جلسہ سالانہ ربوہ اور میری یادیں
جب دسمبر کا مہینہ آتا ہے تو اہل ربوہ کے لیے خاص طور پر اور ان احباب کے لیے جنہوں نے جلسہ ہائے سالانہ دیکھے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتے رہے ہیں۔یہ مہینہ گزارنا خاصا مشکل ہوجا تا ہے۔یہ مہینہ جہاں جلسہ ہائے سالانہ ربوہ کی یادیں لے کر آتا ہے وہاں حضرت خلیفۃ المسیح کی جدائی اور ہجرت کی ایک ایسی ٹیس بھی دل میں اٹھتی ہے جو کہ ناقابل بیان ہے۔اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جلسہ کے دنوں میں مسجد اقصیٰ کے پاس سے گزرنا محال ہوجاتا ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے:
’’انہیں کہنا دسمبر آگیا ہے‘‘
چلے آؤ تمہاری راہ گزر پر
یہ شہر غم برہنہ پا کھڑا ہے
یہ جاں اب تک قطاروں میں لگی ہے
یہ دل اب تک پرالی پر پڑا ہے
واہ!شاعر نے ربوہ کے باسیوںاور جلسہ سالانہ کی آس لیے اس دنیا سے گزر جانے والے ہجر زدہ احمدیوں کے دل کوتو گویا کھول کر ہی رکھ دیا ہے۔
خاکسار نے بچپن میں ہی جلسہ کے دنوں میں اپنے گھر میں مہمانوں کی آمددیکھی ہے اور بچپن سے ہی کانوں میں جلسہ سالانہ کے الفاظ سننے کو ملتے رہے ہیں۔لیکن 1975ءمیں جب خاکسار کی عمر دس سال تھی پہلی دفعہ جلسہ سالانہ کی باقاعدہ ڈیوٹی دینے کی توفیق ملی۔الحمد للہ
جلسہ سالانہ کی یادوں میں سے میرے لیے سب سے پختہ اور پیاری یاد جلسہ سالانہ کے دفتر میں جلسہ سے پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی آمد اور ڈیوٹیوں کا معائنہ ہے۔حضورؒ جب معائنہ فرماتے ہوئے ہمارے سامنے سے گزرے تو ہم بچوں کو دیکھ کر فرمایا کہ سردی سے بچیں اور گرم کپڑے پہنیں۔ حضور ؒکا وہ نورانی چہرہ اور آپ کا بہت پیارا تبسم مجھے آج تک یاد ہے۔
جلسہ سے چند دن قبل ہر گھر اپنے ایک یادو کمرے مہمانوں کے لیے وقف کرتا تھا اور ان میں ٹھہرنے والے مہمان ان کے عزیز یا رشتہ دار نہ ہوتے تھے صرف حضرت مسیح پاکؑ کے مہمان ہوتے تھے۔جن کی خدمت کر کے ہر احمدی دلی سکون اوراطمینان پاتا تھا۔
دسمبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی ربوہ کے ہر گھر میں صفائی ستھرائی اور کمروں میں سفیدی کروانے کاکام شروع ہوجاتا تھا۔ہر محلے میں وقار عمل کروایا جاتا تھااور ربوہ کو’’ایک غریب دلہن ‘‘کی طرح سجایا جاتا تھاتاکہ مسیح پاکؑ کے مہمانوں کا شایان شان طریقے پر استقبال کیا جا سکے۔اس کے بعداہالیان ربوہ نظامت پرالی کے دفتر جا کر اپنے کمروں کے حساب سے پرالی لے کر آتے اور مہمانوں کی آمد سے قبل اس پرالی کو کمروں میں اچھی طرح بچھا دیتے تھے تاکہ آنے والے مہمان جو لمبا سفر کر کے صرف اس للّٰہی جلسے میں شرکت کی غرض سے آرہے ہیں انہیں آتے ہی آرام دہ جگہ پیش کی جا سکے۔
ویسے تو ساراسال ہی جلسہ سالانہ کی تیاری ہوتی رہتی تھی مگر جلسے سے چند ماہ قبل جلسےکی تیاریاں شدت اختیار کر لیتی تھیں۔ انصار،خدام،اطفال اور لجنہ اماء اللہ کی ڈیوٹیاں لگ جاتی تھیں۔ ڈیوٹیز کے چارٹ چھپ کر مختلف جگہ آویزاں کیے جاتے تھے۔ ناظمین،نائب ناظمین اور معاونین کے بیج جنہیں ہم ’’بلے‘‘ کہا کرتے تھے تیار کرکےسب کارکنان میں تقسیم ہوجاتے تھے اور جس دن دفتر جلسہ سالانہ میں حضور معائنہ کے لیے تشریف لاتے تھے اس دن سب کارکنان نے وہ بیج اپنے بازؤوں پر لگائے ہوتے تھے۔معائنہ اور دعا کے بعد گویا اگلے دس بارہ دن کارکنان ڈیوٹی پر ہوتے تھے اور اپنے گھر بار کا کوئی ہوش نہیں ہوتا تھا۔صبح شام مسیح پاکؑ کے مہمانوں کی خدمت اور جلسہ سالانہ کی تقاریر کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔
جلسہ سالانہ کے دنوں میں مختلف شہروں سے سپیشل ٹرینیں چلا کرتی تھیں۔لاہور،سیالکوٹ،راولپنڈی اور دوسرے کئی شہروں سے لوگ اکٹھے ہوکر جلسہ سالانہ میں شرکت کے لیے تشریف لایا کرتے تھے۔لاری اڈہ اور ریلوے اسٹیشن پر خدام ان کا پُرتپاک استقبال کیا کرتے تھے۔اور ان کا سامان اٹھا کر مہمانوں کو ان کی قیام گاہوں تک پہنچاتے تھے۔
جلسہ سالانہ سے قبل ہر گھرانے سے ایک فارم فل کروایا جاتا تھا کہ ان کے ہاں کتنے مہمان تشریف لائیں گے پھر اس کے مطابق انہیں لنگر خانے سے کھانا حاصل کرنے کے لیے ایک کارڈ دیا جاتا تھا۔اس وقت ربوہ میں سات لنگر خانے مہمانوں کے لیے کھانا تیار کرتے تھے۔ایک وقت کا کھانا فراہم کرنے کے بعد لنگر خانوں کے کارکن اگلے وقت کے کھانے کی تیاری شروع کر دیتے تھے۔گویا دس بارہ دن یہ لنگر خانے ایک منٹ کے لیے بھی بند نہیں ہوتے تھے۔جلسے کے دنوں میں مہمانوں کو ناشتے میں بہت ہی مزیدار دال اور گرم گرم روٹی پیش کی جاتی تھی اور شام کے کھانے میں روٹی کے ساتھ آلو گوشت کا سالن پیش کیا جاتا تھا۔جو مہمان بیمار یا بزرگ ہوتے تھے ان کے لیے علیحدہ پرہیزی کھانا تیار کیا جاتا تھا اور اس کے لیے جلسہ سالانہ کے دفتر کے ساتھ لنگر پرہیزی ہوا کرتا تھا۔مہمانوں کو یہ کھانا مٹی کے برتنوں میں پیش کیا جاتا تھا۔جن میں مٹی کے آب خورے،مٹی کے پیالے شامل ہوتے تھے۔ جس نظامت کے ذمہ یہ برتن مہیا کرنا ہوتے تھے اس نظامت کا نام’’نظامت ظروف گِلی‘‘ہوتا تھا۔اور یہ جلسہ سالانہ سے قبل مختلف جگہوں پرجہاں یہ برتن بنتے تھے جا کر آرڈر دیا کرتے تھے اور برتنوں کی ایک بہت بڑی تعداد کی دستیابی کو یقینی بنایا کرتے تھے۔
ایک دفعہ روٹی لگانے والے جو اجرت پر کام کرتے تھے انہوں نے ہڑتال کردی۔اس پر ہر گھر سے روٹیاں پک کر مہمانوں کے لیے بھجوائی گئیں۔نظامت آب رسانی والے وافر پانی مہیا کیا کرتے تھے۔مختلف شہروں سے پانی کے ٹینکر منگوائے جاتے تھے۔پینے کا پانی بھی مہیا کیا جاتا تھا اور سارے شہر میں روزانہ چھڑکاؤ بھی کیا جاتا تھا۔
جلسے کے دنوں میں بازار بھی خوب سج جاتے تھے۔مختلف شہروں سے دکاندار آکر اپنی دکانیں لگاتے تھے۔ان میں بہت سے غیر از جماعت احباب بھی ہوتے تھے۔احمدی دکاندار جلسے کے اوقات اور نمازوں کے اوقات میں اپنے کاروبار بند کر دیتے تھے۔ جلسہ سالانہ کے دفتر کے ساتھ ایک دفتر گمشدہ اشیاء کا ہوتا تھا جس میں ہر وقت کوئی نہ کوئی اعلان ہورہا ہوتا تھا کہ اپنی گمشدہ اشیاء کی اطلاع یہاں پر کریں اور اگر کوئی چیز گری پڑی ملے تو بھی اسی دفتر میں جمع کروائیں۔
جلسے کے دنوں میں کئی لاکھ افراد کا یہ اجتماع ہوا کرتا تھا۔مگر محض خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوتا تھا۔ ایک چھوٹا طفل اگر سڑک کے درمیان کھڑا ہے اور اپنے ہاتھ کے اشارے سے ٹریفک کو کنٹرول کررہا ہے تو سب اس کی اطاعت کرتے تھے۔اور خواتین سڑک کے ایک طرف اور مرد حضرات سڑک کے دوسری طرف چلتے تھے۔
جلسہ سالانہ کے دنوں میں مہمانان گرامی کے لیے جو قیام گاہیں مقرر کی جاتی تھیں ان میں جامعہ احمدیہ کی عمارت،جامعہ احمدیہ کا ہوسٹل،جامعہ احمدیہ کی گراؤنڈز،تعلیم الاسلام کالج،تعلیم الاسلام ہائی سکول،بورڈنگ ہاؤس،نصرت جہاں گرلز کالج، نصرت جہاں گرلز سکول،دفتر انصار اللہ مرکزیہ، دفتر خدام الاحمدیہ مرکزیہ،مسجد اقصیٰ کے عقب میں بیرکس،دارالضیافت، طبیہ کالج اور اس کے علاوہ ہر گھر میں بھی مہمانوں کو ٹھہرایا جاتا تھا۔ غیر ملکی مہمانوں کو گیسٹ ہاؤسز میں ٹھہرایا جاتا تھا اور ان کے لیے کھانا بھی وہیں مہیا کیا جاتا تھا۔
جلسہ سالانہ کے دنوں میں تہجد باجماعت ادا کی جاتی تھی جس میں کثرت سے لوگ شامل ہوتے۔اس کے بعد نماز فجر ادا کر کے اکثر لوگ بہشتی مقبرہ دعا کے لیے جاتے اور پھر واپس اپنی قیام گاہوں میں تشریف لاتے۔
جلسہ سالانہ کے پہلے دن کا آغاز حضرت خلیفۃ المسیح کی جلسہ گاہ میں آمد اور فلک شگاف نعرہ ہائے تکبیر سے شروع ہوتا تھااور سب احمدی اپنے پیارے امام کے رخ مبارک کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب ہوتے تھے۔حضور سب سے پہلے لوائے احمدیت لہرا کر دعا کرواتے اور جلسہ سالانہ کا گویا افتتاح ہوجاتا۔اس کے بعد حضور سٹیج پر تشریف لاتے اور تلاوت قرآن کریم سے جلسہ کا آغاز ہوتا۔حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے منظوم کلام میں سے نظم پڑھی جاتی اور حضرت خلیفۃ المسیح کا خطاب شروع ہوتا جو ہر مرد وزن ہمہ تن گوش ہوکر سنتا۔جلسے کی یہ کارروائی زنانہ جلسہ گاہ، لنگر خانوں اور ایسی جگہوں پر جہاں کارکنا ن ڈیوٹی پر ہوتے تھے براہ راست سنائی جاتی تھی۔
اس کے بعد علمائےکرام کی تقاریر ہوتیں، غیر ملکی مہمانوں کے تاثرات بیان کیے جاتے۔ غیر ملکی مہمانوں کے لیے شبینہ اجلاس بھی ہوتے تھے جن میں وہ اپنی زبان میں ’’میرے ملک میں احمدیت ‘‘کے زیر عنوان تقاریر کرتے تھے۔
جلسہ سالانہ کی یادوں میں مجھے یاد ہے کہ اکثر افتتاحی اجلاس میں تلاوت مکرم حافظ مسعود احمد صاحب آف سرگودھا کیا کرتے تھے اور نظم مکرم چودھری شبیر احمد صاحب کی ہوا کرتی تھی۔اس کے علاوہ قاری محمد عاشق صاحب کی بھی تلاوت ہوتی تھی اور مکرم ثاقب زیروی صاحب اپنا کلام بھی پیش کیا کرتے تھے۔
تقاریر میں مجھے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ، حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ،قاضی محمد نذیر صاحب،مولانا ابولعطاء صاحب جالندھری،مکرم غلام باری صاحب سیف،مولانا دوست محمد صاحب شاہد،مرزاعبدالحق صاحب اور شیخ مبارک احمد صاحب کی تقاریر سننے کا موقع ملا۔
جلسے کے تیسرے روز جلسہ کا آخری اجلاس ہوتا تھا۔نماز ظہر وعصر جمع کر کے پڑھی جاتیں اور تلاوت اور نظم کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح کا خطاب ہوتا تھا۔ خطاب کے آخر پر لمبی اور پُرسوز دعا ہوتی تھی۔خلفائےکرام کے جلسہ سالانہ پر کیے جانے والے خطابات بہت اہمیت کے حامل ہوتے تھے اور ہر جلسے کا مرکزی نقطہ ہوتے تھے۔
حضرت خلیفۃ المسیح کے خطاب اور لمبی پرسوز دعا کے بعد آخر وہ وقت آجاتا تھا۔
مہماں جو کر کے اُلفت آئے بصد محبت
دِل کو ہوئی ہے فرحت اور جاں کو میری راحت
پر دل کو پہنچے غم جب یاد آئے وقت رخصت
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِی
مسیح پاکؑ کے مہمان آسمانی مائدہ لے کر اپنے اپنے گھروں کو لوٹنا شروع کر دیتے۔کچھ احباب آخری خطاب اور دعا کے بعد اسی دن عازم سفر ہوتے۔کچھ اگلے دن اور آہستہ آہستہ سب ہمیں اداس کر کے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے۔جلسہ سالانہ کے کافی دن بعد تک دل اداس رہتا اور خالی قیام گاہیں جن میں مہمان قیام کیے ہوئے ہوتےتھے اب کھانے کو دوڑتیں۔ اور اکثر آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے۔
خاکسار کوجلسہ سالانہ ربوہ دیکھنے کی سعادت نصیب ہوتی رہی۔اسی طرح قادیان اور برطانیہ کے جلسہ سالانہ میں بھی شرکت کرنےکا موقع ملا۔خاکسار نے ہر جلسے میں ایک قدر مشترک دیکھی اور وہ ہر احمدی کا خلیفۂ وقت کے ساتھ غیر معمولی پیار، اخلاص اور محبت کا اظہار ہے۔ اسی طرح جلسے میں شامل ہونے والے مہمان مختلف ممالک اور مختلف زبانیں بولنے کے باوجود باہمی محبت سے ملتے گویا ایک ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہوں۔اور یہی جلسہ سالانہ کے مقاصد میں سےایک مقصد ہے۔
خدا کرے کہ ہماری زندگیوں میںوہ وقت آئے کہ ہم دوبارہ ربوہ میںجلسہ سالانہ منعقد ہوتا دیکھیں۔حضرت خلیفۃالمسیح کا دیدار کر سکیں اورربوہ کی گلیاں صل علیٰ اور نعرہ ہائے تکبیر سے گونج اٹھیں۔خدا کرے ایسا ہی ہو،آمین ثم آمین۔