الفضل قادیان اور ربوہ۔ قانونی قدغنوں، مقدمات اور مخالفین کے منفی پراپیگنڈا کی زدّ میں
الفضل کی تاریخ کا یہ مشکل ترین دور ۱۹۲۳ء سے ۲۰۱۶ء تک ۹۳سال پر پھیلا ہوا ہے
الفضل۔مخالفت کی تیز آندھیوں میں ایک تنومند گھنا درخت دلیری اور شجاعت سے اپنے فیوض بانٹ رہا ہے۔
اردو صحافت کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ الفضل ہندوستان کی اردو صحافت کا مسلسل شائع ہونے والا واحد اخبار ہے جو۱۹۱۳ء میں جاری ہوا اور آج اسے دنیا بھر کی اردو صحافت میں قدیمی روزنامہ اخبار ہونے کا ریکارڈ اور شرف حاصل ہے کیونکہ جماعت احمدیہ کا آرگن اور ترجمان اخبار بغیر وقفہ کے منظر عام پر آرہا ہے۔ سوائے ان وقفوں کے جو حکومتوں نے حسد کی آگ میں جلتے ہوئے اس پر قدغن لگاکے زبردستی بند کرنے کی ناکام کوشش کی۔ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے سالار احمدیت اور امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مبارک دور خلافت میں یہ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل لندن کے روپ میں اپنی ترقیات کی منازل بڑی تیزی سے طے کرتا چلا جارہا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے بابرکت دور خلافت میں آپؓ کی اجازت اور دعاؤں اور حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی دعاؤں اور کاوشوں سے جاری ہونے والا الفضل بے شمار مشکلات اور نامساعد حالات کے باوجود گذشتہ ایک صدی سے جاری و ساری ہے۔۲۰۱۳ء میں اس پر سوسال پورے ہوئے۔ اب یہ ۱۱۰ سال کا درخشاں دور عبور کررہا ہے، مخالفت کی تیز آندھیوں میں یہ ایک تنومند گھنے درخت کا کردار ادا کررہا ہے، جس کی چھاؤں میں ایک زمانہ بیٹھتا چلا آیا ہے اور اس کے پھلوں سے سیر ہوکر اپنی دینی و دنیاوی بھوک ختم کی ہے۔ اُردو کا کوئی اخبار خواہ وہ کسی جماعت کا ہی ترجمان کیوں نہ ہو یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ گذشتہ ایک صدی سے جاری ہے، یہ دعویٰ صرف الفضل ہی کرتا ہے جو اس کی روشن تاریخ سے ثابت ہے۔ پھر الفضل کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ تقسیم ہند کے وقت یہ واحد اردو اخبار تھا جو بھارت سے پاکستان منتقل ہوا۔
الفضل کا یہ سو سال کا سفر بہت سی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ مالی و دیگر مشکلات تو ایک طرف رہیں اس کو بہت دفعہ بندشوں کا سامنا کرنا پڑا۔اس پر سنگین نوعیت کے مقدمات بنائے گئے۔ ڈاک کے ذریعے ترسیل میں رکاوٹیں پیدا کی گئیں۔ اخبار تقسیم کرنے والے ہاکروں کو دھمکیاں دے کر تقسیم بند کروادی گئی۔ لیکن سب سے افسوسناک پہلو تو یہ ہے کہ یہ کارروائیاں اس اخبار کے خلاف کی گئیں جس نے ہر موقع پر مسلمانوں کے حقوق کی آواز بلند کی۔ بے شمار مواقع پر الفضل نے مسلمانوں کی ترجمانی کا کام بہت خوش اسلوبی اور عمدگی سے انجام دیا جس کی تفصیل طوالت کے خوف سے چھوڑی جاتی ہے۔ تاریخ احمدیت اور خود الفضل کے اوراق اس کے شاہد ہیں نیز غیراز جماعت قارئین بھی اس کے حق میں گواہی دیتے ہیں کہ صرف یہی ایک اخبار تھا جس نے ہر موقع پر مسلمانوں کے حقوق کی آواز بلند کی۔ مسئلہ کشمیر،فلسطین کا مسئلہ، مسلمانوں کی آزادی کی تحریک اور قیام پاکستان کے وقت کی مشکلات میں یہ ہمہ وقت سینہ سپر رہا۔ الفضل نے مسلمانوں اور بلا تفریق مذہب و ملت انسانیت کے حق میں آواز بلند کی۔یہاں تک کہ دوسری جنگ عظیم میں جب جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر بم گرائے گئے تو انسانیت کے اس بھیانک انداز میں قتل عام پر سب سے پہلے روزنامہ الفضل ہی تھا جس نے اپنے امام اور امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشادات کے ذریعے اس کی شدید مذمت کی اور اسے ایک ظالمانہ فعل قرار دیا مگر قیام پاکستان کے بعد بدقسمتی سے الفضل کو ہی سب سے زیادہ مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔
الفضل وہ اخبار ہے جس پر محض خدا کا نام لینے کی پاداش میں بہت سے مقدمات بنائے گئے۔
آغاز سے لے کر ۲۰۱۶ء تک الفضل پر جومقدمات بنے اور جو مشکلات پیش آتی رہیں ان کی تفصیل پیش ہے۔
الفضل قادیان پر سب سے پہلا مقدمہ قادیان کے دور میں ۲۸؍اگست ۱۹۲۳ء کے شمارے پر ظہیرالدین اروپی نامی شخص کی طرف سے ہتک عزت کا دائر کیا گیا۔ یہ مقدمہ جناب لالہ برکت رام آنریری مجسٹریٹ گوجرانوالہ کی عدالت میں دائر کیا گیا۔ چنانچہ اس مقدمہ کی پہلی پیشی۸؍اکتوبر۱۹۲۳ء کو گوجرانوالہ کی عدالت میں ہوئی۔ الفضل کی طرف سے حضرت چودھری سرمحمد ظفراللہ خان صاحب بطور وکیل پیش ہوتے رہے یہ مقدمہ تقریباً ۷ماہ تک گوجرانوالہ کی عدالت میں زیر سماعت رہا۔ آخر کار ۲۲؍اپریل ۱۹۲۴ء کو مجسٹریٹ نے استغاثہ خارج کرتے ہوئے لکھا کہ استغاثہ کو بے بنیاد اور فضول قرار دیتا ہوں اور ڈسمس کرتا ہوں۔ نیز مستغیث کے متعلق لکھا کہ وہ وجہ بتائے کہ اس کے اس ناحق استغاثہ کی وجہ سے مستغاث علیھم کو کیوں معقول ہرجانہ نہ دلایا جائے۔ (الفضل مورخہ۲۸؍دسمبر ۱۹۳۹ء)
مکرم غلام نبی صاحب اس وقت کے ایڈیٹر روزنامہ الفضل کے مطابق الفضل قادیان پر دوسرا مقدمہ غیر مبائعین کی طرف سے ایک مضمون کی اشاعت پردائر کیا گیا۔ جو احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے اراکین کا کچا چٹھا کے عنوان سے شائع کیا گیا تھا۔
اس دوران ایڈیٹر الفضل کے خلاف پیغام صلح میں ایک مضمون لکھا گیا۔ جس کی بنا پر پیغام صلح پر مقدمہ دائر کردیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بالکل مساوی الفاظ میں مصالحت نامہ لکھا گیا اور مقدمات سے دستبرداری دے دی گئی۔ اس مقدمہ میں بھی آنریبل چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب الفضل کی طرف سے پیش ہوتے رہے۔
قادیان کے دور کا تیسرا مقدمہ جو احرار کی طرف سے الفضل کے ایک نوٹ کی بنا پر دائر کیا گیا اس کا ۱۹۳۹ء میں فیصلہ ہوا۔ ایڈیٹر کو ۵۱روپیہ جرمانہ یا دو ماہ قید سخت اور پرنٹر کو ۲۵روپیہ جرمانہ یا ایک ماہ قید سخت کی سزا دی گئی۔ (روزنامہ الفضل۲۸؍دسمبر۱۹۳۹ء)
تقسیم ہند کے وقت تحریک پاکستان کے دوران روزنامہ الفضل نے امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی راہنمائی میں قیام پاکستان کے لیے بھرپور خدمات سرانجام دیں۔ قیام پاکستان کے بعد روزنامہ الفضل لاہوراور پھر ربوہ سے شائع ہونے لگا۔
قیام پاکستان کے بعد روزنامہ الفضل میں کشمیر کے الحاق اور پاکستان کے مفادات کے تحفظ کے حوالے سے بعض اداریے شائع کیے گئے جس پر بھارتی حکومت نے روزنامہ الفضل کا بھارت میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا۔ تاہم کچھ عرصہ بعد یہ پابندی اٹھا لی گئی۔ (بحوالہ سفر حیات از مسعود احمد دہلوی صاحب صفحہ ۲۵۲)
تاریخ کا جائزہ لیں تو آغاز سے ۱۹۳۹ء تک الفضل پر تین مقدمات بنائے گئے۔قیام پاکستان کے بعد استحکام پاکستان کے لیے الفضل کا کردارکسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ تاہم بدقسمتی سے پاکستان کی مخالفت کرنے والے ملاؤ ں اور نام نہاد سربراہوں کے گروہ نے سیاستدانوں کی ناعاقبت اندیشیوں کی وجہ سے دوبارہ متحرک ہونا شروع کردیا اور جماعت پر ۱۹۵۳ء کے فسادات کا پرآشوب دور مسلط کردیا گیا۔ اور روزنامہ الفضل کی اشاعت پر بھی ایک سال کے لیے پابندی لگادی گئی۔ ۲۷؍فروری ۱۹۵۳ء کا شمارہ آخری شمارہ تھا جو لاہور سے شائع ہوا۔ اس کے بعد ۲۸؍فروری ۱۹۵۳ء کا شمارہ جو کہ پریس میں جاچکا تھا اس کی اشاعت زبردستی رکوا دی گئی۔
اس بندش کے دوران ۳۰؍مارچ ۱۹۵۳ء کو کراچی سے روزنامہ المصلح جاری کیا گیا جو الفضل کا ہی دوسرا ایڈیشن تھا اس کی اشاعت کا انتظام ادارہ الفضل ہی کرتا تھا۔ پھرایک سال کی جبری بندش کے بعد ۱۵؍مارچ ۱۹۵۴ء سے الفضل دوبارہ پوری آب و تاب کے ساتھ لاہورسے شائع ہونا شروع ہوگیا اور ۳۱؍دسمبر۱۹۵۴ء کو الفضل ضیاء الاسلام پریس ربوہ سے شائع ہونے لگا۔ الفضل کا دفتر دارالرحمت غربی ربوہ میں تھا۔ربوہ منتقل ہونے کے بعد بھی پریس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے الفضل کوناحق طور پردباؤ میں رکھنے کے لیے تنبیہات پر مشتمل چٹھیاں بھجوائی جاتی رہیں۔ہر چند کہ الفضل کی طرف سے پریس ڈیپارٹمنٹ سے تحریری استفسار کیا جاتا رہا کہ اسے بتایا جائے کہ الفضل میں شائع ہونے والے کس موادسے بے احتیاطی کا پہلو اجاگر ہورہا ہے۔ مگر اس کا جواب آنے کی بجائے دوبارہ ایک تنبیہی چٹھی موصول ہوجاتی۔یاد رہے کہ۱۹۵۳ء۔۱۹۸۴ء۔۱۹۹۰ءاور۲۰۰۵ء میں جبری بندش ہوئی اور اب دسمبر ۲۰۱۶ء سے پنجاب حکومت کی طرف سےاس کے پرنٹ کرنے پر غیر قانونی پابندی لگا دی گئی ہے۔
۱۹۷۴ء میں بھی الفضل کو مشکلات سے دوچار کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ ریلوے سٹیشن پر ہونے والے واقعہ کے بعد حکومت نے کچھ دنوں بعد ان واقعات کی اشاعت پر پابندی لگادی اور اس کو بنیاد بناکر ربوہ الفضل کے دفتر پر پولیس کی بھاری نفری نے چھاپہ مارا جس نے الفضل کی پوری عمار ت کو گھیرے میں لے لیا گیا اور بعض اہلکار دفتر کی چھت پربھی چڑھ گئے۔اسی طرح ایڈیٹر الفضل کو بھی تھانہ ربوہ میں بلاکر ہراساں کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔
پھر ۱۹۷۹ء میں فرعون وقت ضیاء الحق کا جو تاریک دور شروع ہوا اس میں پاکستان کے بالعموم سارے اخبارات کے لیے ہی مشکلات کھڑی کردی گئیں، آزادئ صحافت پر پہرے بٹھا دیے گئے۔ اخبارات پر سینسر شپ عائد کردی گئی اور روزانہ چیف سینسر کے دفتر میں اخبارات کی کاپی پیش کرکے اجازت کو ضروری قرار دے دیا گیا۔ لاہور کے اخبارات کے لیے تو مسئلہ نہ تھا کیونکہ چیف سینسر کا دفتر لاہور میں ہی تھا لیکن ربوہ سے روز الفضل کی کاپی لاہور لے جانے اور وہاں پر پیش کرکے اجازت کے بعد واپس لاکر شائع کروانے کے حوالے سے الفضل کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
سینسر شپ کے اس دور میں الفضل کا شائع ہونا اپنی ذات میں ایک معجزہ تھا۔ جس کے کئی واقعات تاریخ کا حصہ ہیں۔
پھر ۱۹۸۴ء کا وہ پُر آشوب دور آیا جو پاکستان کی تاریخ کا بھی بدترین دور تھا۔ الفضل کو اس دور میں سب سے طویل بندش اور بہت سے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔چنانچہ اس دور میں الفضل پر سب سے پہلا مقدمہ ۱۹۸۲ء میں قائم کیاگیا اس کے بعد بھی ایک مقدمہ قائم ہوا لیکن یہ مقدمات جلد ہی خارج ہوگئے۔
پھر اس کے بعد ۲۹؍اگست ۱۹۸۴ء کو روزنامہ الفضل کو صوبائی حکومت کی طرف سے اظہار وجوہ کا نوٹس بھجوایا گیا جس میں یہ کہا گیا کہ الفضل کے بعض شماروں میں قابل اعتراض مواد شائع ہوا ہے اور اس نوٹس میں قابل اعتراض مواد کی جو تفصیل دی گئی وہ انتہائی دلچسپ اور مضحکہ خیز ہے، مثلاً یہ کہ الفضل میں نماز تراویح کے بارے میں اعلان شائع ہوا ہے، یہ بھی قابل اعتراض ٹھہرایا گیا کہ الفضل میں اخبار احمدیہ کیوں لکھاگیا، اور یادرفتگان کے حوالے سے ایک شخص نے اپنے والد صاحب کے بارے میں مضمون لکھا جس کا عنوان تھا پیارے ابا جان مرحوم۔ اس کو قابل اعتراض گردانا گیا۔ اور حکم ہوا کہ دس روز کے اندر تیس ہزار روپیہ جمع کروائیں۔ اس کے بعد ۱۲؍دسمبر۱۹۸۴ء کو ضیاء الاسلام پریس جہاں سے الفضل شائع ہوتا تھا اس کوسیل کردیا گیا بعدازاں جنوری ۱۹۸۵ء میں اخبار کا ڈیکلریشن بھی منسوخ کردیا گیا۔ روزنامہ الفضل پر یہ پابندی کا طویل ترین دور تھا جو کہ ۳سال گیارہ ماہ اور ۹دن پر محیط تھا۔
الفضل تقریباً ۴سال کے بعد ۲۸؍نومبر۱۹۸۸ءکو دوبارہ جاری ہوا۔ پہلے پرچے کے لیے سیدناحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نےلندن سے خصوصی پیغام ارسال فرمایا جس کو پہلے صفحہ پر نمایاں طور پر شائع کیا گیا۔ حضور ؒ اپنے پیغام کی ابتدا میں فرماتے ہیں: ’’جماعت احمدیہ نے تکلیفوں کا جو لمبا زمانہ بڑے صبر سے برداشت کیا ہے اور اب تک برداشت کرتی چلی جارہی ہے اس سے بکثرت احمدیوں کو جو اصلاح نفس کی توفیق ملی ہے اور تعلق باللہ میں اضافہ ہوا ہے وہ بلاشبہ ابتلاء کا ایک عظیم پھل ہے۔ مگر میں اللہ کی رحمت سے بھاری امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ اس ابتلاء کی یہ رات جلد ختم ہوگی اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کی ایک نئی صبح طلوع ہوگی‘‘۔ پھر حضور ؒ فرماتے ہیں : ’’الفضل جس صبح صادق کا پیغام لے کر آج آپ کے ہاتھوں تک پہنچا ہے اللہ تعالیٰ اسے جلد تر روز روشن میں تبدیل فرمادے اور تمام دنیا اللہ تعالیٰ کی توحید اور حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی حقانیت کے نور سے روشن ہوجائے۔‘‘
۱۹۸۲ء سے لے کر ۲۰۱۶ءتک ۳۴؍ سال میں الفضل پر ۴۲؍ مقدمات قائم کیے گئے۔ مقدمات کی ایف آئی آرز میں جس قابل اعتراض مواد کو مقدمہ کی وجہ قرار دیا جاتا رہا وہ بھی انتہائی دلچسپ ہیں، جب پاکستان کے افق پر چھائے ہوئے تاریک بادلوں کی جگہ حقیقی نور پھیلے گا تو اس وقت کے لوگوں کا ذہن اس امر کو مشکل سے ہی تسلیم کرے گا کہ ان چیزوں پر بھی الفضل کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔
چونکہ پاکستان کے ایک قانون کے مطابق احمدی خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے اس لیے الفضل پر یہ الزام نہیں تھا کہ خود کو مسلمان کہا بلکہ مقدمات اس وجہ سے بنے کہ الفضل میں ایسا مواد شائع کیاگیا جس سے خود کو مسلمان ہونا ظاہر کیا گیا۔
۱۹۸۸ء میں قائم ہونے والے ایک مقدمہ میں ایک مخالف نے ڈی ایس پی صاحب کو درخواست دی کہ ایڈیٹراخبارمکرم نسیم سیفی صاحب روزنامہ الفضل ربوہ کی کاپیاں پھاٹک پر مفت تقسیم کر رہے تھے۔ ایک شمارہ میں نے حاصل کرکے روبرو گواہان پڑھا۔ جس کے سرنامہ پرقرآنی آیات تحریر ہیں۔چنانچہ اس بات پر اخبار کے ایڈیٹر اور پبلشر وغیرہ پر مقدمہ درج کرلیا گیا۔
پھر۱۹۸۸ء میں ہی قائم ہونے والے ایک مقدمہ میں یہ الزام تھا کہ اخبار نے مرزائیوں کو مومن اور مرزائیت کو ہدایت اور سچائی کا پیغام لکھا ہے۔
۱۹۸۸ء میں ایک مخالف احمدیت کی درخواست پر مقدمہ درج کیاگیا۔اس درخواست میں تحریر تھا کہ روزنامہ الفضل ربوہ جو کہ قادیانیوں کا ترجمان ہے۔ ۱۲/۱۲/۱۹۸۴ءکو حکومت نے بند کر دیا تھا۔ مورخہ ۲۷/۱۱/۱۹۸۸ءکو ربوہ سے دوبارہ شائع ہو گیا ہے۔ جو روزانہ کی اشاعت سے لے کر اب تک مسلسل ہم مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کررہا ہے۔ سر ورق پر قرآنی آیات تحریر ہوتی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ
۱۹۸۹ء میں تحفظ ختم نبوت کے ایک کارکن کی درخواست پر قائم ہونے والے ایک مقدمہ میں الزام یہ تھا کہ اخبار الفضل ربوہ بلاناغہ مسلسل، خطبہ جمعہ، نماز، حضرت محمد مصطفیٰﷺ، قرآن کریم، حدیث اور آیات قرآن اور اس قسم کے اسلامی الفاظ و اصطلاحات لکھ رہا ہے جو کہ امتناع قادیانی آرڈیننس کی خلاف ورزی ہے۔ اس پر الفضل کے خلاف مقدمہ درج کیاگیا۔
۲۱؍جون تا ۲۰؍اگست۱۹۹۰ء الفضل پر پابندی لگا دی گئی۔ ۷؍فروری تا۸؍مارچ۱۹۹۴ءالفضل کے ایڈیٹر نسیم سیفی صاحب، پبلشرو مینیجر آغا سیف اللہ صاحب اور پرنٹر قاضی منیر احمد صاحب کو ماہنامہ انصار اللہ کے ایڈیٹر اور مینیجر کے ساتھ اسیر راہ مولیٰ بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔
۶تا۱۰؍اگست۲۰۰۵ءالفضل پر پابندی عائدرہی۔ اس دوران چنیوٹ پولیس کی بھاری نفری نے ڈی ایس پی کی سرکردگی میں پہلے ضیاء الاسلام پریس ربوہ پر چھاپہ مار کر سیل کیا پھر روزنامہ الفضل ربوہ کے دفتر میں آ دھمکی، پولیس کی چار پانچ گاڑیوں میں پولیس کانسٹیبل موجود تھے جنہوں نے دفتر کے احاطہ میں چاروں طرف پھیل کر ڈیوٹی دی۔ اس وقت کے نائب ایڈیٹراور سیکرٹری بورڈ الفضل دفتر کے احاطہ میں پولیس والوں کے درمیان کھڑے ڈی ایس پی کے سامنے پیش ہوئے۔ اور اس کے مختلف سوالوں کے جواب دیےاور اس کو مطمئن کیا۔ اسی دورے میں پولیس نے پرنٹر الفضل کے مکان کو گھیرے میں لے کر ان کو گرفتار کیا اور اپنے ساتھ لے گئے۔یہ گھیرا اتنا سخت تھا کہ جیسے کسی خطرناک دہشت گرد کو گرفتار کیا جارہا ہو۔
۱۹۸۸ء تا ۲۰۰۵ء الفضل کے ایڈیٹر، پرنٹراور پبلشر کے خلاف۱۰۰کے قریب مقدمات درج کیے گئے۔جو ایک ریکارڈ ہے۔ ۲۰۱۶ء کے مقدمات اس کے علاوہ ہیں۔ فروری ۲۰۱۲ء میں مقامی انتظامیہ کی طرف سے روزنامہ الفضل کے ڈیکلریشن کی منسوخی کے حوالے سے نوٹس دیا گیا جس پر اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرکے الفضل کو حکم امتناعی لینا پڑا۔
۶؍دسمبر۲۰۱۶ء۔ روزنامہ الفضل کا سالانہ نمبر بعنوان ’’صبر و استقامت ‘‘جو۳۰؍دسمبر ۲۰۱۶ء کو منظر عام پر آنا تھا دوران پرنٹنگ ہی ضیاء الاسلام پریس ربوہ پر چھاپہ مار کر پولیس نے اس کی اشاعت(اُس وقت تک جو فرمے شائع ہوچکے تھے) پر قبضہ کرلیا اور پریس کو جبری بند کردیا گیا۔ صرف یہ ہی نہیں پاکستان کا قدیم ترین پریس ضیاء الاسلام پریس کو بھی زبردستی سیل کردیا گیا۔ اس کارروائی سے دشمن کی یہ خام خیالی ہے کہ وہ پاکستان میں جماعت احمدیہ کی پبلیکیشنز کی اشاعت میں روک ڈال کر اس کی ترقیات کا دروازہ بند کرسکتا ہے۔ اس کو اس بات کا گمان بھی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ پر اپنے فضلوں، احسانوں اور انعامات کی ایسی بارشیں نازل فرمائی ہیں اور فرماتا چلا جارہا ہے جو کسی بھی دنیاوی چھتری سے رکنے والی نہیں ہیں۔ ایک دروازہ بند ہوا تو سو بلکہ ہزاروں دروازے اللہ تعالیٰ نے کھول دیے ہیں۔ دنیا بھر میں اسلام احمدیت کی طرف سے لاکھوں کی تعداد میں اسلامی تعلیمات پر مشتمل لٹریچر شائع کیا جارہا ہے اور کروڑوں لوگوں کے گھروں تک پہنچ رہا ہے۔ جماعت احمدیہ کی تبلیغ دنیا کے کناروں تک پہنچ گئی ہے۔ دشمن تو نادان، جاہل اور شدت پسند خیالات رکھنے والا ہے اسے کیا خبر اللہ تعالیٰ نے جماعت کو کون سی بلندیاں عطا فرما دی ہیں۔ وہ کیا اس کے لگے بندھے اور آنے والی نسلیں جماعت کا بال بھی اب بیکا نہیں کرسکتیں۔
بات ہو رہی تھی الفضل پر عائد ہونے والی قدغنوں اوراس پر بنائے جانے والے جھوٹے مقدمات کی۔ الفضل کی تاریخ کا یہ مشکل ترین دورجو ۱۹۲۳ء سے ۲۰۱۶ء تک ۹۳سال پر پھیلا ہوا ہے،اس میں صرف مقدمات ہی نہیں بلکہ الفضل کو قارئین تک پہنچنے سے روکنے کے لیے مخالفین کی طرف سے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ الفضل اخبار چونکہ احمدی احباب کے لیے شائع ہوتا تھا جو کہ پاکستان کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان تک اخبار پہنچانے کا ایک سستا ذریعہ ڈاک یعنی سرکاری محکمہ پاکستان پوسٹ کے ذریعے بھجوانے کا طریق تھا جو کہ مجبوراً الفضل کو ترک کرنا پڑا کیونکہ ڈاک کے ذریعے الفضل کے بنڈل کے بنڈل غائب کردیے جاتے۔ یا ان کی ترسیل میں غیر معمولی تاخیر کی جاتی۔
پھر بعض بڑے شہروں میں جہاں جماعت کے افراد کی تعداد زیادہ ہے وہاں ہاکروں کے ذریعے بھی الفضل پہنچایا جاتا تھا۔ لیکن گذشتہ کچھ عرصہ سے مخالفین احمدیت کی طرف سے ان ہاکروں کو دھمکیاں دی گئیں اگر انہوں نے الفضل کو گھروں تک پہنچایا تو بھیانک نتائج کی ذمہ داری ان کی اپنی ہی ہوگی جس کی وجہ سے وہ ڈر گئے اور الفضل کی ترسیل اس ذریعے بھی روکنا پڑی۔ فیصل آباد میں ایک ہاکراور ایجنسی ہولڈر اصغر صاحب کو مارا پیٹا بھی گیا۔۱۰؍اپریل۲۰۱۳ءکوتھانہ اسلام پورہ لاہور میں الفضل کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔جس میں ۶ افراد کے نام شامل تھے۔ ۴گرفتارہوگئے۔ان میں سے ۲ کی ۴ ماہ بعد ضمانت ہوگئی۔
آزادی صحافت اور آزادی اظہار کے اس دور میں جماعت احمدیہ کی صحافت کا گلا گھونٹنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا جاتا لیکن ان سب امور کے برعکس قیام پاکستان سے قبل مسلم صحافت کی آزادی پر جب بھی کوئی قدغن لگانے کی کوشش کی گئی، یہ کوشش خواہ حکومت کی طرف سے ہو یا مسلم لیگ مخالف جماعتوں کی طرف سے ہوئی ہو، الفضل نے کمال جرأت اور بہادری سے اس کے خلاف آواز بلند کی۔ آزادئ صحافت کی جدوجہد میں مسلمانوں کے شانہ بشانہ کام کیا اورجب کانگرس کی طرف سے بعض مسلمان اخباروں مثلاً انقلاب اورسیاست کو بندکردینے کا نوٹس جس سے کانگرس کی غرض یہ تھی کہ مسلمان اخبارات جو کانگریسی شورش کے خطرات سے مسلمانوں کو آگاہ کررہے تھے ان کا گلا گھونٹ دیا جائے۔ اس طرح مسلمانوں کے سیاسی اور ملکی مفادات کو سخت نقصان پہنچایا جائے اس نازک موقع پر لاہور کے مسلمان اخبارات انقلاب و سیاست کو کانگریس کے تشدد سے بچانے کے لیے جماعت نے اپنی خدمات پیش کیں۔ چنانچہ ناظرصاحب امور خارجہ قادیان نے اخبار انقلاب و سیاست کو حسب ذیل تار دیا۔
’’جماعت احمدیہ کو یہ سُن کر افسوس ہواکہ کانگرس کے یہ رضاکار آپ کے دفتر میں پہرا بٹھانے کی دھمکی دے رہے ہیں اس لیے جماعت احمدیہ قادیان حسب ضرورت اپنے آدمیوں کو لاہور بھیجنے کےلیے بالکل تیار ہے تاکہ وہ کانگرس کے جارحانہ اقدام کے مقابلہ میں اخبارات کی حفاظت کریں۔‘‘
ناظر صاحب امورعامہ کی طرف سے دی جانے والی اس ٹیلیگرام کو اخبار الفضل نے شائع بھی کیا۔
یہ تار اردو صحافت کے معروف اخبار ’’انقلاب‘‘نے اپنے ۱۹؍مئی ۱۹۳۰ء کے پرچے میں ’’احمدی بھی انقلاب کی حفاظت کے لیے تیار ہیں‘‘کے عنوان سے نمایاں طورپر شائع کی اورلکھا: ہم جماعت احمدیہ کا تہ دل سے شکریہ اداکرتے ہیں۔ہمیں یقین ہے کہ ان کی طرح ہرمسلمان اس خادم جریدے کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہے۔جب تک ملت اسلامیہ انقلاب کی پشت پناہ ہے انقلاب کو کفر کی طاقتیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتیں‘‘۔(اخبار انقلاب مورخہ ۲۹؍مئی ۱۹۳۰ء صفحہ نمبر۱ بحوالہ تاریخ احمدیت جلد نمبر۵ صفحہ نمبر۱۹۶و۱۹۷ء)
اس تار کے جواب میں اخبار سیاست کے ایڈیٹر جناب سید حبیب صاحب کی طرف سے بھی شکریہ کا خط موصول ہوا۔
آزادی صحافت کے بین الاقوامی قوانین کے برعکس روزنامہ الفضل پر آئے روز قدغنیں لگتی رہیں۔دیگر مشکلات کے ساتھ ساتھ بہت سے مقدمات قائم کیے گئے جو کہ کسی بھی اخبار پر قائم ہونے والے مقدمات کے لحاظ سے ریکارڈ ہے۔ان میں سے صرف ۳مقدمات قیام پاکستان سے قبل قائم ہوئے جبکہ ۴۲مقدمات۱۹۸۲ء کے بعد بنائے گئے۔ اگر ان کا جائزہ لیں تو ۱۹۸۹ء میں الفضل پر سب سے زیادہ مقدمات قائم کیے گئے جن کی تعداد ۱۴تھی۔ جب کہ ۱۹۹۲-۹۳-۹۴ء میں ۱۵ مقدمات قائم کیے گئے۔الفضل کے قیام سے لے کر اس وقت تک الفضل کو کل ۴۵مقدمات کا سامان کرنا پڑا۔ دو دفعہ الفضل کو جبری طو رپر بند کردیا گیا۔ الفضل جن حالات میں شائع ہوتا رہاہے اس حوالے سے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے۱۹۸۹ء میں الفضل کے ایڈیٹر جناب نسیم سیفی صاحب کے نام اپنے ایک مکتوب میں فرمایا:’’میں دعا میں اس نکتے کو یاد رکھتا ہوں کہ الفضل کی زبان محض ۳۲دانتوں میں نہیں بلکہ ۳۲دشمن دانتوں میں گھری ہوئی عمدگی سے ما فی الضمیرادا کرنیکی توفیق پارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس کی حفاظت فرمائے۔‘‘(مکتوب ۱۸؍جنوری ۱۹۸۹ء)
اللہ تعالیٰ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی مندرجہ بالا دعا قبول فرمائے اور الفضل کو ہمیشہ اپنی حفظ وا مان میں رکھے۔ آمین
(نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں، تاریخ احمدیت، الفضل کے مختلف شمارے بشمول صد سالہ جوبلی نمبر،قدیم اخبارات، سفر حیات از مسعود احمد دہلوی اور الفضل کی دفتری فائلوں نیز اپنی یادداشت کے ذریعہ سے استفادہ کیا گیا ہے۔)