چار خلافتوں کے آغاز پر الفضل کا کردار
انتخاب خلافت کا وقت جماعت کے لیے ایک نازک وقت ہوتا ہے۔ اس وقت سابق خلیفہ کی وفات کے بعد مومنین کی حالت ایک بے سر کے جسم جیسی ہوتی ہے اور ان کو بجا طور پر خوف اور پریشانی لاحق ہوتی ہے۔ اس وقت منافقین اور مخالفین کو ایک موقع میسر ہوتا ہے کہ مختلف قسم کی افواہیں پھیلائیں، اپنے نظریات اور اعتراضات کا پرچار کریں، جماعت میں مایوسی پیدا کرنے کی کوشش کریں اور جماعت میں اختلاف و انتشار کی دراڑیں ڈالیں۔ چنانچہ اس نازک وقت میں مسلسل احباب جماعت کی راہنمائی کرنے، انہیں دعاؤں کی طرف متوجہ کرنے، تسلی دینے اور الٰہی وعدے یاد دلانے، افواہوں کا توڑ کرنے اور ہر قسم کے پراگندہ کرنے والے خیالات سے بچانے کے لیے مسلسل رابطہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ یہ اہم فرائض سب سے بہتر طور پر میڈیا کے ذریعہ سر انجام دیے جا سکتے ہیں۔ میڈیا میں ریڈیو اور ٹی وی کی فوری اور لمحہ بہ لمحہ نشریات سے قبل اخبار ہی اس کام کے لیے واحد میسر طریق تھااور اخبار بھی ایسا جو مستند ہو اور احباب جماعت اس پر اعتبار کرتے ہوں۔ ورنہ میڈیا پر غلط خبروں کو سن کر بھی کئی فساد اٹھنے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔
ذیل کے مضمون میں ہر خلافت کے قیام پر الفضل کے کردار کو واضح کیا گیا ہے۔ گو خلافت اولیٰ کے وقت میں الفضل ابھی وجود میں نہ آیا تھا، تاہم بغرض برکت و تکمیل خلافت اولیٰ کے آغاز پر اس وقت کے اخبارات کا بھی ذکر کر دیا گیا ہے۔ اس وقت جماعت میں دو بڑے اخبار تھے جو کہ جماعت کی ملکیت نہ ہونے کے باوجود قادیان سے نکلنے اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے تازہ بتازہ ارشادات شائع کرنے کی بدولت کم و بیش جماعتی حیثیت اختیار کر چکے تھے۔
خلافت اولیٰ
حضرت مسیح موعودؑ کی وفات ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو لاہور میں ہوئی۔ اگلے روز ۲۷؍مئی کو قادیان میں حضورؑ کی تدفین کے وقت حاضرین نے متفقہ طور پر حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی بیعت کی۔ اس وقت تک جماعت میں خلافت کا نظام موجود نہ تھا۔ پس یہ ہماری تاریخ میں سب سے نازک اور تاریخی وقت تھا۔ اگر اس وقت جماعت میں کسی قسم کا اختلاف ہو جاتا تو آئندہ ہمیشہ کے لیے ایک مبحث بن جاتا۔ تاہم اللہ تعالیٰ کی خاص تقدیر نے اس وقت حیرت انگیز طور پر جماعت کو کسی بھی قسم کے اختلاف اور بحث میں پڑنے سے بچا لیا اور جس طرح آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہؓ خلافت پر جمع ہو گئےاسی طرح حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد تمام جماعت خلافت پر جمع ہو گئی۔
حضورؑ کی وفات کے بعد الحکم کا پہلا پرچہ ۳۰؍مئی ۱۹۰۸ء کو شائع ہوا۔ اس میں خلافت اولیٰ کے قیام کے متعلق تفصیل درج نہیں بلکہ حضورؑ کے آخری الہامات اور ملفوظات بیان ہوئے ہیں۔ البتہ آخری صفحہ پر حضرت مولوی سید محمد احسن امروہیؓ کا مراسلہ درج ہے جس میں انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کو مخاطب کر کے اپنی بیعت کا اقرار کیا ہے۔ یوں گویا سب قارئین کو انتخاب خلافت کی اطلاع مل گئی۔ اس وقت مزید کوئی بات نہ کرنے کی حکمت الحکم کے اگلے شمارہ میں یہ بیان کی گئی ہے کہ مخالفین کے بیانات سامنے آ جائیں تاکہ ان کا جواب دیا جا سکے۔ اگلے شمارے یعنی ۲؍جون ۱۹۰۸ء میں صفحہ اول پر تفصیلی مضمون شائع ہوا جس میں حضرت مسیح موعودؑ کی وفات اور بعض کاموں کے مکمل نہ ہونے اور بعض پیشگوئیوں کے آپؑ کی زندگی میں وقوع پذیر نہ ہونے پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی اور گذشتہ رسل خصوصاً آنحضورؐ کے حوالہ سے بیان کیا گیا کہ یہی اللہ تعالیٰ کی قدیم سنت ہے کہ بعض کام اور پیشگوئیاں بعد میں پوری ہوتی ہیں۔ نیز حضورؑ کی وصیت کا ایک حصہ شائع کیا گیا۔ اس سے اگلے شمارہ یعنی ۶؍جون ۱۹۰۸ء کو پھر تفصیلی مضامین دیے گئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی پہلی تقریر شائع ہوئی۔
حضورؑ کی وفات کے بعد بدر کے پہلے شمارہ ۲؍جون ۱۹۰۸ء میں سر ورق پر صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی بیعت کرنے کا اعلان شائع کیا گیا اور حضورؓ کی پہلی تقریر پیش کی گئی۔ بدر نے بھی ان شماروں حضرت مسیح موعودؑ کی وفات اور آپؑ کے بعض کاموں کے مکمل نہ ہونے کے متعلق مضامین شائع کیے اور بتایا کہ انبیاء کے کام ان کی وفات کے بعد بھی جاری رہتے ہیں۔ یہ دونوں اخبار اس لحاظ سے بھی اہم ہیں کہ ان میں اس زمانہ میں وہ عقائد وضاحت کے ساتھ درج ہیں جن سے بعد میں لاہوری احباب نے انکار کیا۔ مثلاً بدر کے ۲؍ جون کے شمارہ میں جہاں حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کی خبر دی گئی ہے وہیں حضور کے متعلق ’’ رسول اور نبی‘‘ کے الفاظ بھی درج ہیں۔
خلافت ثانیہ
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی وفات ۱۴؍مارچ ۱۹۱۴ءکو قادیان میں ہوئی اور اسی روز بعد نماز عصر مسجد نور میں انتخاب خلافت ہوا۔ اس وقت تک بھی انتخاب خلافت کا باقاعدہ طریق کار وضع نہ ہوا تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ خلافت اولیٰ کے زمانہ میں ہی وہ فتنہ اٹھ چکا تھا جس نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی وفات پر کھل کر سامنے آنا تھا۔ چنانچہ لاہور سے جاری اخبار ’’پیغام صلح‘‘ کے ذریعہ مخصوص خیالات کا پرچار جاری تھا جن کا آخری مقصد خلافت احمدیہ سے انکار تھا۔ حالانکہ یہ سب احباب بالاتفاق خلافت اولیٰ کی بیعت کر چکے تھے بلکہ بعض تو دو مرتبہ بیعت کر چکے تھے اور اس لحاظ سے خلافت کی ضرورت تسلیم کر چکے تھے۔ چونکہ اس وقت کے سرکردہ احباب، خصوصاً صدر انجمن احمدیہ کے بعض معتمدین اور بعض دیگر معروف لوگ بھی ان لوگوں کے ہم خیال تھے، اس لیے اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی تھی کہ احباب جماعت کو انتخاب خلافت کے متعلق باخبر رکھا جائے۔ ’’پیغام صلح ‘‘کے ہم خیال لوگوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی وفات کے ساتھ ہی اپنے خیالات پر مشتمل اشتہار، جو کہ پہلے سے تیار کردہ تھے، تقسیم کرنا شروع کر دیے تھے۔ چنانچہ کئی سادہ احمدیوں کو یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ درست موقف کیا ہے۔ ان سب کی نظریں قادیان پر لگی تھیں کہ وہاں کی جماعت جو کہ سب سے زیادہ حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی صحبت سے مستفیض ہونے اور کبار صحابہ پر مشتمل ہونے اور جماعت کے دائمی مرکز ہونے کی وجہ سے خاص اہمیت رکھتی ہے، کیا فیصلہ کرتی ہے۔ پس ان حالات میں قادیان سے باہر کی جماعتوں کو اطلاع دینا اور حقیقت کی طرف راہنمائی کرنا ایک اہم فریضہ تھا۔ اس خدمت کے لیے حضرت مصلح موعودؓ کے بڑے ممد و معاون الفضل اور الحکم ہی تھے۔ ان میں سے الفضل کو ۱۹۱۳ء میں خود حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھوں جاری ہونے، اور آپؓ کے اس اخبار کے مدیر ہونے کی وجہ سے خصوصی اہمیت حاصل تھی۔
چنانچہ الفضل کی ۱۸؍مارچ ۱۹۱۴ء کی اشاعت میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی وفات کی خبر دی گئی ہے اور حضور کی تکفین و تدفین اور جنازہ کا حال بیان کیا گیا ہے۔ پھر ۱۴؍مارچ کو نماز عصر کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کے انتخاب اور بیعت کے الفاظ درج کیے گئے ہیں۔ اسی طرح حضورؓ کی پہلی تقریر بھی درج کی گئی۔ اس کے بعد تو ایک سلسلہ ہے جو الفضل میں چلا اور جس میں مختلف اعتراضات کا جواب دیا جاتا رہا۔ چنانچہ اگلے شمارہ یعنی ۲۱؍مارچ ۱۹۱۴ء میں متعدد اعتراضات کا تفصیلی جواب دیا گیا مثلا ًیہ کہ جن لوگوں نے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کر لی ہے ان کو دوبارہ خلیفۂ وقت کی بیعت کی کیا ضرورت ہے؟ وہی پہلی بیعت ہی کافی ہے اور یہ اعتراض وہ لوگ کرتے تھے جنہوں نے خود حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی تھی! پھر حضرت مصلح موعودؓ کے کم عمر ہونے کے متعلق، حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی وفات پر سرے سے کوئی نیا خلیفہ منتخب ہی نہ ہونے کے متعلق، ایک کی بجائے متعدد خلفاء ہونے کے امکان کے متعلق، دستوری نظام ہونے کے متعلق بیانات کے جوابات دیے گئے۔ چونکہ یہ سلسلہ کافی دیر چلتا رہا بلکہ کئی سال تک اعتراضات ہوتے اور ان کا جواب الفضل میں اور کتب سلسلہ میں دیا جاتا رہا، اس لیے مزید تفصیل طوالت کا موجب ہو گی۔ اس مضمون کی مناسبت سے اتنا کہنا کافی ہو گا کہ اس فتنہ کے فرو کرنے اور اعتراضات کا مدلل جواب دینے کا نہایت اہم کام الفضل کے ذریعہ بھی سر انجام پایا۔ الفضل کی یہ تاریخی خدمت ہی اس کی قیامت تک اہمیت کو برقرار رکھنے کے لیے کافی ہے۔
ایک اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ۲۰؍مارچ کے خطبہ جمعہ میں جو ۲۵؍مارچ کو شائع ہوا فرمایا: ’’یہ ایک آخری ابتلاء ہے جیسا کہ احزاب کے موقع کے بعد پھر دشمن میں یہ جرأت نہ تھی کہ مسلمانوں پر حملہ کرے ایسے ہی ہم پر یہ آخری موقع اور دشمن کا حملہ ہے‘‘۔ چنانچہ اس کے بعد پھر کسی غیر از جماعت قوت کو یا خلافت کے نظام کے مخالف کو انتخاب خلافت کے موقع پر حملہ کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس کا دوسرا پہلو حضرت خلیفہ المسیح الرابعؒ نے بیان فرمایا ہے جس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔
خلافت ثالثہ
حضرت مصلح موعودؓ کی وفات ۸؍نومبر ۱۹۶۵ء کو صبح ۲ بج کر ۲۰ منٹ پر ہوئی۔ ریڈیو پاکستان نے اسی روز حضورؓ کی وفات کی خبر نشر کر دی۔ حضرت مصلح موعودؓ کے طویل دور خلافت کے دوران جماعت نے جہاں عظیم الشان ترقیات کی منازل طے کیں وہاں اسے بہت سے مشکل ادوار سے بھی گزرنا پڑا۔ بےشمار ترقیات اور خدائی تائیدات کا نظارہ کر چکی تھی۔ حضورؓ کے مثل مسیح موعودؑ اوصاف کریمانہ کا مورد رہ چکی تھی۔ آپؓ کے اعلیٰ ترین روحانی اور علمی اور عملی مقام کی گواہ تھی۔ بےشمار احمدی خاندانوں کے خلیفہ وقت کے ساتھ گہرے ذاتی اور پرانے تعلقات تھے۔ چنانچہ جو صدمہ اس وقت جماعت کو تھا اس کا اندازہ لگانا بھی ہمارے لیے ممکن نہیں۔ اسی طرح خلافت ثانیہ کے قیام کے وقت جو جماعت میں تفرقہ پڑا تھا، اس کے پس منظر میں بھی احباب جماعت کو تشویش ہونا قدرتی تھا۔ اس کے ساتھ ہی یہ مشکل درپیش تھی کہ کبار صحابہؓ کی تعداد کم ہو چکی تھی اور جماعت کے پھیل جانے اور تعداد میں بڑھ جانے کی وجہ سے ضروریات بڑھ چکی تھیں۔ چنانچہ جماعت کو سنبھالنا اور احباب جماعت کو جلد از جلد اور مستند اطلاعات دینا ضروری تھا۔ الفضل کو اس موقع پر ملک کے طول و عرض میں نیز بیرون از ملک بھی احباب جماعت کو اطلاع دینے اور صورتحال سے باخبر رکھنے کی ذمہ داری احسن طور پر ادا کرنے کی توفیق ملی۔
اس وقت حضرت مصلح موعودؓ کا قائم کردہ مجلس انتخابِ خلافت کا نظام موجود تھا۔ چنانچہ اس طریق کے مطابق جو آپؓ ۱۹۵۷ء میں وضع فرما چکے تھے مسجد مبارک میں نماز عشاء کے بعد خلافت ثالثہ کا انتخاب ہوا۔ الفضل کی ۹؍نومبر کی اشاعت میں حضرت مصلح موعودؓ کی وفات کی خبر احباب جماعت کو پہنچائی گئی۔ اس شمارہ میں ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ حضرت مرزا عزیزاحمد صاحبؓ کا ۸؍نومبر کا اعلان بھی شائع ہوا جس میں مجلس انتخاب کے اجلاس کی اطلاع دی گئی۔ ۱۰؍نومبر ۱۹۶۵ء کے الفضل کے سرورق پر سیکریٹری مجلس مشاورت کی طرف سے ۸؍نومبر کی شام کا اعلان شائع ہوا جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے انتخاب کی اطلاع دی گئی ہے۔ اسی شمارہ میں حضرت مصلح موعودؓ کے جنازہ اور تدفین کے حالات بھی تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کا وہ اہم ترین پیغام بھی شائع ہوا ہے جو کہ ۸؍ نومبر کی رات کو نماز عشاء کے بعد مسجد مبارک میں پڑھ کر سنایا گیا تھا۔ آپؓ نے اس میں دعاؤں کی طرف بہت ہی پراثر انداز میں توجہ دلائی تھی۔ ۱۱؍نومبر ۱۹۶۵ء کی اشاعت میں الفضل نے حضرت مصلح موعودؓ کے جنازہ کے مزید حالات بیان کیے ہیں۔
خلافت رابعہ
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی وفات ۸ اور ۹؍جون ۱۹۸۲ء کی درمیانی رات کو اسلام آباد پاکستان میں ہوئی۔ چنانچہ ۹؍ جون کی اشاعت میں الفضل نے حضورؒ کی وفات کی خبر شائع کر دی نیز یہ بھی بتایا کہ حضورؒ کے جسد خاکی کو ربوہ لایا جا چکا ہے اور دس جون کی عصر کے بعد نماز جنازہ ہو گی۔ اس کے ساتھ ہی ناظر اعلیٰ محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی جانب سے اطلاع شائع ہوئی کہ مجلس انتخاب خلافت کا اجلاس دس جون کو نماز ظہر کے بعد مسجد مبارک میں منعقد ہو گا۔
اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ بسا اوقات کچھ لوگوں کی جانب سے خلیفہ وقت کی وفات کے وقت مختلف سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ ایسے مواقع پر جماعت کی راہنمائی کرنا ضروری ہے جس کا ایک اہم طریق اخبار ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی وفات پر بھی بعض لوگوں نے سوالات اٹھائے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر ان لوگوں کی کوئی تجویز تھی تو اسے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی زندگی میں آپؒ کے سامنے پیش کرتے۔ لیکن اس کی بجائے اس وقت سوال اٹھایا گیا جب خلیفہ وقت وفات پا چکے تھے اور حتمی فیصلہ کرنے والی کوئی شخصیت موجود نہ تھی۔ ایسے مواقع پر سوال اٹھانا بہت بڑی غلطی اور جماعت کے اتحاد کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔
الفضل نے اس موقع پر اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے دس جون کی اشاعت میں حضرت مصلح موعودؓ کے مندرجہ ذیل ارشادات شائع کیے۔ اول یہ کہ جماعت کی زندگی اور ترقی خلافت سے وابستہ ہے۔ دوم یہ کہ خلافت کا سلسلہ خلافت ثالثہ، رابعہ، خامسہ، سادسہ وغیرہ کی صورت میں جاری رہے گا۔ سوم یہ کہ جو طریق انتخاب خلافت حضرت مصلح موعودؓ نے وضع کیا ہے، اس طریق پر منتخب ہونے والا خلیفہ خدا تعالیٰ کا تائید یافتہ ہو گا۔ چہارم یہ کہ جو طریق حضورؓ نے وضع کیا ہے یہ اسی طرح قائم رہے گا یہاں تک کہ خلیفہ وقت کی منظوری سے اس میں تبدیلی کی جائے۔ یوں تمام سوالات کا کافی و شافی جواب دے دیا گیا۔
انتخاب خلافت کے بعد دس جون ہی کو الفضل نے ایک ضمیمہ کے ذریعہ خلافت رابعہ کے قیام کی خوشخبری شائع کی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے تمام واقعات کے پس منظر میں اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۸؍جون ۱۹۸۲ء میں فرمایا: ’’ یہ وہ آخری بڑے سے بڑا ابتلاء ممکن ہو سکتا تھا جو آیا اور جماعت بڑی کامیابی کے ساتھ اس امتحان سے گزر گئی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے ہوئے۔ اب آئندہ انشاء اللہ تعالیٰ خلافت احمدیہ کو کبھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو گا‘‘۔(الفضل ۲۸؍جون ۱۹۸۲ء)
خلافت خامسہ
خلافت خامسہ کا آغاز پہلا موقع تھا جب جماعت کو اخبار کے علاوہ ایم ٹی اے کی لائیو نشریات کی صورت میں دنیا بھر میں احباب جماعت کو ہمہ وقت مستند اطلاعات فراہم کرنے کا ایک اعلیٰ ذریعہ مہیا ہو گیا تھا۔ چنانچہ سب دنیا میں موجود احباب جماعت نے براہ راست خلافت خامسہ کے انتخاب اور بیعت اولیٰ اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے جنازہ اور تدفین کے مناظر دیکھے۔
اہم واقعات کو تاریخ میں محفوظ رکھنے کا ایک آسان طریق تا حال اخبار ہی ہے۔ ٹی وی کا ریکارڈ ہر شخص کی دسترس میں نہیں ہوتا۔ اسی طرح اخبار میں کسی بات کی تلاش اور اس کا حوالہ پیش کرنا کہیں آسان ہوتا ہے۔ چنانچہ اخبار کی اہم واقعات کو تاریخ وار محفوظ کرنے کی صلاحیت آج بھی مستند مانی جاتی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی وفات ۱۹؍اپریل۲۰۰۳ء کو لندن میں ہوئی۔ چونکہ خلیفہ وقت کی وفات اور انتخاب خلافت لندن میں ہوا اس لیے ان واقعات کا مستند ترین ماخذ الفضل انٹرنیشنل ہے جو لندن سے شائع ہوتا ہے اور اس وقت ہفت روزہ اخبار تھا۔ حضورؒ کی وفات کے بعد الفضل کا پہلا شمارہ ۲۵؍اپریل ۲۰۰۳ء کو شائع ہوا۔ اس میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی وفات، انتخاب خلاف خامسہ اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا جماعت سے پہلا مختصر خطاب شائع کیے گئے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے فرمایا تھا، خلافت احمدیہ اب بلوغت کو پہنچ چکی ہے۔ چنانچہ قیام خلافت خامسہ کے وقت اللہ کے فضل سے کسی طرح کے بیرونی اوراندرونی خطرات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ الحمد للہ