الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
اخبار الفضل کا صد سالہ جوبلی سوونیئر
(۱۹۱۳ء۔۲۰۱۳ء)
اخبار’’الفضل‘‘کا آغاز قادیان سے بطور ہفت روزہ کے ہوا اور عزم و ہمّت کی ایک داستان رقم کرتے ہوئے بتدریج روزنامہ کی حیثیت اختیار کی۔ پھر تقسیم ہند کے نتیجے میں ہجرت کے زخم اٹھاکر دوبارہ ربوہ سے جاری رہا اور تعصّب کی آندھیوں میں ہر قسم کی ناجائز پابندیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اور اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہوئے ربوہ کے ساتھ ساتھ لندن سے بھی انٹرنیشنل اخبار کی حیثیت سے شائع ہونے لگا۔ اس اخبار کی سو سالہ تاریخ بلاشبہ ہزاروں منفرد واقعات اور معجزات سے لبریز ہے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر ہر قسم کے نامساعد حالات میں بھی یہ اخبار تمام تر اندرونی مسائل اور بیرونی خطرات سے بخوبی نبرد آزما ہوتے ہوئے کامیابی کی منازل طے کرتا رہا کیونکہ اس کی بنیاد ایک اولوالعزم الٰہی بشارات کے حامل وجود نے رکھی تھی۔ اس کی سرپرستی اور راہنمائی حضرت مسیح موعودؑ کی روحانی مسند پر فائز مقدس وجودوں نے کی تھی اور اس اخبار کی اشاعت کا مقصد حضرت مہدی معہود علیہ السلام کے دعوے اور آپؑ کی تعلیمات کی اشاعت کرتے ہوئے تبلیغ و تربیت کا فرض ادا کرنے کی کوشش کرنا تھا۔
۲۰۱۳ء میں اخبار ’’الفضل‘‘ کی اشاعت کی ایک صدی مکمل ہونے پر روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ نے اخبار کی صدسالہ زرّیں تاریخ کے منتخب پہلوؤں کو یکجا کرکے پونے چارصد صفحات پر مشتمل ایک ضخیم صدسالہ جوبلی سوونیئر شائع کیا ہے۔ آج یہی خاص اشاعت ہمارے زیرنظر ہے۔ دیدہ زیب سرورق کے علاوہ بھی اخبار میں متعدد رنگین صفحات شامل ہیں جن پر تاریخی تصاویر طبع کی گئی ہیں۔ الفضل کے حوالے سے تربیتی اور تاریخی مضامین، نامور شعراء کا منظوم کلام اور بہت سے ایسے احباب کے تاثرات شامل اشاعت ہیں جن سے اخبار الفضل کی اہمیت روشن ہوتی ہے بلکہ یہ احساس جاگزیں ہونے لگتا ہے کہ اگر یہ اخبار جاری نہ ہوتا تو افرادِ جماعت احمدیہ کی تربیت میں ایک ایسا ذاتی اور اجتماعی خلا واقع ہوسکتا تھا جس کا مداوا کسی اَور ذریعے سے شاید ممکن نہ ہوتا۔ خلافت احمدیہ کے عظیم الشان روحانی منصب اور خلیفۂ وقت کے بابرکت وجود کے ساتھ احباب جماعت کے رابطے اور تعلق کو اُستوار کرنے اور مضبوط تر کرنے میں اخبار الفضل اور دیگر احمدی اخبارات و رسائل کی قابل قدر کوششیں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ پس اس خصوصی اشاعت سے اخبار کو جاری کرنے اور پھر جاری رکھتے چلے جانے کی بےلوث مساعی بجالانے والے تمام تر مخلصین کے لیے دل سے محبت بھری دعا بھی اٹھتی ہے۔ خداتعالیٰ اس سرسبز شجر کو مزید باثمر کرے اور خلافت احمدیہ کی راہنمائی میں یہ اُن مقاصد عالیہ کو حاصل کرنے والا ہو جن کے پیش نظر اسے جاری کیا گیا تھا۔ آمین
اخبار’’الفضل‘‘ربوہ کے صد سالہ جوبلی سوونیئر میں شامل اشاعت اہم تاریخی مضامین کا خلاصہ تو مستقبل میں کسی وقت اس کالم کی زینت بنایا جائے گا، تاہم فی الوقت مختلف مضامین اور نظموں میں سے ایک خوبصورت اور ایمان افروز انتخاب ہدیۂ قارئین ہے۔
………٭………٭………٭………
محترم مولانا عطاءالمجیب راشد صاحب امام مسجد فضل لندن تحریر کرتے ہیں کہ ۱۹۶۷ء میں مجھے مری میں دو دیگر دوستوں کے ہمراہ وقف عارضی پر جانے کا موقع ملا تو ایک روز خیال آیا کہ اس علاقے میں پیر صاحب موہڑہ شریف کا مرکز بھی دیکھا جائے۔ چنانچہ ہم تینوں کوہ مری کے نشیب میں پہاڑوں کے دامن میں اتر گئے اور کافی لمبا سفر کرنے کے بعد بالآخر منزل پر پہنچ گئے۔ پیر صاحب فرشی قالین پر گدی پر بیٹھے تھے۔ درمیانی عمر، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کھلے ذہن کے مالک تھے۔ بہت اچھے ماحول میں بات چیت ہوئی۔ ہم نے اپنا تعارف کروایا تو بہت خوش ہوئے اور بتایا کہ وہ احمدیت سے خوب متعارف ہیں۔ یہ ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اس قالین کا (جس پر وہ بیٹھے ہوئے تھے) ایک کونہ اٹھایا تو ہم نے دیکھا کہ اس کے نیچے الفضل اور الفرقان کے تازہ پرچے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ دونوں جرائد اُن کے پاس باقاعدہ آتے ہیں اور وہ بڑے شوق سے ان کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ساتھ ہی کہنے لگے کہ مَیں ان جرائد کو قالین کے نیچے رکھتا ہوں تاکہ باقی لوگوں کی نظر نہ پڑے۔
ایک اور بڑا دلچسپ اور یادگار فائدہ جو مَیں نے ذاتی طور پر الفضل سے حاصل کیا وہ یہ ہے کہ سکول میں اندراج کے وقت میری پیدائش کی تاریخ کا جو اندراج ہوا وہ کسی وجہ سے درست نہیں تھا۔ پیدائش کا سن تو قطعی طور پر معلوم تھا۔ ایک دن مَیں نے خلافت لائبریری جاکر ۱۹۴۳ء کی جلد نکالی اور جولائی سے اخبارات دیکھنے شروع کیے۔ ۱۲؍ستمبر کے اخبار میں مجھے یہ ذکر مل گیا تو بےحد خوشی ہوئی۔ اس میں میرا تاریخی نام مختارالملک (۱۳۶۲ھ)لکھا ہے۔ میرے اباجان (حضرت مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری)نے مجھے بتایا کہ میرا یہ تاریخی نام حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب مرحوم نے نکالا تھا۔ بہرحال الفضل کی برکت سے یہ خوشی کا موقع میسر آیا اور اُس وقت یہ خیال بھی آیا کہ دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے اپنی ولادت کا اعلان خود اپنی آنکھوں سے پڑھا ہو۔
………٭………٭………٭………
محترمہ صاحبزادی امۃالقدوس صاحبہ کے کلام میں سے انتخاب ملاحظہ فرمائیں:
یہ خزانہ ہے جو ہے سارے کا سارا آپ کا
یہ جریدہ اور اس کا ہر شمارہ آپ کا
حضرتِ فضلِ عمر کے عزم و ہمّت کا نشاں
حوصلے بڑھا رہا ہے ہر اشارہ آپ کا
راہ سے بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھلاتا رہا
بحرِ ظلمت میں ہے یہ روشن مینارہ آپ کا
ترجماں اہلِ وفا کا یہ رہا ہر دَور میں
اس نے ہر اِک عہد میں قرضہ اُتارا آپ کا
………٭………٭………٭………
مکرم مجیب الرحمٰن صاحب ایڈووکیٹ رقمطراز ہیں کہ اخبار الفضل ۱۹۱۳ء کے بعد اپنے اجرا سے لے کر آج تک جماعت احمدیہ کی تاریخ کا ایک بنیادی مأخذ سمجھا جاسکتا ہے۔ جماعت کی تاریخ میں پیش آنے والے تمام اہم واقعات، ان کا پس منظر اور تمام ابتلا، جماعت کی استقامت، خلیفہ وقت کی رہنمائی۔ ان تمام امور کی بنیادی معلومات مؤرخ کو صرف الفضل سے حاصل ہوسکتی ہیں۔ خلفائے وقت کے خطبات و خطابات کا بنیادی حوالہ اور سند الفضل ہی ہے۔ قادیان میں ریلوے لائن کب پہنچی، قادیان ریلوے سٹیشن پر بیرونی ممالک سے آنے والے مبلغین کے استقبال کی داستانیں، حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کا دورہ انگلستان سے واپسی پر استقبال کا حال بنیادی طور پر الفضل میں ہی ملے گا۔ خلافتِ ثانیہ کے انتخاب پر پیش آنے والے واقعات، ۱۹۳۰ء کی دہائی میں احرار کی فتنہ سامانیوں کا احوال، انگریز گورنر کی طرف سے احرار کی پشت پناہی کے شواہد بھی الفضل سے ملیں گے۔ یہی حال دیگر دنیاوی معلومات کا ہے۔ چنانچہ مجھے درسی علم حاصل کرنے کا زیادہ موقع نہیں ملا مگر اپنی زندگی کے ہر دَور میں ذہنی طور پر اپنے آپ کو ہمیشہ اپنے ہم نشینوں اور ساتھیوں سے بہتر مقام پر محسوس کیا ہے اور اپنے ساتھیوں کو اس بات کا اقرار کرتے ہوئے پایا ہے۔ چنانچہ بار روم میں میرے حلقۂ احباب میں سب علم دوست بہت اچھا معالعہ رکھتے تھے۔ ایسی ہی ایک نشست میں اسلام اور عصری مسائل پر گفتگو ہوئی تو راجہ ظفرالحق (جو خود بھی اسلامی علوم میں ذوق رکھتے تھے)بےساختہ پوچھنے لگے کہ جتنے مسائل ہماری مجلس میں زیر بحث آئے ہیں ہمیشہ ہم نے عصری مسائل اور اسلام پر تمہاری معلومات کو نت نئی معلومات سے ہم آہنگ پایا ہےآخر یہ تفصیلی مطالعہ کا وقت کہاں سے نکالتے ہو؟ مَیں نے عرض کیا کہ مطالعہ کے وقت اور بھاری بھرکم کتب دیکھنے کا موقع تو نہیں ملتا مگر اخبار الفضل کے باقاعدہ مطالعہ سے یہ باتیں علم میں آتی رہتی ہیں جو حضرت خلیفۃالمسیح کے خطابات میں یا الفضل کے مضامین میں بڑے عام فہم انداز میں مل جاتی ہیں۔ اور حقیقت بھی یہی تھی۔ جماعت میں ہر ذوق اور علم سے تعلق رکھنے والے احباب پائے جاتے ہیں اور وہ اپنا حاصلِ مطالعہ الفضل میں لکھتے رہتے ہیں۔ سائنس کے مضامین، علمِ ہیئت سے تعلق رکھتے ہوں، انسانی نفسیات سے متعلق ہوں، کسی نہ کسی رنگ میں ان پر نئی تحقیقات الفضل میں جگہ پاجاتی ہیں۔
………٭………٭………٭………
مکرم مقصود احمد منیب صاحب کی ایک نظم میں سے انتخاب ذیل میں پیش ہے:
زندگی بخش ہے فضل کی نہر ہے
نُور کی لہر ہے علم کا شہر ہے
ہے یہ جُوئے سعادت رواں دیکھیے
دَجل کی دھوپ میں ماہ ہے مہر ہے
دعوتِ فکر ہے تیری ہر اِک ادا
روشنی ابتدا، روشنی انتہا
تجھ میں ذکرِ خدا کی انوکھی صدا
تجھ میں عشقِ محمدؐ کا ہے معجزہ
عاجزانہ دعائیں ہماری ہیں یہ
فیض کی تیری لہریں یہ چلتی رہیں
عمر سو سال اب جب کہ تیری ہوئی
فضل کی تیری نہریں یہ بہتی رہیں
………٭………٭………٭………
مکرم پروفیسر ڈاکٹر محمد شریف خان صاحب (امریکہ) تحریر کرتے ہیں کہ بچپن میں ابّاجی ہمیں الفضل سے کچھ سناتے اور کچھ ہم سے پڑھواتے، پھر ایسی عادت ہوئی کہ ہم مسجد کی الماری میں پڑے ہوئے الفضل کے پرانے شماروں سے بھی استفادہ کرنے لگے۔ ۱۹۵۳ء کے فسادات کے دوران الفضل پر پابندی لگی تو بھی مسجد کی الماری میں رکھے پرانے الفضل روحانی مائدہ کا کام دیتے رہے۔ چند مہینوں کے بعد بندش ختم ہوئی تو اُنہی دنوں حضرت مصلح موعودؓ کے وقف زندگی کے موضوع پر تین چار خطبات الفضل میں شائع ہوئے۔ یہ خطبے پڑھ کر ابّاجی کئی دن بےتاب سے رہے، ایسا لگتا تھا کہ آپ کے ذہن پر کچھ بوجھ ہے۔ آخر ایک دن آپ نے مجھے بلاکر فرمایا کہ تم نے حضرت صاحب کے خطبات سنے اور پڑھے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ تم اپنی زندگی وقف کردو۔ پہلے تمہارا بھائی منیر وقفِ زندگی تھا جو شہید ہوگیا۔ تمہارے دونوں بڑے بھائی اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہیں۔ تم ہو جو ابھی پڑھ رہے ہو۔ میرا ’ہاں‘ میں جواب سن کر بہت خوش ہوئے اور حضرت صاحب کی خدمت میں منظوری کے لیے عریضہ لکھا۔ جب منظوری آئی تو مسجد میں مٹھائی تقسیم کی اور بار بار خداتعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ پھر مجھ سے وصیت کروائی جس کا اعلان بھی الفضل میں شائع ہوا۔ پھر مَیں بغرض تعلیم ربوہ اور لاہور، جہاں بھی رہا، میری تربیت اور راہنمائی میں الفضل نے بڑا کردار ادا کیا۔ ہمیشہ میرے پیش نظر رہا کہ مَیں وقف زندگی ہوں اور ایک فرشتہ میری نگرانی کررہا ہے۔ وہ فرشتہ اخبار الفضل تھا۔ بی ایس سی میں اسلامیہ کالج سے میڈل اور رول آف آنر ملا اور ایم ایس سی میں پنجاب یونیورسٹی میں اوّل آکر طلائی تمغہ ملا۔ پھر لمبی سروس کی اور ۱۹۹۱ء میں اردو سائنس بورڈ کے چیئرمین اشفاق احمد خان صاحب نے مجھ سے رابطہ کیا اور اُن کے کہنے پر ایک تحقیقی کتاب کا مسوّدہ لکھ کر اُنہیں بھجوادیا۔ بعدازاں اُن سے لاہور جاکر ملا تو میری کتاب کے سائز کی وضاحت کرتے ہوئے خان صاحب نے اپنی میز کی دراز کھولی اور اس میں سے الفضل کا تازہ شمارہ نکال کر میز پر پھیلادیا۔ پھر اسے دوہرا کرکے کہا کہ آپ کے اخبار الفضل کے دوہرے سائز کے مطابق ہم کتاب چھاپیں گے۔
………٭………٭………٭………
خصوصی اشاعت میں شامل مکرم لئیق احمد عابد صاحب کی ایک نظم میں سے انتخاب درج ذیل ہے:
دوستو! الفضل تو مجموعۂ انوار ہے
جس جگہ پہنچا اندھیرا دُور سارا ہوگیا
چلچلاتی دھوپ تھی ننگا بدن جلنے لگا
پیرہن بھی مل گیا اور سر پہ سایہ ہوگیا
تشنہ روحوں کو ملے گا شربتِ وصل و بقا
جو ہوا تھا بند پھر جاری وہ دھارا ہوگیا
رات لمبی تھی مگر فضلِ خدا سے کٹ گئی
ظلمتیں جاتی رہیں ہر سُو اُجالا ہوگیا
………٭………٭………٭………
مکرم محمد امان اللہ صاحب رقمطراز ہیں کہ میرے والد محترم مولوی غوث محمد صاحب مقامی سکول میں استاد تھے اور گاؤں کے خطیب بھی تھے۔ آپ کا تعلق مخالفِ احمدیت مذہبی اور علمی خاندان سے تھا۔ غیراحمدی علماء آپ کے پاس آکر ٹھہرا کرتے تھے۔ ۱۹۵۳ء کے ہنگاموں میں کچھ حکومت اور کچھ اپنی کارکردگی کا ذکر کرتے۔ میری عمر چھ سات سال کی تھی اور مَیں اُن کی باتیں دلچسپی سے سنا کرتا تھا۔ گاؤں کے ایک بزرگ عبدالعزیز صاحب احمدی ہوچکے تھے اور ہماری مسجد کے سامنے اُن کی چھوٹی سی دکان تھی۔ وہ خود تو اَن پڑھ تھے مگر الفضل اخبار منگوایا کرتے تھے۔ ایک دن جمعہ کی نماز پڑھانے کے بعد والد صاحب مسجد سے نکلے اور اُن کی دکان پر کھڑے ہوگئے۔ الفضل کا ایک پرچہ سامنے پڑا تھا۔ اُسے اٹھاکر پڑھنے لگے۔ سورۃالانعام کی آیت ۷۰ کی تشریح ایک مضمون میں کی گئی تھی جس کا ترجمہ ہے کہ جو بھی اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو انعام یافتہ لوگوں کے ساتھ ہوں گے یعنی نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین میں سے۔ اور یہ بہت ہی اچھے ساتھی ہیں۔
یہ مضمون پڑھا تو چہرے کا رنگ بدل گیا، بات روشن ہوگئی،گہری سوچ میں ڈوبے اپنے ایک ساتھی استاد اور دوست سلطان احمد صاحب سے اس کا ذکر کیا اور غور کرنے کو کہا۔ بعدازاں دونوں نے مشورہ کیا کہ بات تو صحیح ہے۔ پھر دونوں اسی سال ۱۹۵۸ء کے جلسہ سالانہ پر ربوہ چلے گئے۔ حضرت مصلح موعودؓ کی تقاریر سنیں تو حق واضح ہوگیا اور دونوں دوستوں نے بیعت کرلی۔ واپس آکر والد صاحب نے اپنے مقتدیوں سے کہا کہ مَیں تو احمدی ہوگیا ہوں، اپنے لیے امام ڈھونڈ لو۔ انہوں نے علماءکو بلاکر مناظرہ بھی کروایا مگر آپ نے استقامت دکھائی اور اس طرح الفضل کے ذریعے احمدیت کی برکت ہمارے خاندان کو نصیب ہوئی۔
………٭………٭………٭………
مکرم میر انجم پرویز صاحب کی ایک نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:
طےکرکے سفر لمبے پہنچ جاتا ہے گھر گھر
دامن میں لیے علم و معارف کے یہ گوہر
کرتا ہے رسا ذہن کو اور دل کو منوّر
آوارہ خرد کے لیے کیا اچھا ہے رہبر!
الفضل میں قرآن کی آیات کی تعلیم
اخلاقِ نبیؐ اور احادیث کی تفہیم
اور مہدیٔ دوراں کے خزائن بھی ہوں تقسیم
اخلاص و وفائے صلحاء کی بھی ہو تعمیم
اِس باغِ جناں میں سدا حق کی چلے تسنیم
الفضل میں انوارِ خلافت کے نشاں بھی
الفضل خلافت کا ہے بازو بھی، زباں بھی
ہر حکم کا ناقل بھی ہے، پیغام رساں بھی
خطبات و خطابات کا، دوروں کا بیاں بھی
احوال کلاسوں کا بھی، جلسوں کا سماں بھی
اس جیسا خلافت کا وفادار نہیں ہے
الفضل سے اچھا کوئی اخبار نہیں ہے
………٭………٭………٭………
مکرم ساجد منور صاحب مربی سلسلہ بیان کرتے ہیں کہ ۲۰۰۱ء میں خاکسار کی ڈیوٹی گوجرانوالہ میں تھی۔ وہاں ایک میڈیکل کیمپ کے دوران اڑتالیس سالہ جاوید صاحب ملے۔ جماعتی تعارف پر بات ہوئی تو چند ملاقاتوں کے بعد انہوں نے احمدیت میں داخل ہونے کی پُرزور خواہش کی۔ مَیں نے حیرانی سے پوچھا کہ آخر اتنی جلدی کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ طالب علمی کے دوران مَیں ایک احمدی دوست کی اخبار الفضل پڑھا کرتا تھا اور کئی سال پڑھتا رہا اس لیے آپ کی باتیں مجھے نئی نہیں لگیں۔ اپنی عمر کو ناپائیدار سمجھتے ہوئے اب مَیں اس پیغام کو جلد قبول کرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ قبول احمدیت کے بعد وہ الفضل اور دیگر جرائد اپنے گھر لے جاتے، بعض کی جلدیں بھی کرواتے اور اپنے دوستوں کو پڑھنے کے لیے دیتے۔ مالی تحریکات میں حسب استطاعت ضرور شامل ہوتے۔ اور باوجود اس کے کہ وہ ایک ٹانگ سے محروم تھے، بیساکھی کے سہارے پانچ چھ کلومیٹر دُور مسجد میں جاکر نماز جمعہ ادا کرتے اور بچوں کو بھی ساتھ لے کر جاتے۔ مخالفت کے باوجود بہت استقامت کا مظاہرہ کیا۔
………٭………٭………٭………
مکرم مبارک احمد عابد صاحب کی خوبصورت نظم بعنوان ’’مَیں ہوں الفضل‘‘ میں سے انتخاب پیش ہے:
نورانی ہاتھوں کے کنگن میرا سر آغاز
فضلِ عمر کی سوچ نے دی مجھ کو پہلی پرواز
کتنی فصیلیں، دیواریں رستے میں بنی ہیں روک
ایک صدی سے گونج رہی ہوں مَیں نادر آواز
میرے سر پر برگد سایہ میرا ایک امام
میری پیشانی کی زینت اس کا مقدّس نام
مہدیٔ دوراں کی تحریریں میرے سر کا تاج
میرا اثاثہ نبیؐ کے فرماں ربّ کا پاک کلام
یہی تو اِک اعزاز ہے میرا جس پر مَیں مسرور
نُورِ خلافت سے میرا ہر صفحہ ہے پُرنُور
میری ادارت اور عملے پر اُس کی دعائے خاص
رنج و محن سے درد و الم سے مجھ کو رکھے دُور
………٭………٭………٭………
مکرم حنیف احمد محمود صاحب نے تربیت اور تبلیغ کے حوالے سے الفضل کی خدمات پر ایک تفصیلی مضمون قلمبند کیا ہے۔ اس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک صاحب نے اپنے احمدی ہونے سے قبل اپنے ایک احمدی دوست کےنام خط میں لکھا: ’’الفضل اخبار نے میرے دل میں ایک خاص تبدیلی پیدا کردی ہے خاص کر خلیفہ صاحب کے خطبات بہت مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔ ان سادے مگر مسحور کردینے والے خطبات کے بغور مطالعہ کے بعد زنگ آلود دلوں کی تسخیر یقینی اور لازمی امر ہے۔…‘‘ (الفضل۲۴؍مئی۱۹۳۶ء)
مکرم فضل الرحمٰن بسمل صاحب بیان کرتے ہیں کہ موضع سالم میں ایک دوست جو اُس وقت احمدی نہیں تھے بڑے شوق سے الفضل کا مطالعہ کرتے تھے۔ ایک دن حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا مضمون تمباکونوشی کے خلاف شائع ہوا تو اسے پڑھ کر وہ مجھے کہنے لگے کہ اگر تم یہ مضمون پڑھ کر بھی تمباکونوشی ترک نہ کرو تو تمہارے اور ہمارے ایمانوں میں کیا فرق ہے؟ یہ بات تیر کی طرح میرے کلیجے میں لگی۔ مَیں نے بےساختہ کہا کہ اسی وقت سے مَیں اس بدعادت کو ترک کرتا ہوں۔ اس کے بعد اگرچہ دو ہفتوں تک مجھے سخت تکلیف رہی مگر مَیں نے اس عادت بد سے نجات پائی۔ ورنہ اب تک ہزاروں روپے اس فضول کام میں خرچ کرچکا ہوتا اور صحت بھی برباد ہوجاتی۔
چودھری عبدالقادر صاحب آف سجووال روزانہ اپنے غیرازجماعت دوست چودھری نور محمد صاحب کو الفضل لاکر دیتے لیکن وہ مخالفت کی وجہ سے بغیر دیکھے اپنی اہلیہ کو یہ کہہ کر دے دیتے کہ چولہے میں جلا ڈالو۔ ایک دن اچانک اُن کی نظر اخبار میں درج لفظ ’’محمدؐ‘‘ پر پڑی تو تھوڑا سا اخبار پڑھا جہاں یہ شعر درج تھا:
وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نُور سارا
نام اُس کا ہے محمدؐ دلبر مرا یہی ہے
اس شعر نے اُن کے دل کی کایا ہی پلٹ دی۔ اپنی اہلیہ سے پوچھا کہ وہ اخبار جو مَیں تمہیں دیتا رہا جلا دیے ہیں؟ جواب نفی میںملا تو منگواکر پڑھے۔ دل حضرت مسیح موعودؑ کی تحریروں سے دھل گیا اور بیعت کرلی۔
الفضل کے ذریعے ایسی خلافِ عقل باتوں کی بھی فوراً تصحیح کی جاتی رہی ہے جو کسی مضمون نگار نے بیان کردی ہوں مثلاً ایک مضمون حضرت عمرؓ کی سادگی پر شائع ہوا جس میں یہ لکھا گیا تھا کہ حضرت عمرؓ کے کپڑوں پر بارہ پیوند ہوتے تھے۔ اس پر حضرت مصلح موعودؓ کی ایک تحریر بعنوان ’’ہمیشہ اصولی نیکیوں کو پیش کرنا چاہیے‘‘ کے عنوان سے الفضل میں شائع ہوئی جس میں حضورؓ نے فرمایا کہ ایک دفعہ کے متعلق تو یہ تسلیم کیا جاسکتا ہے لیکن بارہ پیوند ہوتے تھے کہ معنی تو یہ ہیں کہ جب بھی وہ کوئی کپڑا پہنتے تھے اس میں قینچی سے بارہ موریاں کرکے بارہ پیوند لگالیتے تھے۔ پھر بارہ پیوند لگانے کوئی ذاتی خوبی نہیں کہ اسے بیان کیا جائے۔ (خطباتِ شوریٰ جلد۲ صفحہ۲۱۷)
ایک موقع پر ایک احراری نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں لکھا کہ مَیں نے ایک لائبریری سے لے کر الفضل باقاعدہ پڑھنا شروع کیا۔ خدا کی قسم کھاکر مَیں کہتا ہوں اگر کوئی احراری آپ کے تین خطبے پڑھ لے تو وہ احراری نہیں رہ سکتا۔ (الفضل۲۲؍اکتوبر۱۹۴۲ء)
جناب لالہ رام چندمنچندہ ایڈووکیٹ نے ایڈیٹر الفضل کو لکھا: ’’اگر استقلال کے ساتھ اس (الفضل) کو جاری رکھیں تو آج سے تیس سال بعد کئی ہندو گھرانوں میں پیغمبر صاحب کی برسی منائی جائے گی اور جو کام مسلم بادشاہ ہندوؤں سے نہیں کراسکے وہ آپ کراسکیں گے۔ ملک میں امن ہوگا، خوشحالی ہوگی، ترقی اور آزادی ہوگی اور ہندومسلم باوجود مذہبی اختلاف کے بھائیوں کی طرح رہیں گے۔‘‘ (الفضل۱۱؍جون۱۹۲۹ء)
اخبار مشرق نے اپنی ایک اشاعت میں لکھا: ’’الفضل قادیان یہ پرچہ سہ روزہ قادیان سے نکلتا ہے اور سلسلہ احمدیہ کا آرگن ہے۔ آجکل مسلمانانِ ہند کے متعلق اس کا نقطہ خیال بہت صحیح ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ہر انجمن اسلامیہ اور ہر مسجد میں اس کی رسائی ہو۔ عقائد سے کوئی واسطہ نہ رکھو، نہ ان کو پڑھو، صرف اتحاد بین المسلمین کے مسئلہ کو دیکھو کہ وہ کیا کہتا ہے۔‘‘ (الفضل۲؍ستمبر۱۹۲۷ء)
………٭………٭………٭………
مکرم پروفیسر سراج الحق قریشی صاحب کی نظم میں سے انتخاب ملاحظہ فرمائیں:
ہر احمدی کی آنکھ کا تارا ہے الفضل
دلکش ہے، دلپذیر ہے پیارا ہے الفضل
یہ مصلح موعود کا ہے زندہ شاہکار
ان کے حسین دل کا اِک پارہ ہے الفضل
یہ زندہ ترجماں ہے خلافت کے نُور کا
کیا خوش نصیب آج ہمارا ہے الفضل
پھیلا رہا ہے روشنی یہ شرق و غرب میں
ظلمت میں نُورِ حق کا منارہ ہے الفضل
یہ علم و معرفت کا ہے روحانی مائدہ
روحانیت کے فیض کا دھارا ہے الفضل
مُردہ دلوں کو دیتا ہے یہ اِک نئی حیات
ان کا سکونِ قلب، سہارا ہے الفضل
………٭………٭………٭………
مکرم سیّد شمشاد احمد ناصر صاحب مبلغ سلسلہ امریکہ نے اپنے مضمون میں محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ کے تأثرات تحریر کیے ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ میری زندگی میں سب سے اہم موڑ الفضل ہی سے آیا۔ ہمارے گھر میں الفضل بلاناغہ آتا تھا جسے مَیں روزانہ پڑھ کر نکلتی تھی۔ یہ ۱۹۶۴ء کی بات ہے کہ اس میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کا اشتہار ’ضرورت برائے لیڈی ڈاکٹر فضل عمر ہسپتال‘ پڑھا جبکہ مَیں اُس وقت یوکے جانے کی تیاری مکمل کرچکی تھی، خاکسارہ کو انگلینڈ کا ایمپلائمنٹ واؤچر اور ٹکٹ مل چکا تھا۔ اس کے باوجود درخواست بھیجی جو منظور ہوئی اور یوں مجھے ربوہ کی پہلی لیڈی ڈاکٹر بننے کا شرف حاصل ہوا۔ پھر بطور شاعرہ بھی الفضل ہی میری پہچان ہے۔ ایک دفعہ میرے میاں ملک منیر صاحب نے مجھے بتایا کہ وہ جب پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے اکنامکس کررہے تھے تو اُن کے ایک استاد ڈاکٹر عباس صاحب (ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ) نے کلاس کو بتایا کہ مَیں شیعہ مسلک سے ہوں لیکن الفضل روزانہ پڑھتا ہوں اور مَیں نے الفضل باقاعدہ لگوایا ہوا ہے۔ اس میں جو دینی معلومات مجھے ملتی ہیں وہ اَور کہیں نظر نہیں آتیں۔ یہ دینی معلومات کا بہترین ذریعہ ہے۔
………٭………٭………٭………
مکرم بشارت محمود طاہر صاحب کی نظم میں سے انتخاب ملاحظہ فرمائیں:
الفضل اور رحمتوں کے دار تُو زندہ رہے
سچ کے اور سچائی کے کردار تُو زندہ رہے
سیّدی محمود کے افکار تُو زندہ رہے
کوششیں دشمن کی ہوں بےکار تُو زندہ رہے
حادثے دنیا کے تجھ کو نہ گرا پائیں کبھی
حق کی اور سچائی کی دیوار تُو زندہ رہے
اے اُجالوں کی کرن اے صبح نَو کے آفتاب
اے نویدِ صبح کے آثار تُو زندہ رہے
اے دلوں کو حق کی جانب پھیرنے والے سفیر
ظلمتوں سے برسرِ پیکار تُو زندہ رہے
تُو عجب تیری محبت کی کہانی بھی عجیب
سیف کے آگے قلم کے وار تُو زندہ رہے
………٭………٭………٭………
الفضل کے قدیم کارکن مکرم گلزار احمد طاہر ہاشمی صاحب ۱۹۴۸ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۶۵ء میں الفضل میں بطور کلرک ملازمت اختیار کی۔ بعدازاں بطور مینیجر بھی چار سال خدمت کی سعادت ملی۔ اُن کی بیان کردہ چند روایات محمد رئیس طاہر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہیں۔
مکرم ہاشمی صاحب بیان کرتے ہیں کہ ۱۹۷۴ء کے ابتلا کے دوران ایک روز بعض لوگ پولیس کے ہمراہ بس میں سوار ہوکر دفتر الفضل پہنچے اور دفتر کو گھیر لیا۔ محترم گیانی عباداللہ صاحب دفتر میں ہی رہا کرتے تھے۔ انہوں نے مجھے فون کیا کہ فوراً دفتر آجاؤ۔ مَیں روانہ ہوا تو ڈیوٹی پر موجود خدام نے راستے میں روک لیا پھر میری شناخت کے بعد مجھے جانے دیا۔ دفتر پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ لوگ الفضل پر بعض پابندیاں لگانے کا حکم لے کر آئے تھے۔ چنانچہ اس وقت ایک تحریر لکھوائی گئی جو محترم مسعود احمد خان دہلوی صاحب نے تحریر کی اور خاکسار نے دستخط کیے۔ ان پابندیوں کی وجہ سے روزانہ خاکسار الفضل کی کاپی انفارمیشن آفیسر سرگودھا کو دکھانے کےلیے وہاں لے کر جاتا۔ وہ خود کاپی دیکھتا اور نشان دہی کردیتا۔ چنانچہ وہ لائن شائع نہ کی جاتی اور جگہ خالی چھوڑ دی جاتی۔ یہ پابندی قریباً تین ماہ تک چلتی رہی۔ ایک دن اُس انفارمیشن آفیسر نے مکرم یوسف سہیل شوق صاحب کے بارے میں پوچھا کہ وہ کتنی تنخواہ لیتے ہیں؟ اُس وقت اُن کو تین سو روپے ماہانہ الاؤنس ملتا تھا۔ مَیں نے بتایا تو وہ حیران ہوکر کہنے لگے کہ یہ میرا کلاس فیلو ہے اور بہت ذہین اور قابل آدمی ہے لیکن اس کو اجرت بہت معمولی مل رہی ہے۔ وہ کافی حیرانی کا اظہار کرتا رہا۔
………٭………٭………٭………
مکرم اطہر حفیظ فراز صاحب کی ایک نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:
خدا کی پھر عنایت ہے، سہارے الفضل کے ہیں
یہاں سو سال پر پھیلے شمارے الفضل کے ہیں
عجب مسحور کُن کالم، عدو بھی اب تو کہتے ہیں
مخالف ہیں مگر عاشق تمہارے الفضل کے ہیں
ہر اِک صفحے پہ اُلفت ہے، محبت ہے، عنایت ہے
ورق کتنے ہی نظروں سے گزارے الفضل کے ہیں
یہ بحرِ علم ہے، اس کی تہوں تک کون جائے گا
زمانے نے ابھی دیکھے کنارے الفضل کے ہیں
دعا دل سے نکلتی ہے، جزائے خیر دے اُن کو
جو مصروفِ اشاعت ہیں، جو سارے الفضل کے ہیں
………٭………٭………٭………
مکرم فضیل عیاض احمد صاحب نے اپنے مضمون میں سیرۃالنبیﷺ کے حوالے سے اخبار الفضل کی کاوشوں کو بیان کیا ہے۔ آپ نے اپنے مضمون میں سیرت کے حوالے سے شائع ہونے والے احمدیوں کے مضامین کے علاوہ غیراحمدی مسلمانوں اور بعض غیرمسلموں کے مضامین کا بھی ذکر کیا ہے جنہوں نے احمدیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر آنحضورﷺ کی ذات گرامی پر ہونے والے حملوں کا دفاع کیا۔ مضمون میں مولانا ابوالکلام آزاد کا حضرت مسیح موعودؑ کے لیے یہ اعتراف بھی شامل ہے کہ ’’ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جاوے تاکہ وہ مہتم بالشان تحریک جس نے ہمارے دشمنوں کو عرصہ تک پست اورپامال بنائے رکھا آئندہ بھی جاری رہے۔ … مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گرانبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہوکر اسلام کی طرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یادگار چھوڑا جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایتِ اسلام کا جذبہ ان کے شعارِ قومی کا عنوان نظر آئے، قائم رہے گا۔‘‘ (اخبار ملّت لاہور ۷؍جنوری۱۹۱۱ء)
اسی طرح صادق الاخبار ریواڑی نے لکھا کہ ’’مرزا صاحب نے اپنی پُرزور تقریروں اور شاندار تصانیف سے مخالفینِ اسلام کو اُن کے لچر اعتراضات کے دندان شکن جواب کے لیے ہمیشہ ساکت کردیا ہے۔ اور کر دکھایا ہے کہ حق حق ہی ہے۔ اور واقعی مرزا صاحب حق حمایتِ اسلام کا کماحقّہٗ ادا کرکے خدمتِ دینِ اسلام میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔‘‘ (بحوالہ بدر ۲۰؍اگست۱۹۰۸ء)
اس مضمون میں ایک مضمون ’’میدے کی روٹی اور محبت کے آنسو‘‘ کے اقتباسات بھی پیش کیے گئے ہیں جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے قلم سے نکلا اور آپؓ کے قلمی نام ’’حامد محمود‘‘ سے ۸؍نومبر۱۹۳۱ء کو الفضل اخبار کی زینت بنا۔ اپنے عنوان کی طرح یہ مضمون بھی بےحد خوبصورت اور اچھوتا ہے۔
………٭………٭………٭………
مکرم مبارک احمد ظفر صاحب کی الفضل کے حوالے سے کہی گئی نظم میں سے انتخاب پیش ہے:
بہت سے مائدوں پر مشتمل ہے
خدا کے فضل کا یہ میٹھا پھل ہے
حسیں شاہکار ہے اس دَور کا اِک
یہ وہ اخبار ہے جو بےبدل ہے
کہیں خبریں کہیں خطبے ہوں اس میں
کہیں مضمون تو ملتی غزل ہے
گرے بجلی، اگر طوفان آئے
بفضل اللہ یہ جاتا سنبھل ہے
اسے سنبھال کر رکھو پیارو!
یہ اِک اخبار بھی اور اِک سجل ہے
رہے تا حشر یہ الفضل جاری
کھٹکتا دشمنوں کو آجکل ہے
………٭………٭………٭………
مکرم ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ والد محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب مؤرخ احمدیت کا طریق تھا کہ صبح دفتر میں جانے سے قبل لازماً الفضل کو سونگھتے (یہ اصطلاح وہ ایک نظر ڈالنے کے لیے استعمال کیا کرتے تھے)۔ الفضل کے شماروں کو سنبھالتے، خود اپنے ہاتھوں سے ان کی جلدبندی کرتے اور ترتیب وار اپنی لائبریری کی زینت بناتے۔ انہوں نے بارہا محترم مسعود احمد دہلوی صاحب مرحوم ایڈیٹر الفضل کو فرمایا کہ آپ نے جس طرح تاریخ کو الفضل میں محفوظ کیا ہے، حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ ایڈیٹر الحکم اور حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانیؓ کے بعد اَور کسی نے نہیں کیا۔ مَیں الفضل میں دی گئی تفصیلات کو ذرا سی کتربیونت کے بعد قریباً من و عن ’تاریخ احمدیت‘ میں درج کردیتا ہوں۔
خاکسار کو بھی مجالس خدام الاحمدیہ اور انصاراللہ کی دو دو جلدیں مرتّب کرنے کا موقع ملا ہے۔ خاکسار یہ بات پوری ذمہ داری کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ جماعتی اور تنظیمی تاریخ شاید کبھی بھی مکمل نہ ہوسکتی اگر الفضل نہ ہوتا۔
ایک وقت تھا کہ والد محترم تن تنہا تاریخ احمدیت مرتب کرتے اور علمی مضامین لکھنے کے علاوہ خلیفہ وقت کے ارشاد کی تعمیل میں حوالے نکالنے کی ذمہ داری بھی ادا کرتے۔ اُس وقت اُن کے پاس کوئی کارکن موجود نہیں تھا اور ربوہ میں فوٹوسٹیٹ مشین بھی دستیاب نہیں تھی۔ حوالے ہاتھ سے ہی نقل کرنا پڑتے چنانچہ علمی کاموں میں اُن کی معاونت کی سعادت مجھے حاصل رہی جس سے بہت فائدہ ہوا۔ الفضل نے اپنے قارئین کا دینی معیار تو بڑھایا ہی لیکن علمی اور ادبی معیار بھی بہت بڑھایا۔
………٭………٭………٭………
خصوصی اشاعت کی زینت مکرم ابن کریم صاحب کی ایک نظم میں سے انتخاب ملاحظہ فرمائیں:
ہر بات تیری دل میں اترتی رہی ہمیش
الفضل تیری منزلت بڑھتی رہی ہمیش
قرآن کا ہو علم کہ اُسوہ رسول کا
ہر تربیت کی بات سے سجتی رہی ہمیش
خطبہ امامِ وقت کا، مہدی کی بات ہو
تیری جبینِ ناز سنورتی رہی ہمیش
علمی حکایتیں ہیں اور دیں کی روایتیں
بس پاک صاف رستے پہ چلتی رہی ہمیش
پھونکوں سے یہ چراغ بجھیں گے نہ حشر تک
یہ شمع آندھیوں میں بھی جلتی رہی ہمیش
سالار پہلا حضرتِ فضلِ عمر ہی ہیں
جس کے قلم کی تیغ تو چلتی رہی ہمیش
………٭………٭………٭………
٭…مکرمہ ر۔نعمان صاحبہ رقمطراز ہیں کہ میرے والد غیرازجماعت اور احمدیت کے شدید مخالف ہیں۔ لیکن ننھیال میں سب احمدی ہیں۔ بچپن میں جب مَیں اپنی نانی امی کے گھر جاتی تھی تو وہ بڑے پیار سے الفضل ہمارے سامنے رکھ دیتی تھیں اور کہتی تھیں کہ احمدیت سچی ہے۔ اور صرف الفضل کی بدولت پھر کسی دلیل یا کتاب پڑھنے کی ضرورت نہ رہی
صاف دل کو کثرتِ اعجاز کی حاجت نہیں
اِک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوفِ کردگار
………٭………٭………٭………
٭… مکرمہ عاصمہ اکرام صاحبہ لکھتی ہیں کہ الفضل میں ہر قسم کے علوم اور معلومات ملتی ہیں۔ ۲۰۱۲ء کے ایک الفضل میں ایک حدیث پڑھنے کو ملی کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر رات کو سونے سے قبل قرآن کریم کی ڈیڑھ صد آیات تلاوت کی جائیں تو خداتعالیٰ اس شخص کو حفّاظ قرآن میں لکھ لیتا ہے۔ چنانچہ اس پیاری حدیث کو اپنا معمول بنالیا تو کئی سورتیں جو بھول گئی تھیں وہ بھی یاد آنے لگیں اور مزید بھی یاد کرنے کی توفیق پائی۔
………٭………٭………٭………
یہ انتخاب الفضل کے صدسالہ جوبلی سوونیئر کے ابتدائی قریباً ایک صد صفحات میں سے پیش کیا گیا ہے۔ قارئین کو اندازہ ہوسکتا ہے کہ بلاشبہ یہ خصوصی اشاعت ایک باثمر باغیچے کی مانند ہے جس میں خلفائے کرام کی بصیرت افروز راہنمائی کی داستانیں، بےشمار دلچسپ واقعات، ایمان افروز روایات، تاریخی اہمیت کے حامل مضامین، خوبصورت منظوم کلام، بہت سے خدّام دین کا ذکرخیر اور الفضل کی اشاعت کے پس منظر میں کی جانے والی ایک سو سالہ قربانیوں کی روح پرور جھلکیاں پیش کی گئی ہیں۔ ان مضامین کا بیان ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کے کالم میں مستقبل میں کسی وقت پیش کیا جاتا رہے گا۔ ان شاءاللہ۔ تاہم یہ خصوصی اشاعت الفضل ربوہ کی ویب سائٹ پر موجود ہے اور دلچسپی رکھنے والے اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔
………٭………٭………٭………