الفضل خلفائے احمدیت کا دست و بازو
الفضل تاریخ احمدیت کے وسیع سمندر کی وہ کشتی ہے جو اس سمندر کی گہرائیوں، وسعتوں، کناروں اور جزائر سے خوب واقف ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو اس کشتی کا ماہر ملاح ہر دور میں خدا تعالیٰ کا قائم کردہ وجود یعنی خلیفة المسیح رہے ہیں۔ ویسے تو الفضل کا۱۹۱۳ء میں آغاز ہوا لیکن اس نے گذشتہ پندرہ سو سال کی تاریخ کو اپنے اندر سمو لیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعودؑ کے لیے اشاعت ہدایتِ اسلام کے جو ذرائع مسخر کیے ان میں سے ایک بڑا ذریعہ کتب و رسائل او راخبار و جرائد کی اشاعت ہے۔ قرآن کریم نے بھی اسے آخری زمانہ کی نشانیوں میں سے ایک قرار دیتے ہوئے کہا کہ وَ اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ۔
حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں جماعت کے دو اخبار الحکم اور البدر (بدر) جاری ہوئے۔ جنہوں نے اشاعت ہدایت کے لیے غیر معمولی کردار ادا کیا۔ حتی کے حضرت مسیح موعودؑ نے بھی انہیں سلسلہ کے دست و بازو قرار دیا۔
۱۹۱۳ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ نے خلافت اولیٰ کے بابرکت عہد میں الفضل کو جاری فرمایا۔ آپؓ نے استخارہ کیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی خدمت میں اخبار الفضل کے اجرا کی اجازت کے لیے عرض کیا تو آپ ؓنے فرمایا:’’جس قدر اخبار میں دلچسپی بڑھے گی خریدار خود بخود پیدا ہوں گے۔ ہاں تائید الٰہی، حسن نیت، اخلاص اور ثواب کی ضرورت ہے۔ زمیندار، ہندوستان، پیسہ میں اور کیا اعجاز ہے وہاں تو صرف دلچسپی ہے اور یہاں دعا نصرت الٰہیہ کی امید بلکہ یقین‘‘۔
پھر الفضل کا نام بھی حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے عطا فرمایا اور الفضل ۱۹۱۴ء کے ایک اداریہ میں درج ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے فرمایا: ’’ مجھے رؤیا میں بتایا گیا ہے کہ الفضل نام رکھو‘‘۔ (الفضل ۱۹؍نومبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۳)
چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اس مبارک انسان کا رکھا ہوا نام ’’الفضل‘‘ فضل ہی ثابت ہوا۔ (یاد ایّام،انوار العلوم جلد ۸ صفحہ ۳۷۱)
الفضل کی مثال کشتی نوح سی
حضرت مصلح موعودؓ نے الفضل کو جاری فرماتے ہوئے اس کی مثال کشتی نوح سے دی کہ ’’میں الفضل جاری کرتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ جس طرح حضرت نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام پر لوگ ان کے کشتی بنانے پر ہنستے تھے اور اُسے غیر ضروری قرار دیتے تھے۔ اور کہتے تھے کہ خشک میدانوں اور ریت کے ٹیلوں پر کشتی کیونکر چلے گی۔ اسی طرح بہت سے لوگوں کو الفضل کی ضرورت میں شبہ ہے۔ اور ایسی قوم جس کا خون بڑھتی ہوئی ضروریات پہلے ہی چوس چکی ہیں۔ اس کا چلنا مضحکہ انگیز معلوم ہوتا ہے میں یہ بھی جانتا ہوں۔ کہ جس طرح حضرت نوحؑ کی کشتی کے چلنے کے وقت اٹھتی ہوئی موجیں اور بڑھتی ہوئی لہریں اور جہازوں کو تباہ کر دینے والی آندھیاں اور راستہ بھلا دینے والی ظلمتیں ایک خطر ناک نظارہ دکھا رہی تھیں اور ظاہری نظر سے دیکھنے والا انسان سمجھتا تھا کہ یہ کشتی اب گئی اور اب گئی۔ وہی حال اس اخبار کا ہے۔ اس لیے میں بھی اپنے ایک مقتداء اور رہنما اپنے مولا کے پیارے بندے کی طرح اس بحرِ نا پائیدار میں الفضل کی کشتی کےچلانے کے وقت اللہ تعالیٰ کے حضور بصد عجز و انکسار یہ دعا کرتا ہوں کہ بِسْمِ اللّٰهِ مَجْرٖىهَا وَ مُرْسٰىهَاؕاِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ اللہ تعالےٰ کے نام کے ساتھ اور اس کی برکت سے اس کا چلنا اور لنگر ڈالنا ہو۔ تحقیق میرا رب بڑا بخشنے والا اور رحیم ہے۔ … اے میرے مولا اس مشت خاک نے ایک کام شروع کیا ہے اس میں برکت دے اور اسے کامیاب کر۔ میں اندھیروں میں ہوں تو آپ ہی رستہ دکھا۔ لوگوں کے دلوں میں الہام کر کہ وہ الفضل سے فائدہ اٹھائیں اور اس کے فیض کو لاکھوں نہیں کروڑوں پر وسیع کر اور آئندہ آنےوالی نسلوں کے لیے بھی اسے مفید بنا۔ اس کے سبب سے بہت سی جانوں کو ہدایت ہو۔ ‘‘ (الفضل ۱۹؍جون ۱۹۱۳ء صفحہ ۳)
خلافت ثانیہ کے دست و بازو کا کردار
تاریخ احمدیت اس بات کی شاہد ہے کہ الفضل کے آغاز کے کچھ عرصہ بعد جب جماعت پر ایک نہایت نازک دور کا آغاز ہوا تو اس دور میں الفضل نے ہی خلافت احمدیہ اور احبابِ جماعت کے درمیان رابطے کے پل کا کام کیا۔ حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کا مرض الموت تھا۔ آپ طویل تقاریر نہیں فرما سکتے تھے۔ الفضل کے سرورق کے ذریعہ مختصر پر اثر پیغامات نے فدائیانِ خلافت کے قلوب کو خلافت کے حصار میں باندھے رکھا۔ ان خوف کے منڈلاتے بادلوں میں جبکہ طوفان کے سایے طویل ہوتے جارہے تھے، امن کا چراغ جلائے رکھنا ایک بہت بڑی ذمہ داری تھی۔ خلافت احمدیہ کا یہ نوزائیدہ پیارا الفضل ایک مضبوط ستون کی طرح ایستادہ خلیفۂ وقت کے ارشادات کی امانت پہنچانے کا حق ادا کر رہا تھا۔
پھر یکدم حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی وفات سے جب خوف کے بادل گہرے ہوئے اور طوفان سر پر آن پہنچا۔ جہاں پیغامِ صلح ’’ہائے نور الدین چل بسا‘‘ کی صدائیں دے کر مایوسی کے سایے پھیلا رہا تھا۔ وہیں الفضل خلافت کی ٹمٹماتی شمع کی لو کی روشنی کو چہار دانگِ عالم میں وسیع کرتے ہوئے پروانوں کو جمع کرنے میں مصروف عمل تھا۔ اس نے حضرت خلیفة المسیح کی راہنمائی سے بیعت کنندگان کی فہرستوں، اعلانات اور احبابِ جماعت کے اخلاص ووفا کی اشاعت سے ایک تحریک پیدا کی۔ جہاں مخلصین کو نظام ِخلافت سے دور لے جانے اور غلط فہمیاں اور افواہیں پھیلائی جا رہی تھیں۔ الفضل نے اس موقع پر قادیان میں رہنے والے اور قادیان سے دور بسنے والے احمدیوں کو پل پل کی خبریں پہنچائیں کہ کس طرح خوف کے سایے چھٹ گئے ہیں اور مصائب کے طوفان کے مقابل امن کی چھتری قدرت ثانیہ کے دوسرے مظہر کی صورت میں مسیح پاک کی جماعت پر سایہ فگن ہوئی ہے۔ الفضل نے خلافت سے وابستہ برکات کی طرف توجہ دلائی۔ خلیفۂ وقت کی آواز کو دنیا میں پھیلایا اور دنوں نہیں، مہینوں نہیں بلکہ کئی سالوں کی مساعیٔ جلیلہ کے بعد سعید روحوں پر خلافت کی اہمیت، ضرورت اور برکات کو واضح کیا اورالفضل نے خلافت احمدیہ کا حقیقی دست و بازو اور سلطان نصیر کا تمغہ اپنے نام سجایا۔
الفضل نے خلافت احمدیہ کی آواز دنیا بھر میں بسنے والے احمدیوں کے کانوں اور دلوں تک پہنچانے کے لیے دن رات محنت کی۔ حضرت مصلح موعودؓ کی جانب سے کوئی تحریک ہوتی یا نصیحت یا مصائب ومشکلات میں راہنمائی سب احمدی قادیان سے آنے والے اس آرگن کی راہ تکتے رہتے۔ حضرت مصلح موعودؓ خطبات میں خود فرما دیتے کہ الفضل یہ پیغام احتیاط سے بغیر نظر ثانی کےعمل کے جلد احباب تک پہنچائےاور الفضل فوری اس ارشاد کی تعمیل میں کمر بستہ ہوجاتا۔ آن کی آن میں وہ پیغام چھپ کر احباب کے ہاتھوں میں پہنچ جاتا۔ ایک بار فرمایا:’’ جو کچھ میں آج جمعہ میں بیان کرنا چاہتا ہوںشاید وہ اس اجتماع کے مناسبِ حال نہیں اور وہ وقت جو اِس وقت میرے پاس ہے وہ بھی اِس مضمون کے لئےکافی نہیں ہوسکتا کیونکہ ہم میں سے بعضوں نے ریل کے ذریعہ واپس جانا ہے۔ مگر چونکہ سفرمیں میرے پاس اِتنا وقت نہیں ہے کہ مضمون کے ذریعہ قادیان کی جماعت اور بیرونی جماعتوں کو توجہ دلاؤں اِس لئے میں نے یہی مناسب سمجھا کہ خطبہ کے ذریعہ بیان کردوں اور زود نویس جہاں تک اِن سے ہوسکے خطبہ لکھ کر الفضل کو بھجوادیں تاکہ قادیان اور بیرونی جماعتوں کو اطلاع ہوجائے‘‘۔ (فرمودہ ۷؍ مئی ۱۹۳۷ء )
اس وقت الفضل ہی وہ اہم ذریعہ تھا جو قادیان سے اٹھنے والی آواز ہر فرد جماعت تک پہنچا رہا تھا۔ لجنہ اماء اللہ کا قیام ہو یا مستورات کی مجلس مشاورت میں نمائندگی، نظام سلسلہ سے آگاہی ہو یا ناظران و امراء کا تقرر، تحریک جدید کےوعدہ جات کی یاددہانی ہو یا ستائیس مطالبات کی جگالی، وقفِ جدید کا قیام۔ جماعت کی شاہراہ ترقی کے ایک ایک سنگ میل عبور کرنے کی خبر۔ افریقہ کے ایک مجمع میں دس ہزار قدوسیوں کا یک دم اطاعت خلافت کا دم بھرنے کا اقرار۔ ولایت، امریکہ، افریقہ، یورپ، ایشیا، خلیجی ممالک میں دار التبلیغ کا قیام ہو یا دنیاوی سیاسی جنگی حالات۔ الفضل نے اس چھوٹے سے قریہ قادیان سے احباب جماعت کو خلافت کی لڑی میں پروئے رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا۔
پھر ملکانہ کے فتنے، مستریوں اور مصری صاحب کی ریشہ دوانی، ہمعصر اخبار و جرائد کی غلط فہمیاں پھیلانے کی سازشیں، رنگیلا رسول کے مقدمہ اور اس سے متعلقہ معاملات، احرار کے قادیان پر حملے کےناپاک عزائم، قادیان کے ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں کی ریشہ دوانیاں اور اخبارات میں حضرت مسیح موعودؑ اور خلیفۂ وقت کی ذات بابرکات پر مذموم حملے۔ الفضل نے تمام مواقع پر خلافت احمدیہ کی ہدایات کے تحت قلمی جہاد سے ان باطل وساوس کو رفع کیا۔
انہی ایام میں الفضل کا سب سے بڑا کارنامہ خاتم النبیین نمبر کی اشاعت تھا۔ جس کو اپنوں اور غیروں کے نثری اور منظوم کلام کے گلدستہ کے سبب نہایت سراہا گیا۔
اصلاح و ستائش
حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر بدر لکھتے ہیں کہ ’’اس اخبار کو حضرت مسیح موعود بغور پڑھا کرتے تھے اور اگر کچھ غلطی ہوتی تھی تو اصلاح کرا دیا کرتے تھے‘‘۔ (الفضل ۲۱؍جولائی ۱۹۳۸ء صفحہ ۴)
اسی طرح الفضل کو یہ سعادت رہی ہے کہ تمام خلفاء کرام اس کے محترم قاری رہے۔ اور ماں باپ کی طرح الفضل کی پیار اور سختی دونوں طرح اصلاح کرواتے رہے جیسے ماں باپ اپنے بچوں کی اصلاح کرتے ہیں۔ یہ بالکل نہیں ہوا کہ الفضل کو کسی قسم کی چھوٹ مل گئی ہو۔ ایک بار پیغام صلح کے کسی مضمون پر مدیر صاحب کو اداریہ میں جواب دینے کا ارشاد ہوا۔ مدیر صاحب کی سخت زبان پر حضرت مصلح موعودؓ نے آئندہ شمارہ میں اس امر کی حوصلہ شکنی فرمائی کہ ایسی درشتی سے جواب دیا جائے۔
حضرت مصلح موعوؓد بعض امور کی جن سے آئندہ کسی غلط فہمی کا اندیشہ ہوتا اس کی تفصیلی اصلاح اپنے قلم سے شائع کرواتے۔ کسی نکتہ کی خطبات میں اصلاح فرماتے۔ اور اگر مضامین پسند آتے تو اس کی بھی کھلے لفظوں میں ستائش فرماتے۔
حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ اور حضرت میر محمد اسحاقؓ کے مابین الفضل میں ہونے والی ماٹو کی دلچسپ علمی بحث پر محاکمہ ارشاد فرمایا کہ ہمارے سامنے خداتعالیٰ کا مقرر کردہ ماٹو لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ موجود ہے۔ (الفضل ۲۶؍دسمبر ۱۹۳۶ء )
پھر آپ الفضل کا روزانہ مطالعہ بھی فرماتے۔ ایک بار خطبہ میں فرمایا کہ آج ہی کے الفضل میں وہ حوالہ چھپا ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہی تحریر فرمایا ہے۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۱؍ دسمبر ۱۹۳۶ء )
۱۹۳۵ء میں الفضل سہ روزہ سے روزنامہ ہوگیا۔ حضرت مصلح موعودؑ نے ایک بار پھر بِسْمِ اللّٰهِ مَجْرٖىهَا وَ مُرْسٰىهَاکی دعا کےساتھ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی اس کشتی کو دعاؤں کے جلو میں جاری فرمایا۔
۱۹۵۰ء کی دہائی میں ہندوستان کی سیاست میں ہلچل دنیائے اسلام کی تاریخ میں ایک بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ جب مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے تقسیم ہند کے وقت بھارت سے پاکستان ہجرت کی۔ بادل ناخواستہ احمدی بھی اپنے دائمی مرکز کو چھوڑ کر پاکستان ہجرت کر آئے اور ہجرت کے اس پرآشوب دور میں بظاہر موتیوں کی طرح بکھر گئے۔ اس وقت جہاں ملک بھر میں پھیلے احمدیوں کو فوری طور پر راہنمائی کی ضرورت تھی وہیں ان کو منظم کر کے دوبارہ لڑی میں پرونے کی ضرورت بھی تھی۔
حضرت مصلح موعودؓ کی دور اندیش نگاہ نے الفضل کوقادیان سے لاہور منتقل کرتے ہوئے نامساعد حالت کے باوجود فوری طور پر جاری کیا۔ ایک بار پھر بِسْمِ اللّٰهِ مَجْرٖىهَا وَ مُرْسٰىهَاکی دعا کے ساتھ الفضل لاہور سے اپنے پہلے شمارے میں رقم طراز ہے کہ ’’روزنامہ الفضل کا کیا مقصد ہے اور وہ کن عزائم کا علم بردار ہے؟ اس کا جواب الفضل کی پینتیس سالہ تاریخ کا ایک ایک ورق دے رہا ہے… الفضل لاہور جماعت احمدیہ اور اس کے اندرونی نظام کو حضرت امام جماعت احمدیہ کی ہدایات کی روشنی میں مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی کوشش کرے گا۔ اور احباب جماعت کو سلسلہ کی اہم ضروریات سے آگاہ کرے گا، کیونکہ یہی نظام دنیا میں اسلام کی نشأة ثانیہ کی بنیاد بننے والاہے۔ اس وقت مسلمان جس ناز ک دور سے گزر رہے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان میں مسلمانوں کے لیے جو اہم اور پیچیدہ مسائل پیداہورہے ہیں ان کے سلسلے میں الفضل حضرت امام جماعت احمدیہ کے اہم اور گرانقدر ارشادات اور ہدایت کو جلد سے جلد اپنے قارئین تک پہنچانے کا فریضہ ادا کرے گا۔ ‘‘(الفضل لاہور ۱۵؍ستمبر ۱۹۴۷ء صفحہ ۳)
تاریخ اگر اس امر کو فراموش بھی کر دے تو بھی الفضل کے پرچے اس بات کے شاہد ہیں کہ اس مشکل گھڑی سے بھی خلافت احمدیہ کی رہبری میں الفضل نے کیسے حقیقی دست وبازو بنتے ہوئے اندرونی و بیرونی طور پر احباب جماعت کو خلافت احمدیہ کی گود میں جمع رکھا۔
مخالفین احمدیت نے پاکستان آ کر بھی دم نہ لیا اور ۱۹۵۳ء اور ۱۹۵۶ء میں افواہوں کا بازار گرم رکھا۔ ان وساوس کے مقابلے کے لیے الفضل نے تن تنہا دندان شکن جوابات اور سلسلہ مضامین سے دشمن کے دانٹ کھٹے کر دیے۔ اور دشمن انگلیاں دانتوں میں دبائے ماتم کرتا رہ گیا۔
ہندوستان میں ایک بار حضرت مصلح موعودؓ کی وفات کی جھوٹی افواہ اڑائی گئی تو احمدی دیوانہ وار قادیان پہنچناشروع ہوگئے تھے۔ اس وقت الفضل نے فوری طور پر جہاں اصل حقیقت کو شائع کیا وہیں احباب کی خلافت احمدیہ سے والہانہ محبت کے اظہار کو بھی بیان کیا جس سے دشمن اس ناکام چال پر ہاتھ ملتا رہ گیا۔ ۱۰؍مارچ ۱۹۵۴ ء کو ایک نادان دشمن نے چاقو کے ذریعہ حضور پر حملہ کیا جس سے حضور شدید زخمی ہوگئے۔ اس حملہ کے پانچ روز بعد ۱۵؍مارچ کو الفضل ایک سال کی جبری بندش کے بعد جاری ہوا اور جاری ہوتے ہی ایک بار پھر خوف کی اس حالت میں جماعت کوخلافت احمدیہ سے محبت اور عقیدت میں مضبوط کرنے میں جت گیا۔
حکومت پنجاب کی جانب سے اس ایک سالہ جبری بندش کا مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ بیرونی احمدی جماعتوں کا رابطہ اپنے مرکز سے معطل بلکہ مفلوج کردے۔ اس خوف کے زمانہ میں بھی جب کوئی احمدی بھی دشمن کی اذیتوں سے محفوظ نہ تھا کراچی سے المصلح نے الفضل کی قائم مقامی کا حق ادا کیا اور احمدیوں کا اپنے آقاسے رابطہ قائم رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا۔
کل من علیھا فان کی خدائی تقدیر غالب آئی اور مسیح محمدی کا یہ عظیم سپوت مسیح پاک کی جماعت کو ایک مضبوط لڑی میں پرو کر اس وقت جہانِ فانی سے راہی ملک عدم ہوا جب یہ خدائی جماعت اپنی بلوغت کو پہنچ چکی تھی۔ خلافت اولیٰ کے عہد کے اختتام کی طرح اس بار بھی الفضل نے اس پیاری جماعت کو خلافت ثالثہ کے دامن میں لائے جانے کا احوال قلم بند کیا اور خوف کو امن میں بدلنے میں اپنے حصہ کا کام باحسن انجام دیا۔
الفضل تو خیر ہے ہی اشاعت و تبلیغ کا اخبار!
اشاعت میں اضافہ کی تحریک فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ سے ’اشاعت و تبلیغ کا اخبار‘کی سند حاصل کرنا الفضل کے لیے باعث اعزاز ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’پچھلے دنوں الفضل اور سن رائز کی تعدادِ اشاعت بڑھ گئی تھی لیکن اب اس میں کمی واقعہ ہو گئی ہے۔ دوستوں کو چاہئے کہ اپنے اپنے ہاں ایسے ایجنٹ مقرر کریں جو سلسلہ کی کتب اور اخبارات فروخت کریں اور خود بھی فائدہ اُٹھائیں۔ تھوڑے ہی عرصہ میں ہمت کر کے الفضل اور سن رائز کی اشاعت کم از کم تین ہزار تک پہنچا دیں۔ ان اخبارات سے سلسلہ کی تبلیغ میں بھی مدد ملتی ہے اور جماعت کی تربیت بھی ہوتی ہے۔ بعض اوقات کوئی غیر احمدی مجھ سے فتویٰ پوچھتے ہیں تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ انہیں مجھ سے پوچھنے کا کس طرح خیال آیا۔ بعد میں خط و کتابت سے معلوم ہوتا ہے اور وہ لکھتے ہیں ہم الفضل یا سن رائز پڑھا کرتے تھے اس سے ہم نے سمجھا کہ ہر معاملہ میں صحیح جواب قادیان سے ہی مل سکتا ہے اس لئے آپ سے پوچھتے ہیں۔ تو یہ چیز جو ہم دنیا کے اندر پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی حقیقی اسلام وہ اخباروں کے ذریعہ سے پیدا ہو سکتا ہے۔ الفضل تو خیر ہے ہی اشاعت و تبلیغ کا اخبار!‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲، مارچ ۱۹۲۹ء۔ الفضل ۲۹؍مارچ ۱۹۲۹ء)
خلافت ثالثہ کے دست و بازو کا کردار
۷۰ءکی دہائی جماعتی ترقی کا ایک سنگ میل بھی ہے۔ خلافت ثالثہ کے آغاز سے ہی نئی سے نئی تحریکات پیش کی جاتی رہیں اور الفضل نے ہر احمدی کو ان تحاریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے پر آمادہ کیا۔ خلیفہ وقت کا منشا لوگوں تک پہنچایا۔ خلافت ثالثہ کی سب سے بڑی تحریک ’’نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم‘‘ کو کہا جاسکتاہے۔ الفضل کے ذریعہ ہی احباب کو مکرر تحریک ہوئی اور انہوں نے افریقہ کے دور دراز مقامات میں جا کر بطور مشنری ڈاکٹرز اور اساتذہ خدمات بجالائیں۔ پھر الفضل حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کے دورہ افریقہ اور دورہ یورپ کی تفصیلی رپورٹس احمدیوں تک پہنچاتا رہا۔ اور احمدی اپنے آقا کی خیریت اور ترقی احمدیت سے آگاہ ہوتے رہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے جہاں الفضل کی اہمیت کو اجاگر فرمایا وہیں الفضل کو خلیفۂ وقت کا نمائندہ اور مرکز کی آواز قرار دیا۔ فرماتے ہیں: ’’سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر گھر میں الفضل پہنچے اورالفضل سے ہر گھر فائدہ اٹھارہا ہو۔ ابھی جماعت کے حالات ایسے ہیں کہ شاید ہر گھر میں الفضل نہیں پہنچ سکتا۔ لیکن جماعت کے حالات ایسے نہیں کہ ہر گھر اس سے فائدہ بھی نہ اٹھا سکے۔ اگر ہر جماعت میں الفضل پہنچ جائے اور الفضل کے مضامین وغیرہ دوستوں کو سنائے جائیں تو ساری جماعت اس سے فائدہ اٹھاسکتی ہے۔ خصوصاًخلیفہ وقت کے خطبات اور مضامین اور درس اور ڈائریاں وغیرہ ضرور سنائی جائیں۔ خصوصاًمیں نے اس لئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے خلیفہ وقت کو امربالمعروف کا مرکزی نقطہ بنایا ہے۔ … ہر جماعت میں کم ازکم ایک پرچہ الفضل کا جانا چاہئے اور اس کی ذمہ داری امراء اضلاع اور ضلع کے مربیان پر ہے اور اس کی تعمیل دومہینے کے اندر اندر ہوجانی چاہئے۔ ورنہ بعض دفعہ تو میں یہ سوچتا ہوں کہ ایسے مربیوں کو جو ان باتوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتے کام سے فارغ کردیا جائے اگر ان لوگوں نے خلیفہ وقت کی آواز جماعت کے ہر فرد کے کان تک نہیں پہنچانی تو اور کون پہنچائے گا اس آواز کو اور اگر وہ آواز جماعت کے کانوں تک نہیں پہنچے گی تو جماعت بحیثیت جماعت متحد ہو کر غلبہ اسلام کے لئے وہ کوشش کیسے کرے گی جس کی طرف اسے بلایا جارہا ہے۔ پس الفضل کی اشاعت کی طرف جماعت کو خاص توجہ دینی چاہئے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو الفضل خریدنا چاہئے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کے کانوں تک وہ آواز پہنچنی چاہئے جو مرکز کی طرف سے اٹھتی ہے۔ ‘‘ (روزنامہ الفضل۲۸؍مارچ۱۹۶۷ء)
۱۹۷۴ء عالم احمدیت کا وہ تاریک سال ہے جب عالم اسلام کے جھوٹے علمبرداروں نے ’غیر مسلم‘ کی سیاسی قدغن سے جماعت کی ترقی میں روڑے اٹکانے کی مذموم چال چلی۔ مخالفین اس امر سے بخوبی آگاہ تھے کہ الفضل جماعت احمدیہ اور خلافت احمدیہ کا حقیقی نمائندہ ہے۔ الفضل سے بغض کا یہ عالم تھا کہ پاکستان کی قومی اسمبلی کی کارروائی میں الفضل کے حوالہ جات بڑھا چڑھا کر پیش کیے جاتے رہے حالانکہ ان میں سے بعض حوالہ جات کا وجود ہی نہ تھا۔
اس دور میں مظالم کی ایک تاریخ رقم کی گئی اور مسلمان کہلانے والے ان نام نہاد لوگو ں نے ایسے مظالم روا رکھے کہ مکہ کے کفار بھی شرما جائیں۔ لوٹ کھسوٹ، قتل عام، جلاؤ گھیراؤ، گھربار، زمینوں اور مساجد پر قبضہ کیا گیا۔ ان تمام مظالم کو جہاں الفضل نے اپنے صفحۂ قرطاس پر سمو لیا۔ وہیں الفضل حضرت خلیفة المسیح الثالث ؒکی بابرکت راہنمائی اور ارشادت احمدیوں کو پہنچاتا رہا۔ دور خلافت ثالثہ میں الفضل نے ہر خوشی و غمی میں احمدیوں کو خلافت کے نظام سے باندھے رکھنے میں سعی بلیغ کی۔
خلافت رابعہ کے دست و بازو کا کردار
خلافت رابعہ کےآغاز سے ہی خلافت احمدیہ کا یہ نمائندہ اخبار دشمن کی آنکھ میں رڑکنے لگا اور اس پر ایک بار پھر قدغن لگائی گئی اور الفضل کو چار سا ل تک جبری بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ الفضل کے بہن بھائی خالد، تشحیذالاذہان، مصباح، انصار اللہ، تحریک جدید اور المصلح خلیفۂ وقت کے خطبات اور پیغامات کو احمدیوں تک پہنچانے پر کمربستہ ہو گئے۔ قیدو بند کی صعوبتوں کے ساتھ مختلف پابندیوں میں جکڑنے کے لیے طرح طرح کی کوشش کی جاتی رہیں۔ حکومت پاکستان نے ایک آرڈیننس کے ذریعہ جماعت احمدیہ پر اسلامی اصطلاحات کے استعمال کی قدغن لگا دی۔ الفضل تیس سال سے زائد عرصے تک دل پر پتھر رکھ کر متبادل الفاظ سے خلیفہ وقت کی ہدایات پہنچانے کی کوشش کرتار ہا۔
خلافت رابعہ میں الفضل کی گود سے الفضل انٹرنیشنل نے جنم لیا اور الفضل انٹرنیشنل نے برطانیہ کی آزاد فضا میں اپنےقیام کی اغراض کو حقیقی رنگ میں پورا کرنا شروع کیا۔
الفضل ربوہ اور الفضل انٹرنیشنل نے دو قالب یک جان ہوتے ہوئے خلافت احمدیہ کے دو بازو بن کر احباب جماعت کی خلافت سے محبت و عقیدت کو اجاگر کیا۔ اور دوسری طرف علمی تسکین کے سفر کو جاری کیے رکھا۔
خلافت رابعہ کے بابرکت عہد کے اختتام پر الفضل ربوہ اور الفضل انٹرنیشنل نے احباب جماعت کو پھرخوف کی حالت سے امن میں بدلنے کے لیے بھرپور مساعی کی۔ جانے والے وجود اورنئے آنے والے وجود سے قلبی تعلق استوار کرنے میں دونوں الفضل ممد ثابت ہوئے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ایڈیٹر الفضل کے نام خط میں تحریر فرمایا: ’’بڑی توجہ سے الفضل کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دن بدن ترقی کررہا ہے۔ … میں دعا میں اس نکتے کو یاد رکھتا ہوں کہ الفضل کی زبان محض بتیس دانتوں میں نہیں بلکہ بتیس دشمن دانتوں میں گھری ہوئی عمدگی سے مافی الضمیر ادا کرنے کی توفیق پا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس کی حفاظت فرمائے۔ چشم بد دور۔ اپنے ساتھیوں کو میری طرف سے محبت بھرا سلام کہیں۔ … قارئین الفضل تک میرا محبت بھرا سلام اور سال نو کی مبارک بھی پہنچا دیں۔ اللہ آپ کے ساتھ ہو۔ ‘‘ (الفضل ۱۸؍جنوری ۱۹۸۹ء صفحہ۱)
خلافت خامسہ کے دست و بازو کا کردار
خلافت خامسہ کے آغاز میں پاکستان میں ایک بار پھر ظلم و تعدی کا بازار گرم ہوا۔ کئی احمدی شہید کیے گئے۔ سینکڑوں احمدی خاندان ایک بار پھر ہجرت کر کے کل عالم میں پھیل گئے۔ اس وقت الفضل نے جدید ذارئع اختیار کرتے ہوئے خلافت احمدیہ کی آواز کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کا بیڑا ایک بار پھر اٹھا لیا۔ حضرت خلیفة المسیح جس ملک میں بھی تشریف لے جاتے الفضل وہاں کے حالات وواقعات پہلے سے بڑھ کر نت نئے طریق پر احباب کو پیش کرنے کی کوشش کرتا رہا۔
لیکن الٰہی سلسلوں کی ترقی ہمیشہ مخالفین کو ناخوش کرتی ہے۔ پاکستان کی فسطائی حکومتوں نے پہلے الفضل انٹرنیشنل پر پابندی لگائی۔ پھر الفضل ربوہ پر بھی مختلف جبری قدغنیں لگائی جاتی رہیں۔ بالآخر الفضل ربوہ ۲۰۱۶ء سے اب تک جبری بندش کا شکار ہے۔ لیکن الفضل تو خدا کا فضل تھا۔ جاری چشمہ کو کون روک سکا ہے۔ اس جبری روک کے بعد الفضل انٹرنیشنل سہ روزہ ہوا اور پھر امسال روزنامہ ہوگیا۔ اس دوران الفضل آن لائن لندن نے بھی پیاسی روحوں کی سیرابی کی۔
امسال الفضل نے ایک اور سنگ میل عبور کیا کہ احمدی بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ’’بچوں کا الفضل‘‘ جاری کیا۔ جس کا ایک بڑا مقصد اردو زبان سے آگاہی اور احمدی بچوں کو خلافت احمدیہ سے جوڑتے ہوئے ان کی تعلیم و تربیت ہے۔
الفضل کی اپنی ویب سائٹ ہے۔ جس کے ذریعہ پل بھر میں خلیفہ وقت کے منہ سے نکلی ہوئی بات، تحریک، پیغام کو فوری دنیا میں پہنچاتاہے۔ صرف گذشتہ سال ہی الفضل انٹرنیشنل کو سوشل میڈیا کے ذریعہ تین کروڑ اکہتر ہزار لوگوں تک پیغام پہنچانے کی توفیق ملی۔ خدا تعالیٰ کا یہ فضل خلافت احمدیہ کا حقیقی دست و بازو بنا ہوا ہے۔
اس کی تازہ مثال کورونا کے وبائی ایام ہیں۔ جب دنیا طرح طرح کے پراگندہ خیالات سے متاثر تھی۔ سوشل میڈیا، ٹی وی پر افراتفری کا عالم تھا۔ تو الفضل خلیفۂ وقت کی آواز کو ہر احمدی تک پہنچانے کی ذمہ داری ادا کرتا رہا۔ خلیفۂ وقت کی کوئی راہنمائی، کوئی تحریک کوئی پیغام ملتا ہےتو اسے فوری لمحہ بھر میں دنیا کے کونے کونے میں موجود احمدیوں تک پہنچا دیا جاتاہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بھی الفضل کی ہر قدم پر راہنمائی فرماتے ہیں۔
اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ کورونا کے وبائی ایام میں الفضل انٹرنیشنل کے شمارہ میں خبرنامہ کے صفحہ پر برطانیہ کی اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے تعلق میں یہ خبر شائع کی گئی تھی کہ رمضان المبارک میں روزے کے دوران کورونا ویکسین لگوانے سے روزہ برقرار رہتا ہے۔ جبکہ جماعت احمدیہ مسلمہ کا مسلک اس کے برعکس ہے۔ مبادا اس خبر سے کوئی غلط فہمی پیدا ہو اس بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فوری اصل جماعتی موقف شائع کروا کر اس کی اصلاح کروائی۔
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز گاہے گاہے الفضل کے مطالعہ کی تحریک فرماتے رہتے ہیں۔ ۲؍ جولائی ۲۰۰۵ء کو حضور نے جامعہ احمدیہ کینیڈا کے طلباء کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا: ’’الفضل پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ ‘‘ (الفضل ۱۸؍جولائی ۲۰۰۵ء)
پھر حضور انورنے واقفین نو کلاس مورخہ ۱۲؍دسمبر ۲۰۱۰ء میں فرمایا:۔’’الفضل اخبار جو ہے اس میں مختلف مضمون لوگ لکھتے ہیں۔ تو اس کی اشاعت بہت کم تھی۔ ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے خطبہ میں کہا کہ لوگ الفضل نہیں پڑھتے کہ اس میں تو بہت سے مضمون آتے ہیں، ہم نے پڑھے ہوئے ہیں، ہمارا اتنا علم ہے۔ جیسے لوگ مضمون لکھتے ہیں اتنا ہمیں علم ہے۔ تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے اس پر لکھا کہ شاید لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ الفضل کوئی ایسی کام کی چیز نہیں ہے، ہمارا علم اس سے زیادہ ہے۔ ان کا شاید علم زیادہ ہوتا ہو لیکن میرا علم تو اتنا زیادہ نہیں میں تو الفضل روزانہ پڑھتا ہوں اور کوئی نہ کوئی نئی بات مجھے پتہ لگ جاتی ہے۔
اور وہ آدمی جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے الہام کیا تھا کہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا۔ ان کو تو علم مل رہا ہے الفضل سے اور بعض جو نام نہاد ہوتے ہیں اپنے آپ کو صرف ظاہر کرنے والے ہم بہت علمی آدمی ہوگئے ہیں، ان کو نہیں ملتا تو نہ ملے۔ اس لئے ہر چیز جو یہاں سنو کسی نہ کسی میں کوئی کام کی بات ہوتی ہے۔ ہر لڑکا جو کہتا ہے کچھ نہ کچھ بات، کام کی بات کر جاتا ہے۔ ‘‘(الفضل۱۸؍جون ۲۰۱۱ء)
۷؍نومبر ۲۰۲۱ء کو نیشنل عاملہ جماعت احمدیہ فن لینڈ کے ساتھ آن لائن ملاقات میں لوگوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب پڑھنے کا شوق پیدا کرنے کے متعلق فرمایا: ’’الفضل میں اقتباسات آتے ہیں جو روزنامہ الفضل میں اور جو انٹرنیشنل الفضل ہے اس میں پہلے صفحہ پہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات آتے ہیں وہی نکال کے دے دیا کریں لوگوں کو تو کچھ نہ کچھ تو کم از کم پتہ لگ جائے گا ناں۔ باقی آج کل رجحان ہی نہیں پڑھنے کا… پڑھنے کا رواج ویسے ہی کم ہو گیا ہے عموماً…۔ ‘‘(سہ روزہ الفضل انٹرنیشنل ۱۹؍نومبر ۲۰۲۱ء)
الفضل انٹرنیشنل کے روزنامہ ہونے پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی پیغام میں انتظامیہ الفضل اور قارئین دونوں کے لیے ڈھیروں ڈھیر دعائیں فرمائیں۔ فرمایا کہ ’’اب یہ اللہ تعالیٰ کی مزید توفیق سے روزنامہ بن رہا ہے تو اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو بھی صحیح معنوں میں اس کو روزانہ جاری رکھنے کی ہمت اور صلاحیت عطا فرمائے اور الفضل کے قارئین کو بھی اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اللہ تعالیٰ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو یہ توفیق بھی دے کہ وہ اس کے خریدار بن سکیں تاکہ اس سے وہ مقصد پورا ہو جس کی خواہش حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس کے اجراء کے وقت کی تھی۔ اللہ تعالیٰ اس رسالہ کو ہماری دینی اور اخلاقی اور روحانی اور علمی ترقی کا باعث بنائے۔ آمین‘‘(روزنامہ الفضل انٹر نیشنل ۲۳؍مارچ ۲۰۲۳ء)
دراصل الفضل حضرت مسیح موعودؑ کا بازو ہے
آخر میں حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ کے ایک مضمون کا حوالہ پیش ہے جس میں آپ نے الفضل کو بدر کا جانشین ٹھہرا کر اسے حضرت مسیح موعودؑ کا ہی بازو متصور کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ
حضرت مسیح موعودؑ فرمایا کرتے تھے کہ ’’الحکم‘‘ اور ’’البدر‘‘ ہمارے دو بازو ہیں۔ مگر افسوس کہ بدر فوت ہو چکا ہے۔ اور الحکم بیمار اور بوڑھا ہو گیا ہے لیکن جس طرح نبی فوت ہو جائے تو اس کا خلیفہ مقرر ہوتا ہے۔ اسی طرح ’’بدر‘‘ کا خلیفہ اور جانشین ’’الفضل‘‘ ہے۔ پس ہمارا فرض ہے کہ بوڑھے اور بیمار ’’الحکم‘‘ کو تندرست اور جوان بنانے کی کوشش کریں۔ اور ’’الفضل‘‘ کو جو بدر کا جانشین ہے وہی پوزیشن دیں جو حضور نے ’’بدر‘‘ کے لئے تجویز فرمائی تھی۔ یعنی اسے حضرت مسیح موعودؑ کا بازو سمجھیں لیکن بازو میں اگر طاقت نہ ہو تو کیسی تکلیف دہ بات ہے۔ اس لئے ہمیں یہ بھی کوشش کرنی چاہیے کہ الفضل حضور کا تندرست بازو ہو اور اس بازو کی تندرستی یہ ہے کہ ہم اسے اعلیٰ سے اعلی مضامین سے طاقت ور بنائیں اور وہ واقعہ میں ایسا ہو جائے کہ صحیح معنوں میں حضور کا بازو کہلا سکے اور ایسی اعلیٰ پوزیشن حاصل کرلے کہ اسے حضرت مسیح موعود کا بازو کہتے ہوئے ہم شرم محسوس نہ کریں…۔
الفضل کو حضرت مسیح موعودؑ کا بازو سمجھ کر اسے مضبوط کرو اور اگر وہ کمزور ہونے لگے تو اپنے خون سے اسے قوی اور طاقت ور بناؤ نیز اسے حضرت مسیح موعودؑ کا لہلہا تا چمن اور سرسبز باغ تصور کر کے اپنی قلموں کے پانی سے اس کی آب پاشی کروکہ یہی مسیح موعود کی دینی لڑائی اور یہی مسیح موعود کی شیطان سے آخری جنگ اور یہی اس کا جہاد ہے اور اس کا نقش حضرت مسیح موعودؑ نے یوں کھینچا ہے۔
سیف کا کام قلم سے ہے دکھایا ہم نے
(الفضل ۱۲؍مئی ۱۹۶۲ء بحوالہ الفضل جوبلی نمبر صفحہ ۶۷)
قادیان، لاہور، ربوہ اور کراچی سے ہوتا ہوا الفضل انٹرنیشنل لندن کے ہفت روزہ، سہ روزہ اور اب روزنامہ ہونے تک کے ایک سو دس سالہ سفر میں الفضل نے زمانہ کی سختیوں کو جھیلتے ہوئے خلافت احمدیہ کے حقیقی دست وبازو اور سلطان نصیر کا کردار ادا کیا۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حضور انور کے منشائے مبارک کے تحت ’’دینی اور اخلاقی اور روحانی اور علمی ترقی‘‘ کا جو موقع الفضل فراہم کر رہا ہے۔ ہم اس سے حقیقی استفادہ کرنے والے ہوں۔ آمین