اور تم خوار ہوے تارک قراں ہو کر
درویش گذشتہ تین ہفتوں سے مسلسل حالت سفر میں ہے۔ سفر کے دوران ہی ایک خبر نظروں سے گزری کہ جزائر طوالو کے برطانیہ میں اعزازی سفیر جناب ڈاکٹر سر افتخار احمد ایاز کو امسال حج کے موقع پر شاہی مہمانوں کی فہرست میں شامل ہونے کی سعادت حاصل رہی۔ سعودی وزارت حج ہر سال چنیدہ مسلمان شخصیات کو سعودی بادشاہ کی طرف سے حج پر مدعو کرتی ہے جن کو شاہی مہمان شمار کیا جاتا ہے۔ ان کے حج کے تمام انتظامات کرنا سعودی حکام کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ عام طور پر مسلم سربراہان حکومت اور ڈپلومیٹ کو یہ اعزاز حاصل ہوتا ہے۔ ڈاکٹر افتخار احمد ایاز ایک عرصہ سے اپنی سماجی اور حقوق انسانیت کے لیے کی جانے والی خدمات کی بدولت ہر سال حکومت برطانیہ سے اعزاز حاصل کرتے ہیں۔ ان کو ’سر‘کا خطاب ملنا بھی ان کی سماجی خدمات کو مملکت برطانیہ کی بادشاہت کی طرف سے حقیقت کا اعتراف ہے۔ امسال پاکستان کے صدر مملکت جناب عارف علوی بھی شاہی مہمانوں کی فہرست میں شامل تھے۔ بہر حال یہ ایک اعزاز کی بات ہے جس خوش نصیب کو بھی یہ اعزاز حاصل ہو قابل مبارک باد ہے۔ اللہ کا خاص انعام ہے۔
لیکن پاکستان کے بعض مذہبی حلقوں کو ڈاکٹر افتخار ایاز صاحب کو حاصل ہونے والا یہ انعام ہضم نہیں ہو سکا۔ وہ مذہبی تنظیمیں جن کی زندگی کا نچوڑ احمدیت کی مخالفت اور احمدیوں کے راستوں میں روکاوٹیں کھڑی کرنا ہے وہ حج کے موقعہ پر کسی احمدی کا شاہی مہمان ہونا کیونکر برداشت کر سکتے تھے۔ اپنے مقصد حیات میں ناکامی پر شرمندہ ہونا کسی طور ممکن نہ تھا ؟ چنانچہ اس نیک اور احسن اقدام پر سعودی ولی عہد اور پاکستان میں سعودی سفیر کو بھجوائے جانےوالے دو احتجاجی مراسلے درویش کی نظر سے گزرے ہیں۔ ممکن ہے اس غلات میںہاتھ پلید کرنے والوں کی تعداد دو سے زائد ہو اور سفر کی وجہ سے راہ گیر لا علم ہو۔
پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا مفتی محمد رویس خان ایوبی نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان آل سعود کو عربی زبان میں احتجاجی مراسلہ ارسال کیا ہے۔ پاکستان شریعت کونسل نام بڑا اور درشن چھوٹا والا معاملہ ہے۔ یہ کوئی سرکاری ادارہ نہیں اور نہ ہی علماء کی طرف سے تسلیم شدہ شرعی کونسل ہے۔ اس کو آپ خود ساختہ کونسل کا نام دے سکتے ہیں۔ اس کالم کو لکھنے سے قبل کونسل کے سیکرٹری اطلاعات عبدالرؤف محمدی سے جو میری ٹیلیفونک گفتگو ہوئی اس کے مطابق اس کونسل کی بنیاد ۱۹۸۹ء میں مولانا فدا الرحمان جو مولانا عبداللہ درخواستی کے صاحبزادے نے رکھی تھی۔ ادارہ کی کوئی ویب سائٹ نہیں۔ اسلامی خدمات فیس بک پر بیان جاری کرنے تک محدود ہیں۔ ۳۴؍سال میں فالوورز کی تعداد ۴۲۷۲؍ سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ رویس صاحب آزاد کشمیر، جنرل سیکرٹری زاہد الراشدی گوجرانوالہ میں اور سیکرڑی اطلاعات عبدالرؤف محمدی اسلام آباد میں اپنے روٹی پانی کے لیے مسجد سنبھالے ہوئے ہیں۔ محمد بن سلمان کے نام احتجاج ۲۲؍جولائی کو جاری کیا۔ اس سے قبل ۲۲؍جون کو مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق بیان جاری ہوا اور ۲۸؍مئی کو سودی نظام کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کیا۔ یہ ہے کل تین ماہ کی کارکردگی۔ اس لیے کونسل کے بڑے نام سے کسی قاری کو متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان شریعت کونسل مردہ گھوڑا ہے جو حسد کی آگ بھڑکا کر سادہ ان پڑھ مسلمانوں کو اپنے زندہ ہونے کے دھوکہ میں مبتلا رکھنا چاہتا ہے۔
احمدی کے شاہی مہمان ہونے پر دوسرا احتجاجی مراسلہ مجلس احرار اسلام ملتان سے ان کے امیر سید محمد کفیل بخاری نے جاری کیا ہے۔ یہ سعودی سفیر متعین اسلام آباد کے نام اردو زبان میں لکھا جانے والا خط ہے۔
اس خط میں مجلس احرار نے اپنے پرانے رونے روئے ہیں۔ناکامی اور نامرادیوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ یہ جماعت اپنے امیر عطاء اللہ شاہ بخاری کے فن خطابت کی بدولت زندہ رہی۔ تعمیر کی بجائے رغنہ کی پالیسی اس کے منشور کا حصہ رہی ہے۔ روز اوّل سے مجلس احرار کا شمار ان جماعتوں میں ہوتا ہے جو دلیل کی بجائے دھونس اور دھاندلی پر یقین رکھتی ہیں اور احمدیت کو مقابلہ اسی راہ کو اپنا کر کرنا چاہتی ہیں۔ اسی لیے اپنے ارادوں میں ناکام ہیں۔ ممتاز ادیب مختار مسعود اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’آواز دوست‘‘میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری سے ملاقات کے احوال میں لکھتے ہیں۔ دو گھنٹے کی طویل ملاقات کے بعد جب شاہ جی نے جانے کی اجازت چاہی تو میں نے عرض کی کہ اگر قیامت کے روز اللہ میاں اپ سے پوچھا کہ اے وہ شخص جس کو میں نے زبان و بیان پر پوری دسترس دے رکھی تھی اپنی زندگی کا حسب پیش کرو تو آپ ناکام تحریکوں کے سوا کیا پیش کریں گے۔ اس پر شاہ جی یکایک خاموش ہو گئے۔
پاکستان شریعت کونسل ہو یا مجلس احرار پاکستان اور دوسری احمدیت مخالف جماعتیں جو ڈاکٹر سر افتخار ایاز کے بطور شاہی مہمان حج کرنے پر معترض ہیں ان کو ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے کہ ایک صدی سے زائد کی مخالفت، روکاوٹوں اور قانون سازیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے احمدیوں کے لیے حج کے راستے آسان کر دیتا ہے۔ ایک احمدی کا حج کے موقع پر شاہی مہمان بننا ایک پیغام امید ہے کہ روکاوٹیں کھڑی کرنے والے ناکام رہیں گے اور خدا تعالیٰ کی تقدیر احمدیوں کے لیے حج کرنے کے راستے آسان کر دے گی۔ تمہاری سو سال کی محنت ان قرآنی تعلیمات کے برخلاف ہے جن میں احکام حج بیان کیے گئے ہیں۔اسی لیے
وہ زمانے میں معزز ہیں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوے تارک قراں ہو کر
٭…٭…٭