متفرق مضامین

ہمارے غالب آنے کے ہتھیار

(مریم رحمٰن)

نماز خواہ مخواہ کا ٹیکس نہیں ہے بلکہ عبودیت کا ربوبیت سے ایک ابدی تعلق اورکشش ہے اس رشتے کو قائم رکھنے کے لئےخداتعالیٰ نے نماز بنائی ہےاوراس میں لذت رکھ دی ہے

۱۔استغفار

۲۔توبہ

۳۔دینی علوم کی واقفیت

۴۔خداتعالیٰ کی عظمت کو مدنظر رکھنا

۵۔اور پانچوں وقت کی نمازوں کو ادا کرنا

یہ پانچ ہتھیاربانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعودؑ کے بیان فرمودہ ہیں۔اس طرف توجہ دلاتے ہوئے پیارے آقا سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جس کام کے لئے مامور کئے گئے ہیں وہ صبر ہے۔پس ہماری بھی کامیابی اسی میں ہے کہ آپؑ کے نقشِ قدم پر چلیں۔[حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے] فرمایا’’…ہمارے غالب آنے کے ہتھیار استغفار، توبہ، دینی علوم کی واقفیت،خدا تعالیٰ کی عظمت کو مدّنظر رکھنا،اور پانچوں وقت کی نمازوں کو ادا کرنا ہیں۔نماز دعا کی قبولیت کی کنجی ہے۔جب نماز پڑھو تو اس میں دعا کرواور غفلت نہ کرواور ہر ایک بدی سے خواہ وہ حقوق الٰہی کے متعلق ہو،خواہ حقوق العباد کے متعلق ہو،بچو۔ہربدی سے بچو۔‘‘ پس یہ وہ نصائح ہیں جو ہماری کامیابی اور ترقی کی بنیاد ہیں۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ارشاد کے مطابق اگر ہم صحیح رنگ میں استغفار،توبہ،دینی علوم سے آگاہی اور پانچ وقت کی نمازوں کی طرف توجہ دیتے رہیں گےتو ہماری کامیابی ہے۔دشمن جتنا شوروفغاں میں بڑھ رہا ہےاتنا ہی ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ جھکنا ہوگا۔یہی ہماری کامیابی کا راز ہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۸؍اپریل ۲۰۲۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۹؍مئی ۲۰۲۳ء)

مندرجہ بالا پانچ امور میں دنیاوی کامیابی وترقی کا نسخہ بتا دیاگیا ہے بلکہ روحانی میدان میں بھی آگے بڑھنے اور فلاح پانے کی گائیڈ لائن دی گئی ہے۔اب ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

۱۔استغفار

اَستَغفِرُاللّٰہَ رَبِّی مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّ اَتُوبُ اِلَیْہِ۔ ترجمہ: میں اللہ اپنے رب سےتمام گناہوں کی بخشش طلب کرتا ہوں اور اسی کی طرف جھکتا ہوں۔

قرآن مجید میں باربار گناہوں،خطاؤں،لغزشوں کی بخشش کا ذریعہ استغفار کو بتایا گیا ہے۔بلکہ اولاد اور دنیاوی مال و متاع میں برکت حاصل کرنے کے لیے بھی استغفار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَالَّذِیْنَ یَجتَنِبُوْنَ کَبٰٓئِرَ الْاِثمِ وَالفَوَاحِش وَاِذَامَاغَضِبُوْا ہُمْ یَغفِرُوْنَ(الشوریٰ:۳۸) ترجمہ: اور جو بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں اور جب وہ غضبناک ہوں تو بخشش سے کام لیتے ہیں۔حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺنے فرمایا کہ میں روزانہ اللہ کے حضور ستر سے زیادہ مرتبہ استغفار اورتوبہ کرتا ہوں۔ (صحیح بخاری کتاب الدعوات باب استغفار النبیﷺ،حدیث۶۳۰۷)

حضرت اقدس مرزا غلام احمد مسیح موعودؑفرماتے ہیں: ’’زبان سے کلمہ پڑھنا یا استغفار کرنا انسان کو کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ جب وہ دل و جان سے کلمہ یا استغفار نہ پڑھے۔ بعض لوگ زبان سے استغفراللہ کرتے جاتے ہیں مگر نہیں سمجھتے کہ اس سے کیا مراد ہے۔ مطلب تو یہ ہے کہ پچھلے گناہوں کی معافی خلوص دل سے چاہی جائے اور آئندہ کے لئے گناہوں سے باز رہنے کا عہد باندھا جائے اور ساتھ ہی اس کے فضل و امداد کی درخواست کی جائے۔ اگر اس حقیقت کے ساتھ استغفار نہیں ہے تو وہ استغفار کسی کام کا نہیں۔ انسان کی خوبی اسی میں ہے کہ وہ عذاب آنے سے پہلے اس کے حضور میں جھک جائے اور اس کا امن مانگتا رہے۔ عذاب آنے پر گڑگڑانا اور وَقِنَا وَقِنَا پکارنا تو سب قوموں میں یکساں ہے…اس نکتہ کو خوب یاد رکھو کہ مومن وہی ہے جو عذاب آنے سے پہلے کلامِ الٰہی پر یقین کرکے عذاب کو وارد سمجھے اور اپنے بچاؤ کے لئے دعا کرے۔ دیکھو ایک آدمی جو توبہ کرتا ہے دعا میں لگا رہتا ہے تو وہ صرف اپنے پر نہیں بلکہ اپنے بال بچوں پر اپنے قریبیوں پر رحم کرتا ہے۔ کہ وہ سب ایک کے لئے بچائے جاسکتے ہیں۔ ایسا ہی جو غفلت کرتا ہے تو نہ صرف اپنے لئے برا کرتا ہے بلکہ اپنے تمام کنبے کا بدخواہ ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد۹صفحہ ۳۵۷۔۳۵۸ ایڈیشن ۱۹۸۴ء)

پیارے آقا سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ ہر احمدی ہر وقت سچے دل سے استغفار کرتے ہوئے، توبہ کرتے ہوئے، خداتعالیٰ کے حضور جھکے تا کہ اس کا پیار حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندے کو اپنا پیار اور قرب دینے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے بلکہ بے چین رہتا ہے۔ بلکہ بندے کی اس بارے میں ذرا سی کوشش کو بے حد نوازتا ہے…اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ہر وقت استغفار کرتے ہوئے اس کے حضور جھکے رہیں۔ آمین(خطبہ جمعہ۲۰ مئی ۲۰۰۵ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳؍جون۲۰۰۵ء)

۲۔توبہ

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:وَہُوَ الَّذِیۡ یَقۡبَلُ التَّوۡبَۃَ عَنۡ عِبَادِہٖ وَیَعۡفُوۡا عَنِ السَّیِّاٰتِ وَیَعۡلَمُ مَا تَفۡعَلُوۡنَ۔(الشوریٰ:۲۶)ترجمہ:اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی طرف سے توبہ قبول کرتا ہے اور برائیوں سے درگزر کرتا ہے اور جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔پھر دوسری جگہ فرمایا:وَاِنِّیۡ لَغَفَّارٌ لِّمَنۡ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہۡتَدٰی (طہ:۸۳)ترجمہ:اور یقیناً میں بہت بخشنے والا ہوں اُسے جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے پھر ہدایت پر قائم رہے۔

حضرت انسؓ بیان کرتے ہیںکہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:اپنے بندہ کی توبہ پر اللہ تعالیٰ اتنا خوش ہوتا ہے کہ اتنی خوشی اس آدمی کو بھی نہیں ہوئی ہوگی جسے جنگل بیابان میں کھانے پینے سے لدا ہوا گم شدہ اونٹ اچانک مل جائے۔(بخاری کتاب الدعوات)

حضرت انسؓ بیان کرتے کہ میں نے آنحضرتﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ گناہ سے سچی توبہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے کہ اس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔(الدرالمنثور،جلد۱صفحہ۲۶۱)

حضرت ا قدس مرزا غلام احمد مسیح موعودؑفرماتے ہیں: استغفار اور توبہ دو چیزیں ہیں۔ ایک وجہ سے استغفار کو توبہ پر تَقَدُّم ہے،کیونکہ استغفار مدد اورقوت ہے جو خدا سے حاصل کی جاتی ہے۔ اور توبہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہے۔ عادتُ اللہ یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے مدد چاہے گا،تو خدا تعالیٰ ایک قوت دے دے گا۔ اور پھر اس قوت کے بعد اِنسان اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجاوے گا اور نیکیوں کے کرنے کے لئے اس میں ایک قوت پیدا ہوجاوے گی۔ جس کا نام تُوْبُوْا اِلَیْہِ ہے۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۳۴۹)

۳۔دینی علوم سے واقفیت

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:رَبَّنَا وَابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ وَیُزَکِّیۡہِمۡ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ(البقرۃ:۱۳۰)ترجمہ:اے ہمارے ربّ! تو ان میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کر جو ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب کی تعلیم دے اور (اس کی) حکمت بھی سکھائے اور اُن کا تزکیہ کر دے۔ یقیناً تُو ہی کامل غلبہ والا (اور) حکمت والا ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علم حاصل کرے۔(ابن ماجہ)حضرت معاویہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺنے فرمایا:جس شخص کو اللہ تعالیٰ بھلائی اور ترقی دینا چاہتا ہے اس کو دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔(بخاری کتاب العلم)حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:علم حاصل کرو۔علم حاصل کرنے کے لیے وقار اور سکینت کو اپناؤ۔اور جس سے علم سیکھو اس کی تعظیم وتکریم کرو اور ادب سے پیش آؤ(یعنی انکسار کا معاملہ کرو)۔(بخاری کتاب العلم)

حضرت ابودرداءؓبیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:جوشخص علم دین کی تلاش میں کسی راستہ پر چلے، تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اسے جنت کے راستہ پر لگا دیتا ہے۔ بیشک فرشتے طالب (علم) کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھادیتے ہیں، اور عالم کے لیے آسمان وزمین کی ساری مخلوقات مغفرت طلب کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ پانی کے اندر کی مچھلیاں بھی، اور عالم کی فضیلت عابد پرایسی ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر، بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کسی کو دینار ودرہم کا وارث نہیں بنایا، بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے۔ اس لیے جس نے اس علم کو حاصل کرلیا، اس نے بہت بڑا نصیبہ اور خیرکثیر حاصل کرلیا۔(ترمذی کتاب العلم حدیث:۲۶۸۲)

حضرت ا قدس مرزا غلام احمدقادیانی مسیح موعودؑفرماتے ہیں: ضرورت ہے کہ آجکل دین کی خدمت اور اعلائے کلمة اللہ کی غرض سے علوم جدیدہ حاصل کرو اور بڑے جدوجہد سے حاصل کرو۔ لیکن مجھے یہ بھی تجربہ ہے جو بطور انتباہ میں بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ جو لوگ ان علوم ہی میں یکطرفہ پڑ گئے اور ایسے محو اور منہمک ہوئے کہ کسی اہلِ دل اور اہلِ ذکر کے پاس بیٹھنے کا ان کو موقعہ نہ ملا۔ اور وہ خود اپنے اندر الٰہی نور نہ رکھتے تھے وہ عموماً ٹھوکر کھا گئے اور اسلام سے دُور جا پڑے۔ اور بجائے اس کے کہ ان علوم کو اسلام کے تابع کرتے۔ اُلٹا اسلام کو علوم کے ماتحت کرنے کی بے سود کوشش کر کے اپنے زعم میں دینی اور قومی خدمات کے متکفّل بن گئے۔ مگر یاد رکھو کہ یہ کام وہی کر سکتا ہے۔ یعنی دینی خدمت وہی بجا لا سکتا ہے جو آسمانی روشنی اپنے اندر رکھتا ہو۔(ملفوظات جلد۱صفحہ ۶۸۔۶۹، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)

’’قرآن کریم میں ان لوگوں کو جو عقل سے کام لیتے ہیں اولوالالباب فرمایا ہے۔ پھر اس کے آگے فرمایا ہے: الَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوۡدًا وَّعَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ (آل عمران: ۱۹۲) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دوسرا پہلو بیان کیا ہے۔ کہ اولوالالباب اور عقل سلیم بھی وہی رکھتے ہیں جو اللہ جلشانہ کا ذکر اٹھتے بیٹھتے کرتے ہیں۔ یہ گمان نہ کرنا چاہیئے۔ کہ عقل و دانش ایسی چیزیں ہیں جو یونہی حاصل ہوسکتی ہیں۔ نہیں۔

سچی فراست اور سچی دانش اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کئے بغیر حاصل ہی نہیں ہو سکتی۔ اسی واسطے تو کہا گیا ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ نورِ الٰہی سے دیکھتا ہے۔ صحیح فراست اور حقیقی دانش جیسا میں نے ابھی کہا۔ کبھی نصیب نہیں ہوسکتی۔ جب تک تقویٰ میسر نہ ہو۔

اگر تم کامیاب ہونا چاہتے ہو۔ تو عقل سے کام لو۔ فکر کرو۔ سوچو۔ تدبر اور فکر کے لئے قرآن کریم میں بار بار تاکیدیں موجود ہیں۔‘‘(ملفوظات جلد۱صفحہ ۶۵۔۶۶، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)

۴۔خداتعالیٰ کی عظمت کو مدنظر رکھنا

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلۡحَیُّ الۡقَیُّوۡمُ ۬ۚ لَا تَاۡخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَا نَوۡمٌ ؕ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَشۡفَعُ عِنۡدَہٗۤ اِلَّا بِاِذۡنِہٖ ؕ یَعۡلَمُ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَمَا خَلۡفَہُمۡ ۚ وَلَا یُحِیۡطُوۡنَ بِشَیۡءٍ مِّنۡ عِلۡمِہٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ ۚ وَسِعَ کُرۡسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ ۚ وَلَا یَـُٔوۡدُہٗ حِفۡظُہُمَا ۚ وَہُوَ الۡعَلِیُّ الۡعَظِیۡمُ(البقرۃ:۲۵۶)

ترجمہ:اللہ ! اُس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ ہمیشہ زندہ رہنے والا (اور) قائم باِلذات ہے۔ اُسے نہ تو اُونگھ پکڑتی ہے اور نہ نیند۔ اُسی کے لئے ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے۔ کون ہے جواس کے حضور شفاعت کرے مگر اس کے اذن کے ساتھ۔ وہ جانتا ہے جو اُن کے سامنے ہے اور جو اُن کے پیچھے ہے۔ اور وہ اُس کے علم کا کچھ بھی احاطہ نہیں کر سکتے مگر جتناوہ چاہے۔ اس کی بادشاہت آسمانوں اور زمین پر ممتد ہے اور ان دونوں کی حفاظت اسے تھکاتی نہیں۔ اور وہ بہت بلند شان (اور) بڑی عظمت والاہے۔

پیارے رسول حضرت محمدﷺ نے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے یہ آیت پڑھی وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدۡرِہٖ ٭ۖ وَالۡاَرۡضُ جَمِیۡعًا قَبۡضَتُہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطۡوِیّٰتٌۢ بِیَمِیۡنِہٖ ؕ سُبۡحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ… اور انہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جو اس کی قدر کا حق ہے، حالانکہ زمین ساری قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہو گی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپیٹے ہو ئے ہوں گے۔ وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک بنا رہے ہیں۔ ساتھ ہی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہٖ ‌وسلم نے اپنے ہاتھ کو آگے پیچھے حرکت دینا شروع کی اور فرمایا: رب اپنی ذات کی بزرگی بیان کر رہا ہے کہ میں جبار ہوں، میں بڑائی والا ہوں، میں بادشاہ ہوں، میں غالب ہوں،میں کریم ہوں۔ جب آپ یہ کہہ رہے تھے تو منبر اس قدر لرز رہا تھا کہ ہمیں خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں آپ منبر سے نیچے نہ گر جائیں۔ (مسند احمد حدیث نمبر۸۷۴۲)

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺنے فرمایا:اسم ذات اللہ کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے ننا نوےنام ہیں جو زندگی میں ان سب کو مدنظر رکھے گا اور ان کا مظہر بننے کی کوشش کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا۔(ترمذی کتاب الدعوات)

قبولیتِ دعا کا ان اسمائے حسنہ سے گہرا تعلق ہے۔اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے:وَلِلّٰہِ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی فَادۡعُوۡہُ بِہَا(سورۃ الاعراف:۱۸۱)ترجمہ:اور اللہ ہی کے سب خوبصورت نام ہیں۔ پس اُسے ان (ناموں) سے پکارا کرو۔ (اس سے دعا کرو)۔

حضرت جریر بن عبداللہ نے بیان کیا کہ ہم نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے رات کا وقت تھا۔ آپ ﷺ نے چاند کی طرف نظر اٹھائی جو چودھویں رات کا تھا۔ پھر فرمایا کہ تم لوگ بلا روک ٹوک اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہواگر تم اس شرف کے حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہتے ہو تو فجر اور عصر کی نماز وقت پر پڑ ھنے میں کوتاہی نہ کرو۔(بخاری کتاب التوحید،حدیث:۵۷۳)

پیارے آقا سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے جماعت کواپنے خطبہ جمعہ مورخہ ۲۲؍ستمبر۲۰۰۶ءکو اس دعا رَبَّنَا مَا خَلَقتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِکے پڑھنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:جب اس پیدا کرنے والے کا پتہ لگ جاتا ہے، خداتعالیٰ کی عظمت کا پتہ لگتا ہے، خداتعالیٰ کی قدرتوں کا پتہ لگتا ہے تو پھر ایمان میں اور مضبوطی پیدا ہوتی ہے، جب یہ پتہ لگ جاتا ہے کہ ان سب چیزوں کو پیدا کرنے والا ایک خدا ہے تو اس کی ہستی اور طاقتوں پر اور یقین بڑھتا ہے۔ پھر اس بات کا بھی یقین بڑھتا ہے کہ ان سب کو پیدا کرنے والا وہ زندہ خدا ہے جس نے اپنی عبادت کرنے کے لئے بھی کہا ہے، دعائیں مانگنے کی طرف بھی توجہ دلائی ہے اور عمل کے حساب سے اچھے اور بُرے اعمال سے بھی آگاہ کیا ہے۔ تو پھر وہ پکارتا ہے کہ اے اللہ! مجھے نیک عملوں کی بھی توفیق عطا فرما تاکہ مَیں آگ کے عذاب سے بچوں اور تیرے پیار کی نظر ہمیشہ مجھ پر پڑتی رہے۔(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۳؍اکتوبر ۲۰۰۶ء)

۵۔ پانچوں وقت کی نمازوں کو ادا کرنا

غالب آنے کے ہتھیاروں میں سے پانچواں اور آخری امر پنجوقتہ نمازوں کا بروقت قیام ہے۔زندگی کا حاصل نماز ہے۔قرآن مجید میں باربار ہمیں قیام نماز کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَارۡکَعُوۡا مَعَ الرّٰکِعِیۡنَ (البقرۃ:۴۴)ترجمہ:اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور جُھکنے والوں کے ساتھ جھک جاؤ۔

پیارے رسول آنحضرت ﷺ نے فرمایا:قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا بندوں سے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے۔اگر یہ حساب ٹھیک رہا تو وہ کامیاب ہوگیااور اس نے نجات پالی۔اگر یہ حساب خراب ہوا تو وہ گھاٹے میں رہا۔(ترمذی کتاب الصلوٰۃ)حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرتﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:نماز کا چھوڑنا انسان کو شرک اور کفر کے قریب کردیتا ہے۔(مسلم کتاب الایمان)حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع کے سال خطبہ میں رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سناکہ اللہ سے ڈرو اور پانچوں وقت کی نماز پڑھو۔ایک مہینے کے روزے رکھو۔اپنے اموال کی زکوٰۃ دواور جب میں کوئی حکم دوں تو اس کی اطاعت کرو۔اگر تم ایسا کرو گے تو اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤگے۔(ترمذی کتاب الصلوٰۃ)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنے بچوں کو جب وہ سات سال کے ہو جائیں تو نماز کا حکم دو اور جب دس سال کے ہو جائیں اور نہ پڑھیں تو سختی کرو اور ان کے بستر جدا جدا کر دو۔ (سنن ابی داؤد حدیث نمبر: ۴۹۵)

حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعودؑفرماتے ہیں:غرض یاد رکھنا چاہئے کہ نماز ہی وہ شئے ہے جس سے سب مشکلات آسان ہو جا تی ہیں اورسب بلائیں دور ہوتی ہیں۔مگر نماز سے وہ نماز مراد نہیں جو عام لوگ رسم کے طور پر پڑھتے ہیں۔بلکہ وہ نماز مراد ہے جس سے انسان کا دل گداز ہوجاتاہے اورآستانہ احدیت پر گر کر ایسا محو ہوجاتاہے کہ پگھلنے لگتاہے۔ (ملفوظات جلد ۵ صفحہ۴۰۲ ایڈیشن۱۹۸۸ء)

فرمایا:نماز کے متعلق جس زائد ہدایت کا وعدہ ہے وہ یہی ہے کہ اس قدرطبعی جو ش اورذاتی محبت اور خشوع اور کامل حضور میسر آجائے… جو لذات روحانیہ سے سراسرمعمور ہو اور دنیوی رذایل اور انواع واقسام کے معاصی قولی اورفعلی اور بصری اورسماعی سے دل کومتنفر کردے۔(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۳۹)حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:نماز خدا کا حق ہے اسے خوب ادا کرو اور خدا کے دشمن سے مداہنہ کی زندگی نہ برتو۔ وفا اورصدق کا خیال رکھو اگر سارا گھر غارت ہوتا ہو تو ہونے دو مگر نماز کو ترک مت کرو۔وہ کافر اور منافق ہیں جوکہ نماز کو منحوس کہتے ہیں اور کہاکرتے ہیں کہ نماز شروع کرنے سے ہمارا فلاں فلاں نقصان ہواہے نماز ہر گز خدا کے غضب کا ذریعہ نہیں ہے۔ جو اسے منحوس کہتے ہیں ان کے اندر خود زہر ہے جیسے بیمار کو شیرینی کڑوی لگتی ہے ویسے ہی ان کونماز کا مزہ نہیں آتا یہ دین کو درست کرتی ہے اخلاق کودرست کرتی ہے دنیا کو درست کرتی ہے۔نماز کا مزا دنیا کے ہر ایک مزے پر غالب ہے لذات جسمانی کے لیے ہزاروں خرچ ہوتے ہیں اور پھران کانتیجہ بیماریاں ہوتی ہیں۔اور یہ مفت کابہشت ہے جواسے ملتا ہے۔ قرآن شریف میں دو جنتوں کا ذکر ہے ایک ان میں سے دنیا کی جنت ہے اور وہ نماز کی لذت ہے۔ نماز خواہ نخواہ کا ٹیکس نہیں ہے بلکہ عبودیت کا ربوبیت سے ایک ابدی تعلق اورکشش ہے اس رشتہ کو قائم رکھنے کے لئےخداتعالیٰ نے نماز بنائی ہےاوراس میں لذت رکھ دی ہےجس سے تعلق قائم رہتا ہے جیسے لڑکے اور لڑکی کی جب شادی ہوتی ہے اگران کے ملاپ میں ایک لذت نہ ہو تو فساد ہو تاہے ایسے ہی اگر نماز میں لذت نہ ہو تو وہ رشتہ ٹوٹ جاتاہے۔دروازہ بند کر کے دعاکرنی چاہئے کہ وہ رشتہ قائم رہے اورلذت پیداہوجو تعلق عبودیت کا ربوبیت سے ہے وہ بہت گہرا اور انوار سے پر ہے جس کی تفصیل نہیں ہو سکتی جب وہ نہیں ہے تب تک انسان بہائم ہے۔ اگر دو چار دفعہ بھی لذت محسوس ہوجائے تواس کی چاشنی کا حصہ مل گیا۔لیکن جسے دو چار دفعہ بھی نہ ملا وہ اندھا ہے۔(ملفوظات جلد۳ صفحہ ۵۹۱۔۵۹۲، ایڈیشن۱۹۸۸ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنےپیارے آقا سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اپنی رضا کی راہوں پر چلائے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button