خلاصہ تقریر: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علمی معجزات (اردو)
جلسہ سالانہ یوکے کے تیسرے دن کے صبح کے اجلاس کی تیسری تقریر محترم عطاء المجیب راشد صاحب امام مسجد فضل لندن کی تھی۔ آپ کی تقریر کا موضوع تھا ’’ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علمی معجزات ‘‘
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس دورِ آخرین میں احیائے اسلام اور غلبۂ اسلام کے لیے رسول اللہ ﷺ کے غلامِ صادق حضرت مسیح موعودؑ کو مبعوث فرمایا۔ اور آپ کو اپنی جناب سے ایسا پُر معرفت علم و عرفان عطا فرمایاجس نے باطل عقائد کی دھجیاں بکھیر دیں اور اپنے باطل شکن علمِ کلام کے ذریعہ اسلام کو نہ صرف ایک نئی زندگی دی بلکہ ادیان باطلہ پر غلبہ اور برتری بھی عطا فرمائی۔ آپؑ کی زبان اور قلم کو ایسی معجزانہ عظمت عطا فرمائی اور ایسی پُر شوکت تجلیات سے نوازا جن کے سامنے سب مخالف دم بخود رہ گئے ۔ آپ کی پُر تاثیر تحریرات کا قلزم ِبے کراں روحانی خزائن کی صورت میں ظاہر ہوا۔ آپ کے پُر زور اعجازی علم کلام کی برتری کا اعتراف غیروں نے بھی کیا اور آپ کو اسلام کا فتح نصیب جرنیل قرار دیا۔قدم قدم پر عظیم علمی معجزات اور نشانات آپ کی عظمت اور صداقت کے نشان بن کر مسلسل ظاہر ہوتے رہے۔
معجزہ کے لفظ کے بارہ میں بتایا کہ معجزہ کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی کام انسانی طاقت سے باہر ہو اور خدا تعالیٰ کی غیر معمولی تائید و نصرت سے ظہور پذیر ہو اور دنیا کے لوگ اس کا مقابلہ کرنے اور اس کی نظیر لانے سے بالکل عاجز اور قاصر رہ جائیں ۔
امام صاحب نے قرآن مجید کے حقائق و معارف بیان کرنے کے بارہ میں بتایا کہ قرآن مجید علم و حکمت سے بھر پور خدائے واحد کا کلام ہے۔ حکمت اور دانائی کی ہر بات اور نیکی کی ہر راہ کا ذکر اس میں ہے لیکن بہت سے ایسے امور ہیں جو دنیا کے لیے معمہ بنے ہوئے تھے ۔ اسلام اور دیگر مذاہب کے علماء بھی ان کی اصل حقیقت سمجھنے سے قاصر تھے۔ خدائے علیم و خبیر نے ان مشکل امور کی حقیقت قرآن مبین میں بیان فرمائی ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بن باپ پیدائش، صلیبی موت سے نجات اور طبعی وفات ، عصمتِ ابنیاء ، بعث بعد الموت ، فرشتوں کا وجود ، وحی و الہام کی حقیقت، طوفانِ نوح ، فرعون کی غرقابی ، معجزہ شق القمر ، جنت دوزخ کا تصور، واقعہ معراج و اسراء ، انسانی روح ، گورو بابا نانک کا مسلمان ہونا ، دعا کی حقیقت ، عربی زبان کا ام الالسنہ ہونا اور اس نوعیت کے بے شمار دینی مسائل کی حقیقت کا علم اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح پاک علیہ السلام کو عطا فرمایا اور آپؑ نے قرآنی دلائل سے ان سب مسائل کو جس طرح کھول کھول کر بیان فرمایاوہ ایک لاثانی اعجاز ہے ۔
تصنیفی معجزات کے بارہ میں بتایا کہ حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے ساری زندگی قلمی جہاد کیا ۔ آپ کی پہلی تصنیف براہین احمدیہ ۱۸۸۰ء میں منظر عام پر آئی۔ جس نے مذہبی دنیا میں ایک تہلکا مچا دیا ۔ اس کے بعد آپ نے ۱۹۰۸ء میں اپنی رحلت تک جو گرانقدر کتب تحریر فرمائیں ان کی تعداد ۸۰ سے زائدہے۔ یہ کتب اردو، عربی اور فارسی زبانوں میں ہیں۔ آپ کے ملفوظات کی دس جلدیں ہیں۔ اس کے علاوہ مجموعۂ اشتہارات کی تین اور مکتوبات احمدکی چارجلد یں ہیں ۔ یہ سارا علمی خزانہ مجموعی طور پر قریباً بیس ہزار (۲۰,۰۰۰) صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ سب کتب روحانی خزائن کے نام سے معروف ہیں۔ دفاعِ اسلام کے اس مقدس جہاد کا آغاز حضرت مسیح پاک ؑ کی شہرۂ آفاق کتاب براہین ِ احمدیہ سے ہوا ۔ اس کتاب کا شائع ہونا تھا کہ مسلمانوں کے حوصلے بڑھ گئے اور خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
تفسیر نویسی میں اعجازی نشان کے بارہ میں بتایا کہ خلاصۃً اس طرح پر ہے کہ ابتدائی طور پر حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے اپنے دعویٰ کے بعد سب علماء کو عمو ماً اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کو خصوصاً عربی زبان میں تفسیر نویسی کے مقابلہ کی دعوت دی ۔ لیکن گولڑوی صاحب مقابلہ کے لیے تیار نہ ہوئے۔ اس پر حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے اتمامِ حجت کے طور پر سورۃ الفاتحہ کی تفسیر ۷۰ دنوں میں لکھ کر شائع کرنے کے لیےان کو بلایا۔ کمزور صحت کے باوجود وقت مقررہ یعنی ۷۰ دن کے اندر اندر فصیح و بلیغ عربی زبان میں ایک جامع تفسیر اپنی طرف سے شائع کر دی ۔ اس چیلنج پر ۱۲۲ سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن آج تک دنیا کا کوئی عالم اعجاز المسیح کے مقابلہ پر سورت فاتحہ کی تفسیر شائع نہیں کر سکا اور نہ کر سکے گا !
پھر خطبہ الہامیہ کے علمی معجزہ کےبارہ میں بتایا کہ حضرت مسیح پاکؑ کے علمی معجزات میں سے ایک اور انتہائی ایمان افروز مثال خطبہ الہامیہ کی ہے۔ حضرت مسیح پاک علیہ السلام ایک ایسے ملک میں رہتے تھے جس میں عربی زبان عوام کی زبان نہ تھی۔ اور خود مسیح موعودؑ نے نہ کبھی با قاعدہ طور پر کسی مدرسہ یا سکول یا اور کسی ادارہ میں عربی کی تعلیم حاصل کی تھی اور مزید یہ کہ آپ نہ کبھی کسی عربی ملک میں گئے اور نہ اس سے قبل آپ نے کبھی عربی میں تقریر کی تھی۔ اچانک حکم الٰہی کی اتباع میں آپ نے یہ خطبۂ عید ارتجالاً زبانی ارشاد فرمایا ۔ کوئی تحریر آپ کے ہاتھ میں نہ تھی۔ بے شک یہ خدائے قادر کا ایک ایسا بے نظیر اعجازی اور امتیازی نشان ہے جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی!
اسلامی اصول کی فلاسفی کے علمی معجزہ کےبارہ میں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے سے آپ کو بشارت دے دی تھی کہ ’’ مضمون بالا رہا ‘‘۔ ۱۸۹۶ء میں لاہور میں ایک عظیم الشان جلسہ اعظم مذاہب منعقد کیا گیا۔ اس میں حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے مقرر کردہ پانچوں اہم سوالات کے جوابات خدا داد بصیرت سے ایسی عمدگی سے بیان فرمائے کہ سامعین اس محویت سے سن رہے تھے کہ جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ اخبارات نے برملا لکھا کہ یہ مضمون بالا رہا ۔
تراجم کا امتیازی نشان کے بارہ میں بتایا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے علمی معجزات کے ضمن میں ایک غیر معمولی اور منفرد امتیازی بات یہ ہے کہ آپ کی کتب کے دنیا کی مختلف زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں اور بڑی کثرت سے پھیل رہے ہیں ۔ آپ کی جملہ کتب اور ملفوظات کے مکمل تراجم عربی اور جرمن زبانوں میں ہو چکے ہیں ۔ علاوہ ازیں متعدد کتب کے تراجم معروف زبانوں میں بھی ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔
اختلافی مسائل کے معجزانہ فیصلہ جات کے بارہ میں بتایا کہ حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کے وقت مسلمانانِ عالم بہت سے اختلافی مسائل میں الجھے ہوئے تھے ۔ ختم نبوت کی حقیقت اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات و ممات کے مسائل مسلمان کہلانے والوں میں باعثِ نزاع بنے ہوئے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ہر دو مسائل پر قرآن و حدیث سے معجزانہ دلائل پیش کیے کہ مذہبی دنیا میں ایک معجزانہ انقلاب بر پا ہوگیا ۔ اس بارہ میں آپ کے علمِ کلام پر مبنی ایک کتاب ’’القول المبین‘‘ ہے جو پاکستان اسمبلی میں سوال و جواب کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے محضر نامہ کے ساتھ پیش کی تھی۔ وفاتِ مسیح ؑکے سلسلہ میں ازالہ اوہام میں اللہ تعالیٰ کی راہنمائی سے تیس قرآنی آیات پیش فرمائیں ۔
امام صاحب نے کہا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے الہاماً مسیح موعود علیہ السلام کو سلطان القلم کے خطاب سے نوازا۔ مسیح پاک علیہ السلام نے اپنی زندگی میں جو علمی ورثہ یادگار چھوڑا وہ سارے کا سارا اس الہام کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ آپ شاعر نہ تھے لیکن آپ نے عربی ، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں ہستی باری تعالیٰ ، سیرت النبی ﷺ اور دیگر تبلیغی موضوعات پر لا جواب انداز میں تبلیغ کا حق ادا کیا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارہ میں آپ کا عارفانہ کلام، رسول مقبول ﷺ کی شان ِ اقدس میں آپ کا نعتیہ کلام اپنوں اور غیروں کے دلوں کو مسخر کرتا چلا جا تا ہے۔
حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی عظیم الشان علمی تصانیف کو غیر احمدی اور غیر مسلم لوگوں نے بھی بہت سراہا اور اس معجزانہ جہاد کو دل کھول کر خراجِ تحسین پیش کیا ہے ۔
عربی زبان کا مقولہ ہے کہ الفضل ما شھدت بہ الاعداء کہ خوبی اور فضیلت وہ ہے جس کا دشمن بھی اعتراف کرے ۔
امام صاحب نے حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے قلمی جہاد کے بارہ میں غیروں کے اعترافات میں ابوالکلام آزاداورمرزا حیرت دہلوی کےتبصرہ پیش کیے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ عربی زبان پر پورا احاطہ کرنا معجزات انبیاء علیہم السلام میں سے ہے۔ جب آپ نے اعجاز المسیح کتاب لکھی اور اس کا جواب لکھنے کے لیے عرب علماء کو بھی دعوت دی تو کوئی ایک عالم بھی میدان ِ مقابلہ میں نہ آیا ۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وفاتِ مسیح کا ثبوت قرآن و حدیث سے پیش کیا تو عرب دنیا کے عالمی شہرت کے علماء مثلاً شیخ محمد عبد ہ ، رشید رضا، علامہ محمود شلتوت، علامہ عدنان ابراہیم اور بہت سے علماء نے وفاتِ مسیح کی کھل کر تائید کی اور ایسے علماء کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے، اسی طرح جب آپؑ نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر عربی زبان کے ام الالسنہ ہونے کا نظریہ پیش فرمایا تو عربی زبان کے عالمگیر شہرت رکھنے والے علماء نے اس نظریہ کی تائید کی۔ مصر کے فلاسفر اور مصنف : ڈاکٹر مصطفیٰ محمود، لبنانی مصنف اور شاعر: رفیق المعلوف، عرب ڈاکٹر: سعید شربینی، سیرین شامی عالم : ڈاکٹر عبد المجید الحمیدی الویس اور مراکشی عالم : عبد اللہ بو فیم۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن و احادیث سے استنباط کے نتیجہ میں اپنی کتب میں جو انکشافات بیان فرمائے ہیں، جدید تحقیقات کی روشنی میں آج دنیا کے علمی اور تحقیقاتی حلقوں میں ان کی مقبولیت بڑھتی جا رہی ہے ۔ چنانچہ حضورؑ نے صلیبی موت اور سرینگر میں وفات پانا ثابت کیا۔
حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے مقدس الفاظ آج بھی اکنافِ عالم میں گونج رہے ہیں۔ آپؑ کس تحدی اور جلال سے فرماتے ہیں:’’اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا ۔ یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا۔‘‘