حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ’’الیس اللہ …‘‘ والی انگوٹھی کے بارے میں بعض روایات
تاریخی روایات میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تین انگوٹھیوں کا ذکر ملتا ہے۔ تینوں انگوٹھیوں کے نگینوں پر مختلف تحریرات ہیں۔ پہلی انگوٹھی پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حضورؑ کے والد کی وفات کے وقت ہونے والا الہام ’’اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ‘‘ کندہ ہے۔ دوسری انگوٹھی پر ’’اُذْکُرْنِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکَ غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَقُدْرَتِیْ‘‘ درج ہے جبکہ تیسری انگوٹھی پر ’’مولیٰ بس‘‘ کی تحریر موجود ہے۔ پہلی اور تیسری انگوٹھی ہمیں اپنے پیارے امام حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے داہنے ہاتھ میں نظر آتی ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد چشمِ فلک نے غالباً پہلی مرتبہ کسی ایک وجود میں حضورؑ کی دو انگوٹھیاں یکجا ہونے کا نظارہ دیکھا ہے۔ جیسا کہ حضرت قمرالانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اپنے ایک مضمون میں ان انگوٹھیوں کے متعلق تحریر فرمایا کہ ’’میں خیال کرتا ہوں کہ ان تینوں انگوٹھیوں کے الفاظ اپنے اندر بعض خاص اشارات رکھتے ہیں‘‘ ہمارا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر کام پُر حکمت ہوتا ہے اور دو انگوٹھیوں کے ایک بابرکت ہاتھ میں ہونے سے خدا تعالیٰ کے بیش از بیش فضلوں اور رحمتوں کا اس بابرکت ذات میں جمع ہونا مترشح ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
اس تحریر کا بنیادی مقصد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ’’اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ‘‘والی انگوٹھی کے بارے میں مختلف مطبوعہ و غیرمطبوعہ روایات کو یکجا کرنا اور تاریخ کا حصہ بنانا ہے۔
سب سے پہلے تینوں انگوٹھیوں کے بارے میں بعض روایات پیش خدمت ہیں۔
’’الیس اللہ …‘‘ والی انگوٹھی کا بنوانا
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب والدِ محترم کی وفات کی خبر دی گئی تو بجلی کی چمک کی طرح ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصہ کے لیے آپؑ کے دل میں یہ خیال گزرا کہ والد صاحب کی وفات کے بعد شاید تنگی اور تکلیف کے دن آپؑ پر آئیں کیونکہ آپؑ کی معاش کے اکثر ذرائع والد صاحب کی زندگی سے مشروط تھے۔ تب اُسی وقت غنودگی ہو کر حضورؑ کو یہ الہام ہوا اَلیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ یعنی کیا خدا اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے۔ حضورؑ فرماتے ہیں کہ ’’اس الہام کے ساتھ ایسا دل قوی ہو گیا کہ جیسے ایک سخت دردناک زخم کسی مرہم سے ایک دم میں اچھا ہو جاتا ہے۔… مَیں نے اسی وقت سمجھ لیا کہ خدا مجھے ضائع نہیں کرے گا۔‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۲۰) چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک ہندو کھتری ملاوامل نام کو یہ الہام لکھ کر دیا اور اسے امرتسر بھجوایا تاکہ حکیم مولوی محمد شریف کلانوری کی معرفت اس کو کسی نگینہ میں کھدوا کر مہر بنوا کر لے آوے۔ اس طرح مولوی صاحب کے ذریعہ سے وہ انگوٹھی پانچ روپے میں تیار ہو کر حضور علیہ السلام کے پاس پہنچ گئی۔
یاد رہے کہ ان انگوٹھیوں پر کندہ الہامات کی عبارات معکوس ہیں یعنی اگر ان سے مہر لگائی جائے تو مہر میں عبارت سیدھی آتی ہے۔ بعض روایات کے مطابق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض خطوط وغیرہ پر اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ نیز اُذْکُرْنِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکَ غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَقُدْرَتِیْوالی عبارت مہر کی گئی۔ (مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ ۴۸۷ و دیگر)غالب گمان ہے کہ یہ مہریں ان ہی بابرکت انگوٹھیوں سے لگائی گئی ہوں گی۔ واللہ اعلم بالصواب
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ایک بیان
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے خطبات و خطابات میں بھی بعض جگہوں پر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی انگوٹھیوں اور ان پر موجود عبارات وغیرہ کا تذکرہ ملتا ہے۔ اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍ جنوری ۱۹۵۶ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا: ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد والدہ صاحبہ کی خواہش تھی کہ عمر میں بڑا ہونے کی وجہ سے آپ کی اَلیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والی انگوٹھی مجھے ملے۔ ہم تین بھائی تھے اور تین ہی انگوٹھیاں تھیں مگر باوجود خواہش کے آپ نے قرعہ ڈالا اور عجیب بات یہ ہے کہ تین بار قرعہ ڈالا گیا اور تینوں دفعہ ہی اَلیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والی انگوٹھی میرے نام نکلی۔ غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَقُدْرَتِیْ والی انگوٹھی میاں بشیر احمد صاحب کے نام نکلی اور تیسری انگوٹھی جو وفات کے وقت آپ کے ہاتھ میں تھی اور اُس پر ’’مولا بس‘‘لکھا ہوا تھا تینوں دفعہ میاں شریف احمد صاحب کے نام نکلی۔
اب دیکھو کہ کتنا خدائی تصرف ہے ایک بار قرعہ ڈالنے میں غلطی ہو سکتی تھی،دوسری بار قرعہ ڈالنے میں بھی غلطی ہو سکتی تھی لیکن تین بار قرعہ ڈالا گیا اور تینوں دفعہ میرے نام اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والی انگوٹھی نکلی، میاں بشیر احمد صاحب کے نام غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَقُدْرَتِیْ والی انگوٹھی اور میاں شریف احمد صاحب کے حصہ میں وہ انگوٹھی آئی جس پر ’’مولابس‘‘ لکھا ہوا تھا۔ میں نے نیت کی ہوئی ہے کہ میں اَلیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والی انگوٹھی جماعت کو دے دوں لیکن میں اُس وقت تک اسے کس طرح دے دوں جب تک کہ وہ اس کی نگرانی کی ذمہ داری نہ لے۔ اگر وہ انگوٹھی میرے بچوں کے پاس رہے تو وہ کم سے کم اسے اپنی ملکیت سمجھ کر اس کی حفاظت تو کریں گے۔ لیکن میرا دل چاہتا ہے کہ میں یہ انگوٹھی اپنے بچوں کو نہ دوں بلکہ جماعت کو دوں۔ اِس کے لیے میں نے ایک اَور تجویز بھی کی ہے کہ اس انگوٹھی کا کاغذ پر عکس لے لیا جائے اور اُسے زیادہ تعداد میں چھپوا لیا جائے۔ پھر نگینہ والی انگوٹھیاں تیار کی جائیں لیکن نگینہ لگانے سے پہلے گڑے میں اس عکس کو دبا دیا جائے۔ اِس طرح ان انگوٹھیوں کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی انگوٹھی سے براہِ راست تعلق ہو جائے گا۔ گویا اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ نگ بھی ہو گا اور وہ عکس بھی نگ کے نیچے دبا یا ہوا ہو گا۔ پھر اس قسم کی انگوٹھیاں مختلف ممالک میں بھیج دی جائیں۔ مثلاً ایک انگوٹھی امریکہ میں رہے، ایک انگلینڈ میں رہے، ایک سوئٹزرلینڈ میں رہے، اِسی طرح ایک ایک انگوٹھی دوسرے ممالک میں بھیج دی جائے تا اِس طرح ہر ملک میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تبرک محفوظ رہے۔‘‘(الفضل8؍فروری 1956ء)
انگوٹھیوں کا تذکرہ از تحریرات حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سیرت المہدی میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تین انگوٹھیاں تھیں۔ ایک اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والی جس کا آپؑ نے کئی جگہ اپنی تحریرات میں ذکر کیا ہے یہ سب سے پہلی انگوٹھی ہے جو دعویٰ سے بہت عرصہ پہلے تیار کرائی گئی تھی۔دوسری وہ انگوٹھی جس پر آپ کا الہام غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَقُدْرَتِیْ الخ درج ہے۔یہ آپ نے دعویٰ کے بعد تیار کروائی تھی اور یہ بھی ایک عرصہ تک آپ کے ہاتھ میں رہی۔ الہام کی عبارت نسبتاً لمبی ہونے کی وجہ سے اس کا نگینہ سب سے بڑا ہے۔تیسری وہ جو آخری سالوں میں تیار ہوئی اور جو وفات کے وقت آپ کے ہاتھ میں تھی۔یہ انگوٹھی آپ نے خود تیار نہیں کروائی بلکہ کسی نے آپ سے عرض کیا کہ میں حضور کے واسطے ایک انگوٹھی تیار کروانا چاہتا ہوں اس پر کیا لکھواؤں حضورنے جواب دیا ’’مولا بس ‘‘چنانچہ اس شخص نے یہ الفاظ لکھوا کرانگوٹھی آپ کو پیش کر دی۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت ایک شخص نے یہ انگوٹھی آپ کے ہاتھ سے اتار لی تھی پھر اس سے والدہ صاحبہ نے واپس لے لی۔حضر ت مسیح موعودؑ کی وفات کے ایک عرصہ بعد والدہ صاحبہ نے ان تینوں انگوٹھیوں کے متعلق ہم تینوں بھا ئیوں کے لئے قرعہ ڈالا۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والی انگوٹھی بڑے بھائی صاحب یعنی حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کے نام نکلی۔ غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَقُدْرَتِیْ (تذکرہ صفحہ۴۲۸حاشیہ مطبوعہ۲۰۰۴ء) والی خاکسارکے نام اور ’’مولا بس‘‘ والی عزیزم میاںشریف احمدصاحب کے نام نکلی۔ہمشیرگان کے حصّہ میں دو اور اسی قسم کے تبرک آئے۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 16)
اسی طرح ان انگوٹھیوں کے قرعے کا ذکر کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ اپنے ایک مضمون ’’حضرت ام المومنین کے خط کا ایک اور نمونہ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’چنددن ہوئے میں نے یادگار کی نیت سے حضرت ام المومنین اطال اللہ ظلہا کے خط کا نمونہ الفضل میں شائع کرایا تھا۔ اس کے بعد مجھے ایک زیادہ اہم امر کے تعلق میں بھی حضرت اماں جان کے خط کا نمونہ مل گیا ہے، جو درج ذیل کرتا ہوں۔ اس کے مختصر حالات یہ ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہوئی تو حضور نے اپنے پیچھے تین انگوٹھیاں چھوڑی تھیں۔ ایک وہ قدیم انگوٹھی تھی جو ہمارے دادا صاحب کی وفات کے بعد جو ۱۸۷۶ء میں ہوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے تیار کروائی تھی۔ جس میں الیس اللہ بکافٍ عبدہٗ (یعنی کیا خدا پنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے) والا مشہور الہام درج ہے۔ دوسری انگوٹھی وہ تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غالباً ۱۸۹۲ء میں یا اس کے قریب تیار کروائی تھی۔ جس میں حضور کا یہ الہام جو غالباً۱۸۸۴ء کے قریب کا ہے درج ہے کہ’’اُذْکُرْنِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکَ۔ غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَقُدْرَتِیْ یعنی میری اس نعمت کو یاد کر جو میں نے تجھ پر کی ہے۔ میں نے تیرے لئے اپنے ہاتھ سے اپنی رحمت اور قدرت کا درخت لگایا ہے۔‘‘
اور تیسری انگوٹھی وہ تھی جو وفات سے کچھ عرصہ قبل یعنی غالباً ۱۹۰۶ء میں ایک سیالکوٹ کے دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے تیار کروائی تھی اور حضور کی منشاء کے مطابق اس میں’’مولابس‘‘کے الفاظ کندہ کئے تھے۔
الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت ام المومنین اطال اللّٰہ بقائھا نے ارادہ فرمایا کہ یہ تین انگوٹھیاں ہم تین بھائیوں میں تقسیم فرمادیں۔ اور تجویز یہ ہوئی کہ تقسیم کے لئے قرعہ ڈال لیا جائے۔ چنانچہ تین علیحدہ علیحدہ پرزوں پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے (جوغالباً اس وقت تک ابھی خلیفہ نہیں ہوئے تھے) اپنے ہاتھ سے ان تینوں انگوٹھیوں کی عبارت لکھی اور پھر حضرت اماں جان نے دعا کرتے ہوئے قرعہ اٹھایا تو الیس اللّٰہ بکافٍ عبدہٗ والی انگوٹھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے حصہ میں آئی اور اذکرنعمتی التی انعمت علیک غرستُ لک بیدی رحمتی وقدرتی والی انگوٹھی خاکسار راقم الحروف کے حصہ میں آئی اور مولا بس والی انگوٹھی عزیزم میاں شریف احمد صاحب کے حصہ میں آئی۔ چنانچہ اسی وقت حضرت اماں جان نے ہر پرزہ پر اپنے ہاتھ سے ہم تینوں بھائیوں کے نام قرعہ کے مطابق لکھ دیئے۔ گویا ذیل کے نمونہ میں انگوٹھیوں کی عبارت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے۔ اور نیچے کے نام حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں۔ جس کا عکس یعنی چربہ میں ایک مبارک یادگار کے طورپر اخبار الفضل میں شائع کروارہا ہوں۔(مطبوعہ الفضل ۱۰؍دسمبر ۱۹۴۵ء)
اسی قسم کی ایک تحریر ہمیں قمرالانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے ایک اور مضمون میں ملتی ہے۔ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تین مقدس انگوٹھیاں اور حضرت ام المومنینؓ والے قرعوں کا مبارک عکس‘‘ کے عنوان سے آپؓ تحریر فرماتے ہیں:’’گزشتہ جمعہ کے خطبہ مؤرخہ ۲۰؍جنوری ۱۹۵۶ء میں حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان تین انگوٹھیوںکا ذکر فرمایاتھا۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے پیچھے چھوڑی تھیں۔ اور اس تعلق میں بیان فرمایا تھا کہ سب سے پہلی انگوٹھی جس پر اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والا الہام کندہ تھااور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کئی کتابوں میں اس کا ذکر فرمایا ہے وہ وہ حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد قرعہ اندازی کے ذریعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے حصہ میں آئی تھی۔ اور دوسری انگوٹھی جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَ قُدْرَتِیْ کندہ تھاوہ خاکسار مرزا بشیر احمد کے حصہ میں آئی تھی۔ اور تیسری انگوٹھی جس پر ’’مولیٰ بس‘‘ کے الفاظ کندہ تھے عزیزم میاں شریف احمد کے حصہ میں آئی تھی۔ اور یہ قرعہ اندازی حضرت ام المومنین نوراللہ مرقدھا کے سامنے اور انہی کی تجویز پر ہوئی تھی۔ اور انہوں نے ہی دعا کرتے ہوئے یہ قرعے اٹھائے تھے۔
اس تعلق میں خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے یہ سارا واقعہ کسی قدر تشریح کے ساتھ اپنی کتاب ’’سیرت المہدی حصہ اول‘‘ کی روایت نمبری۱۶ میں درج کیا ہوا ہے۔ گو افسوس ہے کہ اس میں کاتب کی غلطی سے غَرَسْتُ لَک کی بجائے غَرَسْتُک کے الفاظ لکھے گئے ہیں۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والا الہام وہ ہے جو۱۸۷۶ء میں ہمارے دادا صاحب کی وفات کے موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا تھا۔ اور حضور نے اسی زمانہ میں اس الہام کا ایک نگینہ تیار کرا کے ایک انگوٹھی بنوا لی تھی۔ جس کاذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی بہت سی تحریروں میں ایک خدائی نشان کے طور پر کیا ہے۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکاَفٍ عَبْدَہٗ والا الہام جس کے معنی یہ ہیں کہ ’’کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں؟‘‘ اس وقت ہوا تھا جب ہمارے دادا صاحب کے قرب وفات والے الہام پر حضرت مسیح موعودؑ کو وقتی طورپر خیال گزراتھا۔ کہ بہت سے ظاہری سہارے حضور کے والد صاحب کی ذات کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اب ان کے بعد کیا ہوگا؟جس پر بڑے زور دار رنگ میں یہ الہام ہوا کہ کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں؟ اور حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد خدا نے میری اس طرح کفالت اور سرپرستی فرمائی کہ میرے والد یا کسی دنیوی رشتہ دار یا کسی دوسرے دنیوی سہارے نے کیا کر نی تھی؟
دوسری انگوٹھی جو قرعہ کے ذریعہ میرے حصہ میں آئی تھی اس کا پورا الہام جو انگوٹھی کے نگینہ پر درج ہے، یہ ہے :’’اُذْکُرْ نِعْمَتِیَ الَّتِیْ اَنْعَمْتُ عَلَیْکَ غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَ قُدْرَتِیْ‘‘ ’’یعنی میری اس نعمت کو یاد کر جو میں نے تجھ پر کی ہے۔ میں نے تیرے لئے اپنے ہاتھ سے اپنی رحمت اور اپنی قدرت کا درخت لگایا ہے‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام میری ولادت کے قریب کے زمانہ میں ہوا تھا چنانچہ انگوٹھی کے نگینہ پر تاریخ سنہ۱۳۱۲ ہجری لکھی ہے۔ گو یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ تاریخ الہام کی ہے یا کہ انگوٹھی بننے کی۔
تیسری انگوٹھی جو عزیزم شریف احمد صاحب کے حصہ میں آئی تھی اس پر ’’مولیٰ بس‘‘ کے الفاظ کندہ ہیں۔ اس کا واقعہ یوں ہے کہ ضلع سیالکوٹ کے ایک دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری ایام میں حضورؑ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ میں ایک انگوٹھی بنا کر حضورؑ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں، اس پر کیا الفاظ لکھے جائیں؟ جس پر حضورؑ نے ’’مولیٰ بس‘‘ کے الفاظ فرمائے۔ وفات کے وقت یہ انگوٹھی حضورؑ کے ہاتھ میں پہنی ہوئی تھی اور غالباً اس کے الفاظ بھی حضورؑ نے اپنے قربِ وفات کے الہامات کی بناء پر ہی تجویز فرمائے تھے۔ اور میں خیال کرتا ہوں کہ ان تینوں انگوٹھیوں کے الفاظ اپنے اندر بعض خاص اشارات رکھتے ہیں۔
جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں قرعہ اندازی حضرت ام المومنین نوّراللہ مرقدھا کی تجویز پر انہی کے ہاتھ سے ہوئی تھی۔ تین مختلف کاغذوں پر تینوں انگوٹھیوں کے نگینوں کی عبارت لکھی گئی اور کاغذوں کو تہہ کر دیا گیا۔ اور پھر حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا نے دعا کے ساتھ پہلا کاغذ یہ کہتے ہوئے اٹھایاکہ یہ انگوٹھی محمود کی ہوگی اور کاغذ کھولنے پر یہ انگوٹھی اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والی نکلی۔ پھر دوسرا کاغذ یہ کہتے ہوئے اٹھایا کہ یہ انگوٹھی بشیرؔ کی ہوگی اور قرعہ کا کاغذ کھولنے پر اس میں ’’غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَ قُدْرَتِیْ‘‘ والا الہام درج شدہ نکلا۔ اور تیسرا قرعہ ’’مولیٰ بس‘‘ والا عزیزم میاں شریف احمد صاحب کا قرار پایا۔ اور جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ نے خطبہ میں فرمایا تھا یہ قرعہ اندازی غالباً تین دفعہ ہوئی اور ہر دفعہ یہی نتیجہ نکلا۔
قرعوں کے کاغذ حنائی رنگ کے دبیز ٹکڑے تھے۔ جو حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا نے اپنے پاس محفوظ کر لئے تھے اور اس کے کچھ عرصہ بعد مجھے دے دئیے تھے۔اور خدا کے فضل سے اب تک میرے پاس محفوظ ہیں۔ میں ان ہر سہ کاغذوںکا عکس بصورت چربہ ذیل میں درج کر تا ہوں تا ایک تو احمدیت کی تاریخ میں محفوظ ہوجائیں اور دوسرے ہمارے دوست ان کے دیکھنے سے روحانی حظ اٹھاسکیں اور دعاؤں کی بھی تحریک ہو۔…
…میرے والی انگوٹھی میں اختصار کے خیال سے عبارت صرف ’’غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَ قُدْرَتِیْ‘‘ لکھی ہے۔لیکن جیسا کہ انگوٹھی کے نگینہ سے ظاہر ہے پوری عبارت’’اُذْکُرْ نِعْمَتِیَ الَّتِیْ اَنْعَمْتُ عَلَیْکَ غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَ قُدْرَتِیْ‘‘ ہے۔جس کا ترجمہ اوپر درج کیا جاچکا ہے۔
ان قرعوں میں نگینہ کی درج شدہ عبارت توحضرت خلیفۃالمسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہٖ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے۔لیکن ہر قرعہ پر ہم تینوں بھائیوں کے الگ الگ نام حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا کے ہاتھ کے ہیں۔ یعنی جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ والے قرعہ پر محمود احمد لکھا ہے اور میرے والے قرعہ پر بشیر احمد لکھا ہے۔ اور عزیزم میاں شریف احمد صاحب والے قرعہ پر شریف احمدلکھا ہے یہ تینوں نام حضرت اماں جان نے قرعہ نکالنے کے بعد خود اپنے ہاتھ سے لکھے تھے۔ اس طرح ان قرعوں کا چربہ چھاپنے سے یہ غرض بھی حاصل ہوجاتی ہے کہ حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے دستخط کا نمونہ احمدیت کی تاریخ میں محفوظ ہو جائے۔ حضرت خلیفۃا لمسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا تو جو مقام ہے وہ ظاہر ہی ہے۔ دوست دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اور عزیزم میاں شریف احمد صاحب کو بھی اس مبارک کلام کا مصداق بنائے جو قرعہ کے ذریعہ نکلنے والی انگوٹھیوں میں درج ہے۔ واٰخر دعوٰنا اَنِ الحمد للّٰہ ربّ العالمین(مطبوعہ روزنامہ الفضل ربوہ۲۸؍ صلح ۱۳۳۵ ھش، ۲۸؍ جنوری ۱۹۵۶ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے بعض ارشادات
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ یکم ستمبر ۱۹۶۷ء میں دورۂ یورپ کے دوران یوروپین احمدیوں کے اخلاص و وفا کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اس دفعہ جو میں وہاں گیا ہوں تو میں نے وہاں کی جماعتوں میں یہ حالت نہیں پائی۔ ہر جگہ میں نے یہ محسوس کیا کہ اسلام کے دلائل نے ان کی عقلوں کو گھائل کیا اسلام کے حسن نے ان کی بصیرت اور بصارت کو خیرہ کیا اور ان کے دلوں میں اس قدر محبت اپنی پیدا کر دی ہے کہ اس سے زیادہ محبت تصور میں بھی نہیں آ سکتی اور یہ احساس ان کے دلوں میں پایا جاتا ہے کہ آنحضرتﷺ کی ذات دنیا کے لئے ایک محسنِ اعظم کی حیثیت رکھتی ہے اسلام کے حسن اور آنحضرتﷺ کے احسان کے وہ شکار ہیں اور اس کے نتیجہ میں آج وہ اتنی قربانی دینے والے ہیں کہ (میں بعض مثالیں بیان کروں گا) اس کی وجہ سے تم میں سے بعض کو شرم آ جائے۔ اتنی دور بیٹھے ہوئے کہ مرکز میں آنا جانا ان کے لئے قریباً ناممکن ہے کبھی ساری عمر میں ایک دفعہ آ جائیں مرکز میں تو اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھیں لیکن اﷲ تعالیٰ نے آسمانوں سے فرشتوں کو نازل کرکے ان کے دلوں میں اس قدر اور کچھ اس قسم کی تبدیلی پیدا کر دی ہے کہ یہ لوگ صحابہ رضوان اﷲ علیہم کے نقش قدم پر چلنے والے ہمیں نظر آتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ان کے دلوں میں محبت کا بڑا مقام ہے اور ہونا بھی چاہئے کیونکہ آپ نبی اکرمﷺ کے فرزندِ جلیل کی حیثیت میں مبعوث ہوئے اس لئے ان کے دلوں میں محبت کا شدید جذبہ پایا جاتا ہے۔
میں ایک رات کھانے اور نمازوں سے فارغ ہونے کے بعد ہمبرگ کی مسجد میں بیٹھ گیا دو چار وہاں ہمارے پاکستانی احمدی تھے اور میرا خیال ہے کہ سات آٹھ وہاں کے جرمن احمدی مرد بیٹھے ہوئے تھے (جرمن احمدی بہنیں بھی تھیں لیکن وہ ہماری مستورات کے پاس بیٹھی تھیں) گویا مسجد میں قریباً دس بارہ کچھ پاکستانی اور زیادہ تر جرمن احمدی بیٹھے ہوئے تھے مجھے خیال آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم کی ایک آیت ۱۸۶۸ء میں الہام کی یعنی ’’اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ‘‘ (تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۲۰) اور اسی وقت آپؑ نے ایک انگوٹھی بنائی تھی جس میں پتھر کا نگینہ ہے اور جس پر یہی الہام کندہ ہے (اپنا ہاتھ اونچا کرکے حضورؒ نے فرمایا کہ یہ وہ انگوٹھی ہے) یہ بڑی برکت والی چیز ہے الہام بھی بڑا برکت والا ہے ہمارے پاکستانی احمدی تو اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والی انگوٹھیاں کثرت سے پہنتے ہیں مجھے خیال آیا کہ اس کی برکتوں کا میں ان کے سامنے بھی ذکر کروں تا کہ ان کے ایمانوں میں تازگی پیدا ہو۔ اس انگوٹھی کا نگینہ کچھ ہلتا ہے اس لئے میں اس کے اوپر کپڑا لپیٹے رکھتا ہوں تاکہ اس کی حفاظت رہے۔ میں نے قینچی منگوائی اس کپڑے کو اُتارا اور میں نے ان کو بتایا کہ اس پتھر پر یہ الہام کندہ ہے پھر تذکرہ منگوایا اور اس میں سے وہ الہام ان کو دکھایا کہ اس سن میں یہ الہام ہوا تھا اس سال یہ انگوٹھی بنائی گئی تھی جو بڑی برکت والی ہے ہم اس سے برکتیں حاصل کرتے ہیں تم بھی اس سے برکت حاصل کرو اور میں نے وہ انگوٹھی اُتاری ان کو کہا کہ ہر ایک اس کو بوسہ دے۔ اخیر انہوں نے جو پیار کیا وہ تو میرے کہنے سے کیا جو کپڑا کئی ماہ اس انگوٹھی پہ رہا تھا اور جو اس کی برکت سے بابرکت بن چکا تھا کپڑے کا وہ چھوٹا سا ٹکڑا میں نے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا۔ میرے سامنے پاکستانی احمدی بھی بیٹھے ہوئے تھے اور جرمن احمدی بھی بیٹھے ہوئے تھے میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ کوئی جرمن اس کپڑے کو بطور تبرک مجھ سے مانگے مجھے خطرہ تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی پاکستانی پہل کر جائے اور یہ لوگ اس سے محروم رہ جائیں۔ میرے دل میں یہ خواہش تو تھی لیکن میں اس کا اظہار نہیں کر سکتا تھا کیونکہ میں چاہتا تھا کہ کسی جرمن احمدی کے دل میں خود یہ جذبہ، شوق اور محبت پیدا ہو اور وہ اسے حاصل کرے۔ پہلا ہاتھ جو آگے بڑھا کہ میں لینا چاہتا ہوں وہ ایک جرمن احمدی کا تھا۔ میرا دل خوشی سے بھر گیا یہ دیکھ کر کہ محبت کامل دل میں موجزن ہے جس نے فوراً اس کے ہاتھ کو کہا ہے کہ آگے بڑھو۔ پھر ایک پاکستانی نے اسے کہا کہ اس کا آدھا مجھے دے دو اس نے کہا میں نے بالکل نہیں دینا اگر تم نے لینا ہی ہے تو ایک دھاگا نکلا ہوا تھا وہ اس نے نکالا اور کہا کہ یہ لے لو۔ (روزنامہ الفضل ۴؍ اکتوبر ۱۹۶۷ء صفحہ۴ تا۷)
الیس اللہ والی انگوٹھی خلافت میں چلنی چاہیے
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نےاپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۸؍اپریل ۱۹۷۷ء میں اس امر کا تذکرہ فرمایا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ ولسلام کی ’’اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ‘‘والی انگوٹھی کے بارے میں یہ فیصلہ فرمایا کہ اسے خاندانی ورثے میں نہیں چلنا چاہیے بلکہ خلافت میں چلنا چاہیے۔ آپؒ فرماتے ہیں: ’’آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں تو بڑی کثرت سے ہمیں نظر آتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی جانوں کی کوئی پرواہ نہیں کی، انہوں نے اپنے آراموں کی کوئی پرواہ نہیں کی، انہوں نے اپنے عزیزوں کی، اپنے رشتہ داروں کی اور دوستوں کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ صرف ایک ہی ہستی تھی جس پر وہ مرمٹے تھے اور ایک ہی نعرہ تھا جو ان کی زبان سے نکلتا تھا اور وہ تھا مولا بس۔ اﷲ مل جائے تو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہتی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک انگوٹھی کے اوپر بھی مولا بس کندہ ہے۔ آپ کی تین انگوٹھیاں تھیں جو بعد میں تین بیٹوں کو ورثے میں ملیں۔ ان میں سے ایک اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والی انگوٹھی ہے جو تین دفعہ قرعہ اندازی کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اﷲ عنہ کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے وراثت میں ملی تھی لیکن جب ان کو اﷲ تعالیٰ نے خلعت خلافت عطاکیا تو آپ نے سمجھا کہ یہ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والی انگوٹھی (جو اس وقت میں نے پہن رکھی ہے) خاندانی ورثے میں نہیں جانی چاہیئے بلکہ خلافت میں چلنی چاہیئے۔ چنانچہ یہ انگوٹھی خلافت ثالثہ کے قیام پر مجھے دی گئی۔
اب ضمناً یہ بات آگئی ہے تو میں سب کو سنا دیتا ہوں تاکہ اس کے بارہ میں اگلی نسلوں کے لئے آپ سب کی گواہی رہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اﷲ عنہ نے یہی انگوٹھی جو اس وقت میری انگلی میں ہے اور جس پر میں نے کپڑا چڑھایا ہوا ہے ہماری محترمہ آپا صدیقہ صاحبہ کو دی اور یہ کہا کہ میری وفات کے بعدجو بھی خلیفہ منتخب ہو یہ اس کی ہوگی اور اس کے بعد جو خلیفہ ہو اس کی ہوگی۔ جب تک یہ سلسلہ خلافت جماعت مومنین میں قائم رہے یہ انگوٹھی ایک خلافت سے دوسری خلافت کی طرف منتقل ہوگی۔ ایک بڑے بیٹے سے دوسرے بیٹے کی طرف منتقل نہیں ہوگی۔ چنانچہ انتخاب خلافت کے بعد اس وصیت کے ساتھ ہماری محترمہ آپا صدیقہ صاحبہ نے یہ انگوٹھی مجھے دی۔‘‘
پھر حضورؒ اسی خطبہ میں ’’اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ‘‘والی انگوٹھی کے نگینے کی بابت ایک روایت بیان فرماتے ہیں:’’ایک دفعہ حضرت مصلح موعود رضی اﷲ عنہ نے یہ انگوٹھی پہنی ہوئی تھی، آپ نے کسی کام کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو اس کا نگ ڈھیلا تھا وہ گرگیا۔ آپ نے جب دیکھا کہ نگ جس کے اوپر اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کندہ ہے گم ہوگیا ہے تو کچھ دیر کے لئے آپ کو بڑی پریشانی اٹھانی پڑی۔ سب کام چھوڑ کر اور چھڑوا کر گھر کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک ڈھونڈمارا مگر انگوٹھی کا نگینہ نہ ملا۔ بڑی پریشانی ہوئی اور گھنٹے دو گھنٹے کے بعد کسی کام کے لئے پھر جیب میں ہاتھ ڈالا تو جیب میں نگ پڑا ہوا تھا جس کو گھر میں تلاش کر رہے تھے۔ اس لئے میں نے یہ سمجھا کہ میں یہ خطرہ کیوں مول لوں، عاجز انسان ہوں اس کے اوپر کپڑا چڑھوائے رکھتا ہوں تاکہ نگ اپنی جگہ پر قائم رہے اور اس کے گرنے کا خطرہ نہ رہے۔ اگرچہ وہ اس وقت ہل نہیں رہا لیکن میں یہ خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۷؍جولائی ۱۹۷۷ء صفحہ ۲تا ۵)
دورِ خلافتِ رابعہ
الیسَ اللّٰہ بکافٍ عبدہ والی انگوٹھی کے بارے میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے دورِ خلافت کے دوسرے ہی دن یہ misplaced ہو گئی اور تلاش وغیرہ کے بعد مل گئی۔ حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبہ جمعہ ۱۹؍ جنوری ۲۰۱۸ء میں محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب کی وفات پر محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کی ایک روایت بیان فرماتے ہیں:’’مرزا غلام احمد صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی وفات کے بعد خلافت رابعہ کے انتخاب کے دوسرے دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو اَلَیْس اللّٰہ کی انگوٹھی تھی وہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے کہیں misplace ہو گئی اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کو بڑی فکر تھی۔ انہوں نے مکرم مرزا خورشید احمد صاحب کو بلایا اور فرمایا کہ یہ میرے وفادار ہیں اور ہر خلافت کے وفادار ہیں۔ اس لئے ان کو فرمایا کہ اس طرح یہ گم گئی ہے۔ تلاش کرو۔ اللہ کے فضل سے پھر وہ مل بھی گئی تھی۔‘‘ (خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۹؍ جنوری ۲۰۱۸ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۹؍ تا ۱۵؍ فروری ۲۰۱۸ء صفحہ ۶)
محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب کی وفات کے چند روز بعد محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب بھی بقضائے الٰہی وفات پا گئے۔ ان کا ذکرِ خیر کرتے ہوئے حضورِ انور نے اس روایت سے متعلق یہ تفصیل بیان فرمائی کہ مذکورہ انگوٹھی ڈھونڈنے میں محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کی خدمات بھی شامل تھیں۔ چنانچہ حضورپُرنور نے فرمایا:’’مرزا خورشید احمد صاحب کی وفات پر مَیں نے یہ ذکر کیا تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے کہا تھا کہ یہ جو دو شخص ہیں وہ میرے بڑے وفادار ہیں اور ہر خلافت کے وفادار ہیں۔ انہوں نے مجھے لکھا تھا لیکن مجھے زبانی بھی بتاچکے تھے۔ اس وقت کیونکہ ان کو جھجک تھی اس لئے اپنا نام نہیں لکھا تھا۔ اس لئے مَیں نے بھی جمعہ پہ نہیں بتایا۔ صرف مرزا خورشید احمد صاحب کا ہی بتایا۔ اصل میں مرزا غلام احمد صاحب اور مرزا خورشید احمد صاحب کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے فرمایا تھا کہ یہ ہر خلافت کے وفادار ہیں اور میرے وفادار ہیں۔ جب حضور کی انگوٹھی گمی تو اس کو تلاش کرنے کے لئے انہی کو بلایا اور یہ کہا کرتے تھے کہ پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے میرا نام لیا۔ احمد اور پھر خورشید یہ دونوں میرے وفاداروں میں سے ہیں اور ہر خلافت کے وفاداروں میں سے ہیں۔‘‘ (خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۹؍فروری ۲۰۱۸ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲؍ تا ۸؍مارچ ۲۰۱۸ء صفحہ ۷)
اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والی انگوٹھی پر چاندی کا خول چڑھایا جاتا ہے
پاکستان کے شہر شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے ایک مخلص دوست محترم غلام سرور طاہر صاحب جنہیں ۱۹۷۴ء کے نامساعد حالات میں احمدیت کو قبول کر کے خلافتِ احمدیہ کے سایۂ عاطفت میں آنے کی سعادت نصیب ہوئی تھی ۱۹۸۶ء میں برطانیہ آئے اور اپنے پیارے امام کی خدمت میں ملاقات کی غرض سے حاضر ہوئے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ امام الزماں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی متبرک اور نایاب الیس اللہ… والی انگوٹھی کی خدمت کی تاریخی اور عظیم الشان سعادت ان کی قسمت میں لکھی جا چکی ہے۔
محترم غلام سرور صاحب سے ایک مرتبہ اتفاقاً یادگار روڈ پر واقع ان کے بیٹے امیر احمد طاہر (مرحوم) کی دکان مالا گولڈ جیولرز پر ملاقات ہوئی۔ خاکسار ان دنوں اس کوشش میں تھا کہ حضورِ انور ایّدہ اللہ کے دستِ مبارک میں موجود حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دونوں انگوٹھیوں کے مشابہ انگوٹھیاں بنوا کر کسی طرح حضورِ انورایّدہ اللہ سے متبرک کرواؤں اور ان کی برکات سے خود بھی فیضیاب ہوں اور اپنے دونوں بھائیوں کو بھی یہ منفرد تبرک تحفۃً پیش کروں۔ تصاویر وغیرہ دیکھ کر انگوٹھیوں کا ایک مبہم سا خاکہ خاکسار کے ذہن میں قائم تھا چنانچہ امیر احمد طاہر صاحب کے پاس یہ خواہش لے کر حاضر ہوا تو انہوں نے اپنے کاریگر سے انگوٹھی بنوا کر دینے پر اظہارِ رضامندی کیا۔ لیکن دو کوششوں کے باوجود انگوٹھیوں کی بناوٹ درست نہ بن سکی۔ عین ممکن ہے خاکسار کے سمجھانے میں کوئی کسر رہ گئی ہو۔
بہر کیف ایک خوش قسمت شام امیر احمد صاحب نے خاکسار کو بلوایا کہ کاریگر آیا ہوا ہے، آکر اسے خود سمجھا دیں کہ آپ کس طرح کی انگوٹھی تیار کروانا چاہتے ہیں۔ مالا گولڈ جیولرز پہنچا تو وہاں محترم غلام سرور صاحب بھی تشریف رکھتے تھے۔ اوّلاً خاکسار نے ان کی وہاں موجودگی کو نوٹس نہیں کیا۔ اپنی دانست میں کاریگر کو کچھ سمجھانے کی کوشش کی۔ محترم غلام سرور صاحب کو جب اندازہ ہوا کہ اس فن سے لاعلم آدمی ایک کاریگر کو کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے تو انہوں نے خاکسار کو اپنے پاس بلا لیا اور پوچھا کہ خاکسار کیا چاہتا ہے۔ خاکسار کا مدعا سننے کے بعد کاریگر کو اپنے پاس بلایا اور اسے اپنی اصطلاحات میں کچھ سمجھانے لگےکہ انگوٹھی کے پیٹ کو ایسے کرنا ہے اور نگینے کی ٹکی کو ایسے بنانا ہے وغیرہ وغیرہ۔ بہرحال اس مرتبہ انگوٹھیاں بالکل ٹھیک بنیں بلکہ ان انگوٹھیوں کے نگینے پر تحریر محترم غلام سرور صاحب نے خود کندہ کی۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین
جب محترم غلام سرور صاحب کاریگر کو ہدایات دے چکے تو خاکسار کو کہنے لگے کہ مجھے حضور کی الیس اللہ… والی انگوٹھی اپنے ہاتھ میں پکڑنے کی سعادت ملی ہوئی ہے۔ جو شکل اس کی تازہ تصاویر میں نظر آتی ہے اصل میں وہ ویسی نہیں ہے۔ اس وقت اس انگوٹھی پر ایک خول سا چڑھا ہوا ہے اور نگینے پر جو چار سپورٹوں کا شکنجہ سا بنا ہوا ہےاصل میں ایسے نہیں تھا۔ پھر کہنے لگے کہ اس انگوٹھی پر خول چڑھانے کی یہ عظیم سعادت خاکسار کو نصیب ہوئی۔ 1986ء میں جب میں لندن گیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں ملاقات کی غرض سے حاضر ہوا تو حضورِ انور نے خاکسار کے ذمے ایک کام فرمایا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی الیس اللہ… والی انگوٹھی کے متعلق ’’حضورانورؒ نے فرمایا کہ نگینہ کئی بار گرا ہے اور دعاؤں سے ملا ہے۔‘‘ چنانچہ خاکسار کو اس نگینے کو پکڑنے کے لیے سپورٹ وغیرہ بنانے کی ہدایات دیں۔ نیز یہ بھی ذکر ہوا کہ اس انگوٹھی کا ناپ حضور کو کھلا ہے۔ اس کا سائز تنگ کرنے کے بارے میں بھی ارشاد فرمایا۔ پھر اس کام کے لیے مجھے ایک غیراز جماعت جیولر کی ورکشاپ پر جانے کی ہدایت دی جو حضور کے معتقدین میں شامل تھے اور غالباً ان کی ورکشاپ پٹنی کے علاقے میں کہیں واقع تھی۔ غلام سرور صاحب کچھ دیر ٹھہرے اور کہنے لگے۔ مربی صاحب! یہ بڑی ہی ایمان افروز بات ہے کہ حضور مجھے سمجھا رہے تھے کہ کیا کیا کرنا ہے اور میرے ذہن میں نقشہ ابھر رہا تھا کہ میں نے کس طرح اس کام کو سرانجام دینا ہے۔ ملاقات ختم ہوئی اور میں اٹھ کر دروازے تک پہنچا تو اچانک حضور نے فرمایا کہ انگوٹھی کو توڑنا نہیں ہے۔ اس کے اوپر ہی کرنا ہے جو بھی کرنا ہے۔ غلام سرور صاحب کہنے لگے کہ میں حضور کی بات سن کر حیران رہ گیا کیونکہ میرے ذہن میں بالکل وہی پلان تھا جس سے حضور مجھے منع فرما رہے تھے۔ میرا خیال تھا کہ میں اس بات کی احتیاط رکھتے ہوئے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی انگوٹھی کی چاندی میں کوئی اور چاندی مکس نہ ہو اسے ڈھال کر دوبارہ حضور کے سائز کی انگوٹھی تیار کر دوں گا۔ لیکن اللہ کا خاص فضل ہوا اور حضور نے کمال دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے میری راہنمائی فرما دی اور میں ایک بہت بڑی غلطی کرنے سے بچ گیا۔
حفاظتِ خاص پر مامور محترم ملک اشفاق احمد صاحب (آف دوالمیال) کی ڈیوٹی خاکسار کو مذکورہ جیولر کی ورکشاپ پر لے جانے اور اس کام میں معاونت کرنے کے لیے لگائی گئی۔ خاکسار نے ورکشاپ جا کر اس عظیم الشان خدمت کو سرانجام دینے کی توفیق پائی اور ’’بغیر مندری توڑےپھر پترا چڑھایا۔ اندر اور نگینہ پر 4 سپورٹس لگائیں‘‘۔ یعنی انگوٹھی کو توڑے بغیر ایک پترا گولائی میں، خول کی مانند اس کے اندر لگایا جس سے انگوٹھی کا ناپ تنگ ہو گیا اور اسی پترے کو نگینے کے پاس بڑھا کر اس کی 4 سپورٹیں بنائیں اور اس کے چار کونوں کو نگینوں کی طرف موڑ کر ان سے نگینے کا شکنجہ بنادیا۔
محترم غلام سرور طاہر صاحب بعارضہ کینسر ۱۴؍ مئی ۲۰۱۴ء کو اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ۱۹؍ مئی کو ۱۲؍ بجے دوپہر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مرحوم کی نمازِ جنازہ پڑھانے کے بعد ان کا چہرہ دیکھا اور برکت کی خاطر ان کے ماتھے پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی انگوٹھیوں کو مس فرمایا و ایں سعادت بزورِ بازو نیست۔
(ضروری نوٹ: اس روایت کی تصدیق خاکسار نے محترم غلام سرور صاحب مرحوم کے بیٹے محترم فرحت علی صاحب مربی سلسلہ سے کی ہے جنہوں نے تصدیق کرنے کے ساتھ ساتھ انگوٹھی مرمت کرتے ہوئے محترم غلام سرور صاحب اور محترم ملک اشفاق احمد صاحب کی تصویر نیز اس تصویر کی پشت پر محترم غلام سرور صاحب کے ہاتھ سے لکھے نوٹ کا عکس بھجوایا۔ فجزاہم اللہ احسن الجزاء)
ملک اشفاق صاحب سے تصدیق
خاکسار نے اس روایت کی تصدیق مزید کرنے کی غرض سے محترم ملک اشفاق صاحب سے رابطہ کیا جنہوں نے اس امر کی تصدیق کی کہ انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ انگوٹھی کی مرمت کرنے کے لیے کسی کے ساتھ جانے کی ڈیوٹی کی سعادت انہوں نے سرانجام دی تھی۔ باقی تفصیلات بشرطِ یاددہانی لکھ کر بھجوانے کا وعدہ کیا۔
الیس اللہ والی انگوٹھی کا ناپ چھوٹا کیا جانا
خاکسار اس روایت کی تصدیق کی غرض سے محترم منیر احمد جاوید صاحب پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفۃ المسیح الخامس کی خدمت میں حاضر ہوا او ران سے روایت بیان کر کے اس کی تصدیق چاہی۔ انہوں نے خاکسار کو بتایا کہ محترم غلام سرور صاحب والے واقعہ کا انہیں علم نہیں البتہ انہیں الیس اللہ… والی انگوٹھی پر ایک مرتبہ دورِ خلافتِ رابعہ میں اور ایک مرتبہ دورِ خلافتِ خامسہ کے بالکل آغاز میں کام کا ہونا یاد ہے۔ دونوں مرتبہ والسال (Walsall)کے دو بھائیوں صغیر احمد صاحب اور وحید احمد صاحب (پروپرائیٹرز دلہن جیولرز)کو یہ کام کرنے کی سعادت ملی ہے جن کا تعلق رحیم یار خان سے ہے اور ان کے ایک بھائی دورِ خلافتِ رابعہ میں شہید بھی ہوئے تھے۔ محترم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے یہ بھی بتایا کہ یہ انگوٹھی حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی انگلی میں کچھ کھلی تھی اس لیے حضور اس کے نچلی جانب تاگہ بھی لگاتے رہے ہیں۔
ضمناً یہ بھی عرض کر دی جائے کہ محترم منیر جاوید صاحب نے یہ بھی بتایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ بعض مواقع پر مثلاً سفر وغیرہ کے دوران الیس اللہ… والی انگوٹھی بعض احباب کو پکڑا بھی دیا کرتے تھے۔ ایک دو مرتبہ خاکسار کو بھی اسے اپنے پاس رکھنے کا شرف حاصل ہوا تھا۔
خاکسار کے وحید احمد صاحب سے رابطہ کرنے پر انہوں نے بتایا کہ سنہ 90ء کی دہائی کے آخری چند سالوں کے دوران انہیں اور ان کے بھائی کو الیس اللہ… والی انگوٹھی کو مرمت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس انگوٹھی کا سائز حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کو کچھ بڑا تھا۔ چنانچہ اس کی گولائی کے اندر نیچے کی جانب چاندی کا ایک ٹکڑا (بقول پرائیویٹ سیکرٹری صاحب ’’کلِپ نما ٹکڑا‘‘)ایسے لگایا گیا کہ اس انگوٹھی کا ناپ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کو پورا ہو گیا۔ یہ کام احاطہ مسجد فضل میں موجود دفتر پرائیویٹ سیکرٹری سے ملحقہ کمرے کے ایک حصے میں کیا گیا جہاں بعد میں دفاتر بن گئے۔ یہ کام کرنے کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تشریف لائے اور ازراہِ شفقت دونوں خدام کو تصاویر کھنچوانے کا موقع بھی عطا فرمایا، نیز کام مکمل ہونے پر دونوں کو بیش از بیش تحائف سے نوازا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے خواتین کے ساتھ ہونے والی ایک سوال و جواب کی مجلس میں الیس اللہ… والی انگوٹھی پرچاندی لگوانے کا ذکر فرمایا۔(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ کی لجنہ سے ملاقات منعقدہ ۷ نومبر ۱۹۹۹ء شائع شدہ روزنامہ الفضل ربوہ یکم جولائی ۲۰۰۰ء صفحہ ۳)
دورِ خلافتِ خامسہ میں انگوٹھی پر ہونے والا کام
محترم وحید احمد صاحب نے مزید بتایا کہ دورِ خلافتِ خامسہ کے بالکل آغاز میں ہم دونوں بھائیوں کو ایک مرتبہ پھر اس بابرکت انگوٹھی کی خدمت کی توفیق ملی۔ اس مرتبہ چاندی کے اس ٹکڑے کو جو انگوٹھی کی گولائی کو تنگ کرنے کے لیے لگایا گیا تھا اتارنے کا کہا گیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کہ وہ ٹکڑا اتارنے پر انگوٹھی حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی انگلی میں بالکل پوری آ گئی۔ غالباً وہ ٹکڑا ابھی بھی حضورپُرنور کے پاس محفوظ ہے۔
محترم وحید احمد صاحب نے اپنے بھائی محترم صغیر احمد صاحب کے ساتھ مل کر اس تحریر میں اپنے متعلقہ حصے کو پڑھا نیز بذریعہ ٹیلی فون اس میں چند ایک ضروری اصلاحات کروائیں۔ فجزاہم اللہ احسن الجزاء
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی انگوٹھیاں آج کہاں موجود ہیں؟
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ سوئٹزرلینڈ کی نیشنل مجلس عاملہ کی مورخہ ۷؍نومبر ۲۰۲۰ء کو ہونے والی Virtualملاقات میں ایک ممبر عاملہ نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تین انگوٹھیاں بنوائی تھیں، دو انگوٹھیاں ہم نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے دست مبارک میں دیکھی ہیں، تیسری انگوٹھی کس کے پاس ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کا جواب عطا فرماتے ہوئے فرمایا:
أَلَيْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَہٗ والی انگوٹھی حضرت اماں جانؓ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو دےدی تھی اور دوسری انگوٹھی جس پر غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَقُدْرَتِیْ کا الہام درج تھا،حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو دےدی تھی اور ’’مولیٰ بس‘‘ والی انگوٹھی حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کو دےدی تھی۔ أَلَيْسَ اللّٰهُ والی انگوٹھی جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکو دی تھی، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے وصیت کی تھی کہ میرے بعد یہ انگوٹھی جو بھی خلیفہ بنے گا، اس کو ملے گی اوربجائے ذاتی ہونے کے خلافت کو منتقل ہو جائے گی۔ لیکن جو دوسری دو انگوٹھیاں تھیں وہ دونوں بھائیوں نے اپنے پاس رکھی رکھیں۔ حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی انگوٹھی جو تھی ان کی وفات کے بعد میرے والد صاحب کے پاس آئی۔ اس کے بعد میری والدہ نےان کی وفات کے بعدمجھے دےدی۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے جب خلافت کا منصب دیا تو میں نے وہ انگوٹھی پہننی بھی شروع کر دی۔ تیسری انگوٹھی جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے پاس تھی، وہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی وفات کے بعد حضرت مرزا مظفر احمد صاحب کو منتقل ہو گئی تھی۔ حضرت مرزا مظفر احمد صاحب کےکوئی اولاد نہیں تھی تو انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی بیٹی امۃ الجمیل صاحبہ اور محترم ناصر احمد سیال صاحب ابن حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب ؓکے بیٹے کو لے پالک بنایا تھا،اور وہ ان کے ساتھ رہا، ان کے گھر میں پلا بڑھا،تواس کے بعد انہوں نے وہ انگوٹھی اس کو دےدی وہ آجکل امریکہ میں رہتا ہے۔‘‘ (بنیادی مسائل کے جوابات (نمبر۶) مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۵؍ جنوری ۲۰۲۱ء صفحہ ۱۲)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہر تبرک کی برکت سے جماعت احمدیہ بلکہ عالمِ اسلام کا ہر فرد فیضیاب ہو۔ آمین
ماشاءاللہ بہت زبردست۔ بہت پیاری اور نایاب روایات ہیں۔ بہت معلوماتی۔ اللّٰہ تعالٰی آپکو جزاء خیر عطا فرمائے ۔ آمین