضعف فطرت یا مقدرت یا بُعد ِمسافت یہ میسر نہیں آسکتا کہ وہ صحبت میں آکر یا چند دفعہ سال میں تکلیف اٹھا کر ملاقات کے لیے آوے کیونکہ اکثر دلوں میں ابھی ایسا اشتعالِ شوق نہیں کہ ملاقات کے لیے بڑی بڑی تکالیف اور بڑے بڑے حرجوں کو اپنے پر روا رکھیں ۔لہذا قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ سال میں تین رو ز ایسے جلسے کے لیے مقرر کئے جائیں جس میں تمام مخلصین اگر خدا تعالیٰ چاہے بشرط صحت و فرصت و عدم موانع قویّہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہوسکیں ۔سو میرے خیال میں بہتر ہے کہ وہ تاریخ 27 دسمبر سے 29 دسمبر تک قرار پائے ۔یعنی آج کے دن کے بعد جو تیس دسمبر 1891ءہے آئندہ اگر ہماری زندگی میں 27 دسمبر کی تاریخ آجائے تو حتی الوسع تمام دوستوں کو محض لِلہ زبانی باتوں کے سننے کے لیے اور دعا میں شریک ہونے کے لیے اس تاریخ پر آجانا چاہئے ۔ اور اس جلسہ میں ایسے حقائق و معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کے لیے ضروری ہیں ۔اور نیز ان دوستوں کے لیے خاص دعائیں اور خاص توجہ ہوگی اور حتی الوسع بدرگاہ ارحم الراحمین کوشش کی جائے گی کہ خداتعالیٰ اپنی طرف ان کو کھینچے اور اپنے لیے قبول کرے اور پاک تبدیلی ان میں بخشے …‘‘
(اشتہارآسمانی فیصلہ)
یہ جلسہ قادیان کی مسجد اقصیٰ میں ہوا ۔اس کی جو روئداد حضرت اقدس کی کتاب’’آسمانی فیصلہ‘‘ میں درج ہے اس میں اس مجمع کو اس وقت کے حالات کے لحاظ سے ’’جمّ غفیر‘‘قرار دیا گیا ہے ۔مگر اب وہی جلسہ جس کی بنیاد مسیح پاک علیہ السلام نے اپنے مقدس ہاتھوں رکھی تھی۔ اس میں ہزارہا کی تعداد میں تمام دنیا سے عاشقانِ زار جمع ہوتے ہیں۔
بفضلِ ایزدی جلسہ ہمارا
برائے تشنگاں ابرِ کرم ہے
سالانہ جلسہ کا آغا ز جن مشکلات کے ساتھ ہوا ،اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ۔سلسلہ کے مخالف مولویوں کی طرف سے اس جلسہ میں شمولیت سے روکنے کے لئے جو پراپیگنڈہ کیا گیا اس کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسجد چینیانوالی لاہور کے اما م مولوی رحیم بخش نے زور شور سے فتوی دیا کہ ایسے جلسہ میں جانا بدعت بلکہ معصیت ہے اور جو شخص اسلام میں ایسا امر پیدا کرے وہ مردود ہے۔
اس وقت کے حالات میں صرف مذہبی اعتبار سے نہیں بلکہ اقتصادی اعتبار سے ہی اس اجتماع کا سلسلہ جاری رہنا بظاہر ناممکن تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کی جہاں قدم قدم پر تائید و نصرت فرمائی وہاں پر غیب سے اس مبارک تقریب کے جاری رہنے کے سامان بھی پیدا کردیے ۔چنانچہ حضرت منشی ظفر احمدصاحب کپورتھلویؓ کا بیان ہے کہ’’ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقعہ پر خرچہ نہ رہا ۔ان دنوں سالانہ جلسہ کے لیے چندہ جمع ہو کر نہیں جاتا تھا حضور اپنے پاس سے ہی صَرف فرماتے تھے۔میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے آکر عرض کی کہ رات کو مہمانوں کے لیے کوئی سالن نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ بیوی صاحبہ سے کوئی زیور لے کر جو کفایت کر سکے فروخت کرکے سامان کرلیں ۔چنانچہ زیور فروخت یا رہن کر کے میر صاحب روپیہ لے آئے اور مہمانوں کے لئے سامان بہم پہنچا دیا۔دودن کے بعد پھر میر صاحب نے رات کے وقت میری موجودگی میں کہا کہ کل کے لیے پھر کچھ نہیں ۔ فرمایا کہ ہم نے برعایت ظاہری اسباب کے انتظام کر دیا تھا ۔اب ہمیں ضرورت نہیں جس کے مہمان ہیں وہ خود کرے گا ۔اگلے دن آٹھ یا نو بجے چھٹی رسان آیا تو حضور نے میر صاحب کو اور مجھے بلایا۔ چھٹی رسان کے ہاتھ میں دس یا پندرہ کے قریب منی آرڈر ہوں گے جو مختلف جگہوں سے آئے تھے سو سو پچاس روپے کے ۔اور ان پر لکھا تھا کہ ہم حاضری سے معذور ہیں ۔مہمانوں کے صرف کے لیے یہ روپے بھیجے جاتے ہیں ‘‘۔
(ریویو آف ریلیجنز ،اردو جنوری 1942،صفحہ 44،45)
پس جہاں ایک طرف ہجوم مشکلات تھا تو دوسری طرف اللہ تعالیٰ اپنی تائیدات کے نظارے بھی دکھا رہا تھا۔او ر برکات کا یہ سلسلہ اس وقت سے آج تک جاری ہے۔
حضرت مسیح موعود ؑ نے پہلے جلسہ سالانہ کے موقع پر اشتہار کے ذریعہ آئندہ جلسہ سالانہ کا لائحہ عمل جماعت کے سامنے پیش فرمایا۔جب آئندہ جلسہ کے دن قریب آگئے تو 7 دسمبر 1892ءکو پھر اشتہار شائع فرمایا۔ اس اشتہار میں آپ نے جلسہ سالانہ کے اغراض و مقاصد بیان فرماتے ہوئے تحریر فرمایا :
٭…’’اس جلسہ کے اغراض سے بڑی غرض تو یہ ہے کہ تا ہر ایک مخلص کو بالمواجہ دینی فائدہ اٹھانے کا موقع ملے اور ان کی معلومات وسیع ہوں اور خدا تعالیٰ کے فضل و توفیق سے ان کی معرفت ترقی پذیر ہو۔‘‘
٭…’’پھر اس ضمن میں یہ بھی فوائد ہیں کہ اس ملاقات سے تمام بھائیوں کا تعارف بڑھے گا اور جماعت کے تعلقاتِ اخوّت استحکام پذیر ہوں گے۔‘‘
٭…’’جلسہ میں یہ بھی ضروریات میں سے ہے کہ یورپ اور امریکہ کی دینی ہمدردی کے لئے تدابیر حسنہ پیش کی جائیں۔کیونکہ اب یہ ثابت شدہ امر ہے کہ یورپ اور امریکہ کے سعید لوگ اسلام قبول کرنے کے لیے تیار ہو رہے ہیں اور اسلام کے تفرقہ مذاہب سے بہت لرزاں اور ہراساں ہیں۔‘‘
پھر حضرت مسیح موعود ؑ اس جلسہ کی اہمیت میں بیان فرماتے ہیں کہ :
٭…’’اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کرو ۔یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے ۔اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خداتعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لیے قومیں تیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں‘‘
اشتہار کے آخر میں حضور علیہ السلام جلسہ سالانہ کے شاملین کے لیے دعا کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
٭…’’بالآخر میں دعا پر ختم کرتا ہوں کہ ہر ایک صاحب جو اس للّہی جلسہ کے لیے سفر اختیار کرے خداتعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور ان کو اجر عظیم بخشے اور ان پر رحم کر ے اور ان کی مشکلات و اضطراب کے حالات ان پر آسان کر دیوے اور ان کے ہمّ و غم دور فرمادے ۔اور ان کو ہر ایک تکلیف سے مخلصی عنایت کرے اور ان کی مرادات کی راہیں ان پر کھول دیوے اور روز آخرت میں اپنے ان بندوں کے ساتھ ان کو اٹھاوے جن پر اس کا فضل و رحم ہے اور تااختتامِ سفر ان کے بعد ان کا خلیفہ ہو ۔اے خدائے ذوالمجد والعطا اور رحیم اور مشکل کشا،یہ تمام دعائیں قبول کر اور ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما کہ ہر ایک قوت اور طاقت تجھ کو ہی ہے ۔آمین ثم آمین ‘‘
مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید و افسر جلسہ سالانہ ربوہ پاکستان نے اپنی ایک تقریر کے آخر پر جلسہ سالانہ کے فوائد اور جلسہ کے دنوں میں کثرت سے دعائیں کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا ۔
’’حضرت مسیح موعود ؑ کے ان فرمودات کی روشنی میں ہمارا یہ جلسہ باہمی تعارف پید ا کرنے کا ذریعہ ہے۔ باہمی محبت بڑھانے کا ذریعہ ہے۔ شامل ہونے والوں کی علمی ترقی ،ان حقائق ومعارف کے ذریعہ جو جلسہ میں بیان کئے جائیں گے ،کا ذریعہ ہے ۔اور ان کی دینی معلومات کو بڑھانے والا ہے ۔دعائیں کرنے کا موقع ہے ۔انسانیت کے لیے ،جس کو بہت سے خطرات درپیش ہیں۔جسمانی تباہی بھی سر پر منڈلا رہی ہے ۔اور گمراہی نے ہر قسم کی بے راہ رویوں اور زیادتیوں نے تو روحانیت کا بیڑا ہی ڈبو دیا ہے ۔دنیا پر انسان اور انسانیت ہماری دعاؤں کے سب سے زیادہ محتاج ہیں ۔پھر ان کے لیے بھی دعائیں جو کہ فوت ہو چکے ہیں۔ اور ان کے لیے بھی جو زندہ ہیں ۔اپنوں کے لیے دعائیں کرنے کا موقع ہوتا ہے اور دوسری قوموں کی فلاح اور ان کی ہدایت کے لیے بھی دعائیں کرنے کا موقع ہوتا ہے ۔ذاتی حاجات کے لیے بھی دعائیں کرنے کا موقع اور قومی حاجات کے لئے بھی دعائیں کرنے کا موقع ہوتا ہے ۔جو لوگ بار بار بین الاقوامی مرکز یا قومی مرکز میں نہیں آسکتے ان کے سال میں ایک دفعہ مرکز آنے کا موقع ہوتا ہے ۔ہر شامل ہونے والا حضرت مسیح موعود ؑ کی ان دعاؤں سے حصہ پاتا ہے جو حضور نے اس جلسہ میں شامل ہونے والوں کے لیے کیں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا اس جلسہ کے اور بھی روحانی فوائد ہیں جو جلسہ کی بنیاد رکھتے وقت سامنے نہیں تھے لیکن وقتا فوقتاظاہر ہوتے رہیں گے۔‘‘
(بحوالہ احمدیہ گزٹ اگست و نومبر 2000)
محترم مولانا ظفر محمد صاحب ظفر نےذیل کے اشعار میں جلسہ سالانہ کا کیا خوبصورت نقشہ کھینچا ہے :
اے شمع دیکھ پھر تیرے پروانے آگئے
بندھن تمام تو ڑ کردیوانے آگئے
دریا و بحر و کوہ وبیاباں کو پھاند کر
گر پڑ کے تیرے در پہ ہیں مستانے آگئے
اہلِ زمیں نے چاہا پہنچنے نہ پائیں یہ
اَفلاک سے مَلک انہیں پہنچانے آگئے
اڑ کر کوئی پہنچا تو گھٹنوں کے بل کوئی
چاروں طرف سے کیسے خدا جانے آگئے
باندھے رہیں گے خدمتِ اسلام پر کمر
تیرے حضور عہد یہ دہرانے آگئے
دیکھو ذرا نظامِ خلافت کی برکتیں
گرد امام بکھرے ہوئے دانے آگئے
٭…٭…٭