تحفظ ناموسِ رسالت میں سینہ سپر جریدہ: الفضل
اس دور میں بھی مخالفین رسول اللہﷺ کی ذات اقدس پر ہر ممکن اور رکیک ترین حملے کررہے ہیں اور بد قسمتی سےبہت سے مسلمان اس پر ایسا پر تشدد رد عمل دکھا تےہیں جو نہ صرف غیر اسلامی ہے بلکہ اس عمل کو اور بھی انگیخت کرکے مخالفین کو اسلام پر مزید اعتراضات کرنے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔اس پس منظر میں اس مختصر مضمون میںان خدمات کی صرف چند جھلکیاں پیش کی جائیں گی جو ایک سو دس سال سے الفضل ناموس رسالت کے لیےسرانجام دے رہا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اصولی ارشاد
جب ۱۸۹۸ء میں ہندوستان میں ایک مرتد ڈاکٹر احمد شاہ نے دل آزار کتاب امہات المومنین شائع کی تو اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’ البلاغ ‘ میں تحریر فرمایا:’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ۔یہ امر نہایت پُرخطر اور خوفناک ہے کہ ہم معترض کے اعتراضوں کو اپنی حالت پر چھوڑ دیں اور اگر ایسا کریں تو وہ اعتراضات طاعون کے کیڑوں کی طرح روز بروز بڑھتے جائیں گے اور ہزارہا شبہات لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوجائیں گے اور اگر گورنمنٹ ایسے بدزبان کو کچھ سزا بھی دے تو وہ شبہات اس سزا سے کچھ کم نہیں ہو سکتے۔ دیکھو یہ لوگ جو اسلام پر اعتراض کرتے ہیں مثلاً جیسے مصنف امہات المومنین اور عماد الدین اور صفدر علی وغیرہ ان کے مرتد ہونے کا بھی یہی سبب ہے…اب اکثر اسلام پر حملہ کرنے والے یہی لوگ ہیں جو قوم کی کم توجہی سے پریشان خاطر ہو کر عیسائی ہوگئے۔ ذرہ آنکھ کھول کر دیکھو کہ یہ لوگ جو بدزبانی دکھلا رہے ہیں یہ کچھ یورپ سے تو نہیں آئے اسی ملک کے مسلمانوں کی اولاد ہیں جو اسلام سے انقطاع کرتے کرتے اور عیسائیوں کے کلمات سے متاثر ہوتے ہوتے اس حد تک پہنچ گئے ہیں۔ درحقیقت ایسے لاکھوں انسان ہیں جن کے دل خراب ہو رہے ہیں۔ ہزار ہا طبیعتیں ہیں جو بُری طرح بگڑ گئی ہیں۔ سو بڑا امر اور عظیم الشان امر جو ہمیں کرنا چاہیے وہ یہی ہے کہ ہم نظر اٹھا کر دیکھیں کہ ملک مجذوموں کی طرح ہوتا جاتا ہے اور شبہات کے زہریلے پودے بے شمار سینوں میں نشوونما پاگئے ہیں اور پاتے جاتے ہیں۔ خداتعالیٰ ہمیں تمام قرآن شریف میں یہی ترغیب دیتا ہے کہ ہم دین اسلام کی حقیقی حمایت کریں اور ہمارا فرض ہونا چاہیے کہ مخالفوں کی طرف سے ایک بھی ایسا اعتراض پیدا نہ ہو جس کا ہم کمال تحقیق اور تنقیح سے جواب دے کر حق کے طالبوں کی پوری تسلی اور تشفی نہ کریں۔‘‘(البلاغ،روحانی خزائن جلد ۱۳صفحہ ۳۷۸و۳۷۹)
آغاز سے لے کر اب تک الفضل اسی اصول کے تحت ناموس رسالتﷺ کے لیے خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ اس قسم کی خدمات سرانجام دینے کے لیے مختلف زاویوں سے قلمی جہاد کرنا پڑتا ہے۔یہ نہیں کہ جب کوئی مخالف کوئی گھنائونا اعتراض کر دے اور اس کی شہرت شروع ہوجائے تو پھر یہ خیال آئے کہ یہ ضروری ہے کہ غیروں تک نبی اکرمﷺ کی سیرت طیبہ کے حقائق پہنچائے جائیں۔ مسلمانوں کے ہر گروہ کا فرض ہے کہ وہ ہر دور میں بیدار مغزی سے یہ فریضہ سرانجام دے۔ ہاں ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض اوقات مخالفین کا گروہ زیادہ زور وشور سےکسی معین پہلو پراعتراضات کا طوفان برپا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے ادوار میں ایسے معین اعتراضات کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ ایک تیسرا پہلو یہ ہے کہ بد قسمتی سے ایسے حالات میں مسلمانوں کے بعض گروہ مسلمانوں کو ایسے رد عمل پر اکساتے ہیں جو کہ خود رسول اللہﷺ کی تعلیمات کے خلاف بلکہ معترضین کی منشا کے عین مطابق ہوتا ہے۔ اور انہیں یہ پراپیگنڈا کرنے کا موقع ملتا ہے کہ یہ متشدد رد عمل ہی یہ واضح کررہا ہے کہ اس مذہب کے بانی نے جبر کی تعلیم دی تھی۔ ایسے ماحول میں مسلمانوں کی صحیح راہنمائی کہ کیا رد عمل کس طریق پر دکھانا ہے اپنی ذات میں ایک کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔
الفضل کا آغاز
اب۱۹۱۳ء میں الفضل کے آغاز سے اس تجزیہ کا آغاز کرتے ہیں۔اس سال یعنی خلافت اولیٰ کے آخر میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمدرضی اللہ عنہ نے روزنامہ الفضل کا اجرا فرمایااور یہ اخبار ایسے حالات میں شروع کیا گیا کہ اس عظیم کام کے لیے آپؓ کو اپنی اہلیہ حضرت سیدہ ام ناصر رضی اللہ عنہا کا زیور فروخت کرنا پڑا۔۱۹؍جون ۱۹۱۳ءکو الفضل کا پہلا شمارہ شائع ہوا۔ اس وقت الفضل ہفتہ وار شائع ہوتا تھا۔ پہلے شمارہ سے لے کر مارچ ۱۹۱۴ءمیں خلیفۃ المسیح الاولؓ کی وفات اور خلافت ثانیہ کے آغاز تک ہر شمارہ میں سیرت النبیﷺ پر ایک مفصل مضمون شائع ہوتا تھا۔یہ مضمون حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ تحریر فرمایا کرتے تھے۔ ان مضامین میںرسول اللہﷺ کی سیرت کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی جاتی تھی۔یہ طویل سلسلہ مضامین انوارالعلوم کی جلداول میں’’سیرت النبی ؐ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ اور ان خدمات کا گواہ ہے جو کہ اس دور میں الفضل نے سرانجام دیں۔
ناموس رسالتﷺ کی حفاظت کے لیے الفضل نے جو مخلصانہ خدمات سرانجام دیں وہ اتنی مختصر نہیں کہ ایک مضمون میں بیان ہو سکیں۔اس لیے اس مضمون میں صرف چند ماہ کی خدمات کی مختصر جھلکیاں پیش کی جائیں گی۔
الفضل کے اجرا کے دس سال بعد برصغیر میں وہ دور شروع ہوا جس میں اس حوالے سے تنائو اور تصادم کم از کم پندرہ سال تک بڑھتا ہی رہا۔الفضل شروع ہوا تو ایک سال بعد پہلی جنگ عظیم شروع ہو گئی اور ہندوستان سمیت تمام دنیا کی توجہ اس طرف ہو گئی۔اس کے بعد ہندوستان میں تحریک خلافت کی لاحاصل تحریک شروع ہو گئی۔اس میں وقتی طور پر ہندوستان کے مسلمانوں اور ہندوئوں میں گہرا اتحاد نظر آیا۔
شدھی تحریک اور الفضل کی خدمات
لیکن جب یہ تحریک اپنے منطقی انجام کو پہنچی تو آریہ سماج نے سوامی شردھانند صاحب کی قیادت میں ایک مرتبہ پھر شدھی کی تحریک شروع کی اس کا مقصد مسلمانوں کو مرتد کر کے ہندومت میں داخل کرنا تھا۔۱۹۲۳ءمیں سوامی شردھانند نے بھارتیہ ہندو شدھی مہاسبھا قائم کر کے اس تحریک کا آغاز کیا۔ اس فتنہ نے خاص طور پر یوپی کے صوبہ میں ملکانہ کے علاقہ کو اپنا نشانہ بنایااور یہاں کے راجپوت مسلمانوں کو مرتد کرکے ہندو مت میں شامل کرنا شروع کر دیا۔جیسا کہ شروع سے آریہ سماج کا طریق رہا ہے، اس تحریک کا اہم جزو رسول اللہﷺ کی ذات اقدس پر بے بنیاداعتراضات کو شہرت دینا اور آپ کی تعلیمات پر تنقید کرنا تھا۔چنانچہ اس تحریک کے دوران ۱۹۲۴ء میں پہلی مرتبہ رسول اللہﷺ کی ازدواجی زندگی کے بارے میں شدید دلآزار کتاب ’رنگیلا رسول ‘شائع کی گئی تھی۔ اس کے پبلشر راجپال کا تعلق آریہ سماج سے تھا۔
یہ حقیقت تو اپنوں اور غیروں کے علم میں ہے کہ شدھی تحریک کا مقابلہ کرنے کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی قیادت اور راہنمائی میں جماعت احمدیہ صف اول میں کھڑی تھی۔اس مضمون کے موضوع کے حوالے سےیہ بیان کرنا ضروری ہے کہ اس عظیم مہم میں الفضل ایک کلیدی کردار ادا کر رہا تھا۔ اس وقت الیکٹرانک میڈیا کی سہولت تو موجود نہیں تھی، اس لیے پوری جماعت تک خلیفہ وقت کی تحریکات اور ارشادات پہنچانے کا ایک ذریعہ اخبار ہی تھا اور یہ فریضہ الفضل سرانجام دے رہا تھا۔شدھی تحریک چلانے والے جو اعتراضات کر رہے تھے، ان کے جوابات ساتھ کے ساتھ الفضل میں شائع ہو رہے تھے۔ ملکانہ کے علاقہ میں جو رضاکار تبلیغ کے لیے جارہے تھے ان کے لیے ہدایات اس اخبار میں شائع ہو رہی تھیں اور ان کی کاوشوں کی خبریں بھی الفضل کے ذریعہ پوری جماعت تک پہنچ رہی تھیں۔ شدھی کے مقابل پران سب کاوشوں کا مقصد کیا تھا۔۳۰؍مارچ ۱۹۲۳ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے شدھی تحریک کا مقابلہ کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا :’’ایک صحابی کو کفار نے پکڑ لیا۔ اور تجویز کی کہ ان کو قتل کردیا جائے۔سب تیاریاں ہو گئیں۔اس وقت ان سے پوچھا گیا کہ کیا تم پسند کرو گے۔کہ تم آزاد ہو جائواور تمہاری بجائے محمد(ﷺ)کو پکڑ کر قتل کیا جائے۔اور تم اپنے گھر میں آرام اور آزادی سے بیٹھو۔اس وقت اس صحابی نے جواب دیا۔ تم نےجو بات کہی ہے وہ تو بہت بڑی بات ہے۔ میں تو یہ بھی نہیں چاہتا کہ محمد رسول اللہﷺ کے پائوں میں کانٹا بھی چبھ جائے۔‘‘(الفضل ۲۳؍اپریل ۱۹۲۳ء)
اس وقت کئی غیر احمدی علماء فتنہ ارتداد کا مقابلہ کرنے کی بجائے مداہنت سے کام لے رہے تھے۔آپؓ نے اسی خطبہ میں مزید فرمایا:’’دیکھ لیں پہلے علماء بھی جب محمد رسول اللہﷺ کی عزت پر حملہ ہوتے دیکھتے تھے تو دشمن کو اس کے گھر سے آگاہ کرنے کے لئے سختی سے کام لیتے تھے۔‘‘
اسی فتنہ ارتداد کے شروع میں حضورؓ نے یہ راہنمائی فرمائی کہ ’’اس وقت تم اس بحث کو چھوڑ دوکہ وہ مسلمانوں کے کس فرقہ میں داخل ہوتے ہیں۔ تم اس کی فکر کرو کہ وہ مسلمان ہی رہیں۔کیونکہ مسلمانوں کے کسی نہ کسی فرقہ میں رہنا مرتد ہو کر پاکوں کے سردار محمد مصطفےٰﷺ کو گالیاں دینے والوں میں شامل ہو کرحضور اقدس و اعلیٰ خاتم النبیین کو گالیاں دینے لگنا بہر حال ہزارہا کروڑہا درجہ بہتر ہے۔‘‘(الفضل ۲۶؍اپریل ۱۹۲۳ء)
یکم اپریل کو جب مجلس شوریٰ میں اس فتنہ کے بارے میں بحث ہو چکی تھی تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اپنے خطا ب میں یہ اصولی ہدایت دی اور الفضل نے اسے شائع کر کے پوری جماعت تک پہنچایا۔ حضورؓ کے الفاظ تھے:’’کیا ہم اس لئے ان کو ارتداد سے بچانے نہ جائیں گے کہ ان کے مولوی ہمیں کافر اور ہمارے آقا کو دجال کہتے ہیں۔ اور ہمیں ہر قسم کا نقصان جو وہ پہنچا سکتے ہیں پہنچانا عین ثواب خیال کرتے ہیں۔ ہر گز نہیں۔‘‘(الفضل۱۶؍اپریل ۱۹۲۳ء)
ان حوالوں سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ اس فتنہ میں الفضل نے جو گرانقدر خدمات سرانجام دیں وہ رسول اللہﷺ کی ناموس کی حفاظت اور عاجزانہ خدمت کے لیے تھیں۔ہم اس دور کے صرف ایک ماہ یعنی اپریل ۱۹۲۳ءکا جائزہ لیتے ہیں کہ الفضل نے کس طرح خلیفہ وقت کا بازو بن کر یہ تاریخی خدمات سرانجام دیں۔
شدھی کے خلاف جدو جہد کا آغاز اور الفضل
اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ اس کے لیے کیا منصوبہ بندی کی گئی ؟ اور الفضل نے اس میں کیا کردارادا کیا؟ اس موقع پر مجلس مشاورت میں اس فتنہ کے سد باب کے لیے تجاویز حضورؓ کی خدمت میں پیش کی گئیں۔اور حضور نے خطبہ جمعہ میں بھی اس منصوبہ کا اعلان کیا۔اس کے مطابق احمدیوں کو تحریک کی گئی کہ احباب تین ماہ کے لیے اپنے آپ کو وقف کے لیے پیش کریں اور اس غرض کے لیے ہزاروں واقفین تیار ہوں جو کہ یوپی میں ملکانہ کے علاقہ میں جا کر رہیں اور تبلیغ کا فریضہ ادا کریں۔اور انہیں نظام کے تحت اس طرح بھجوایا جائے کہ ہر وقت سو احمدی واقفین اس علاقہ میں مصروف عمل ہوں اور ابھی خطبہ جمعہ میں اس کا اعلان بھی نہیں ہوا تھا کہ تین سو درخواستیں موصول ہو چکی تھیں۔ اور اس مہم کی ادائیگی کے لیے پچاس ہزار روپیہ کا فنڈ جمع کیا جائے۔حضور نے خاص طور پر احمدی راجپوتوں کو تحریک کی کہ وہ اپنے آپ کو پیش کریں کیونکہ وہ اپنی قوم کے مزاج کو بہتر سمجھتے ہیں۔غیر احمدیوں میں سے بہت سے احمدیوں سے بہت دشمنی رکھتے ہیں مگر اس نازک وقت میں ان کا ایک طبقہ بھی جماعت کے حق میں کھڑا ہوگیا ہے۔(الفضل ۱۶؍اپریل ۱۹۲۳ء) یہ تحریک اخبار کے ذریعہ ہی جماعت تک پہنچائی جا رہی تھی۔اس وقت جماعت کےپاس اور کوئی ذریعہ موجود نہیں تھا۔
اس وقت فقط منصوبہ بندی میں وقت ضائع نہیں کیا جاسکتا تھا کیونکہ آریہ سماجی بڑی تعداد میں ملکانہ (یوپی) کے علاقہ میں مسلمان راجپوتوں کو مرتد کر رہے تھے۔چنانچہ حضرت فتح محمد سیال صاحبؓ نے بطور امیر وفد المجاہدین آگرہ یو پی میں ڈیرے ڈال لیےاور اس فتنہ کی صورت حال کا جائزہ لیا۔انہوں نے مرکز یہ رپورٹ بھجوائی کہ آریہ سماج نے سالہاسال لالچ، دبائو اور ترغیب سے ملکانہ کے مسلمانوں کو اپنے دام میںپھنسانا شروع کیا ہے۔ محض چند روز کی جد و جہد سے ان کو اس تسلط سےآزادی دلوانا ممکن نہیں ہوگا۔ اس کے لیے طویل جد و جہد کرنی ہو گی۔لیکن مایوس ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ آہستہ آہستہ مرتد ہونے والے واپس ہونے شروع ہوگئے ہیں۔(الفضل ۱۶؍اپریل۱۹۲۳ء)
یہ خبریں شائع ہو رہی تھیں کہ جماعت کے وفود ملکانہ کے علاقہ کے لیے روانہ ہو رہے ہیں۔پہلے آریہ تقریباََ بلامقابلہ اپنے مقاصد حاصل کر رہے تھے، اب ان کی ناکامیوں اور شدھی کا شکار ہونے والوں کی واپسی کی خبریں بھی شائع ہو رہی تھیں۔۱۹؍اپریل ۱۹۲۳ءکے الفضل میں یہ خبر شائع ہوئی کہ نوّے واقفین میدان عمل میں پہنچ کر مصروف عمل ہیں اور کل ۴۴۱اس خدمت کے لیے پیش کر چکے ہیں۔مزید احباب اپنے آپ کو خدمت اسلام کے لیے جلد پیش کریں۔ اپریل کے وسط تک حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ اور حضرت نواب محمد علی خان صاحب ؓ بھی ملکانہ کے علاقہ میں پہنچ چکے تھے اور اس علاقہ میں پیدل سفر کر کے شدھی کا مقابلہ کر رہے تھے۔یہ منصوبہ اتنی تیزی سےشروع ہوا کہ ۱۶؍اپریل ۱۹۲۳ءکو مشہور ہندو اخبار پرتاپ نے یہ شائع کیا کہ شدھی سے سب سے زیادہ تکلیف احمدیوں کو ہو رہی ہے۔(الفضل ۱۹؍اپریل ۱۹۲۳ء)آگرہ میں جماعت کی طرف سے لیکچروں کا انتظام کیا جا رہا تھا۔ یہ خبریں بھی شائع ہو رہی تھیں کہ اس علاقہ میں آریہ مناظروں سے گریز کر رہے ہیں۔ آریہ سماج کے مشہور لیڈر مثال کے طور پر رام دیو صاحب اسلام کے خلاف جو لیکچر دے رہے تھے، الفضل باقاعدگی سے ان کا جواب شائع کر رہا تھااور دلچسپ بات یہ ہے کہ آریہ سماج والے یہ اعلان کر رہے تھے کہ ہم احمدیوں کو مسلمان نہیں سمجھتے۔(الفضل ۲۳؍اپریل ۱۹۲۳ء)اس جد و جہد میں الفضل کا کردار اتنا اہم تھا کہ الفضل کے ایڈیٹر بھی آگرہ منتقل ہو گئے تھے۔
بعض مسلمان گروہوں کی بے حسی
دوسرے فرقوں کے کئی غیر ت مند مسلمان تو جماعت احمدیہ کی حمایت کر رہے تھے۔ لیکن بعض مسلمان گروہوں کی کیا حالت تھی؟ اس وقت خلافت کانفرنس مسلمانوں کی ایک بڑی تنظیم تھی اور اس کے پاس ماضی میں جمع ہونے والےکافی مالی وسائل موجود تھے۔ان حالات میں انہوں نے کیا تیر مارا؟ انہوں نےا ٓگرہ میں ایک جلسہ منعقد کیا۔آریوں کا اتنا رعب تھا کہ بہت کم لیڈر اس میں شامل ہوئے اور بجائے ارتداد کی لہر کا مقابلہ کرنے کے مولوی آزاد سبحانی صاحب نے تقریر کی کہ اصل مقصد تو سو راج (آزادی ) حاصل کرنا ہے۔میں سوامی شردھانند صاحب سے عاجزی سے عرض کروں گا کہ مسلمان ہندوئوں سے درخواست کریں گے کہ اس وقت شدھی روک دیں۔ جب ا ٓزادی حاصل ہوجائے گی تو ہم فیصلہ کریں گے کہ ہم نے مسلمان رہنا ہے کہ ہندو ہو نا ہے۔(الفضل ۱۶؍ اپریل ۱۹۲۳ء) جالندھر چھائونی میں مولوی جودت میرٹھی صاحب نے تقریر کرتے ہوئے کہا :’’مذاہب عالم میں صرف جماعت احمدیہ جو خدا کے راستہ پر نہیں اور نہ اسے خدا سے کسی قسم کا تعلق ہے۔باقی دنیا کے تمام مذاہب سناتن، آریہ،یہودی، عیسائی، مجوسی، دہریہ وغیرہ سب راہ راست پر ہیں۔‘‘(الفضل ۲۳؍اپریل۱۹۲۳ء صفحہ۴)
اس دور میں مولوی ثناء اللہ امرتسری اور اہل حدیث سب سے زیادہ احمدیوں کے خلاف سرگرم تھے۔ اور ثناء اللہ امرتسری صاحب کا رسالہ ’اہلحدیث ‘تو جماعت کے خلاف دریدہ دہنی کے لیے وقف تھا اور اس جریدے نےاس نازک دور میں بھی یہ کام جاری رکھا۔۶؍اپریل ۱۹۲۳ء کے ’اہلحدیث‘کے شمارے کے صفحہ اول پر مولوی ثناء اللہ صاحب نے شدھی کے بارے میں لکھا:’’اس پر اسلامی حلقہ میں مذہبی اتحاد کی وجہ سے ہلچل مچ گئی ہے۔تبلیغی انجمنوں سے واعظ گئے۔ یہانتک کہ قادیانی امت کے واعظ بھی گئے اور سب سے زیادہ گئے۔‘‘اور اسی شمارے میں یہ اعلان شائع ہوا کہ اہلحدیث کانفرنس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ۳۲ واعظ ملکانہ کے علاقہ میں بھجوائے جائیں۔اور ۱۳؍اپریل کے شمارے میں یہی دعویٰ شائع ہوا کہ ۳۲ واعظ ملکانہ بھجوائے جائیں گے۔جیسا کہ پہلے الفضل کے حوالوں سے بیان کیا گیا ہے اپریل کے مہینہ میں ہی جماعت اس تبلیغی مہم کا بھر پور آغاز کر چکی تھی۔لیکن ۴؍مئی ۱۹۲۳ءکو شائع ہونے والے’اہلحدیث‘کے شمارے میں کیا شائع ہوا۔ملاحظہ فرمائیں:
’’آریوں کی طرف سے ہر قسم کی تدبیریں کی جا رہی ہیں۔اہلحدیث کانفرنس کی طرف سے ۳۲ ممبروں کا وفد جانا تجویز ہوا تھا مناسب سمجھا گیا کہ وفد سے پہلے حالات محولہ دریافت کرنے کو ایک ہوشیار خلیفہ بھیجا جائے…
آپ نے اپنی رپورٹ دہلی شوریٰ میں پیش کرنے کے بعد بغرض اشاعت بھیجی ہے جودرج ذیل ہے
۱۔اول تو بازار میں تحقیقات کی تو اس سے معلوم ہواکہ واقعات کم ہیں اور افواہیں زیادہیں۔اور کام بھی کچھ اعلیٰ پیمانے پر نہیں ہو رہا۔
۲۔اس کے بعد قادیانی ہیڈکوارٹر میں گئے۔ انہوں نے اضلاع کے نقشے مہیا کر رکھے ہیں۔اور کام جاری ہے۔انہوں نے اپنی کارگذاری بھی سنائی جس میں مبالغہ سے کام لیا مگر واقعی یہ باقاعدہ طریقے پر کام کر رہے ہیں۔‘‘
اسی رپورٹ میں اعتراف کیا گیا تھا کہ ہزاروں راجپوتوں کو مرتد کر دیا گیا ہے لیکن بے حسی کی یہ حالت ہےکہ ابھی تک اہلحدیث اپنے مبلغ میدان عمل میں بھی نہیں اتار سکے تھے۔البتہ مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب نے بار بار الفضل کو نیش زنی کا نشانہ ضروربنایا۔
سوامی شردھانند کا قتل اور الفضل کا تبصرہ
اس فتنہ ارتداد کا مقابلہ اسی طریق پر کیا جا سکتا تھا جس طریق پر جماعت احمدیہ یہ مقابلہ کر رہی تھی یعنی تبلیغ کر کے رسول اللہﷺ کا پیغام پہنچایا جائے اور اس طریق پر شدھی کا زور ٹوٹ گیا تھا۔لیکن دسمبر ۱۹۲۶ءمیں کئی غیر احمدی علماء کی تعلیمات کے زیر اثر ایک مسلمان عبدالرشید نے سوامی شردھانند کا قتل کر دیا۔یہ بیہودہ اور غیر اسلامی فعل صرف ہندوئوں کو مسلمانوں کے خلاف مزید انگیخت کرنے کا باعث بنا۔الفضل نے اس کی مذمت کرتے ہوئے ۴؍جنوری کی اشاعت کے اداریہ میں لکھا:’’یہ خبر تمام امن پسند احباب میں نہایت افسوس سے سنی گئی ہے کہ سوامی شردھانند جی کو (جو آریہ سماج کے مسلّمہ لیڈر تھے اور جن کی سرگرمیاں شدھی کے متعلق مشہور عالم ہیں ) کسی بد نام کنندہ اسلام عبدالرشید خوشنویس دہلوی نام نے دن دہاڑے پچھلے پہر پستول سے مار دیا۔ سوامی جی کئی دن سے بیمار چلے آتے تھے۔اب حالت کچھ سنبھل گئی تھی قاتل نے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ملازم مانع ہوا مگر سوامی جی نے کہا کہ آنے دو۔جب وہ اندر آیا تو کچھ مذہبی گفتگو چاہی۔بیماری کا عذر پیش کیا گیا۔قاتل نے پانی مانگا۔ اس وقت قاتل کو موقع مل گیا اور اس نے نہایت سفاکی سے دو تین فائر کئے۔ قاتل اسی وقت پکڑ لیا گیا۔ یہ قتل جس قدر بزدلانہ سفاکانہ ہے۔ اس شخص نے جو اپنے نام سے مسلمان کہلاتا ہے یقیناََ ایسا کام کیا ہے جو سراسر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اور اس نے ایک دشمن سے بڑھ کر اسلام کو نقصان پہنچایا ہے۔‘‘
عبدالرشید کے اس فعل کا صرف یہ نتیجہ نکلا کہ شدھی اور ہندو سنگھٹن کی تحریکات میں ایک نئی زندگی پیدا ہوئی۔الفضل نے اس موقع پر جس موقف کا اظہار کیا وہ تو درج کر دیا گیا ہے لیکن اس وقت بھی ایسے نا عاقبت اندیش مسلمان موجود تھے جنہوں نے عبد الرشید کی تصویروں کو شائع کر کے فروخت کرنا شروع کر دیا تھا۔
ناشر ’رنگیلا رسول ‘پر مقدمہ کا فیصلہ
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا تھا کہ جب شدھی کی تحریک شروع کی گئی تو اس کا ایک اہم جزو رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخی کرنا اور اس گستاخی پر مشتمل لٹریچر پھیلانا تھا۔ چنانچہ اسی سلسلہ میں ۱۹۲۴ءمیں ایک دل آزار کتاب ’رنگیلا رسول‘شائع کی گئی تھی۔اس کتاب میں رسول اللہﷺ اور ازواج مطہرات کے نکاحوں کے واقعات نہایت قابل اعتراض الفاظ میں بیان کیے گئے تھے۔شروع میں اس کتاب کے مصنف کا نام ظاہر نہیں کیا گیا تھا لیکن جیسا کہ بعد میں انکشاف ہوا اس کتاب کے مصنف کا نام سوامی پنڈت چموپتی تھا اور شروع کے عرصہ میں اس کتاب کے ناشر مہاشے راجپال کا نام زیادہ نمایاں طور پر سامنے آ رہا تھا۔اس کے بعد مئی ۱۹۲۷ءمیں امرتسر کے رسالہ ورتمان میں آنحضرتﷺ کے سوانح کے حالات افسانوی رنگ میں اور نام بگاڑ کر شائع کیے گئے۔
چنانچہ حکومت کی طرف سے راجپال کے خلاف دفعہ ۱۵۳؍الف کے تحت مقدمہ چلایا گیا جو کہ مذہب، زبان، سکونت وغیرہ کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان تشدد پر اکسانے یا ان کے درمیان تصادم پیدا کرنے کے بارے میں تھا۔سیشن کورٹ میں مہاشے راج پال کو اس دفعہ کے تحت سزا سنائی گئی۔ لیکن اس کے بعد اس فیصلہ کے بارے میں اپیل لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوئی۔ اس کی سماعت جسٹس کنوردلیپ سنگھ کر رہے تھے۔حیران کن طور پر جسٹس دلیپ سنگھ نے اس کتاب کو قابل مذمت قرار دیا لیکن یہ فیصلہ سنایا کہ اس دفعہ کے تحت راجپال کو سزا نہیں دی جاسکتی کیونکہ ان کےنزدیک یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ راجپال اس کے ذریعہ مسلمانوں اور ہندوئوں میں کشیدگی پیدا کرنا چاہتا تھااور سیشن کورٹ کا فیصلہ منسوخ قرار دے دیا گیا۔
اس پر ہندوستان کے مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔اس موقع پر اس فیصلہ کے خلاف آواز اٹھانے میں الفضل صف اول میں تھا۔مورخہ ۴؍جون ۱۹۲۷ء کو الفضل نے ایک تفصیلی اداریہ میں اس فیصلہ کے نقائص اور سقم کا ماہرانہ تجزیہ کر کے اس فیصلہ کے بنیادی نکات کی دھجیاں اڑا دیں۔اس اداریہ کا عنوان تھا ’’ہائی کورٹ پنجا ب کا ’’رنگیلا رسول ‘‘کے متعلق فیصلہ‘‘۔اس تحریر میں اس تضاد کی نشاندہی کی کہ ایک طرف تو اس فیصلہ میں یہ اقرار کیا گیا ہے کہ یہ ایسی کتاب ہے جس سے ہر حسن مذاق رکھنے والے شخص کے دل میں اس سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور اس سے بعض مسلمانوں کے جذبات کا مجروح ہونا یقینی ہے۔ لیکن اس کے باوجود راجپال کو اس لیے بری قرار دیا کیونکہ ان کے نزدیک یہ شق یعنی ۱۵۳ الف کسی گذشتہ مذہبی راہنما کی زندگی اور سیرت کے بارے میں بحث و تمحیث روکنے کے لئے وضع نہیں ہوئی تھی۔اس پر الفضل نے اس حقیقت کی نشاندہی کی کہ انہی دنوں میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اسی دفعہ کے تحت ایک اور آریہ پنڈت کالی چرن کو اسی طرح کی کتاب ’’وچتر جیون ‘‘لکھنے پر سزا دی ہے۔اور نہایت دلیری سے یہ سوال اُٹھایا:’’سمجھ میں نہیں آتا جس دفعہ کےما تحت الہ آباد ہائی کورٹ ایک ملزم کو مجرم قرار دے کر قابل سزا قرار دیتی ہے۔ وہی دفعہ بعینہ اسی قسم کے جرم کے متعلق پنجا ب ہائی کورٹ کے نزدیک کیوں بے اثر ہوجاتی ہے۔‘‘
ورتمان میں سیر دوزخ کی اشاعت اور حضرت مصلح موعودؓ کی اپیل
رسول اللہﷺ پر یہ حملے ایک مذموم منصوبہ کے تحت کیے جا رہے تھے۔ بلکہ یہ سلسلہ صرف ’رنگیلا رسول ‘اور ’وچتر جیون ‘تک محدود نہیں تھا۔اور اصل مقصد مسلمانوں کو ارتداد کے گڑھے میں دھکیلنا تھا۔اپریل ۱۹۲۷ء کے وسط میں امرتسر سے ایک ماہوار رسالہ ’رسالہ ورتمان ‘کے نام سے شروع کیا گیا۔اس کے پبلشر اور ایڈیٹر کا نام گیان چند پھاٹک تھا۔جب وسط مئی میں اس کا دوسرا شمارہ شائع ہوا تو اس میں ’سیر دوزخ‘کے نام سے قصہ کے رنگ میں ایک نہایت دل آزار تحریر شائع ہوئی۔اسے دیوی شرن شرما نے لکھا تھا۔اس میں رسول اللہﷺ کا نام بگاڑ کر مہامند اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نام بگاڑ کر آسا لکھا گیا تھااور معراج کے واقعہ پر طنز کیے گئے تھے اور اس میں نعوذُ باللہ آپ کو جہنم کے گہرے گڑھے میں گرا ہوا ظاہر کر کے، اپنے زعم میں اس کی وجہ شہوت رانی قرار دی گئی تھی۔ اس میں درج تمام بیہودگیوں کو دہرانے کی ضرورت نہیںکیونکہ ہر شریف آدمی پر یہ خرافات گراں گذریں گی۔باقی مسلمان تو ابھی خاموش تھے بلکہ جماعت احمدیہ کے اشد مخالف مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب نے بعد میں عدالت میں اقرار کیا کہ انہوں نے ۲۷؍مئی ۱۹۲۷ءکو یہ تحریر پڑھ لی تھی لیکن انہوں نے اپنے جریدے ’اہلحدیث‘میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔اور عدالتی فیصلہ میں یہ گواہی درج کی گئی تھی۔
(The All India Reporter 1927 p595)
سب سے پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس گندی تحریرپر رد عمل ظاہر کیا۔اور ایک پوسٹر تحریر فرمایا جس کا عنوان تھا’’رسول کریمﷺ کی محبت کا دعویٰ کرنے والے کیا اب بھی بیدار نہ ہوں گے؟‘‘اس پوسٹر کے نصائح کی طرف آج بھی اسی طرح توجہ کرنے کی ضرورت ہے جس طرح ۱۹۲۷ءمیں ضرورت تھی۔آپؓ نے تحریر فرمایا کہ جب عیسائیوں نے مسلمانوں کو سپین سے نکالنے کا منصوبہ بنایا تو یہ طریق اختیار کیا کہ کچھ عیسائی مسلمانوں کا بھیس بدل کر مسجدوں میں جاتے اور رسول اللہﷺ کو گالیاں دینا شروع کر دیتے۔ بعض جوشیلے مسلمان جوان کی اس تدبیر سے واقف نہ ہوتے ان سے لڑ پڑتے اور ان میں سے کچھ کو قتل کر دیتے۔ تو پورے ملک میں شور مچا دیا جاتا کہ اس ظالمانہ طریق پر مسیحوں کو مارا جاتا ہے۔اس جوش کافائدہ اٹھا کر مسیحی ریاستوں نے مسلمانوں کو جو پہلے ہی کمزور ہو چکے تھے ملک سے نکال دیا۔
یہ تاریخی تجزیہ درج کرنے کے بعد آپؓ نے یہ پر حکمت نصیحت فرمائی:’’یہی تدبیر مذکورہ بالا قسم کی ہندو مصنفین استعمال کر رہے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو اس قدر جوش دلانا چاہتے ہیںکہ مسلمان آپے سے باہر ہو کر خونریزی پر اتر آئیں۔ اور اس طرح انہیں اپنی سنگھٹن میں مدد ملے۔ لیکن کیا مسلمان اس دھوکے میں آئیں گے ؟آخر سوامی شردھانند کے قتل سے اسلام کو کیافائدہ ہوا۔ خونریزی ہر گز کوئی نفع نہیں دے سکتی۔ وہ اخلاقی اور تمدنی طور پر قوم کو سخت نقصان پہنچاتی ہے۔پس مسلمانوں کو اس قسم کی تحریروں سے ضرور واقف ہونا چاہیے۔لیکن اپنے جوشوں کو دبا کر غیرت پیدا کرنی چاہیے۔‘‘
اس کے بعد حضورؓ نے مسلمانوں کو نصیحت فرمائی کہ وہ اپنی عملی حالت بہتر بنائیں۔ ایک نئے جوش سے تبلیغ میں مشغول ہوجائیں۔اور اپنی سیاسی، تمدنی اور اقتصادی حالت کو بہتر بنائیں۔اور ہندوئوں کا مقروض ہونے کی بجائے ان کی اقتصادی غلامی سے نجات حاصل کریں۔(کاش آج بھی یورپ کے مسلمان اس سازش کو سمجھ کرحضور کی ان نصائح پر عمل کریں۔)
یہ پوسٹر دیواروں پر تو لگائے گئے لیکن خلیفہ وقت کی آواز کو سب تک پہنچانے کے لیے۱۰؍جون ۱۹۲۷ءکو الفضل میں شائع کر دیا گیا۔ اس پوسٹر نے اسلام مخالف حلقوں میں ایک زلزلہ برپا کردیا۔ اس کے ذریعہ ان کی اصل سازش کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوٹ رہا تھا۔
سید دلاور شاہ بخاری صاحب کی غیرت
یہ ولولہ صرف الفضل تک محدود نہیں تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی راہنمائی میں پوری جماعت اس فتنہ کا سد باب کرنے میں مصروف تھی۔لاہور میں ایک رسالہ مسلم آئوٹ لک کے ایڈیٹر ایک احمدی سید دلاور شاہ بخاری صاحب تھے۔ انہوں نے الفضل میں اس پوسٹر کی اشاعت کے چار روز بعد اپنے جریدے میں ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا ’مستعفی ہوجائو‘۔ اس میں انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس فیصلہ کے بعد مناسب یہی ہے کہ جسٹس دلیپ سنگھ صاحب لاہور ہائی کورٹ میں اپنا عہدہ چھوڑ دیں۔اور اس بات کی تحقیقات کی جائیں کہ اس فیصلہ کی پشت پر کون سے عوامل کار فرما تھے۔کیونکہ جسٹس کنور دلیپ سنگھ اس ذمہ داری اور اہلیت کا مظاہرہ نہیں کر سکے جو کہ ہائی کورٹ کے ایک جج میں ہونی چاہیے۔
ان اقدامات کا جو رد عمل ظاہر ہوا اس سے یہی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ ہندو احباب کا جو گروہ اسلام کے خلاف سازش میں شریک تھاوہ حواس باختہ ہو گیا اور گورنر پنجاب کی خدمت میں درخواست لکھی کہ جس طرح ورتمان کے ایڈیٹر پر مقدمہ چلایا گیا تھا اسی طرح مرزا صاحب کے خلاف بھی قانون حرکت میں آئے۔ حضورؓ کے پوسٹر میں پُر امن رہنے کی تلقین کی گئی تھی لیکن حکومت نے اس پوسٹر کو ضبط کر لیا۔ملاحظہ فرمائیں کہ اشتعال انگیز کتاب رنگیلا رسول کو تو قانون نے بری کر دیا تھا لیکن جس پوسٹر میں پر امن رہنے اور جوشوں کو دبانے کی تلقین کی گئی تھی اس سے یہ گروہ اتنا بوکھلایا کہ یہ پوسٹر فوری طور پر ضبط کر لیا گیا اور سید دلاور شاہ بخاری صاحب پر توہین عدالت کا مقدمہ درج کر دیا گیا۔ بعض لوگوں نے انہیں مشورہ دیا کہ مناسب الفاظ میں اظہار افسوس کر لیا جائے۔جب انہوں نے اس بارے میں حضور سے راہنمائی کی درخواست کی تو حضورؓ نے ارشاد فرمایا: ’’ہمارا فرض ہونا چاہئے کہ صوبہ کی عدالت کا مناسب احترام کریں لیکن جبکہ ایک مضمون آپ نے دیانت داری سے لکھا ہے اور اس میں صرف ان خیالات کی ترجمانی کی ہے جو اس وقت ہر مسلمان کے دل میں اٹھ رہے ہیں تو اب آپ کا فرض سوائے اس کے کہ اس سچائی پر مضبوطی سے قائم رہیں اور کیا ہو سکتا ہے یہ رسول کریمﷺ کی عزت کا سوال ہے اور ہم اس مقدس وجود کی عزت کے معاملہ میں کسی معارض آواز پر بغیر آواز اٹھائے نہیں رہ سکتے…آپ جواب میں لکھو ادیں کہ اگر ہائی کورٹ کے ججوں کے نزدیک کنور دلیپ صاحب کی عزت کی حفاظت کے لئے تو قانون انگریزی میں کوئی دفعہ موجود ہے لیکن رسول کریمﷺ کی عزت کی حفاظت کے لئے کوئی دفعہ موجود نہیں تو میں بڑی خوشی سے جیل خانہ جانے کے لئے تیار ہوں۔‘‘
ایک مرتبہ پھر الفضل نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی اس آواز کو دلیری سے دنیا تک پہنچایا اور یہ حضور کی تحریر کی صورت میں یکم جولائی ۱۹۲۷ء کے الفضل میں شائع ہوا۔اس تحریر کا عنوان تھا’’رسول کریمﷺ کی عزت کا تحفظ اور ہمارا فرض ‘‘
اس تحریر کے شائع ہونے سے قبل دلاور شاہ بخاری صاحب پر توہین عدالت کے مقدمہ کا فیصلہ آ چکا تھا۔ اور عدالت نے بخاری صاحب کو چھ ماہ کی قید اورساڑھے سات سو روپیہ جرمانہ کی سزا سنائی۔ باوجود یکہ اس وقت حالات خطرناک ہو چکے تھے حضورؓ نے اسی تحریر میں اس عدالتی فیصلہ پر محاکمہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ ہمیں حیرت ہے کہ رسول اللہﷺ کی عزت پر حملہ کرنے والوں پر تو مہینوں مقدمہ چلے اور آخر میں انہیں بری کر دیا جائے۔ لیکن ہائی کورٹ کے جج کے متعلق ایسی بات لکھنے کو جو صرف تاویلاََ ہتک کہلا سکتی ہے آٹھ روز کے اندر اندر دو معزز لوگ جیل بھجوا دیے جاتے ہیں۔الفضل کی خدمات کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضور نے اس تحریر میں مسلمانوں کو جو نصائح فرمائیں ان میں یہ نصیحت بھی شامل تھی کہ وہ اپنے اخبارات اور پریس میں اپنے رسوخ کو مضبوط بنائیں۔
جیسا کہ پہلے عرض کی گئی تھی کہ مضمون کی حدود کی وجہ سے ناموس رسالت کے لیے الفضل کی خدمات کی صرف چند جھلکیاں ہی پیش کرنا ممکن ہوگا۔ یہ جد و جہد جاری رہی۔ سید دلاور شاہ بخاری صاحب اپنے موقف پرقائم رہتے ہوئے بخوشی چھ ماہ کے لیے جیل چلے گئے۔ورتمان کے ایڈیٹر اور پبلشرپر۱۵۳؍ الف کے تحت ہی مقدمہ چلایا گیا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بذریعہ تار یہ مطالبہ کیا کہ یہ مقدمہ ایک جج کا بینچ نہ سنے بلکہ ڈویژن بینچ اس کی سماعت کرے۔ چنانچہ اس مقدمہ کے لیے ایک بینچ قائم ہوا اور ورتمان کے ایڈیٹر اور پبلشر کو قید اور جرمانہ کی سزا سنائی گئی۔اور اس سال کے آخر تک حکومت نے تعزیرات ہند میں نئی دفعہ ۲۹۵؍ الف کا اضافہ کیا۔
مقدس ہستیوں کی توہین کی کوشش آج بھی کی جاتی ہے۔ اور اس کے بارے میں قوانین اور اس کے صحیح اور غلط استعمال کے بارے میں اب تک تنازعات چل رہے ہیں۔ لیکن اگر اس بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ارشادات پر غور کیا جائے تو آج بھی ان ارشادات کی راہنمائی میں ان مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔