اخبار الفضل تاریخ کا امین، مستقبل کا حوالہ
جنگِ عظیم اوّل تو جدید عالمی تاریخ کا ایک اہم سنگِ میل ہے ہی، مگر اس کے فوری بعد پیدا ہونے والے حالات اس سے بھی زیادہ تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔اس دور کے دیگر بہت سے پہلووں میں سے ایک اہم پہلو اقوامِ عالم میں قومیت کے شعور کی بیداری ہے۔ یہی زمانہ تھا جب اقوام میں نوآبادیاتی طاقتوں اور بادشاہتوں سے بیزاری اور تحریکاتِ آزادی کا سلسلہ شروع ہوا اور دنیا کے نقشے پر قومی ریاستیں یا نیشن سٹیٹس کا ظہور عمل میں آیا۔
اکثر خطوں کے پاس قومیت کے شعور کی بیداری کی بنیادیں لسانیات سے اٹھائی گئیں مثلاً فرانس میں فرانسیسی قوم، جرمنی میں جرمن قوم اور سپین میں ہسپانوی قوم کو یکجا کرنے والا سب سے مضبوط ذریعہ ان کی زبان ٹھہری۔ مگر دنیا کے سب سے بڑے نوآبادیاتی خطے ہندوستان میں انگریز راج سے بیزاری کی لہر تو پیدا ہوئی مگر مقامی آبادی کو قومی تشخص کے حوالے سے کوئی مضبوط بنیاد میسر نہ آسکی۔ اس قدر وسیع و عریض خطہ زمین، کہ جسے بجا طور پر برصغیر کہا جاتا تھا، میں سینکڑوں اقوام آباد تھیں جو سینکڑوں ہی زبانیں بولتی تھیں اور درجنوں ثقافتوں کے رنگ میں رنگین تھیں۔
مذاہب بھی درجنوں تھے اور سبھی مذاہب میں فرقہ واریت نے مزید تقسیم پیدا کررکھی تھی۔ ایسے میں جس قوم کو بالادستی حاصل تھی وہ ہندو قوم تھی جو مذہبی بنیاد پر ایک اکثریتی قوم تھی۔ اور ہندومت کے عقائد میں بھارت ماتا کو ممتاز مقام حاصل ہونے اور قدیم ہندو تہذیب کی جنم بھومی ہونے کے باعث ہندو قوم اس خطہ زمین پر اپنا پیدائشی حق سمجھتی اوراسے منوانے کے لیے کوشاں تھی۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد جونہی انگریز کی گرفت اپنی نوآبادیات پر ڈھیلی پڑنا شروع ہوئی، ہندوستان میں بھی سواراج یعنی خود مختاری کی جذبات متحرک ہوئے اور ہندو، ہندوستان کے مالک و مختار بن کر سواراجی تحریکات میں سرگرمِ عمل ہوگئے۔ ایسے میں دیگر اقوام کو اپنا تشخص قائم کرنے کے لیے جو عوامل میسر آسکے، ان میں مذہب کو کلیدی حیثیت حاصل ہوگئی۔
مسلمانانِ ہندوستان اکثریت میں تو نہ تھے مگر ایک بہت بڑی اقلیت تھے اور صدیوں سے ہندوستان میں آباد رہنے اور اس پر حکمرانی کرنےکے باعث اسے اپنا وطن خیال کرتے تھے۔ مگر انگریز حکومت بھی ہندو اکثریت کی طاقت کو فیصلہ کُن حیثیت دے چکے تھے اور یہ جھکاؤ کانگریسی سیاست (آل انڈیا نیشنل کانگریس) اور کانگریس نوازحکومتی پالیسیوں میں صاف جھلکتا تھا۔
ایسے میں مسلمانانِ ہند کے لیے اپنا قومی تشخص اجاگر کرنا اور اسے منوانا ایک محال تر امر بن گیا اورکئی جہتوں پر اس کام کے لیے کوششوں نے زور پکڑ لیا۔ ایسے میں صحافت نےایک اہم کردار ادا کیا اور مسلمان عوام تک، جن کی اکثریت ناخواندہ تھی، اس قومی تشخص کی آواز پہنچنا شروع ہوئی جو کسی بھی طرح کے تشخص اور شعور سے بے بہرہ تھے۔
برطانوی ہندوستان میں مسلم یا مسلم رحجانات رکھنے والے اخبارات پہلی جنگِ عظیم سے پہلے بھی موجود تھے مگر ان میں وہ نیشنلسٹ رنگ نمایاں نہ تھا جو جنگ کے بعد ابھر کر سامنے آنے لگا۔ مثلاً ’’جامِ جہاں نما‘‘ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانے سے قائم تھا اور ہمیشہ انگریز نواز رہا تھا، مگر اس اخبار نے بھی نیشنلسٹ رویہ اپنا لیا اور قوم پرستی کی پرچار اس رنگ میں شروع کی کہ گویا مسلمانوں کو بغاوت پر اکساتا نظر آیا۔
’’دہلی اردو اخبار ‘‘بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانے میں قائم ہوا مگر پھر ۱۸۵۷ءکے غدر میں اپنا نام اخبار الظفر رکھ کر گویا بہادر شاہ ظفر کی حمایت میں لکھنے لگا۔ یعنی مسلمانوں میں قومی تشخص کو اجاگر کرنے کے لیے سلطنتِ مغلیہ کی حمایت کا سہارا لیا، جو خود سہاروں کی محتاج اور تاراجی کے دہانے پرکھڑی تھی۔
ایسے اخبارات نے مسلمانوں میں قومی تشخص اجاگر کرنے کے نام پر بد امنی اوربغاوت کے بیج بوئے جو اس امر کا صاف آئینہ دار ہے کہ برطانوی ہندوستان میں مسلم صحافت انگریز مخالف تو ضرور تھی، مگرمسلمانوں کی ہمدرد نہ تھی۔ ایک ایسی قوم جو نہ تعلیم یافتہ تھی، نہ سرکاری عملداری میں کہیں نمایاں مقام پر تھی، نہ متحد تھی، ایسی قوم میں بد امنی اور بغاوت کے بیج بونا ایک ناعاقبت اندیش اور مہلک روش تھی۔ مگر یہی روش ہندوستان میں مسلم صحافت کی بنیاد ٹھہری اور جنگ عظیم کے بعد یہی روش گویا حکمتِ عملی کی شکل اختیار کرگئی۔
اس صورتحال میں الفضل پنجاب کی صحافت کے افق پر طلوع ہوا۔ اس کا اجرا اگرچہ جنگِ عظیم اوّل سے ایک سال پہلے عمل میں آیا، مگر جنگ کے دوران اور ما بعد حالات میں اسے نمایاں کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔
قادیان سے جاری ہونے اخبار الفضل کی بنیادیں دینی تھیں جنہیں اس کے ملی رحجانات کو سمجھنے کے عمل میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ نے ۱۸۸۹ء میں جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی جو کہ خالصتاً مذہبی جماعت تھی اور سیاسی مقاصد سے بالاتر تھی۔ آپؑ کے وصال کے بعد آپؑ کی جماعت کا ایک حلقہ اس سیاسی ماحول کا اثر لیے بغیر نہ رہ سکا جس کا اجمالاً اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ حقِ خودارادی، خودمختاری، جمہوری عمل اور ایسے بہت سے تصورات کی غلط اورمنفی تشہیر نے ہندوستان بھر کے مسلمانوں کو اپنی لپیٹ میں لیا اور حضرت مرزا صاحبؑ کی جماعت کی ایک قلیل تعداد بھی اس کے اثر سے محفوظ نہ رہی۔
جیسا کہ ہر نبی اور مذہبی پیشوا کے بعد ہوتا آیا ہے، یہ خلا اپنے ساتھ عقائد کی تشریح اور تفہیم کے مسائل لے کر آیا اور سب سے پہلا مسئلہ جانشینی کا ٹھہرا۔ جماعتِ احمدیہ کی اکثریت حضرت مرزا صاحبؑ کی تصنیف ’’الوصیت‘‘میں مذکور ’’قدرتِ ثانیہ‘‘سے مراد خلافت لیتی رہی، جب کہ ایک قلیل تعداد نے اس سے مراد جمہوری طرز پر انجمنِ معتمدین کو سمجھا جو کہ ایک انتظامی انجمن تھی۔ اس انجمن کی سربراہی خلیفہ کے ہاتھ میں دینے کی بجائے اس انجمن پرست اقلیت نے مغربی جمہوری طرز پر قائم کرنا چاہی اور اس اختلاف کی بنا پر الگ بھی ہوگئے۔ جو ان سے متفق نہ تھے، انہوں نے خلافت کو ترجیح دی اور خلافتِ راشدہ کی طرز پر اس جماعت کی سربراہی، انجمن سمیت، خلیفہ کے سپرد کرنے کے حق میں رائے دی۔
جماعتِ احمدیہ میں یہ دومکاتبِ فکر خلیفۂ اوّل حضرت حکیم مولوی نورالدینؓ کے زمانے میں تشکیل پارہے تھے۔ حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ کا خلافت کا منصب قبول کرلینا ہی ان کے رحجان کو ظاہر کرنے کو کافی تھی، مگر اس کے باوجود آپؓ نے بڑی تصریح کےساتھ خلافت ہی کو جماعت احمدیہ کی سربراہی کا واحد راستہ قرار دیا۔
آپؓ کی زندگی کے آخری سالوں میں اختلافِ رائے کی یہ خطوط زیادہ گہری ہونے لگیں، اور ۱۹۱۳ء میں آپؓ کی سرپرستی میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ نے اخبار الفضل کا اجرأ فرمایا۔یہ اخبار خلافتِ احمدیہ کی حمایت کا علم لے کر اٹھا اور باغیانہ خیالات جو بے جا طور پر ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے تھے، کے خلاف آواز بن گیا۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ الفضل کی بنیاد باغیانہ روش کے خلاف اٹھائی گئی اور ابتداً جس تدبیر کو جماعت احمدیہ کے اندرونی مسئلہ کے حل کے طور پر دیکھا گیا، اسی کا وسیع تر اطلاق ہندوستانی مسلمانوں کے مسئلہ کے حل کے طور پر کارگر ہوا۔
جنگِ عظیم اوّل کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کی صحافت کے دو دھڑے بن چکے تھے۔ ایک وہ جو مسلمانوں میں بے چینی اور بغاوت کے بیج بوتا تھا، دوسرا وہ جو انگریزکی حمایت پر اکساتا رہتا تھا۔ ایسے میں الفضل ایک ایسے اخبار کےطور پر ابھرا جو درمیانی راہ پر چلتااور فریقین کو مبنی بر عقل اور دوراندیش تدابیر کی طرف توجہ دلاتا۔
اس لحاظ سے الفضل کی خدمات کا سلسلہ بہت طویل ہے اور قریب تین دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ اور یہاں نہ گنجائش ہے نہ محل کہ ان تین دہائیوں کی تفصیل میں اترا جائے۔ تاہم اختصار سے یہ عرض کیے دیتے ہیں کہ جہاں جلیاں والا باغ میں مسلمانوں پر ٹوٹنے والے اندوہناک ظلم پر بلند والی آوازوں میں الفضل صفِ اوّل میں تھی، وہاں مسلمانوں کی ترکِ موالات کی تحریک میں شمولیت کی مذمت کرنے اور اسلامی شعار کی طرف توجہ مبذول کروانے میں یقیناً اوّلین اور بلند ترین آواز تھی۔
جب تحریکِ خلافت جیسی خالصتاً سیاسی تحریک کو مذہبی لبادہ پہنایا گیا اور اسے مسلمانوں میں قومی تشخص اجاگر کرنے کے لیے ایک سیاسی ہتھکنڈا بنایا گیا، تو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ، امام جماعت احمدیہ، کی طرف سے برمحل اور دوررس نصائح بھی الفضل ہی کی زینت بنیں۔ مگر ساتھ ہی انگریز حکومت کو سلطنتِ عثمانیہ کی تاراجی سے روکنے کے لیے جو دلائل دیے جاسکتے تھے، وہ بھی الفضل ہی کی زینت بنتے رہے۔
مغربی پریس میں پیغمبرِ اسلامﷺ کی شان میں گستاخانہ خاکے بنانے کا رواج جدید تاریخ میں ۱۹۲۵ء میں شروع ہوا جب لندن کے اخبار The Star نے آپؐ کی شان پر حملہ کرنے والا ایک خاکہ شائع کیا۔ لندن میں جماعت احمدیہ کے مبلغ اور نمائندہ امام جماعت احمدیہ کے ایما پر مولانا عبدالرحیم دردؓ نے جس طرح پرزور مگر پر امن احتجاج کیا، اس کی تفصیلات الفضل میں شائع ہوتی رہیں اور وہ معذرت کے خطوط جو اخبار کے مدیر، کارٹونسٹ اور برطانوی وزیر داخلہ کی طرف سے موصول ہوئے وہ بھی الفضل کی زینت بنے۔
یوں گستاخیٔ رسولﷺ کے اس مسئلہ پر جو آج تک امتِ مسلمہ کے لیے ایک اہم چیلنج ہے، اس اخبار میں یہ احتجاج اور اس کے مثبت نتائج محفوظ ہوگئے جو جدید مورخین کی نظر میں آج تک اس مسئلہ پر سب سے پرزور اور نتیجہ خیز احتجاج کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ہمیشہ کے لیے امتِ مسلمہ کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ (ملاحظہ کریں الفضل انٹرنیشنل۶؍اپریل۲۰۲۱ء)
کشمیری مسلمانوں کے حقوق جب ڈوگرہ راجاؤں اور ان کے انگریز سرپرستوں کے ہاتھوں بری طرح پامال تھے، ان بے آواز مسلمانوں کو آواز دینے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے مسلمان عمائدین نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی بنیاد رکھی۔ عمائدین میں نواب ذوالفقار علی خان، خواجہ حسن نظامی اور علامہ محمد اقبال جیسے مشاہیر شامل تھے۔ ممتاز صحافی مولانا غلام رسول مہر(مدیر انقلاب) اور سید حبیب (مدیر سیاست)بھی بعد میں شامل ہوئے۔ علامہ محمد اقبال نے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ کا نام بطور صدر پیش کیا جو اتفاقِ رائے سے منظور ہوا اور کمشیری مسلمانوں کی تحفظِ حقوق، حقِ رائے دہی اور آزادی کی پہلی منظم تحریک کی بنیاد رکھ دی گئی۔
اس کمیٹی کے بارے میں بہت کچھ جو لکھا جاتا ہے وہ سیاسی زاویہ سے ہوتا ہے۔ تاہم اس کمیٹی کی ایک دینی اور ملی جہت بھی ہے جس پر ہم بعد میں بات کریں گے۔ سیاسی اعتبار سے یہ پہلی تحریک تھی جو تمام ہندوستان کے مسلمانوں کوکشمیری مسلمانوں کے مصالح کے لیے منظم اور متحد کرنے کی غرض سے قائم ہوئی۔
امام جماعت احمدیہ نے سب سے پہلے strategy تیار کی اور اس کے مطابق مہاراجہ اور انگریز حکومت سے سفارتی سطح پر تبادلۂ خیال کیا۔ مالی تحریکات کا آغاز کیا۔ ملک کے طول و عرض میں کشمیر ڈے منائے جانے کا اہتمام کیا اور یوں مسلمانانِ ہند کو ایک مقصد کے لیے ایک قیادت کے پیچھے چلنے کی وہ مثال حاصل ہوئی جو اپنی مثال آپ ہے۔ جو قارئین یہ سہرا محمد علی جناح کے سر باندھتے ہیں، وہ یہ درستی کر لیں کہ یہ سہرا اگر کسی کے سر جاتا ہے تو حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ کے سر جاتا ہے، ورنہ جناح صاحب بھی تمام مسلمانوں کو اپنا ہم خیال نہ بنا سکے۔
کشمیر کمیٹی اور اس کے مسلمانوں کو متحرک کرنے کا یہ نظارہ جہاں بے نظیر تھا، وہاں حکومت، ڈوگرہ راج اور مسلمانوں ہی میں سے احمدیہ مخالف مکاتبِ فکر کی آنکھوں میں کانٹا بن کر چبھتابھی تھا۔ امام جماعتِ احمدیہ، جنہیں جماعت احمدیہ خلیفہ کے طور پر مانتی تھی، کے ہاتھ پر سب مسلمانوں کا متحد ہونا اس بات کا ثبوت تھا کہ خلافت ہی مسلمانوں کے اتحاد کی واحد اور آخری امید ہے۔ مگر عقائد کا اختلاف اس امر کے اعتراف میں آڑے آیا اور وہ مسلمان عمائدین جو خلافت کے نام پرسیاسی تحریکات چلاتے نہیں تھکتے تھے، اس اہم دینی مسئلہ پر خلافت کو کارگر دیکھ کر بھی منحرف ہوگئے۔
آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی تمام کارروائیاں ۱۹۳۰ء کے ابتدائی سالوں کے الفضل کے پرچوں میں محفوظ ہیں۔ آج مورخین جب برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کے اس اہم موڑ پر قلم اٹھاتے ہیں، تو امام جماعت احمدیہ کو خراجِ تحسین پیش کیے اور اخبار الفضل کا حوالہ دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔
پس خلافت کے مسئلہ پر اختلاف کر کے جماعت احمدیہ سے جدا ہوجانے والا گروہ ہو، یا تمام امتِ مسلمہ، آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی تاریخ، جو الفضل میں روز بروز محفوظ ہوتی رہی اور ہمیشہ قائم رہے گی، اس بات کا ثبوت رہے گی کہ خلافت ہی امتِ مسلمہ کے اتحاد کا واحد ذریعہ ہے۔ تاریخ کی اس ڈور کو پکڑے وہ چلتے چلتے اس کے منبع و ماخذ یعنی خلافتِ احمدیہ تک ہی پہنچیں گے۔ کہیں اور نہیں۔
یوں درمیانی راہ سے مسلمانوں کو ایک تشخص دینے کے اہم کام میں الفضل کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں جوش کے ساتھ ہوش کا سامان بھی تھا۔ محض انتہا پسندرحجان نہ تھا۔ یہی نہج تھی جس پر بعد میں مسلمانانِ ہند متحد ہوئے اور آزادیٔ ہند اور مسلمانوں کے لیے علیحدہ مملکت کا قیام عمل میں آیا۔کیونکہ آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنا بنیادی ایجنڈا اسی نہج پر رکھا۔
۱۹۲۴ء کا سال خلافتِ اسلامیہ کی تاریخ میں ایک اہم سال ہے۔ اسی سال خلافتِ عثمانیہ کی صف ہمیشہ کے لیے لپیٹ دی گئی۔ اسی سال امام جماعت احمدیہ نے مرکزِ سلطنتِ انگلشیہ لندن میں مسجد کی بنیاد رکھی۔ کیسی دلچسپ اور عجیب بات ہے کہ ترکی کی انقلابی حکومت نے عثمانی خلیفہ کو جن دنوں میں اورئینٹل ایکسپریس کاٹکٹ تھما کر ملک بدر کرنے کی غرض سے پیرس روانہ کیا، انہی دنوں جماعتِ احمدیہ کا خلیفہ بھی پیرس اورلندن کی جانب رواں دواں تھا۔ اول الذکر گمنامی میں زندگی کے دن پورے کرنے، موخر الذکر مغرب میں خانۂ خدا کی بنیاد رکھنے اور مغرب کو اسلام سے متعارف کروانے کے لیے۔
۱۹۲۴ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا یہ سفر یوم بہ یوم الفضل میں محفوظ ہوتا گیا۔اسے الفضل کی پہلی بین الاقوامی مہم کہہ لیں۔ اگرچہ اس سے پہلے بیرونِ ہند مبلغین کی رپورٹس الفضل میں شائع ہوتی رہیں مگر یہ یک طرفہ کارروائی تھی۔ مگر جب امام جماعت احمدیہ خود بیرونِ ملک تھے، اور ہزاروں میل دور تھے، تو الفضل نے احبابِ جماعت کا ربط امامِ وقت کے ساتھ قائم رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر کے نہایت نامساعد حالات میں رابطہ استواررکھا اور رپورٹس شائع کی جاتی رہیں۔
دوسری طرف بھائی عبدالرحمٰن قادیانیؓ اور کی رپورٹس جو لندن سے موصول ہو کر شائع ہوتیں، ان سے معلوم ہوتا کہ حضرت صاحبؓ بھی قادیان سے آنے والی ڈاک موصول ہوتے ہی سب سے پہلے الفضل کا مطالعہ فرماتے۔ یوں امام جماعت احمدیہ اور احبابِ جماعت احمدیہ میں ایک زندہ ربط قائم کرنے کی یہ سعادت بھی الفضل کے حصے میں آئی۔
لندن میں پہلی مسجد کا سنگِ بنیاد رکھے جانے اور لندن میں ہونے والی کانفرنس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے لیکچر کی تشہیر کے ذریعہ تبلیغ اسلام کے نئے دروازے کھلنے کی کہانی بھی الفضل نے محفوظ کی۔
اس دورہ میں انگلستان بھر کے اخبارات بھی امام جماعت احمدیہ کے شب و روز اور اسلام کی مغرب میں آمد پر سرخیاں جماتے اور فیچر لکھتے رہے، مگر یہ اخبارات تو کہیں چند برس قبل ہمیں میسر آئیں،ورنہ ان کی coverage بھی دنیا کو الفضل ہی ذریعہ سے پہنچتی رہی۔ اور آج جب یہ مغربی اخبارات میسر آئیں بھی تو اس سمت میں قدم اٹھانے کی ابتائی سبیل الفضل کی یہی رپورٹس بنیں۔
وقت گزرتا رہا اور الفضل اس خدمت پر مامور رہا کہ خلیفۂ وقت کے شب وروز، آپ کی مصروفیات، آپ کے دورہ جات، آپ کے خطبات اور خطابات کو محفوظ کرتا چلاجائے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒکے بیرونِ ملک کے دورہ جات محفوظ ہوئے۔ پھر ۱۹۲۴ءکا تجربہ یوں کام آیا کہ ۱۹۸۴ء میں امام جماعت احمدیہ غیر معینہ مدت کے لیے ربوہ سے ہجرت کر کے لندن میں سکونت پذیر ہوئے اور لندن جماعت احمدیہ کی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔
الفضل نے کئی سال ہجر زدہ پاکستانی احمدیوں کے لیے وصل کے ممکنہ سامان مہیا کیے۔ اور ایک ’’غریب الوطن مسافر‘‘ خلیفہ کو پاکستان کے حالات سے باخبر رکھا۔
پھر ایم ٹی اے آیا اور وصل کے جدید تر سامان پیدا ہوگئے۔ آج سوشل میڈیا اور ابلاغ کے جدید تر ذرائع نے جماعت احمدیہ اور امام جماعت احمدیہ کو قریب تر کردیا۔
ایک سوال خاصا عام ہے کہ ایسے تیزرفتار زمانے میں سوشل میڈیا اور دیگر الیکٹرانک ذرائع ابلاغ اخبارات کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔الفضل کا مستقبل کیسا ہے؟
تو الفضل کی آبیاری جس قربانی سےکی گئی وہ الفضل کی عمارت کو مضبوطی سے قائم رکھنے کو بہت کافی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے جب الفضل کا اجرا فرمایا تو مالی حالات ایسے نہ تھے کہ اخبار جاری کیا جائے اور پھر قائم بھی رکھا جائے۔ آپؓ نے فرمایا کہ اس کے لیے حضرت اماں جان نے مالی اعانت فرمائی۔ آپؓ کی ازواج نے جو کچھ پاس تھا پیش کردیا۔ یہاں تک حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی والدہ، جو تب نوعمر بچی تھیں، ان کے لیے ان کی والدہ نے جو کچھ زیور بناکررکھ لیا تھا، وہ تک الفضل کی بنیادوں میں ڈال دیا گیا۔ یہ عمارت بھلا کیسے قائم نہ رہے گی؟
جس الفضل نے اس جماعت کی تاریخ سمیٹ رکھی ہے جو آخری زمانے کی آخری خدائی جماعت ہے، وہ بھلا کہاں سوشل میڈیا کی ہواؤں کے آگے جھکنے والی ہے؟
وہ الفضل جو خلیفۂ وقت کے خطبات اور خطابات کا primary sourceہے، اور جہاں یہ مبارک الفاظ تحریر میں سب سے محفوظ ہوتے ہیں، اُس الفضل کو کون سے ذرائع ابلاغ کے چیلنج سے خطرہ ہوسکتا ہے؟
اپنی گزارشات کا اختتام کرتا ہوں ان الفاظ کے ساتھ کہ جس نے الفضل کی اعانت کرلی۔ جس بھی رنگ میں۔ قلمی، مالی، قالی، کسی بھی طرح، وہ خوش نصیب ہیں کہ ان کی کاوشیں اُس اخبار میں شامل ہوتی ہیں، جو جماعت احمدیہ کی تاریخ کا ماخذ ہے۔ جس کی بنیادوں میں ام المومنین حضرت اماں جانؓ کی قربانی شامل ہے۔جس کے پیچھے حضرت مصلح موعودؓ کی دعائیں اور تدابیر اور شبانہ روز کوششیں ہاتھ رکھے ہوئے ہیں۔