غرباء، محتاجوں اور مسکینوں کے حقوق کا بیان (جلسہ سالانہ یوکے کے اختتامی اجلاس سے بصیرت افروز اختتامی خطاب)
اس طبقے کے حقوق کا تحفظ نہ صرف خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا موجب ہے بلکہ یہ معاشرے کے امن کا بھی ضامن ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا جلسہ سالانہ برطانیہ کے تیسرے روز معرکہ آرا اختتامی خطاب
(حدیقۃ المہدی ۳۰؍جولائی ۲۰۲۳ء، ٹیم الفضل انٹرنیشنل) حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ ۳۰؍ جولائی کی شام جلسہ سالانہ کے اختتامی اجلاس سے پُرمعارف خطاب فرمایا۔ اختتامی خطاب کے لیے حضورانور چار بج کر دس منٹ کے قریب نعرہ ہائے تکبیر کی گونج میں جلسہ گاہ میں رونق افروز ہوئے۔ اجلاس کی کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ حافظ اسماعیل ادوسائی صاحب کو سورۃ البقرہ کی آیت ۱۷۸ اور ۱۹۶، سورۃ النساء آیت ۱۳۶، سورۃ الانعام آیت ۱۵۳ اور سورۃ النحل کی آیت ۱۹۱ اور۱۹۲کی تلاوت کرنے اور تفسیر صغیر سے ان کا ترجمہ پیش کرنے کی توفیق ملی۔
اس کے بعد فرج عودہ و گروپ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے عربی قصیدہ
يا مَن أحاط الخلقَ بالآلاءِ
نُثني عَلَيْكَ وَلَيْسَ حَوْلُ ثَنَاءِ
کے منتخب اشعار پڑھ کر سنائے۔ ان اشعار کا اردو ترجمہ مکرم محمد طاہر ندیم صاحب (مربی سلسلہ عربی ڈیسک) کو پڑھنے کی سعادت ملی۔ بعد ازاں مکرم رانا محمود الحسن صاحب مربی سلسلہ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا منظوم کلام بعنوان ’’محمود کی آمین‘‘ میں سے چند اشعار خوش الحانی سے پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ کلام درج ذیل شعر سے شروع ہوئی
حمد و ثنا اُسی کو جو ذات جاودانی
ہمسر نہیں ہے اُس کا کوئی نہ کوئی ثانی
تعلیمی اعزازات کا اعلان
پروگرام کے مطابق مکرم سیکرٹری صاحب تعلیم جماعت یوکے نے تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے طلبہ کے نام پڑھ کر سنائے۔ محترم سیکرٹری صاحب تعلیم نے کہا کہ اس سال ہمیں تقریباً ۳۴۰؍ درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے ۱۳۶؍ لجنہ کے لیے منظور ہوئیں جبکہ ۱۱۱؍ مردوں کے لیے منظور ہوئیں۔
جی سی ایس سی
سید سجیل شاہ، میکال امینی، سید محمد عمر، ثاقب ججہ، ماہر احمد ملہی، دانیال احمد، طلحہ احمد، ارسل احمد، سبحان احمد سید، ایاز احمد، حسن سرور،مظہر احمد محمود، طہ حمید کریم، محمد محمود احمد، حذیفہ احمد رانا، عبد اللہ عمران صدیق یوسف سعید، عبد الرحمان حیات، رسیل راٹھور، شعیب احمد بٹ، فواد احمد خان انور، طلحہ احمد، سمیر خالد خلیل، بلال اکواسی بنسو، عامر احمد خان، ولید حمید احمد، حمزہ ابراہیم ڈار، ارسلان حیدر، زین رانا اکرم، ذیشان احمد، شاہ زیب امیر، حزیم احمد، دانش جہانزیب، شہروز سمیر راجپوت، ادیب مسعوداحمد۔
اے لیول
زین احمد ملک، حارث ملک، مشہود احمد خان، جہانزیب احمد سید، طلحہ احمد، حمود احمد سعید، نوید الرحمان، مرزا حزیم احمد، فرازخان، شعور احمد، مودود احمدطاہر، حاشر احمد رانا، طاہر احمد خان، جلال احمد درانی،حصور احمد بھٹی، سمرن احمد، ساحل سعد احمد، دانیال عمران صدیق یوسف سعید، رحمان امجد، تنزیل احمد، سید عطاء الحنان رضوی، توحید احمد خان، شاویز احمد، طلال احمد عدنان، حماد احمد، ملک بلال احمد ستکوہی، سبحان ودود رانا، روبین رشید احمد، روبین احمد، ہارون ناصر، ملک فراز احمد، طہ محمود۔
ڈگری
راغب مرزا، عذیب ملک، عمیر احمدخان، ثمر خان، حمزہ مغفور احمد، ڈاکٹر اسامہ سفیر، رحمان کھوکھر، منیف عادل، دانیال احمد بشارت، اطہر احمد مرزا، دانیال احمد مجوکہ، علی شیراز، حمزہ منور، حسنات احمد، فضل احمد گورایہ، حسیب احمد، داؤد احمد خان، ادریس احمد، حاشر محمود، شجاع الدین احمد، مرزا محمد مفلح احمد، سرمد احسان سہیل، دانیال احمد ظفر مرزا، رانا حارث بن شکیل، دانیال ظفر، اسامہ منور، فاران احمد، ڈاکٹر اسامہ سفیر، ڈاکٹر ارسم محمود، ڈاکٹر سید یوسف احمد، ڈاکٹر تیمور احمد خان پاشا، ڈاکٹر نبیل احمد، ڈاکٹر ظہیر طاہر، ڈاکٹر صباح الدین ثاقب، ڈاکٹر زبیر احمد، ڈاکٹر اظہر اشرف، ڈاکٹر نعمان محمود چودھری، ڈاکٹر عثمان عمر، ڈاکٹر تصویر احمد مبشر، ڈاکٹر طاہر احمد طورے، ڈاکٹر امرندر سنگھ مان۔
بیرو ن یوکے
مرزا مرفود احمد، عمر بن رئیس، عدنان محمود، ڈاکٹر طارق محمود
احمدیہ امن انعام
بعد ازاں مکرم امیر صاحب یوکے نے احمدیہ پیس پرائز کا اعلان کیا۔ امسال David Spurdleآف یوکے احمدیہ پیس پرائز حاصل کرنے کے مستحق ٹھہرے۔ یہ انعام انہیں آئندہ کسی پیس سمپوزیم میں دیا جائے گا۔
ہیٹی حکومت کی جانب سے حضور انور کی خدمت میں یادگارشیلڈ
اس کے بعد ہیٹی کی حکومت کی جانب سے Joel Turenneجو وکیل ہونے کے علاوہ ہیٹی کی Religious Ministry میں Judiciary Affairs کے ڈائریکٹر ہیں نے حضور انور کی خدمت میں ایک یادگاری شیلڈ پیش کی۔
جلسہ سالانہ کے موقع پر شاہ چارلس سوم کا خصوصی پیغام
مکرم امیر صاحب یوکے نے شاہ چارلس سوم کی جانب سے جلسہ سالانہ پر بھجوایا جانے والا خصوصی پیغام پڑھ کر سنایا جس میں عزت مآب بادشاہ نے جلسہ سالانہ کے حوالے سے اپنے نیک جذبات کا اظہار فرمایا۔
ٹھیک پانچ بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز منبر پر تشریف لائے اور تمام حاضرین کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کا تحفہ عطا فرما کر اختتامی خطاب کا آغاز فرمایا۔
اختتامی خطاب
تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو بڑی تفصیل سے معاشرے کے ہر طبقے کے حقوق بیان فرماتا ہے۔ ان حقوق کی وضاحت اور تفصیل ہمیں قرآن کریم، احادیث اور اس زمانے میں سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ارشادات میں ملتی ہے۔ گذشتہ تین سالوں سے مَیں مختلف مواقع پر جلسوں میں ان حقوق کو بیان کر رہا ہوں۔
گذشتہ برس مَیں نے عورتوں کے حقوق کے متعلق کچھ بیان کیا تھا جسے اپنوں اور غیروں سب نے بہت پسند کیا۔ یقیناً جب حقیقی اسلامی تعلیم دنیا کے سامنے پیش کی جاتی ہے تو لوگوں کو یہ قبول کرنا پڑتا ہے کہ اسلام ہر طبقے اور ہر شعبہ ہائے زندگی کے متعلق بڑی بےمثال تعلیم پیش کرتا ہے۔ پس اسلامی تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے ہمیں کسی قسم کے احساسِ کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
اب تک مَیں معاشرے کے اکیس مختلف طبقات کے حقوق بیان کرچکا ہوں، آج بھی کچھ بیان کروں گا۔ پس ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ انہیں ہم اپنی زندگیوں کا حصّہ بنائیں۔ تب ہی ہم وہ حسین معاشرہ قائم کرسکتے ہیں جو خداتعالیٰ ہم سے چاہتا ہے اور جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کے ذریعے سے ہمیں دی ہے۔
اس وقت مَیں غریبوں، محتاجوں اور مسکینوں کے حقوق بیان کروں گا۔ اس طبقے کے حقوق کا تحفظ نہ صرف خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا موجب ہے بلکہ یہ معاشرے کے امن کے بھی ضامن ہیں۔
قرآن کریم اس حوالے سے ہماری راہنمائی فرماتا ہے۔ فرمایا:صدقات تو محض محتاجوں اور مسکینوں اور اُن صدقات کا انتظام کرنے والوں اور جن کی تالیفِ قلب کی جارہی ہو، اور گردنوں کو آزاد کرنے اور چٹّی میں مبتلا لوگوں اور اللہ کی راہ میں عمومی خرچ کرنے، اور مسافروں کے لیے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے فرض ہے۔ اور اللہ دائمی علم رکھنے والا اور بہت حکمت والا ہے۔
اس آیت میں معاشرے کے ہر ضرورت مند طبقے کے حقوق کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ ضرورت مندوں کے حقوق کا خیال رکھنا حکومت کا کام ہے۔ ایسا نظام ہونا چاہیے جو مسلسل اس امر کا جائزہ لیتا رہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتاہے : اُن درویش مہاجرین کے لیے بھی ہے جو اپنے گھروں سے نکالے گئے، جو اپنے اموال سے الگ کیے گئے، وہ اللہ ہی سے فضل اور اس کی رضا چاہتے ہیں۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں۔ یہی ہیں وہ جو سچّے ہیں۔
اس آیت میں ان لوگوں کے حقوق کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو مذہب کی وجہ سے یا کسی بھی وجہ سے وطن سے بےوطن کیے گئے ہیں تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوکر معاشرے کا فعال حصّہ بن سکیں۔
اب اس حوالےسے بعض احادیث بھی پیش کرتا ہوں۔ ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو یہ گمان ہوا کہ انہیں دوسرے صحابہ پر فضیلت حاصل ہے۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے جو کمزور ہیں ان ہی کی وجہ سے تو تمہیں نصرت ملتی ہے اور رزق حاصل ہوتا ہے۔ یعنی یہ غریب طبقہ کام کرتا ہے اور اس سے امرا ءبھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پس ان کا خیال رکھو۔ انہیں ان کے کام کے مطابق اجرت اور مزدوری دو تاکہ ان میں کسی قسم کی بےچینی پیدا نہ ہو۔
آج ان ترقی یافتہ ممالک میں بھی آئے روز ہڑتالیں ہوتی ہیں کہ ہمارے حقوق ادا نہیں کیے جارہے۔ مختلف ممالک میں انقلاب کے نام پر حکومتوں کا تختہ الٹ دیا جاتا ہے۔ کہیں فوج اقتدار پر قابض ہوجاتی ہے۔ یہ سب اس لیے ہورہا ہے کیونکہ غریب طبقے کے حقوق ادا نہیں کیے جاتے۔
آنحضرتﷺ کس طرح محتاجوں اور ضرورت مندوں کے لیے تحریک فرماتے تھے، اس حوالے سےحضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں ایک جائیداد ملی، تو وہ نبی کریمﷺ کے پاس آئے۔ آپؐ نے فرمایا اگر تم چاہو تو اسے صدقے میں دےدو۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نےاس جائیداد کو محتاجوں اورغریبوں، مسکینوں، رشتے داروں اور مہمانوں کے لیے صدقہ کردیا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ بیوہ اور مسکین کی خدمت کے لیے جدوجہد کرنے والا اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔
غریبوں کا حق کتنا ضروری ہے حضور ﷺنے فرمایاکہ بد ترین کھانا وہ ہے جس ولیمہ میں امیر کو بلایا جائے اور غریب کو چھوڑ دیا جائے۔ صحابہؓ مساکین کی دلجوئی کے لیے کوشش فرماتے تھے حضرت جعفر بن ابو طالب مساکین کےساتھ وقت گزارتےان سے باتیں کرتے ان کو اپنا وقت دیتے تھے حضورﷺ نے ان کو مساکین سے محبت کی وجہ سے لقب عطا فرمایا۔
کمزوروں کا اللہ کے نزدیک کیا مقام ہے حضرت معاذبن جبلؓ نے بتایا کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں جنت کے بادشاہوں کے بارے میں نہ بتاؤں یہ وہ لوگ ہیں کہ جو بوسیدہ لباس اور غریب اور نادار ہیں۔
حضرت سہل بن سعد نے بتایا کہ حضورﷺ کے پاس سے ایک شخص گزرا امیر تھا حضوﷺ نے پوچھا اس کے بارہ میں کیا کہتے ہو جواب ملا کہ معزز ترین لوگوں میں سے ہے بات کرے تو سنی جائے رشتہ کی تجویز بھیجے تو قبول کیا جائے آپﷺ فرمائیں لیکن آپﷺ خاموش رہے پھرایک اور شخص گزرا اس کے بارہ میں حضورﷺ نے دریافت فرمایا کہ اس شخص کے بارہ میں بتاؤ تو صحابہ بولے کہ نادار مسلمانوں سے ہے نہ رشتہ کے لیے اس کا پیغام قبول کیا جائے نہ بات سنی جائے نہ عزت و تکریم کی جائے حضورﷺ نے فرمایا یہ غریب اس پہلے امیر جیسے کئی لوگوں سے بہتر ہے تم صرف امارت کو دیکھتے اوراہمیت دیتے ہو ایسے بوسیدہ حال کئی لوگ ہیں کہ جو خدا کے نام سے کوئی بات کریں تو ضرور پوری ہوتی ہے۔
اسی طرح ایک اور مثال ہے کہ ایک غریب الحال نادار مسلمان فوت ہو گیا تو مسلمانوں نے اس کی وفات کی خبر حضورﷺ کو نہ دی جب حضورﷺ کو علم ہوا تو خفگی کا اظہار فرمایا اور اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور جنازہ ادا کیا۔
مسکین کو کھانا کھلانے کے بارہ میں فرمایا کہ یہ کتنا اعلیٰ مقام ہے۔ اس بارہ میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کون آج روزہ دار ہے؟ کو ن جنازہ کے ساتھ گیا تھا؟ کس نے مسکین کو کھانا کھلایا؟ کس نے مریض کی عیادت کی؟ سب کے جواب میں حضرت ابوبکرؓ نے اس کے تمام مثبت جواب دیے تو حضور ﷺ نے فرمایا جس میں یہ چار باتیں جمع ہو جائیں تو وہ جنت میں داخل ہو گیا۔ یہ ہے اہمیت مساکین کو کھانا کھلا نے کی۔
ایک مرتبہ ایک مسلمان جو کہ پہلے غلام تھے نےابو سفیان کے سامنے مسلمانوں کی فتوحات کا ذکر کیا تو اس کو برا لگا کہ تم نے قریش کے لوگوں کی اہانت کی ہے اس پر حضرت ابو بکرؓ نے سن کر مسلمانوں کو مخاطب ہو کرفرمایا کہ کیوں تم لوگ ایسے کرتے ہو۔ قریش کے سرداروں کی اہانت نہ کرو۔ یہ بات جب حضورﷺ تک پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا:ابو بکر تم نے ان نادار مسلمانوں کی دل شکنی کی ہے۔ اس پر آپؓ ان مسلمانوں کے پاس گئے اور معذرت طلب کی۔
حضورﷺ نے فرمایاکہ مسکین وہ نہیں کہ جو ایک دو کھجور لے کر تسلی پالے بلکہ مسکین وہ ہے کہ جو سوال نہ کرے۔
ایک مرتبہ ایک غریب عورت حضرت عائشہؓ کے پاس آئی اور اس کے ساتھ دو بیٹیاں بھی تھیں۔ اس نے سوال کیا گھر میں موجود ایک ہی کھجور تھی تو آپؓ نےوہ ہی دے دی تو ماں نے اس کو آدھا کر کے دونوں بیٹیوں میں بانٹ دیا اور خود بھوکی رہی یہ سب حال دیکھ کرآپؓ نے حضورﷺ سے احوال بیان کیا جس پر حضورﷺ نے فرمایا کہ جس کے گھر میں دو بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی اچھی تربیت کرے اللہ اس کو جنت میں داخل کرے گااور اس ماں کو بھی جنت میں داخل کرے گا جس نے ایسا کیا ہے۔
ایک مرتبہ ایک صحابیؓ اپنی دولت پر ناز کرنےکی باتیں کر رہے تھے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ کیا یہ تم کو صرف اپنے زور بازو سے ملا ہے بلکہ اس میں ان غریبوں کی محنت کا بھی حصہ ہے جن کی وجہ سے تم نے یہ مال حاصل کیا ہے۔ دیکھیں کیسے اسلام نے ان تمام طبقات کے حقوق کی نہ صرف نشاندہی کی بلکہ ان کا حق بھی قائم فرمایا۔
حضرت عمرؓ ایک بڑھیا کے گھر جا کر ان کے کام کاج کر دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ گئے تو کوئی ان سے پہلے ہی گھر کی صفائی اور کام کاج کر گیا تھا۔ اگلی مرتبہ وہ ذرا جلدی چلےگئے اور چھپ گئے تو کیا دیکھا کہ خلیفہ اوّل حضرت ابو بکرؓ تشریف لائےاورکام کر گئے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میرا بھی یہ ہی خیال تھا کہ یہ کام حضرت ابوبکرؓ کا ہی ہو سکتاہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ ایک روایت ہے کہ نافع نے حضرت ابن عمرؓ سے روایت کی کہ حضرت عمرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اپنی ایک جائیداد یعنی کھجور کا ایک باغ صدقے میں دےدیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اصل مال کو اس شرط پر صدقے میں دے دوکہ وہ نہ بیچا جائے، نہ ہبہ کیا جائے اور نہ ورثے میں دیا جائے بلکہ اس کے پھل کو خرچ کیا جائے یعنی حکومت کے پاس رہے تاکہ لوگوں کے کام آتا رہے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نےاُسے صدقے میں دے دیا اور ان کا صدقہ اللہ کی راہ میں غلاموں کے آزاد کرنے، مسکینوں، مہمانوں، مسافروں اور رشتہ داروں کے لیے وقف تھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو اس کا نگران ہو وہ اس میں سےمناسب طور پر دستور کے مطابق خود کھائے یعنی نگران کے لیے اس میں تنخواہ مقرر کی جاسکتی ہے۔
حضرت عمرؓ کے زمانے میں ایک قوم کے سردار نے تکبر کی وجہ سے ایک غریب کو تھپڑ ماردیا تو علم ہونے پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میں اس کا حق دلواؤں گا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس بارے میں لکھا کہ جبلہ ابن لایہم ایک بہت بڑے عیسائی قبیلے کا سردارتھا۔ جب شام کی طرف مسلمانوں نے حملے شروع کیے تو یہ اپنے قبیلے سمیت مسلمان ہوگیا اور حج کے لیے چلا گیا۔ حج کے دوران ایک مسلمان کا پاؤں اتفاقاً اُس کے پاؤں پر پڑ گیا۔ چونکہ وہ اپنے آپ کو ایک بادشاہ سمجھتا تھا۔ اُس کے سپاہیوں کی تعداد ساٹھ ہزارتھی اس لیےجب ایک ننگ دھڑنگ آدمی کا پاؤں اُس کے پاؤں پر پڑا تواُس نے اُسے تھپڑ ماردیا۔ ایک اور مسلمان نے اُسے کہا کہ جس مذہب میں تُو داخل ہوا ہے اس میں امیرغریب میں کوئی فرق نہیں سمجھا جاتا۔ اُس نے کہا کہ میں کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ اُس مسلمان نے کہا کہ تُو پرواہ کرے یا نہ کرے لیکن جب عمرؓ کو پتا لگے گا تو تجھے سزا ملے گی۔ اس پر جبلہ بن لایہم حضرت عمرؓ کے پاس گیا اور پوچھا کہ اگر کوئی بڑا آدمی کسی چھوٹے آدمی کو تھپڑ ماردے تو اسلام کیا کہتا ہے؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اُس کے منہ پر چھوٹے شخص سے تھپڑ لگواتے ہیں۔ آپؓ نے فرمایا کہ اسلام میں چھوٹے بڑے کا کوئی تصور نہیں۔ جبلہ بن اہم اُسی وقت اُس مجلس سے اٹھا اور اپنے ساتھیوں سمیت اپنے ملک کی طرف بھاگ کر مرتد ہوگیا۔ حضرت عمرؓ کے زمانے کی یہ مساوات کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔
ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کا گزر ایک ایسے دروازے کے سامنے سے ہوا جہاں ایک نابینا بوڑھا آدمی بھیک مانگ رہا تھا۔ آپؓ کے پوچھنے پراُس نے کہا کہ میں یہودی ہوں اور جزیہ کی وجہ سے اس بڑھاپے میں بھیک مانگ رہا ہوں۔ حضرت عمرؓ اُسے اپنے گھر لے گئے اور کچھ چیزیں اُسے عطیہ کیں۔ پھر بیت المال سے اُس کا خیال رکھنے کا حکم دیا۔ آپؓ نے اُس سے اور اُس جیسے دوسرے افراد کا جزیہ معاف فرمادیا۔
اسلام کے اقتصادی نظام کے بارے میں حضرت مصلح موعود ؓ تفصیل سے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اسلامی حکومت جب اموال کی مالک ہوئی تو ہرایک شخص کی روٹی کپڑے کا انتظام کیا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب نظام مکمل ہوا تو اُس وقت اسلامی تعلیم کے تحت ہر شخص کے لیے روٹی کپڑا مہیا کرنا حکومت کے ذمے تھا اورآپؓ یہ ذمہ داری بڑی باریکی کے ساتھ ادا کیا کرتے تھے۔ اس مقصد کےلیے آپؓ نے مردم شماری کا آغاز کیا۔ یورپین مصنفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پہلی مردم شماری حضرت عمرؓ نے شروع کی۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ ہر شخص کو روٹی اور کپڑا دیا جاتا تھا اور حکومت کو اس بات کا علم رکھنے کے لیے کہ کتنے افراد ہیں ایک رجسٹر میں درج کیا جاتا تھا۔ آج کل کہا جاتا ہے کہ سوشل ملتی ہے اور ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے لیکن سب سے پہلے یہ نظام اسلام نے جاری کیا تھا۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں عملی طور پر ہر شخص کا نام رجسٹر میں درج کیاجاتا تھا اور ہر شخص کے لیے غذا بھی مقرر کردی گئی تھی تاکہ ہر شخص اس سے مستفید ہوسکے۔
تاریخ میں آتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں دودھ پیتے بچوں کا خیال نہیں رکھا جاتا تھا۔اُنہیں غذا اُس وقت ملتی تھی جب مائیں اُن کا دودھ چھڑا دیتی تھیں۔ حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ گشت کے دوران دیکھا کہ ایک بچہ روتا جارہا تھا اور ماں تسلی دیتی جارہی تھی۔ آخر حضرت عمرؓ نے اُس کی ماں سے پوچھا کہ تم اسے دودھ کیوں نہیں پلاتی یہ کب سے رو رہا ہے؟ اُس نے کہا کہ عمرؓ نے فیصلہ کردیا ہے کہ دودھ پینے والے بچے کو غذا نہ ملے اس لیے میں نے دودھ چھڑادیا ہے تاکہ بیت المال سے غلہ مل سکے۔ اب اگر یہ روتا ہے تو عمرؓ کی جان کو روئے جس نے ایسا قانون بنایا ہے۔ حضرت عمرؓ واپس آئے اور راستے میں کہتے جاتے تھے کہ عمر! تجھے نہیں معلوم کہ تُو نے کتنے بچوں کا دودھ چھڑادیا۔ آپؓ نے سٹور میں سے ایک بوری اپنی کمر پر اُٹھا ئی تو ایک شخص نے کہا کہ میں اُٹھا لیتا ہوں۔ آپؓ نے فرمایا کہ غلطی میری ہے اس لیے میں ہی اُٹھاؤں گا اور پھر وہ بوری اُس عورت کے گھر پہنچا کر آئے۔ بعد ازاں دوسرے دن ہی آپؓ نے یہ قانون تبدیل کردیااور دودھ پینے والے بچوں کے لیے بھی غذا دینے کا حکم جاری کردیا۔
حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ نیکی ایک زینہ ہے اسلام اور خدا کی طرف چڑھنے کا۔ شیطان راہ حق سے بہکاتا ہے۔ باسی روٹی فقیر کو دینا کیا نیکی ہے؟ تنعم پسند کو کیا پڑی کہ باسی روٹی کھائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَیُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًاوَّیَتِیۡمًاوَّاَسِیۡرًا۔ طعام کہتے ہی پسندیدہ طعام کو ہیں۔ تازہ کھانا دینا نیکی ہے۔
حضرت عبد الکریم صاحب سیالکوٹیؓ لکھتے ہیں کہ بعض اوقات دوا پوچھنے والی دروازہ پر زور سے دستک دیتیں کہ مرزا جی دروازہ کھولیں۔ آپ اس طرح اٹھتے کہ کسی مطاعِ ذی شان کا حکم آیاہے۔ ہمارے ہاں پڑھے لکھے لوگوں کو وقت کی پروا نہیں۔ وہ اپنی زبان میں باتیں کئے جاتی تھی۔ ایک بار حضرت مسیح موعودؑ کے پاس کچھ عورتیں آئیں۔ اندر سے بھی ملازمائیں آ گئیں۔ حضرت صاحب مستعد کھڑے ہیں اور کوئی تین گھنٹے تک ہسپتال جاری رہا۔ اس وقت آپ کو ایک اہم مضمون لکھنا تھا۔ آپ نے کہا یہ بھی دینی کام ہے۔ یہ مسکین لوگ ہیں ہسپتال نہیں میں ان کے لیے انگریزی اور یونانی دوائیں منگوا کر رکھتا ہوں۔ مومن کو سُست نہیں ہونا چاہیے۔
ایک بار شام کا وقت تھا لوگ مختلف شہروں سے آئے ہوئے تھے اور ایک دوسرے پر گر رہے تھے کہ حضورؑ کے قریب ہوں۔ جگہ کی کمی تھی اور لوگ بے شمار، کسی نے اعلان کیا کہ مرد پیچھے ہٹ جائیں حضرت کو تکلیف ہوتی ہے۔ حضورؑ نے کہا کہ کسی کو نہ کہا جائے۔ یہ لوگ اخلاص و محبت سے سینکڑوں کوس کا سفر کر کے آتے ہیں۔ ان کی خاطر خدا نے الہاماً کہا کہ ولا تصعر لخلق اللّٰہ و تسئم۔ یہ ان غریبوں کے لیے ہے جن کے کپڑے گندے ہوتےہیں۔ ان کو کچھ نہیں کہنا۔ خدا کا فضل ہی ان کی دستگیری کرتاہے۔ اللہ نے غریبوں کی سفارش کی ہے۔ امیر تو مجلس میں خود پوچھا جاتا ہے۔
فرمایا میں نہیں چاہتا کہ میری جماعت والے ایک دوسرے کو چھوٹا بڑا سمجھیں۔ بڑا وہ ہے جو مسکین کی بات مسکینی سے سنے۔ اور کوئی بات چڑ کی منہ پر نہ لائے۔ وہ جماعت نہیں ہو سکتی کہ ایک دوسرے کو کھائے۔ اورایک دوسرے کا گلہ کریں۔ ایک دوسرے کو حقارت سے دیکھیں۔ غریبوں کا فرض ہے کہ معزز بھائیوں کی عزت کریں۔ امیروں کا فرض ہے کہ غریبوں کی مدد کریں فقیر اور ذلیل نہ سمجھیں۔ وہ بھی بھائی ہیں۔
آپؑ نے فرمایا: غرباء نے دین کا بہت سا حصہ لیا ہے۔ امیرمحروم ہو جاتے ہیں، پہلے ظلم اور فسق و فجور میں مبتلا ہوتے ہیں۔ سعادت اور فضل خدا کا بڑا حصہ غرباء کو ملتا ہے۔ نماز کے وقت غرباء کے ساتھ کھڑے ہونے میں امراء کو دقت پیش آتی ہے اور تکبر ان کو محروم کر دیتی ہے۔ مسجد تو ہوتی ہی دار المساکین ہے۔
حضور انور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم تکبر سے پاک ہو کر غریبوں اور مسکینوں کے حق ادا کرنے والے ہوں اور ہر جگہ جماعت میں، ہر ملک میں ایسا معاشرہ نظر آئے جس میں اسلامی معاشرہ کا نمونہ نظر آتاہو۔
دعاؤں میں محتاجوں،غریبوں، اسیران اور شہداء کے خاندانوں کو یاد رکھیں۔ اپنے لیے دعا کریں اللہ ایمان و ایقان میں بڑھائے۔ جن ملکوں میں احمدیوں پر ظلم ہو رہے ہیں ان کو ظلموں سے اللہ نجات دے۔ جہاں حقوق سلب کیے جا رہے ہیں ان کے لیے دعا کریں وہ اپنے حق حاصل کرنے والے ہوں۔ عامة المسلیمن کے لیے دعا کریں۔ دنیا کو تباہی سے بچنے کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ اپنا رحم اور فضل فرمائے اور یہ خدائے واحد کو پہچاننے والے بن جائیں۔
حضور انور کا خطاب تقریباً چھ بجے تک جاری رہا۔ اس کے بعد حضور انور نے اجتماعی دعا کروائی۔ دعا کے بعد حضور انور نے اعلان فرمایا کہ امسال اللہ تعالیٰ کے فضل سے۱۱۸؍ممالک سے کُل ۴۱؍ ہزار ۶۵۴؍ احباب جماعت نے شرکت کی جبکہ ۶۵؍ملک بذریعہ لائیو سٹریمنگ شامل ہوئے۔ یہ حاضری ۲۰۱۹ء کے ریکارڈ حاضری والے جلسے سے تقریباً دو ہزار زائد ہے۔
اس کے بعد عربی، اردو، افریقی، بنگالی اور سپینش زبانوں میں گروپس کی صورت میں ترانے پیش کیے گئے۔
سوا چھ بجے حضور انور نے جلسہ سالانہ کے تمام شرکاء اور ایم ٹی اے کے توسط سے دنیا بھر کے تمام احدیوں کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ کا تحفہ عنایت فرمایا اور جلسہ گاہ سے تشریف لے گئے۔