الفضل…خلفائے کرام کے خطبات و خطابات کا ماخذ
جماعت احمدیہ کی ترقی کا راز بلا شبہ خلافت احمدیہ کا مبارک نظام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ جماعت کو وحدت کی لڑی میں پرودیا ہے اور افراد جماعت کو متحد اورصراط مستقیم پر گامزن رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے خلیفۂ وقت کی آواز پہنچانے میں الفضل ابتدا سے ہی بنیادی کردار ادا کرتا رہا ہے بلکہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ الفضل کے بنیادی اغراض و مقاصد میں یہ بات شامل ہے کہ خلافت احمدیہ کی آواز کو دنیا تک عموماً اور احباب جماعت تک خصوصاً پہنچایا جائے۔
چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے الفضل کے اغراض بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’الفضل کا کام احباب جماعت کو حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیمات سے آگاہ کرنا، خلیفہ وقت کی آواز ان تک پہنچانا…ہے۔چنانچہ اس میں…خلفائے احمدیت کے خطبات و خطابات اور تقاریر وغیرہ شائع ہوتی ہیں اور یہ خلیفہ وقت اور احباب جماعت کے مابین رابطے اور تعلق کا ایک اہم ذریعہ ہے۔‘‘(روزنامہ الفضل صد سالہ جوبلی سوونیئرصفحہ۲)
خلیفہ وقت کے خطبات اورخطابات بحر علم و عرفان ہیں۔ہر احمدی کو پورا ہفتہ اس کا انتظار رہتا ہے۔یہی وہ آب حیات ہے جو زمانے کی برائیوں سے محفوظ رہنے کی تلقین کرتا ہے اور نیکیاں بجا لانے کی ترغیب دلاتا ہے۔حضرت مصلح موعودؓ نے اس مضمون پر ان الفاظ میں روشنی ڈالی:’’جس شخص کے سپرد خدا تعالیٰ جماعت کی اصلاح کا کام کرتا ہے اسے طاقت بھی ایسی بخشتا ہے جو دلوں کو صاف کرنے والی ہوتی ہے اور جواثر اس کے کلام میں ہوتا ہے وہ دوسرے کسی اور کے کلام میں نہیں ہوتا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۱؍جنوری ۱۹۳۵ءمطبوعہ الفضل ۲۴؍جنوری ۱۹۳۵ء)
گو اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و احسان سے جماعت احمدیہ کو ایم ٹی اے کی نعمت سے نوازا ہے جس کے ذریعہ سے خلیفہ وقت کا خطبہ یا خطاب ہر احمدی براہ راست سن اور دیکھ سکتا ہے لیکن ان خطبات و خطابات کو طبع اورتاریخ میں محفوظ کرنے کی خدمت ایک طویل عرصے سے الفضل کے حصے میں آ رہی ہے۔
ممکن ہے کہ بعض ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو کہ جب آڈیو اور ویڈیو کی صورت میں ہمارے پاس خلیفۃ المسیح کے خطبات موجود ہیں تو پھر انہیں طبع کرنے کا کیا مقصد ہے؟
اس حوالے سے عرض ہے کہ الفضل میں خطبات اور خطابات کو بعد واجبی کارروائی شائع کیا جاتا ہے۔ مطبوعہ متن سے فائدہ اٹھانے والوں میں، علاوہ اردو پڑھنے والے افراد کے، جماعت میںمختلف زبانوں کے وہ ماہرین بھی شامل ہیں جو ان خطبات اور خطابات کا ترجمہ اپنی زبانوں میں کرتے ہیں جس کے نتیجے میں خلیفہ وقت کی آوازسے دنیا کی ایک کثیر تعداد مستفیض ہو جاتی ہے۔
اسی طرح تاریخ محفوظ کرنے کی خاطر مطبوعہ خطبہ یاخطاب ایک مستند حوالہ کہلاتا ہے۔ چنانچہ اگر کسی خطبہ یا خطاب میں سے کوئی اقتباس تلاش کرنا مقصود ہو تو اسے مطبوعہ شکل میں تلاش کرنا نسبتاً آسان اور سند کے لحاظ سے زیادہ معروف طریقہ ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ الفضل میں ابتدا سے ہی خلفاء کے خطبات اور خطابات طبع ہوئے ہیں اور خلفاء کے خطبات کی اکثریت الفضل میں طبع ہوئی ہے۔اسی طرح بڑے لمبے عرصے سے یہ بھی طریق کار رہا ہے کہ خلفائے کرام کے اردو زبان میں فرمودہ خطابات بھی الفضل کی زینت بنتے رہے ہیں۔
خلیفہ وقت کے خطبات اور خطابات کو محفوظ کرنا کیوں ضروری ہے؟
الفضل میں خلیفہ وقت کے خطبات سے فائدہ اٹھانے کی تلقین کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ فرماتے ہیں:’’سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر گھر میں الفضل پہنچے اور الفضل سے ہر گھر فائدہ اٹھا رہا ہو…خصوصاً خلیفۂ وقت کے خطبات اور مضامین اور درس اور ڈائریاں وغیرہ ضرورسنائی جائیں۔ خصوصاً میں نے اس لئے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نےخلیفۂ وقت کو امر بالمعروف کا مرکزی نقطہ بنایا ہے…الفضل اُس شخص کی بات آپ کے کان تک پہنچاتا ہے جس کے ذمہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات لگائی ہے کہ جماعت کے متعلق وہ یہ فیصلہ کرے کہ اسے اس وقت فلاں کام کرنے چاہئیں۔‘‘ (الفضل۲۸؍مارچ۱۹۶۷ءصفحہ۳۔۴)
جماعت احمدیہ کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتاہے کہ خلافت احمدیہ کی خطبات اور خطابات میں دی گئی راہنمائی ہی ہے جو درحقیقت وقت کی ضرورت ہے۔ اس کے ذریعہ عصر حاضر کے مسائل پر اسلامی نقطہ نظر سے بروقت اور درست راہنمائی ملتی ہے۔اسی طرح جماعت کو کی جانے والی متعددتحریکات کا اعلان بھی خطبات جمعہ یا خطابات کے ذریعہ ہی کیا گیا ہے۔ بے شمار تحریکات میں سےچند عرض ہیں:وقف زندگی کی تحریک، برلن میں مسجد تعمیرکرنے کے لیے چندہ کی تحریک، تحریک جدید، وقفِ جدید، تعلیم القرآن و وقف عارضی کی تحریک،نصرت جہاں سکیم،صد سالہ جوبلی کے لیے دعاؤں کی تحریک، تحریکِ وقفِ نو، جماعت جرمنی کو سو مساجد بنانے کی تحریک،مسجد بیت الفتوح کے لیے چندہ کی تحریک،نظام وصیت میں شمولیت کی تحریک۔اس کے علاوہ خلفاء نے حسب ضرورت مختلف اوقات میں خدمت خلق،تبلیغ و اشاعت اسلام اور دعاؤں، نوافل اور روزوں کی تحریکات فرمائی ہیں۔ان تحریکات کا اعلان یا ان کی طرف مکرر توجہ خطبات یا خطابات میں ہی دلائی گئی ہے۔ گویا جہاں خطبات اور خطابات سے جماعت کی تاریخ معلوم ہوتی ہے وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خلفاء ہم سے کیا چاہتے ہیں۔
خوف اور فتنوں کے وقت راہنمائی
جماعت کی تاریخ میں جب بھی مشکلات و مصائب کا سامناہواتو خلفاء خطبات یا خطابات کے ذریعہ ہی احباب جماعت کو اس حوالے سے نصائح فرماتے ہیں۔خلیفۃ المسیح کے الفاظ کو احباب جماعت تک پہنچانے میں الفضل ابتدا سے ہی اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔
اجتماعی خوف کےامن مین بدلنےکی سب سے بڑی مثال وہ وقت ہے جب ایک خلیفہ کی وفات پر دوسرے خلیفہ کا انتخاب ہوتا ہے۔چنانچہ خلافت ثانیہ سے لے کر خلافت خامسہ تک نو منتخب خلیفہ کا احبا ب جماعت سے پہلا خطاب الفضل کی زینت بن کر افراد جماعت تک پہنچتا رہا ہے۔(چونکہ اس خصوصی اشاعت میںاس حوالے سے ایک الگ مضمون شامل ہے اس لیے یہاں اس کی تفصیل میں نہیں جایا جائے گا۔)
انکار خلافت کے فتنے پر راہنمائی
خلافت ثانیہ کی ابتدا میں جب انکار خلافت کا فتنہ برپا ہوا تو حضرت مصلح موعودؓ نے احباب جماعت کو خطبات اور خطابات میں جو نصائح فرمائیں وہ آج بھی نظام خلافت پر اعتراض کرنے والوں کو ساکت کرنے کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
انوار العلوم کی ابتدائی جلدوں کا مطالعہ خلافت کے موضوع پر سیر حاصل روشنی ڈالتا ہے۔ مثلاً :حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ کی وفات پر مسجد نور میں تقریر،کلمات طیبات، کون ہے جو خدا کے کام کوروک سکے،منصب خلافت، برکات خلافت، حقیقۃ النبوۃ،چند غلط فہمیوں کا ازالہ، انوار خلافت۔
علاوہ ازیںخلافت کے ابتدائی سالوں میں خطبات جمعہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے افراد جماعت پر اس فتنہ کی حقیقت کھولی اور جماعت کی ڈھارس بندھائی اور ان کے عزم اور حوصلے بلند کیے۔چنانچہ منصب خلافت پر متمکن ہونے کے بعد پہلے خطبہ جمعہ میں فرمایا:’’اِس وقت ہمارے ساتھ زُلۡزِلُوۡا زِلۡزَالًا شَدِیۡدًا والا معاملہ ہے۔ یہ آخری ابتلاء ہے جیسا کہ احزاب کے موقع کے بعد دشمن میں یہ جرأت نہ تھی کہ مسلمانوں پر حملہ کرے۔ایسے ہی ہم پر یہ آخری موقع اور دشمن کا حملہ ہے۔خدا تعالیٰ چاہے ہم کامیاب ہوں تو انشاء اللہ پھر دشمن ہم پر حملہ نہ کرے گا بلکہ ہم دشمن پر حملہ کریں گے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۰؍مارچ۱۹۱۴ءمطبوعہ الفضل۲۵؍مارچ۱۹۱۴ء)
مسئلہ کشمیر پر راہنمائی
مسئلہ کشمیر کا جماعت احمدیہ کے ساتھ ابتدا سے ہی ایک گہرا تعلق ہے۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک میں حضرت مصلح موعودؓ نے کلیدی کردار ادا کیا۔حضرت مصلح موعودؓ نےخطبات میں اس مسئلہ پر بھی روشنی ڈالی اور اس کی اہمیت کو اجاگر فرمایا۔
اس تحریک پر بعض احمدیوں کے تحفظات کے حوالے سے فرمایا:’’مجھے تحریر کے ذریعہ سے اور زبانی بھی کئی دوستوں کے یہ خیالات معلوم ہوئے کہ کشمیر کا مسئلہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اس میں ہماری جماعت کو دخل دینے یا اس معاملہ میں اپنی طاقتوں کو خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آزادی کشمیر کا مسئلہ ایک رنگ میں سیاسی مسئلہ ہے۔ مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ یہ ایک رنگ میں غیر سیاسی بھی ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے کشمیر یا کشمیر کے لوگوں کو خود نہیں دیکھا ہوا اور وہاں جا کر ان کی حالت سے واقفیت حاصل نہیں کی وہ بے شک یہ سوال کر سکتے ہیں کہ ہندوستان کی تحریک آزادی اور کشمیر کی تحریک آزادی میں کیا فرق ہے اور بے شک وہ کہہ سکتے ہیں کہ گاندھی کی تحریک اور اس تحریک میں ہمیں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ مگر وہ لوگ جنہوں نے اپنی آنکھوں سے علاقہ کشمیر کو دیکھا وہاں کے مسلمانوں سے ملے اور جن کے تعلقات اہل کشمیر سے گہرے اور دوستانہ ہیں وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ اور واقف ہیں کہ کشمیر کی تیس لاکھ آبادی ایسے حالات میں سے گذر رہی ہے جسے غلامی سے کسی صورت میں بھی کم نہیں کہا جاسکتا۔…یہ ہرگز صحیح نہیں کہ معاملہ کشمیر ایک سیاسی تحریک ہے بلکہ یہ ایک انسانی ہمدردی کی تحریک ہے اور انسانی ہمدردی مذہب کا جزو ہے۔ مگر علاوہ اس کے اور بھی بہت سے ایسے پہلو ہیں جن کے ماتحت اس تحریک میں حصہ لینا ضروری ہو جاتا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۳؍نومبر۱۹۳۱ءمطبوعہ الفضل ۱۹؍نومبر۱۹۳۱ء)
اس کے بعد حضورؓ نے مسلمانوں کو متحد رہنے کی نصیحت فرمائی اور اس خدشہ کا اظہار فرمایا کہ اگر مسلمان آپس میں متحد نہ رہے تو غیر ان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاکر انہیں کچل دےگا۔
جماعت کی تاریخ میں اس کے علاوہ ۱۹۵۳ء،۱۹۷۴ء کے حالات اور بعد ازاں۱۹۸۴ء میں بدنام زمانہ آرڈیننس جس کے بعد خلافت احمدیہ نے ربوہ سے لندن ہجرت کی کے حالات ہیں۔ ان تمام مواقع پر خطباب جمعہ میںخلفاءنے جماعت کو درست رد عمل کی طرف راہنمائی فرمائی۔
ایک اندرونی فتنہ پر راہنمائی
اندرونی فتنوں پر راہنمائی کی ایک اور مثال ہمیں دورِخلافت خامسہ کے سنہ ۲۰۰۵ء میں ملتی ہے جب کسی شخص نے بظاہر بدنیتی سے بعض احمدیوں کے دلوں میں خلافت کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے انہیں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا خلافت کے متعلق ایک مضمون بھیجا۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ ۲۷؍مئی ۲۰۰۵ء میں اس مضمون کے مندرجات کی وضاحت فرمائی اوراس سے پیدا ہونے والے ممکنہ سوالات کا بھی مفصل جواب عطا فرما کر احباب جماعت کو خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کا فیض ہمیشہ جاری رہنے کے متعلق ایک ایمان افروز خطبہ ارشاد فرمایا۔(تفصیل کے لیے دیکھیں الفضل انٹرنیشنل ۱۰؍جون۲۰۰۵ء)
جلسہ سالانہ قادیان۲۰۰۸ء
۲۰۰۸ء میں خلافت احمدیہ صد سالہ جوبلی کے پروگرام کے مطابق حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے قادیان دارالامان میں جلسہ سالانہ کے موقع پر بنفس نفیس شرکت فرمانی تھی۔ اس کے لیے دنیا بھر کے ممالک سے احباب جماعت نے قادیان کا سفر اختیار کرنے کا پروگرام بنایا۔ حضور انور بھی جلسہ میں شمولیت کی غرض سے سفر پر روانہ ہو چکے تھے اورابھی جنوبی ہندوستان کی بعض جماعتوں کے دورہ پر تھے کہ ایک دہشت گرد حملے کی وجہ سے ملکی حالات خراب ہوئے جس کی بنا پر حضور انور کی قادیان تشریف آوری اور جلسہ سالانہ کے انعقاد کو ملتوی کرنے کا مشکل فیصلہ کیاگیا۔
جذباتی کیفیت کے اس ماحول میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۵؍دسمبر۲۰۰۸ء میں حالات کے پیش نظربیرون ہندوستان کے احمدیوں کو ہندوستان کا سفراختیار نہ کرنے کی ہدایت فرمائی۔ اس کے ساتھ حضور انور نے ابتلاؤں اور مشکلات میں خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے کی طرف توجہ دلائی۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اس سال خلافت جوبلی کے حوالے سے ہر احمدی میں نیا جذبہ ہے۔ …قادیان کا جلسہ سالانہ بھی دسمبر کے آخر میں مقرر کیا گیا ہے اور اس میں شمولیت کے لئے بڑے جذبے سے دنیا میں احمدیوں نے کوشش کی اور تیاریاں بھی کی ہیں۔ لیکن گزشتہ دنوں ظالم لوگوں نے اس ملک میں، ممبئی میں جو دہشت گردی کی واردات کی ہے، اس نے پورے ملک میں ایک بے چینی پیدا کر دی ہے۔ …ان حالات کی وجہ سے جو یہاں آج کل ہیں مَیں نے باہر سے آنے والے احمدیوں کو روک دیا ہے اور بلا استثناء ہر ایک کو، مَیں پھر واضح کر دوں کہ باوجود اپنی بڑھی ہوئی خواہش کے باہر سے کسی نے اس جلسہ میں شامل ہونے کے لئے نہیں آنا۔ …ہمارے سب کام جذباتیت سے بالا ہو کر ہونے چاہئیں۔ دنیا کی باتوں یا استہزاء کا خیال دل سے نکالتے ہوئے ہونے چاہئیں۔ … مجھے پتہ ہے بہت سوں کو اس سے شدید جذباتی تکلیف پہنچے گی۔ لیکن ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر فضل فرماتا ہے۔ اگر ہم کسی غلط فیصلے کا اپنی بشری کمزوری کی وجہ سے سوچ بھی رہے ہوں تو حالات و واقعات کو اللہ تعالیٰ اس نہج پر لے آتا ہے جس سے ہمیں صحیح سوچوں اور صحیح فیصلوں کی طرف راہنمائی ملتی ہے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل۲۶؍دسمبر۲۰۰۸ء)
چنانچہ اس طرح حضور انور نے اس مشکل وقت میں جماعت کو اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے مومنانہ شان اختیار کرنے کی تلقین فرمائی اور بخیر و عافیت اس دور میں سے گزارا۔
سانحہ لاہور
۲۸؍مئی ۲۰۱۰ء کو لاہور میں جماعت احمدیہ کی دومساجد پر نماز جمعہ کے دوران دہشت گردوں نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں اسّی سے زائد افراد شہید ہوئے۔ اس نازک موقع پر حضور انور احباب جماعت سے اسی روز خطبہ جمعہ میں مخاطب ہوئے اور اس حوالے سے نصائح فرمائیں۔ اگرچہ خلیفہ وقت کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ بظاہر عام ہی دکھائی دیتے ہیں لیکن احمدی اس حقیقت کو خوب جانتے ہیں کہ ایسے مواقع پر یہی الفاظ ہوتے ہیں جو مرہم کا کام دیتے ہیں اور دل کو تسلی و اطمینان بخشتے ہیں۔ اسی طرح انہی الفاظ سے آئندہ کے لائحہ عمل کاتعین ہوتا ہے۔چنانچہ اس موقع پر بھی حضور انور نے اس روز کےخطبہ جمعہ کے علاوہ اس کے بعد کے خطبات نیز جلسہ سالانہ کے بعض خطابات میں جماعت کی راہنمائی فرمائی۔حضورانورنے بطور خاص جماعت کو اس طریق پر چلنے کی طرف توجہ دلائی جس سے اس اجتماعی قربانی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکے۔ مزید تفصیل کے لیے ۲۰۱۰ء کے جلسہ سالانہ جرمنی اور یوکے پر حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ کے خطابات کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
دنیاوی معاملات میں راہنمائی
خلفاء کے خطبات جمعہ میں جہاں افراد جماعت کو حالات کے مطابق راہنمائی ملتی ہے وہاں دنیاوی لحاظ سے بھی راہنمائی ہوتی ہے۔ چنانچہ جب بھی دنیا میں کوئی غیر معمولی اہمیت کے واقعات رونما ہوئے ہیں تو خلفاء نے ہمیشہ اپنے خطبات کے ذریعہ جہاں احباب جماعت کی راہنمائی فرمائی وہاں دنیا کو بھی راہ راست پر لانے کی نصیحت کی۔ذیل میں اس کی بعض مثالیں پیش ہیں۔
جنگ عظیم دوم
جنگ کے ماحول میںیہ بات عام ہوتی ہے کہ ہر فریق پروپیگنڈا کا ہتھیار اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کے ذریعہ بدامنی پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ جنگ عظیم دوم میں بھی ایساہی ہوا اور اس سے ہندوستان میں بد امنی پھیلنے کا خطرہ تھا۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ نے ۳۱؍مئی۱۹۴۰ء کے خطبہ جمعہ میں احباب جماعت کو ان حالات میں پُر امن رہنے کی نصیحت فرمائی اور مختلف ذرائع سے جنگ کے متعلق موصول ہونے والی خبروں کے حوالے سے محتاط رہنے کی نصیحت کی۔ حضورؓ نے فرمایا:’’…میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ بُری خبروں کو لے کر دوڑنا، انہیں لوگوں میں پھیلانا اور اُن پر خوشی اور مسرت کا اظہار کرنا بہت بڑے گناہ کی بات ہے اور انہی باتوں کے نتیجہ میں ملک کا امن برباد ہوا کرتا ہے۔ اگر کسی وقت ملک میں فساد ہو گیا اور لوگوں نے جتھے بنابنا کر ایک دوسرے پر حملہ کرنا اور دوسروں کو لوٹنا شروع کر دیا تو اس کے ذمہ دار وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے لوگوں میں اس قسم کی بری خبریں پھیلائیں۔ اور اگر کسی جگہ ایک احمدی بھی ان فسادات کے نتیجہ میں مارا گیا تو اس کا تمام گناہ ان گندی فطرت کے احمدیوں پر عائد ہو گا جو اس قسم کی خبروں پر خوشی مناتے اور لوگوں کو ہنس ہنس کر سناتے ہیں۔ وہ خداتعالیٰ کے حضور سخت گنہگار اور مجرم ہوں گے اور وہ غیر احمدیوں سے زیادہ قصور وار ہوں گے کیونکہ ان خبیث الفطرت لوگوں کو سمجھایا بھی گیا مگر وہ پھر بھی نہ سمجھے۔ ان کو چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں اور دعاؤں میں لگے رہیں۔ ایسے اوقات میں ہنسی اور مذاق اور مخول اور عدم سنجیدگی سے کام لینا سخت کمینگی کی بات ہوتی ہے۔‘‘
حضورؓ کے اس خطبہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہےکہ خلیفۃ المسیح ہی وہ ذات ہے جو ملکی حدود اور قومیت سےبالا ہو کر خالصۃً انسانیت کی بہبود کے لیے فکر مند ہے۔ فرمایا:’’اس وقت دنیا کی عزت کا سوال ہے۔ اس وقت دنیا کے امن چین راحت اور زندگی کا سوال ہے۔ پس کیسا ہی بے شرم اور بے حیا وہ شخص ہے جو گھر میں بیٹھ کر خبریں سنتا اور کبھی اس پر تمسخر اڑا دیتا ہے اور کبھی اس پر اور یہ نہیں دیکھتا کہ اس وقت پندرہ بیس لاکھ آدمی چاہے وہ جرمنی کے ہوں کہ آخر وہ بھی انسان ہیں، چاہے وہ برطانیہ کے ہوں کہ وہ بھی انسان ہیں، چاہے وہ فرانس کے ہیں کہ وہ بھی انسان ہیں، چاہے وہ پولش ہوں کہ وہ بھی انسان ہیں اور چاہے وہ کسی اورقوم سے تعلق رکھتے ہوں کہ وہ بھی انسان ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۱؍مئی ۱۹۴۰ءمطبوعہ الفضل۵؍جون۱۹۴۰ء)
خلیج کی جنگ
خلیج کی جنگ کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے خطبات کا ایک سلسلہ ارشاد فرمایا جس میں حضورؒ نے اس جنگ کا پس منظر اور اس حوالے سے امت مسلمہ کو دردمندانہ نصائح فرمائیں۔مثلاً حضور نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ مشرق وسطیٰ میں مسلسل بے چینی کی اصل وجہ کیا ہے، اس مرض کا درست علاج کیا ہے اوراحمدیوں کی اس حوالے سے کیا ذمہ داریاں ہیں۔مزید تفصیل کے لیے کتاب ’خلیج کا بحران‘ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
مالی بحران۲۰۰۸ء
۲۰۰۸ء میں دنیا میں ایک شدید مالی بحران آیا جس کی نظیرگذشتہ کئی دہائیوں میں نہیں ملتی۔ اس بحران کا احساس۱۵؍ستمبر۲۰۰۸ء کو Lehman Brothers کے دیوالیہ ہونے پر مزید پختہ ہوا۔ اس کے کچھ عرصےبعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۳۱؍اکتوبر۲۰۰۸ء کو خدا تعالیٰ کی صفت رزاق کے تناظر میں اس مالی بحران کا پس منظربیان فرمایااورخاص کر سودی نظام کے نقصانات کو اجاگر کیا۔ فرمایا کہ ’’سودی نظام کے اثرات ہر مذہب والے پر پڑرہے ہیں چاہے وہ مسلمان ہے یا غیرمسلم ہے‘‘۔پھر حضور انور نے مسلمانوں کو قرآن کریم کی حقیقی تعلیم کی روشنی میں ان مسائل کے حل کی طرف توجہ دلائی کہ ’’آج کل کے بحران کا حل مومنوں کے پاس ہے اور تمام مسلمانوں اور مسلمان ملکوں کو اس بحران سے نکلنے اور نکالنے کے لئے پہل کرنی چاہئے۔‘‘
سورت آل عمران کی آیت۱۳۱ کہ اے وہ لوگو ! جو ایمان لائے ہو سُود درسُودنہ کھایا کرو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔‘‘کی روشنی میں حضور انور نے فرمایا کہ’’اللہ کرے کہ فلاح پانے کے لئے کم از کم مسلمان دنیا کو یہ تقویٰ حاصل ہو جائے اور خاص طور پر امیر مسلمان ممالک کو جنہوں نے سُود کی کمائی کے لئے اپنی رقمیں لگائی ہوئی ہیں۔ لیکن اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی اس آواز کو بھی سننا ہو گا جو اس کے مسیح و مہدی کے ذریعہ ہم تک پہنچی کیونکہ اس کے بغیراس زمانے میں کوئی نجات نہیں، کوئی تحفظ نہیں، کوئی ضمانت نہیں۔‘‘ (الفضل انٹرنیشنل ۲۱؍ نومبر ۲۰۰۸ء)
عرب سپرنگ
دنیاوی معاملات پر خلیفہ وقت کے خطبات کے ذریعہ راہنمائی کی ایک اَور مثال عرب سپرنگ کی ہے۔ عرب ممالک میں جب بغاوت کی لہر اٹھی اور عوام الناس خاص کر عرب ممالک کے باشندوں کے ایک بڑے گروہ نے اسے خوش آمدید کہا تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کے نقصانات اور آئندہ درپیش ممکنہ خطرات سے متنبہ فرمایا۔بطور خاص دہشت گرد تنظیموں کے ابھرنے کے خطرے کی طرف حضور نے متنبہ فرمایا۔ وقت نے ثابت کیا کہ حضور انور کی راہنمائی درست ثابت ہوئی اور جس انقلاب کی امید کی جارہی تھی وہ نہ آیا بلکہ کئی جگہوں پر پہلے سے بھی بد تر حالات کا سامنا کرنا پڑا۔(مزید تفصیل کےلیے ملاحظہ ہو مضمون:’’عرب سپرنگ کے دنیا پر اثرات اور خلافت احمدیہ کی راہنمائی‘‘ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۶؍جولائی۲۰۲۲ءصفحہ۶۴)
اختتامیہ
دراصل خلافت احمدیہ ہی ہے جو جذبات، قومیت، عوام الناس کے دباؤ سے بالا ہو کر محض خدا تعالیٰ کے فرمان کو سامنے رکھتے ہوئے،تقویٰ کو مد نظر رکھتے ہوئے دردمندانہ نصیحت کرتی ہے۔ جو لوگ اس کو مان لیتے ہیں انہیں فلاح و کامیابی حاصل ہوتی ہے جبکہ وہ لوگ جو اس آسمانی صدا پر کان نہیں دھرتے وہ بدنصیبوں میں شامل ہوتے ہیں اور دین و دنیا دونوں میں خسارہ پاتے ہیں۔
اس مضمون میں اس حوالے سےصرف چند مثالیں بیان کی گئی ہیں ورنہ حق تو یہ ہے کہ خلیفۃ المسیح کا ہر خطبہ ہی نصائح سےپُر اورہمیں دعوت عمل دینے والا ہے۔خواہ وہ Bitcoin، اورسوشل میڈیا کے نقصانات کی نصیحت ہو یا نام نہاد آزادی کے علمبرداروں کی دجالی چال سے بچنے کی تلقین ہو۔ خواہ وہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مردوں اورعورتوں کے تقسیم کار کے متعلق پُرمعارف بیان ہوں یا دنیا میں انصاف کے قیام کی پُر درد نصیحت ہو۔بلکہ جیسا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا ہوا ہے کہ اگر چہ خطبہ صحابہ ؓیا تاریخ اسلام کے واقعات پر مشتمل ہو تو اس میں بھی ہماری تربیت کے سامان موجود ہوتے ہیں۔
پس خلیفۃ المسیح کے خطبات اور خطابات وہ خزائن ہیں جن سے ہماری روحانی اور جسمانی بقا وابستہ ہے۔جہاں ان خطبات کو براہ راست سننا اور بار بار سننا انتہائی ضروری ہے وہاں ان خطبات و خطابات کے متن کا مطالعہ بھی اپنے اندر بے انتہاء سے فوائد رکھتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو خلیفۃ المسیح کے ارشادات پر کما حقہ عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین