خلفائے کرام کے دورہ جات کی کوریج اور الفضل کی خدمات (حصہ اوّل)
’’ کپٹن ڈالس مجھے ایک شریف دوست کے رنگ میں اخبار جاری نہ کرنے کا باصرار مشورہ دے رہے تھے مگر جس قدر ان کا اصرار تھا اس سے زیادہ قوت کے ساتھ میرے قلب میں یہ تحریک زور پکڑتی گئی۔‘‘
سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ابتدائی صحافی اور اوّلین مؤرخ کا دائمی اعزا ز رکھنے والی محترم ہستی عرفانی الکبیر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب ترابؓ کے یہ الفاظ تا ابد اس جذبے اور کاوش کے گواہ رہیں گے جس کی بدولت مسیح آخرالزمانؑ کی جماعت اپنے اخبار کی حامل بنی۔ اس مرد مجاہد نے جماعت کے اپنے اخبار کے اجرا کے لیے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا، اس کے جواب میں حضورؑ نے فرمایا:’’ہم کو اس بارہ میں تجربہ نہیں۔ اخبار کی ضرورت تو ہے مگر ہماری جماعت غرباء کی جماعت ہے۔ مالی بوجھ برداشت نہیں کر سکتی آپ اپنے تجربہ کی بناء پر جاری کر سکتے ہیں تو کر لیں، اللہ تعالیٰ مبارک کرے۔‘‘(حیات احمد جلد چہارم، مرتبہ یعقوب علی عرفانی صفحہ ۵۴۳،۵۴۲)
رب ذوالجلال کی دی ہوئی توفیق سے ایک تہی دست شخص اکتوبر ۱۸۹۷ء میں جماعت احمدیہ کا پہلا بلند پایہ اخبار ’’ہفت روزہ الحکم‘‘ جاری کرنے میں کامیاب ہوا۔زودنویسی کا زبردست جوہر رکھنے والا یہ مجاہد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام کے ملفوظات وارشادات کو برق رفتاری سے قلمبند کر کے الحکم میں شائع کرتارہا۔یہ اخبار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام کی کتب اور سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کا انتہائی مستندابتدائی ذخیرہ ہے۔
۱۹۰۱ء تک ’’الحکم‘‘ نے تنہا یہ خدمت سر انجام دی، پھر ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۲ء کو قادیان سے با بو محمد افضل صاحب کی ادارت میں جماعت کا دوسرا اخبار البدر جاری ہوا، اوروہ بھی ان بابرکت ملفوظات و ارشادات اور الہامات کی نشر و اشاعت میں شامل ہو گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں : ’’ یہ دواخبار ہمارے دو بازو ہیں، الہامات کو فوراً ملکوں میں شائع کر تے اور گواہ بنتے ہیں‘‘۔ ( تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ ۶۴۱۔۶۴۲۔ایڈیشن ۲۰۰۷ء قادیان )
جماعت کا قدیم اور اہم اخبار اپنوں اور غیروں میں یکساں پہچان رکھنے والا، سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ایک سو دس سالہ تاریخ کا امین، خدا کے فضلوں اورجماعت کی جاں نثاریوں سے مرصع ’’الفَضْل ‘‘ ۱۸؍جون ۱۹۱۳ء کو سیدنا محمود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھوں ہفت روزہ اخبار کی شکل میں اُس کے استاد اور روحانی آقا نور الدین اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اجازت اور آشیر باد سے جاری ہوا۔ اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے ’’ الفضل‘‘ کے نام سے موسوم کیا۔ ( تاریخ احمدیت جلد ۳صفحہ ۴۴۴۔ایڈیشن ۲۰۰۷ء )
وہ پاک وجود الوالعزمی جس کے خمیر میں تھی اپنے قلم سے لکھتا ہے: ’’میں جب اس کام کے لئے اٹھا تو دور تاریکی میں ایک آواز تھی جس کے بلانے پر میں اٹھا، اور ایک صدا تھی جس کے جواب دینے کے لئے میں نے حرکت کی۔ میں نہیں جانتا تھا کہ دراصل کیا ضرورت ہے جس کے پورا کرنے کے لئے میں جدو جہد کرنے لگا ہوں۔ میں لوگوں کو ضروریات بتاتا تھا مگر خود غافل تھا۔ جس طرح خواب میں ایک شخص آنے والے واقعات کو اونچی آواز سے بیان کر دیتا ہے،سننے والے سن لیتے ہیں اور وہ خود بے خبر ہوتا ہے یہی حالت میری تھی… آخر وقت نے ثابت کر دیا کہ میں نے جو نہ سمجھا تھا وہ حرف بہ حرف پورا ہوا، اور جس کا مجھے علم نہ تھاوہ خدا کے علم میں تھا، زمانے نے خود بتا دیا کہ الفضل کی ضرورت تھی اور سخت تھی۔ یہ ڈوبتے ہوؤں کو لئے ایک تنکا تھا۔ اور کہتے ہیں کہ ڈوبتے ہوؤں کے لئے ایک تنکے کا سہارا بھی کا فی ہوجاتا ہے۔ یہ ایک بارش تھی جو عین وقت پر ہوئی۔ میں نہیں جانتا کہ ’’الفضل‘‘ نے کیا کیا اور اس کا اثر کیا ہوا۔ خدا تعالیٰ خود اسے ثابت کرے گا، اور مستقبل کے تاریک پردہ میں سے اس کے اثرات کی روشن تصویر خود بخود سامنے آجائے گی۔ نہ مجھے اس کا علم ہے اور نہ مجھے اس کے جاننے سے کچھ فائدہ۔میں اتنا جانتا ہوں کہ اس اخبار کی ضرورت تھی اور یہی وجہ ہے کہ ایک قدوس ذات مجھے آگے دھکیل رہی تھی۔‘‘(اخبارالفضل قادیان دارالامان،۱۵؍اکتوبر ۱۹۱۳ءصفحہ۳۔جلد ۱نمبر ۱۸)
اس قدوس ذات نے اپنے اس بندے جسے اس رحیم و کریم نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا تھا، اس عالی وقار کے ہاتھوں جاری ہونے والا ’’الفضل‘‘ آج اکناف عالم میں انتہائی باعزت اور معتبر اخبار ہے، جو باوقار صحافت کا علمبردار ہےاور یہی اس کی سعادت عظمیٰ ہے۔
مورخہ ۲۸؍مارچ ۱۹۱۴ء سے الفضل ہفتے میں تین بار شائع ہونے لگا۔۱۱؍دسمبر ۱۹۲۵ء سے ہفتے میں دو بار اشاعت ہوئی۔۸؍مارچ ۱۹۳۵ء سے روزانہ اشاعت کا آغاز ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد۱۵؍ستمبر ۱۹۴۷ء کو لاہور سے جاری ہوا۔۳؍اکتوبر ۲۰۰۲ءسے انٹر نیٹ پر اکناف عالم میں پھیلے قارئین کے لیے میسر ہو گیا۔اور ۱۸؍جون ۲۰۱۳ء کو کامیاب و کامران اشاعت کے ۱۰۰ سال مکمل کیے۔ ( روزنامہ الفضل صدسالہ جوبلی سوونیئر۔۲۰۱۳ء )
جماعت اورخلافت احمدیہ کی تاریخ کا امین اور پاسبان یہ روزنامہ اخبار دسمبر ۲۰۱۶ء میں پاکستان میں جبری تعطل کا شکار ہوا توامیر کارواں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نے مورخہ ۱۳؍دسمبر ۲۰۱۹ء کو لندن سے روزنامہ الفضل کے آن لائن ایڈیشن کا افتتاح فرمایا، جو۲۲؍ مارچ ۲۰۲۳ء تک جاری رہا، اور پھر امام ہمام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد پر الفضل انٹرنیشنل میں ضم ہو گیا۔
۷؍جنوری ۱۹۹۴ء کوحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے بابرکت سائے میں ’’الفضل‘‘ نئی آب و تاب اور شان کے ساتھ نئے عالمی دور میں داخل ہوا، اور ’’ہفت روزہ الفضل انٹر نیشنل‘‘ کا آغاز ہوا۔اس اخبار نے ترقی کا نیا زینہ مئی ۲۰۱۹ء میں چڑھا جب ہفتے میں دو بار اس کی اشاعت شروع ہوئی۔اور آخرین کی اس جماعت کے یَوم تاسیس کے بابرکت موقع پر ۲۳؍مارچ ۲۰۲۳ء کو روزنامہ الفضل انٹرنیشنل کا ظہور ہوا۔
الفضل جماعتی تاریخ کا انتہائی مستند ذخیرہ ہے۔ ابتدا سے لے کر آج کے دن تک الفضل خلفائے کرام کی آواز ہے، اور انشاء اللہ ہمیشہ رہے گا۔
بانی الفضل کا دور خلافت تاریخ احمدیت میں تاابد ایک روشن اور تابناک عہد کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔اس صاحب شکوہ اولوالعزم خلیفہ کے زیر سایہ شجر احمدیت کی جڑیں مضبوطی سے زمین میں پیوست ہوئیں اور شاخیں اکناف عالم میں پھیلیں۔ اسلام کی نشأۃِ ثانیہ کے اس زمانہ میں پہلے ہفت روزہ، پھر سَہ روزہ اور پھر روزنامہ الفضل نے خلیفہ وقت کےارشادات، ہدایات،خطبات اور شب وروز کی مصروفیات احباب جماعت تک پہنچانے کا فریضہ بخوبی نبھایا۔الفضل خلفائے کرام کے اندرون اور بیرون ملک دورہ جات کا مکمل ریکارڈ بھی اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔ چاہے مسند خلافت قادیان میں تھا، ربوہ یا لندن میں۔ الفضل نے خلفائے وقت کے دورہ جات کی مکمل روداد جاں نثاران خلافت اور عامۃ الناس تک پہنچائی۔ خلفائے کرام کے ان اَسفار اور دوروں کا احوال پڑھنے کے بعد ایک بات روزروشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ہر سفر کا مقصد پیغام حق اور اعلائے کلمہ اسلام ہی رہا۔ ظاہری طور پر چاہے وہ سفر طبیب کے مشورے پر تھا، تبدیلی آب و ہوا کے لیے، کسی علمی کام کی انجام دہی کے لیے یا افراد جماعت سے ملاقات کی غرض سے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورہ جات
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور خلافت تاریخ کا ایک زرّیں باب ہے۔ ایک طرف اپنے پرائے شجر احمدیت کو مسلنے کے درپے تھے، ہندوستان میں ہر طرف شورش برپا تھی، کانگریس اور مسلم لیگ انگریز راج سے نجات اور آزاد ملک کے لیے برسر پیکار تھے۔ آپ ہی کے عہد خلافت میں ہندوستان دو لخت ہوا، اور پاکستان معرض وجود میں آیا۔ان حالات میں امام آخرالزّمانؑ کے اس نظیر نے نہ صرف اپنی جماعت کو سنبھالا بلکہ بے نوا مسلمانوں کی آواز بھی بنا۔ آپ کے بہت سے دورے محض اسلامی ہمدردی اور مسلمانوں کی ترجمانی کے لیے تھے، اور الفضل نے آ پ کے خیالات، فرمودات اور ہدایات عوام الناس تک پہنچائے۔
الفضل کے ریکارڈ کے مطابق حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےشملہ،پٹیالہ، دہلی،بمبئی، کراچی، لاہور، راولپنڈی، سیالکوٹ،قصور، کشمیر ڈلہوزی،منصوری، دھرم سالہ،آگرہ، منالی، حیدرآباد دکن،لدھیانہ، ہوشیارپور، کوئٹہ، مری اور ایبٹ آباد کے متعدد سفر اختیار فرمائے۔
جماعتی ریکارڈ کے مطابق طبیب کے مشورے پر آب و ہوا کی تبدیلی کے لئے ۳۰؍اگست ۱۹۱۷ء کو شملہ کے لیے سفر اختیار فرمایا، اور ۱۰؍اکتوبر ۱۹۱۷ء کو دارالامان میں واپس قدم رنجہ فرمایا۔ ستمبر اکتوبر کے شماروں میں حضور کے اس سفر کی تفصیلات شائع ہوئیں۔اس سفر کے دوران حضور موٹر پر سرہند بھی تشریف لے گئے اور حضرت مجدد الف ثانی کے مزار پر دعا کی۔ (الفضل ۱۶؍اکتوبر۱۹۱۷ء صفحہ ۴۔ جلد ۵۔شمارہ ۳۱)
۲۲؍ستمبر ۱۹۱۷ء کو الفضل کی طرف سے ’’ترقی اسلام‘‘ کے حوالے سے حضور کی تحریر پر مشتمل آٹھ صفحات کا ضمیمہ بھی شائع کیا گیا۔ اس سفر کے دوران حضور نے پٹیالہ میں ’’صداقت اسلام‘‘ کے موضوع پر انتہائی پر اثر لیکچر دیا۔ جس کا مکمل متن ان الفاظ کے ساتھ شائع ہوا:’’ صداقت اسلام، حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی کی وہ تقریر جو حضور نے ۹؍اکتوبر ۱۹۱۷ء بمقام پٹیالہ فرمائی اور ایڈیٹر نے قلم بند کی۔‘‘ (الفضل ۱۵؍دسمبر۱۹۱۷ء، صفحہ ۳۔ جلد ۵۔شمارہ ۴۸)
وہ موعود خلیفہ جس کے دنیا میں آنے سےپہلے مالک کون و مکاں کی طرف سے یہ خبر دی گئی تھی کہ’’ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔‘‘ جولائی ۱۹۲۴ء میں یورپ کے پہلے سفر پر روانہ ہوا۔ اس سفر کا بنیادی مقصد ویمبلے کانفرنس میں شمولیت تھا۔ الفضل نے ’’ بہ سفر رفتنت مبارک باد، بسلامت روی وباز آئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا سفر یورپ ‘‘کے عنوان سے روانگی کے مفصل حالات شائع کیے۔(الفضل ۱۵؍جولائی ۱۹۲۴ء۔ صفحہ ۱۔ جلد ۱۲شمارہ ۴)
حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۱۲؍جولائی کو دیار مسیح سے روانہ ہوئے اور طویل سفر کے بعد ۱۶؍اگست کو اٹلی کی برنڈزی نامی بندرگاہ پر اترے۔روم اور فرانس سے ہوتے ہوئے۲۲؍ اگست کو لندن میں رونق افروز ہوئے۔ الفضل قادیان کے بیسیؤں شمارے آپ کے اس بابرکت سفر کی تفصیل اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہیں۔ لندن میں قریباً نو ہفتے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قیام رہا، جس کے مفصّل حالات شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب اور بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانی کی قلم سے نکل کر الفضل کے صفحات کی زینت بنے۔ اس دوران حضور نے جماعت کے نام متعدد پیغامات بھجوائے جو الفضل کے ذریعہ افراد جماعت تک پہنچے۔آپ کے رفقا نے سفر کے تفصیلی حالات قلمبند کرکے الفضل کو بھجوائے۔ ویمبلے کانفرنس میں شرکت کے علاوہ متعددتقاریب میں شمولیت اختیار فرمائی اور اسلام کی تعلیمات کو عوام الناس کے سامنے پیش فرمایا۔یورپ میں مقیم افراد جماعت اور دیگر عمائدین سے ملاقات کی تفصیلات شائع ہوئیں۔خدا تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں سے معمور اس دورے کے دوران اس مظہر حق نے قلب یورپ اور مرکز تثلیث میں خدائے واحد و یگانہ کی پرستش اور عبادت کے لیے پہلی مسجد کی بنیاد رکھی۔ اس عظیم الشان کارنامے کی تفصیلی رپورٹ ۲۵؍اکتوبر ۱۹۲۴ء کے شمارے کی زینت بنی۔(الفضل ۲۵؍اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔جلد ۱۲شمارہ ۴۶)
تقریباً چار ماہ پر محیط یہ رفیع الشان سفر ۲۴؍نومبر ۱۹۲۴ء کو قادیان دارالامان میں آپ کے ورودمسعود کے بعد اختتام پذیر ہوا۔جس کی مفصّل روداد الفضل ۲۹؍نومبر۱۹۲۴ء میں شائع شدہ ہے۔
مسیح آخر الزمان کے اس عالی مقام موعود خلیفہ کے اس سفر کی کیا حیثیت ہےاور اس کے نتائج کتنے دوررس تھے اس ضمن میں آ پ کے یہ الفاظ آج بھی ایمان میں حرارت پیدا کرتے ہیں: ’’آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ اُس بادشاہ نے جس کے قبضہ میں تمام عالم کی باگ ہے۔ مجھے رؤیا میں بتایا تھا کہ میں انگلستان گیا ہوں، اور ایک فاتح جرنیل کی طرح اس میں داخل ہوا ہوں۔اور اس وقت میرا نام ولیم فاتح رکھا گیا۔ میں جب شام میں بیمار ہوا اور بیماری بڑھتی گئی، تو مجھے سب سے زیادہ خوف یہ تھا کہ کہیں میری شامت اعمال کی وجہ سے ایسے سامان نہ پیدا ہو جائیں کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ کسی اور صورت میں بدل جائے، اور میں انگلستان پہنچ ہی نہ سکوں، اور اس خوف کی وجہ یہ تھی کہ میں اس خواب کی بنا پر یقین رکھتا تھا کہ انگلستان کی روحانی فتح صرف میرے انگلستان جانے کے ساتھ وابستہ ہے، لیکن آخر اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں انگلستان پہنچ گیا ہوں۔ اور اب میرے نزدیک انگلستان کی فتح کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ آسمان پر اس کی فتح کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ اور اپنے وقت پر اس کا اعلان زمین پر بھی ہو جائے گا۔دشمن ہنسے گا اور کہے گا یہ بے ثبوت دعویٰ تو ہر اِک کر سکتا ہے، مگر اس کو ہنسنے دو کیونکہ وہ اندھا ہے اور حقیقت کو نہیں دیکھ سکتا۔‘‘ ( الفضل قادیان ۴؍اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳،کالم ۳۔ جلد ۱۲ شمارہ ۳۷)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے الٰہی تصرف اور مشیت کے تحت سندھ کے دوردراز علاقوں میں ہزاروں ایکڑ بنجر اور بے آباد اراضی خریدی اور اسے لہلہاتے کھیتوں اور کھلیانوں میں بدل دیا۔ اور احمد آباد، محمود آباد، محمد آباد، بشیر آباد، نصرت آباد، روشن نگر، لطیف نگر اور کریم نگر جیسی اسٹیٹس کا قیام عمل میں آیا۔ الفضل کے ریکارڈ کے مطابق حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۱۹۳۵ء سے ۱۹۵۹ء کے دوران کم و بیش بیس مرتبہ احمدیہ اسٹیٹس کے دوروں پر تشریف لےگئے۔
حضرت مصلح موعودؓ نےتھرپار کر کے لق و دق صحرا کو آباد کرنے کے لیے اور اس گلشن کی آبیاری کے لیے شبانہ روز دعائیں کیں۔عام سادہ سواریوں پر فصلوں کا معائنہ کرنے تشریف لے جاتے۔ خدام کے ہمراہ کھانا تناول فرماتے۔ ابتدا میں آپؓ گھوڑے پر سوار ہو کرفصلوں کا جائزہ لیتے، بسااوقات بیل گاڑی کا سفر اختیار فرمایا، بعد ازاں بذریعہ کار اور جیپ مختلف مقامات پر تشریف لے گئے۔ آپؓ فصلوں کے معائنہ کے ساتھ اچھی کارکردگی دکھانے والے خدام کو انعامات عطا فرماتے اور احباب کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کی دعوت قبول فرماتے اور ان کے درمیان رونق افروز ہوتے۔ ایک سفر کا احوال یوں بیان ہے: ’’۷۔ماہ امان۔آج صبح دس بجے حضور گھوڑے پر اسٹیٹ کی فصل دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے، راستہ میں حضور نےنورنگر، لطیف نگر، اسحٰق نگر اور روشن نگر کے حلقہ کی فصل کے علاوہ تجارتی فارم بھی ملاحظہ فرمائے اور حلقہ نور نگر کی فصل پر حضور نے پسندیدگی کا اظہار فرمایا اور حلقہ کے منشی نور محمد صاحب واقف زندگی کو انعام عطافرمایا۔ نور نگر کے مزارعین کی درخواست پر حضور وہاں پر ٹھہرے۔ دو بجے دوپہر واپس تشریف لائے۔ عصر کے وقت حضور محمد آباد سے احمدآباد کار پر روانہ ہوئے اور متعلقہ کارکنوں کے ساتھ احمد آباد کی فصل ملاحظہ فرمائی۔ نماز مغر ب و عشاء کے بعد احباب سے مسجد میں گفتگو فرمائی۔ ‘‘ ( روزنامہ الفضل ۱۱؍مارچ ۱۹۴۸ءصفحہ ۵۔ جلد۲شمارہ۵۳)
مورخہ یکم مارچ ۱۹۵۱ء کو ناصر آباد میں قیام کے دوران حضورؓ نے سال رواں کا آمد و خرچ اور آئندہ سال کا بجٹ ملاحظہ فرمایا۔ سپرٹنڈنٹ احمدیہ سنڈیکیٹ نے حضورؓ کی خدمت میں بجٹ پیش کیا اور غالبا ًپیداوار کی کمی کے بارے میں کوئی ایسا اظہار فرمایا کہ جس طرح خدا کی مرضی۔ اس پر حضورؓ نے انہیں مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا : ’’کسی کام کے نہ ہونے یا اس کے خراب ہونے کی ذمہ داری خدا تعالیٰ پر نہیں ڈالنی چاہیے اور یہ نہیں کہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہی ایسی تھی، کیونکہ غلطی انسان کی اپنی ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی استعدادوں کو صحیح طور پر کام میں نہیں لاتا۔ اگر ہم اس کی عطا کردہ استعدادوں کو صحیح طور پر کام میں لائیں تو اللہ تعالیٰ کو کیا ضرورت ہے کہ وہ ہمارے کام میں خرابی پیدا کرے۔‘‘ (روزنامہ الفضل مورخہ ۸؍مارچ ۱۹۵۱ء صفحہ ۵۔ جلد۵شمارہ۵۷)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ کے یاد گار اورانتہائی اہم سفروں میں سے ایک سفر کراچی، بمبئی، حیدرآباد دکن، آگرہ اور دہلی کا ہے۔ جو حضور نے اکتوبر نومبر ۱۹۳۷ءمیں اختیار فرمایا۔ اس سفر کے دوران دہلی میں غیاث الدین تغلق کے تعمیر کردہ قلعہ کی سیر کے دوران حضور عالم روحانی میں پہنچ گئے اور بے ساختہ آپ نے فرمایا:’’ میں نے پالیا، میں نے پا لیا۔ ‘‘ اس سفر کی تفصیلی روداد اور مصروفیات کی تمام رپورٹس الفضل کے شماروں میں شائع شدہ ہیں۔
عالم احمدیت میں ۱۹۴۴ء کا سال بہت خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس برس کے آغاز میں خدا تعالیٰ نے لاہور میں محترم شیخ بشیر احمد ایڈووکیٹ کے گھر میں آ پ کو کشف میں یہ خبر دی کہ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء کو دنیا کے سامنے پیش کی گئی’’پیشگوئی مصلح موعود‘‘ کےمصداق آپ ہی ہیں۔ رب العزّت کی طرف سے اس امر پر اطلاع پانے کے بعد آپ نے ببانگ دہل اپنی اس فضیلت کا اعلان کیا نیز۲۰؍ فروری ۱۹۴۴ء کو ہوشیار پورپھر لاہور،لدھیانہ اور دہلی میں عظیم الشان جلسوں میں بنفس نفیس شرکت فرماکر مجمع عام میں رب کریم کی اس عطا کا اظہار کیا، اور مصلح موعود کی علامتوں کا پورا ہونا ثابت کیا۔ ان تمام سفروں کی مکمل روداد الفضل کے صفحات اور شماروں میں پھیلی ہوئی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ۲۳؍ مارچ ۱۹۴۴ء کو لدھیانہ میں جلالی خطاب کے دوران فرمایا: ’’اب میں لدھیانہ کے لوگوں کو اور ان لوگوں کو جو باہر سے آئے ہوئے ہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ آسمان کی آواز ہے جو اللہ تعالیٰ نے بلند کی ہے اسے بند کرنا آسان نہیں۔ یہ جماعت شروع میں صرف چالیس افراد پر مشتمل تھی، مگر اب خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی ہے۔ تمام دنیا نے ہماری مخالفت کی، مگر سب مخالف ناکام ہوئے اور آئندہ بھی ناکام ہوں گے، اور دنیا کی کوئی طاقت احمدیت کی ترقی روک نہیں سکے گی… جو خدا آسمانوں اور زمینوں کا خدا ہے، جو پہلوں کا خدا ہے،حال کا خدا ہے اور آئندہ کا خدا ہے جس کے ہاتھ میں میری اور سب کی جان ہے اور جس کے سامنے مر کر ہم سب نے پیش ہونا ہے، میں اسی خدائے قہار کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ باتیں اُسی نے مجھے بتائی ہیں اور اسی نے مجھے یہ بھی بتایا کہ وہ میرے ماننے والوں کو منکرین پر قیامت تک غلبہ اور فوقیت دے گا۔ میں انسان ہوں مرسکتا ہوں، مگر خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ضرور پورا ہوگا۔ زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں مگر اُس کایہ وعدہ ٹل نہیں سکتا۔ اس سلسلہ کی تائید کے لئے خداتعالیٰ کے فرشتے آسمان سے اتر یں گے اور روز بروز یہ سلسلہ پھیلتا چلا جائے گا، اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ پیغام ان ممالک تک جو آپ پر ایمان نہیں رکھتے ضرور پہنچے گا۔ اور جس طرح پہاڑوں سے دریا نکلتے ہیں، اور پھر ان سے نہریں نکلتی ہیں،محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی نہریں میرے ذریعہ ساری دنیا میں جاری ہوں گی۔‘‘( اہل لدھیانہ سے خطاب۔ مطبوعہ الفضل ۱۸؍ فروری ۱۹۵۹ءصفحہ ۱۱۔ جلد۱۳شمارہ ۴۲)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک انتہائی جذباتی سفر اپنے روحانی آقا اور شفیق استادکے مولد و مسکن بھیرہ کا ہے جو آپ نے ۲۶؍نومبر ۱۹۵۰ء کو اختیار فرمایا۔ اس سفر کی تفصیلی رپورٹ ۲۹؍ نومبر ۱۹۵۰ء کے شمارے میں شائع شدہ ہے۔(رونامہ الفضل ۲۹؍نومبر ۱۹۵۰ءصفحہ ۴،۳۔ جلد ۴شمارہ ۲۷۴)
خلافت ثانیہ کے عہد کا ایک اور تاریخ ساز سال ۱۹۵۵ء کا ہے جب پسر موعود اپریل میں یورپ تشریف لے گئے۔ سفر کے پہلے حصےمیں حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دمشق میں ایک ہفتہ قیام فرمایا،عمائدین سے ملاقاتیں کیں، عشائیے میں شرکت فرمائی، مجالس سوال جواب منعقد ہوئیں۔ان فضاؤں کو انوار وبرکات سے معطر کرنے کے بعد حضور سوئٹزرلینڈپہنچے جہاں آپ نے علاج کی غرض سے چند ہفتے قیام فرمایا۔ اس دوران سورۃ الفاتحہ کے معارف پر چار خطبات جمعہ ارشاد فرمائے۔ مئی ۱۹۵۵ءمیں حضور نے پیغام بھجوایا کہ ربوہ میں بکثرت درخت لگائے جائیں۔ عید الفطر بھی اسی ملک میں منائی گئی۔ ۸؍جون ۱۹۵۵ء کو سوئس ٹی وی پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انٹرویو نشر ہوا۔سوئٹزرلینڈ کے بعد جرمنی اور ہالینڈ کی سر زمین نے اس پرنور وجود کے قدم چومے،پھر یہ سعادت لندن کے حصے میں آئی جہاں اس قافلہ سالار نے مبلغین کی عالمی کانفرنس کی صدارت فرمائی اور پانچ اجلاسوں میںبنفس نفیس شرکت فرماکر ’’قضیہ زمین بر سر زمین‘‘ طے کیا۔ ناسازی طبع کے باوجوداس اولوالعزم خلیفہ نے لندن میں آٹھ خطبات جمعہ ارشاد فرمائے، دور و نزدیک سے آنے والے افراد جماعت میں شفقتیں بانٹیں، تعلیمی اور تربیتی امور میں راہنمائی فرمائی، سوال وجواب کی محافل منعقد ہوئیں، غیر از جماعت افراد کے اعتراضات کے جواب عطا فرمائے۔ چھ ماہ کے طویل سفر کے بعد یہ جری پہلوان ۲۵؍ ستمبر ۱۹۵۵ء کو اپنے بسائے ہوئے شہر میں اپنے عشاق کے درمیان وارد ہوا۔ الفضل نے ۱۵؍مارچ ۱۹۵۵ء سے اس سفر کی غرض و غایت کے بارے میں احباب جماعت کو آگاہ کرنا شروع کیا، پھر روانگی سے واپسی تک مفصّل احوال کی اشاعت کی توفیق پائی۔اور ۲۶؍ستمبر ۱۹۵۵ء کو الفضل نے ’’خیر مقدم ‘‘ نمبر شائع کیا۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بابرکت سفروں میں ایک سفر مری کا ہے جو آپ نے جون ۱۹۵۶ءمیں اختیار فرمایا، اس سفر کا مقصد ترجمہ قرآن مجید املاء کروانا تھا۔ یہ کام اگست کے آخر میں نخلہ میں مکمل ہوا، اور ۱۹۵۷ء میں تفسیر صغیر کے نام سے منصہ شہود پر آیا اور تا ابد آپ کے زندہ جاوید کارناموں میں سے بلند شان کے ساتھ قائم دائم رہے گا۔ الفضل نے ہمیشہ کی طرح آپ کے اس یادگار سفر کی تمام مصروفیات اور جزئیات جماعت تک پہنچانے کی توفیق پائی۔
لاہور کے ایک سفر کے دوران حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ احمدیت کے جگر گوشوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’نوجوانوں کے اندر بڑھنے اور ترقی کرنے کا مادہ ہوتا ہے۔ وہ جہاں اور باتوں میں اپنی ترقی کے دعوے کیا کرتے ہیں وہاں ان کا یہ بھی فرض ہوتا ہے کہ وہ روحانی رنگ میں بھی اپنے بزرگوں سے آگے نکلنے کی کوشش کریں اور نمازوں میں اور روزوں اور چندوں میں اور قربانیوں میں اور اخلاص میں اور سلسلہ کے لئے فدائیت اور جان نثاری میں اپنا قدم آگے کی طرف بڑھائیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۹؍فروری ۱۹۵۴ء بمقام رتن باغ لاہور مطبوعہ الفضل ۱۳؍دسمبر ۱۹۶۱ء صفحہ ۴۔ جلد ۱۵شمارہ۲۸۸)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے دورہ جات
نافلہ موعود حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب۸؍نومبر ۱۹۶۵ء کو خلافت ثالثہ کے منصب پر متمکن ہوئے۔
اگلے سال حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے نخلہ مری اورراولپنڈی کا سفر کیا جس کی تفصیل الفضل کے مختلف شماروں میں شائع ہوئی۔خلافت کی خلعت فاخرہ پہننے کے ٹھیک ایک سال کے بعد ۹؍نومبر ۱۹۶۶ء کو آپ نے سندھ کا سفر اختیار فرمایا اور ناصرآباد، بشیر آباد، کوٹ احمدیاں، محمود آباد اور محمد آباد اسٹیٹس کا دورہ کیا۔اس دورے کے دوران حضور کی تمام مصروفیات کا مفصّل احوال الفضل کے شماروں میں موجود ہے۔
عہد خلافت ثالثہ کا تیسرا سال مسرتوں کی نوید اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔ اس سال ۸؍جولائی ۱۹۶۷ء کو مصلح آخرالزّمان کا یہ جانشین یورپ کے پہلے سفر کے لیے ربوہ سے روانہ ہوا۔ اور برطانیہ، سکاٹ لینڈ، جرمنی، سوئٹرزلینڈ، ہالینڈ اور جرمنی میں اعلائے کلمہ اسلام کے لیے پہلے سے جاری منصوبوں کا جائزہ لیا بہتری کے لیے ہدایات سے نوازا، افراد جماعت سے ملاقاتیں کیں،مختلف مجالس میں رونق افروز ہوئے، اخباری نمائندوں کو انٹر ویو دیے۔۲۱؍جولائی ۱۹۶۷ء کو کوپن ہیگن میں ڈنمارک کی پہلی اور یورپ کی چھٹی مسجد نصرت جہاںکا افتتاح فرمایا۔اس مبارک موقعہ پر افتتاحی تقریر میں فرمایا:’’ قرآن کریم پر زور الفاظ میں اس بات کو پیش کرتا ہے کہ مسجد خانہ خدا ہے اس لئے یہ کسی فرد واحد کی ملکیت نہیں ہوتی، اور کہ تمام عبادت گاہیں اللہ ہی کے لئے ہیں۔ انسان تو صرف ان کی نگرانی اور دیکھ بھال کا فرض ادا کرتا ہے۔ لہٰذا تمام اسلامی مساجد کے دروازے ہر ایسے فرد اور ہر ایسی مذہبی جماعت کے لئے کھلے ہیں جو خدائے واحد کی پرستش کرنا چاہے۔‘‘ ( الفضل ۱۱؍ اگست ۱۹۶۷ء صفحہ ۳۔ جلد ۲۱شمارہ ۱۷۹)
اس خالص للّٰہی سفر کے بعد آپ ۲۴؍اگست ۱۹۶۷ء کو واپس ربوہ پہنچے۔ روزنامہ الفضل کے جولائی، اگست اور ستمبر ۱۹۶۷ء کے شماروں اس سفر کی مفصّل ڈائری شائع شدہ ہے۔
سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں ۱۹۷۰ءکا سال ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔اس سال جماعتی تاریخ میں پہلی بار مسیح محمدی کا نائب اس کا جانشین ارض بلال کے سفر پر گیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا یہ مشہور عالم دورہ مغربی افریقہ کے ممالک کا تھا جن میں نائیجیریا، غانا، آئیوری کوسٹ، لائبیریا، گیمبیا اور سیرالیون شامل ہیں۔ الفضل کے ریکارڈ کے مطابق حضور رحمہ اللہ تعالیٰ ۴؍اپریل ۱۹۷۰ء کو مرکز خلافت سے عازم سفر ہوئے۔ لاہور، کراچی، تہران، استنبول اور لندن سے ہوتے ہوئے زیورک کے راستے ۱۱؍اپریل ۱۹۷۰ء کو لیگوس نائیجیریا پہنچے۔اس سفر کے دوران حضور نے متعدد سربراہان مملکت اور عمائدین سے ملاقات کی،کئی استقبالیہ دعوتوں میں شرکت فرمائی۔اکرا غانا میں دس ہزار سے زائد افراد کی موجودگی میں عظیم الشان مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔ صحافیوں سے گفتگو فرمائی۔ مجالس عاملہ اور عہدیداران سے میٹنگز کیں۔ مجالس عرفان منعقد ہوئیں۔ ۱۴؍ مئی ۱۹۷۰ء کو خلیفۃ المسیح کا یہ تاریخ ساز دورہ انتہائی کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچا، اور ہزاروں عشاق نے نمناک آنکھوں کے ساتھ سیرالیون سے اپنے روحانی آقا کو رخصت کیا۔ واپسی پر حضور کچھ وقت ایمسٹرڈیم میں رکے جہاں چودھری سر محمدظفر اللہ خان صدر عالمی عدالت انصاف نے قصر امن میں حضورکے اعزاز میں چائے کی دعوت کا اہتمام کیا، جس میں عالمی عدالت کے متعدد جج صاحبان شامل ہوئے۔بعد ازاں حضور لندن تشریف لے گئے جہاں ۲۲؍مئی ۱۹۷۰ء کو خطبہ جمعہ میں ’’نصرت جہاں ریزروفنڈ‘‘ کی آسمانی سکیم کا اعلان فرمایا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’گیمبیا میں ایک دن اللہ تعالیٰ نے بڑی شدت سے میرے دل میں یہ ڈالا کہ یہ وقت ہے کہ تم کم سے کم ایک لاکھ پونڈ ان ملکوں میں خرچ کرو، اور اس میں اللہ تعالیٰ بہت برکت ڈالے گا اور بہت بڑے اور اچھے نتائج نکلیں گے، خیر میں بڑا خوش ہوا کہ پہلے اپنا پروگرام اور منصوبہ تھا، اب اللہ تعالیٰ نے منصوبہ بنا دیا… اس کانام میں نے نصرت جہاں ریزروفنڈ رکھا ہے… یہ اللہ تعالیٰ کا منشا ہے کہ ہم یہ رقم خرچ کریں اور ہسپتالوں اور سکولوں کے لئے جتنے ڈاکٹر اور ٹیچر چاہئیں وہاں مہیا کریں۔میں نے دوستوں سے کہا کہ مجھے یہ خوف نہیں کہ یہ رقم آئے گی یا نہیں، یا آئے گی تو کیسے آئے گی یہ مجھے یقین ہے کہ ضرور آئے گی اور نہ یہ خوف ہے کہ کام کرنے والے آدمی ملیں گے یا نہیں ملیں گے، یہ ضرور ملیں گے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ کام کرو۔ خدا کہتا ہے تو یہ اس کا کام ہے۔‘‘( خطبہ جمعہ ۱۲؍جون ۱۹۷۰ء۔روزنامہ الفضل ۱۵؍جولائی ۱۹۷۱ء)
سپین کی مردہ سر زمین نے صدیوں بعد۲۵؍مئی ۱۹۷۰ء کو روحانی بہار کا منظر دیکھا جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے میڈرڈ میں ورود فرمایا،وہاں سے قرطبہ اور غرناطہ تشریف لے گئے۔طویل سفر کے بعد حضور ۸؍جون ۱۹۷۰ء کو واپس ربوہ پہنچے۔ پروفیسر چودھری محمد علی صاحب کی قلم کی لکھی اس اہم سفر کی حقیقت افروز تفصیلی رپورٹس اور تصاویر خاص اہتمام اور باقاعدگی کے ساتھ الفضل نے آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ کیں۔ اس کامیاب سفر کے نتیجہ میں احمدیت کی تاریخ کا ایک تابناک اور سنہری دور شروع ہوا۔
حرف آخر
ایک عام انگریزی محاورہ ہے: Nothing is older than yesterday‘s newspaper یعنی ’گذشتہ کل کے اخبار سے زیادہ پرانی چیز اور کوئی نہیں۔‘
مگر’’الفضل‘‘ پر یہ محاورہ صادق نہیں آتا۔ کیونکہ: ’’سونا تو پرانا کبھی ہوتا ہی نہیں‘‘۔ الفضل سچا اور سُچا اخبار ہے جو حکمت اور دانائی کے موتی قرطاس پر بکھیرتا ہے۔ خلیفہ وقت جو اپنے وقت میں حرف و حکمت کا بادشاہ ہوتا ہے الفضل اس کے ارشادات و فرمودات سے مزین اخبار ہے، جو عقل سلیم رکھنے والوں کے لیے ہمیشہ ہر زمانے میں چراغ کی مانند روشن رہیں گے۔
نہایت باریک بینی، عرق ریزی، گہری تحقیق اور محنت شاقہ سے لکھے گئے علمی اور روحانی مضامین کا جا مع اخبار ہے، جو مُرور ایّام سے پرانے نہیں ہوتے۔ سو سال پرانے شمارے بھی ایسے پاکیزہ اور پر حکمت مضامین سے مرصع ہیں جو آج بھی قاری کے لیے ازدیاد ایمان کا باعث بنتے ہیں۔
مولاکریم اس اخبار کی رعنائیاں قائم ودائم رکھے اور انہیں بڑھاتا چلا جائے۔آمین