جلسہ سالانہ برطانیہ ۲۰۲۳ء کے (تیسرے دن صبح) چوتھے اجلاس کی مفصل رپورٹ
جلسہ سالانہ کے تیسرے اور آخری روز کا پہلا اور جلسہ سالانہ کا چوتھا اجلاس ۳۰؍جولائی کو ٹھیک صبح دس بجے شروع ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت مکرم عبدالاول خان صاحب امیر جماعت بنگلہ دیش نے کی۔ تلاوت قرآن کریم مع اردو ترجمہ مکرم احسان احمدصاحب نے سورۃالنور آیات۳۶تا۳۹سے کی۔بعد ازاں مکرم محمد خالد چغتائی صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کے منظوم کلام میں سے درج ذیل اشعار پیش کیے جن کا آغاز درج ذیل شعر سے ہوا:
وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا
نام اس کا ہے محمدؐ دلبر مرا یہی ہے
اس اجلاس کی پہلی تقریر ڈاکٹر سر افتخار احمد ایاز صاحب چیئرمین انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کمیٹی یوکے کی تھی۔ آپ کی تقریر کا عنوان تھا ’’آنحضرتﷺ کا اسوۂ حسنہ امن عالم کا ضامن ہے‘‘۔
آپ نے وَمَا أَرْسَلْنٰكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِينَ (سورۃ الانبیاء:۱۰۷) کی تلاوت کی اور ترجمہ پیش کیا کہ اور تجھےنہیں بھیجا مگرتمام جہانوں کے لیے رحمت کے طور پر۔
ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ یہ آیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم ساری دنیا کو واقف کروائیں کہ حضرت محمد ﷺ صرف ہم مسلمانوں کےلیےہی نہیں بلکہ سارے انسانوں کی ہدایت کے لیے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ اس تعلق کی بنا پر ہم پر ایک اہم اور بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اقوام عالم کے سامنے آپؐ کا اس طرح تعارف پیش کریں جس طرح اللہ تعالیٰ نےقرآن کریم میں کیا ہے۔پھر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی زندگی کو بالخصوص امت مسلمہ کے لیےاور بالعموم ساری انسانیت کے لیے نمونہ بنا کر پیش کیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی خصوصیت وامتیاز دوسرے انبیاء و رسل کی زندگی کے مقابلے میں یہ ہے کہ آپؐ کی تئیس سالہ مختصر نبوی زندگی اتنی ہمہ گیر ہے کہ ایسا لگتا ہے آپؐ کی حیات طیبہ گویا سارے انبیاء و رسل کی سیرتوں کا خلاصہ ہے۔ گویا سارے انبیاء کی سرگزشت کو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی زندگی میں سمو دیا ہے۔آپ پر ایک کامل شریعت قرآن کریم نازل کی گئی جس میں امن عامہ کی بہترین تعلیم دی گئی جسے آپؐ نے دنیا میں قائم کرنے کا بہترین نمونہ بھی عطا فرمایا۔ رَحْمَۃً لِلْعَالَمِینَ حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے اپنی خدا داد قوّت قدسی کے طفیل اس وحشی اور خونخوار جنگجو قوم کے دلوں کو محبت اور دلائل کے ذریعہ ایسا گھائل اور قائل کیا کہ وہ لوگ ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن گئے۔ آپؐ نے بچیوں کو رحمت کا خطاب دے کر عورت کے حقوق قائم کیے۔آج دنیا میں امن اور ترقی کے لیے عورت کا قابل تحسین کردار محسن عظیم محمدﷺ کا مرہونِ منت ہے۔جنگ بدر میں آنحضرت ﷺ نے حکم دیا کہ قریش کوپانی پی لینے دیا جاوے۔ چنانچہ اُنہوں نےامن کےساتھ پانی لیا اور اپنےلشکر کو واپس لوٹ گئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نےبرطانوی پارلیمنٹ میں خطاب میں فرمایا کہ آج بھی امن صرف اسی صورت میں قائم ہو سکتا ہے۔ جب دشمن کے لیے بھی عدل کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں۔ اس طرح جو امن حاصل ہو گا۔ درحقیقت وہی پائیدار امن ہو سکتا ہے۔
آپؐ نے فرمایا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے انسان امن میں رہیں اور مومن وہ ہے جس سے لوگوں کی جانیں اور مال محفوظ رہیں۔
آنحضورﷺ نےگھر کی بنیادی اکائی سے امن کا آغاز فرمایا۔ اور انسانی معاشرت کی اس بنیادی اکائی کے امن کو برقرار رکھنے کے لیےراہ نما اصول متعین فرمادیے ہیں۔آپؐ نے فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے بچوں سے رحم کا سلوک نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کے حق کا پاس نہیں کرتا۔
پھر گھروں میں امن وسلامتی کا دوسرا اہم تعلق انسانی زندگی میں زوجین کا ہے جو بہت اہمیت کا حامل ہے۔آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہے۔
رسول کریمﷺ نے رحمی رشتوں کو جوڑنے کی طرف خاص توجہ دلائی پھر آپؐ نے اپنے ماننے والوں کو دنیا کے ہر انسان سے پیار، محبت اور خیرخواہی کی تعلیم دی ہے اور اس میں کسی قسم کے امتیاز کو رَوا نہیں رکھا۔ فرمایا: جو لوگوں پر رحم نہیں کرے گا اللہ تعالیٰ اُس پر رحم نہیں کرے گا۔
نبی کریمﷺ نے اپنے ماننے والوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دے کر ہر ضرورت کے وقت اُس کی مدد کی تعلیم دی ہے۔یہ ایک ایسی اعلیٰ تعلیم ہے کہ امنِ عالم کی گارنٹی دیتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حقِ ہمسائیگی کا ہمیشہ خیال رکھتے۔ فرماتے تھے کہ جبریل نے مجھے ہمسایہ سے حسن سلوک کی اس قدر تلقین کی یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ وہ ہمسایہ کو شاید حق وراثت میں بھی شامل کرنے کی ہدایت کریں گے۔ آپؐ نے فرمایا’’چالیس گھروں تک ہمسایہ کا حق ہوتا ہے۔‘‘
پھر آپ ﷺ نے دنیا میں امن کے قیام کے لیے عظیم الشان نمونے اور اصول قائم فرمائے۔ اُن میں سے ایک عظیم اصول یہ ہے کہ امن کے لیےہجرت کر لی جائے۔ اور اپنا وطن عزیز بھی اگر چھوڑنا پڑے تو پھرامن کی خاطر چھوڑ دیاجائے۔
چنانچہ آپ ﷺنےکفار مکہ کے مظالم بڑھنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہجرت کا فیصلہ فرمایااور امن کی خاطر مکہ کوچھوڑ کر مدینے میں جابسے۔ رسول کریمﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہود، مشرکین اور دیگر قبائل مدینہ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو میثاق مدینہ کے نام سے معروف ہے۔ یہ معاہدہ مذہبی آزادی اور حریّت ضمیر کی بہترین ضمانت ہے۔ اور دنیا میں قیام امن کے لیے ایک بنیادی چارٹرہے۔
پھر رسول کریمﷺ نے ہجرت مدینہ کے بعد سربراہِ مملکت اور حاکم وقت کے طور پر دس سال تک عملاً امورِ مملکت چلائے۔ یہاں تک کہ مدینہ کی محدود شہری مملکت ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے پورے عرب کی وسعتوں پر چھاگئی۔ محسن انسانیتﷺ کی زیر نگرانی چلنے والی مملکت میں ہر خاص و عام اور مسلم و غیر مسلم کے معاشی تحفظ اور اُن کی معاشرت کاخاص خیال رکھا گیا۔ یہاں تک کہ مملکت کی حدود میں بسنے والے تمام باشندے بلا امتیاز ہر قسم کی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور مذہبی سہولتوں سے متمتع ہوتے رہے۔ آپؐ نے آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے اسلامی شریعت کے جامع اُصول و ضوابط بیان فرمائے اور انہیں باور کرایا کہ حقوق انسانی کی ادائیگی اسلام کی بنیادی تعلیم ہے۔
دنیا آج جنگ کی آگ میں جھلس رہی ہے۔ جنگ کے شعلے یورپ کے دہانے سے ہوتے ہوئےروس یوکرین کی جنگ کی شکل میں ہمارے سامنےہیں۔
آنحضورﷺ اور آپ کےا صحاب رضی اللہ عنہم مسلسل تیرہ سال تک کفار مکہ کے ہاتھوں، اذیتیں، دکھ اور تکالیف اُٹھاتے رہے لیکن آپؐ نے مسلمانوں کو بھی یہی تلقین فرمائی ہے کہ وہ جنگ کی خواہش نہ کیا کریں فرمایا کہ دشمن سے مقابلہ کی تمنا نہ کرو اور جب ان سے مڈھ بھیڑ ہوجائے تو ثابت قدم رہو۔
سامعین کرام!دنیا کے امن کو تباہ کرنے میں ناانصافی کا بہت عمل دخل ہے جس کی وجہ سے رقابتوں میں اضافہ ہوتا ہے، عداوتیں بڑھتی ہیں اور نفرتیں پھولتی پھلتی ہیں۔ اسلام نے بلاتفریق مذہب وملت انصاف سے بڑھ کر احسان کا حکم دیا ہے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے: یقیناً اللہ عدل کا اور احسان کا حکم دیتا ہے۔
آپؐ نے معاشرے کے ہر فرد کے لیے عدل وانصاف کے یکساں اصول متعین فرمائے اور انہی کے مطابق عمل بھی کروایا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہوئے کہ جب ان کا کوئی بڑا اور بااثر آدمی چوری کرتا تو اس کو چھوڑدیتے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تو اس کو سزا دیتے۔ خدا کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمدﷺ بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا۔
مقرر نے کہا کہ دنیا میں بڑے بڑے فسادات کی ایک بڑی وجہ قومی تفاخرہے۔ آپ ﷺ نے انسانی مساوات کے اصول سے امن کے قیام کی سنہری تعلیمات پیش فرمائی ہیں۔ موجودہ دَور میں بظاہر Racismکو برا خیال کیا جاتا ہے اوراسے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن دنیا کے اکثروبیشتر معاشروں میں Racismکی وجہ سے انسانوں کے درمیان دُوریاں بڑھ رہی ہی۔
نبی کریمﷺ کی لائی ہوئی تعلیم کے مطابق نسل پرستی کی ہر شکل نہایت مکروہ اور امن عالم کے لیے زہر قاتل ہے۔ اسلامی تعلیم ہے کہ اے لوگو! یقیناً ہم نے تمہیں نر اور مادہ سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ یقیناً اللہ دائمی علم رکھنے والا(اور) ہمیشہ باخبر ہے۔
اس طرح تاریخ عالم میں پہلی مرتبہ تمام انسانوں کو ایک دوسرے کے ہم پلہ قرار دے کر اسلام نے انسانی مساوات اور امن عالم کا ایسا منشور پیش کیا جس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں پائی جاتی۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اگر کسی کو کوئی شرف حاصل ہے تو وہ تقویٰ کی بنا پر ہے۔
پس آپ ﷺ کی زندگی کا سب سےبڑا معجزہ یہ ہےکہ آپ نےقیام امن کےلیے دنیا کے سامنے جو بھی تعلیمات دیں اُن سب کو اپنی مبارک زندگی کےعملی نمونہ سے مزین کر کے دکھایا۔ آپ ﷺ نے لوگوں کی تربیت کرنے سے قبل خود کو ایک بہترین مثال اورراہنما بن کر عملی نمونہ دکھا یا۔
آپؐ کی زندگی میں بے شمار رول ماڈل اللہ تعالیٰ نے رکھ کر آپ کو سراجِ منیر یعنی روشن چراغ بنایا۔ اپنے تو اپنے غیر بھی اس کا اقرار کرنےپر مجبور ہیں۔
چنانچہ ایک فرانسیسی مورخ ارنسٹ رینان (Ernest Renan) لکھتا ہے: محمد(ﷺ) ہمارے سامنے ایک محبت کرنے والے، معقول، باوفا اور نفرت کے جذبات سے پاک انسان کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ آپ کی محبت پر خلوص تھی اور آپ کی طبیعت میں رحم کی طرف زیادہ جھکاؤ تھا۔
اسی طرح سوامی لکھشمن پرشاد ایک ہندو مصنف اپنی کتاب ’’عرب کا چاند‘‘میں حضور ﷺ کے بارے میں لکھتےہیں : پیغمبر امن کے دل کی عمیق ترین گہرائیوں میں صلح وآشتی کے جذبات کا ایک بحر بیکراں کی طرح موجزن تھا۔
پس آج ہمارا کام ہے کہ ہم آپ ﷺ کے اسوہ پر عمل کریں اور دنیا والوں کو آپ کے اُسوہ حسنہ کا عملی نمونہ دکھائیں۔ تاکہ دنیا باور کرے کہ اس زمانہ میں بھی امن کی ضامن حضور ﷺ کی تعلیمات اور آپ کا اُسوہ حسنہ ہے۔آنحضور ﷺ کی ذات اقدس تمام مخلوقات کے لیےسراپا امن و عافیت ہے۔ اس کے انوار و جمال جا بجا منکشف ہو کر ایک عالم کو منور کر رہےہیں۔
اس وقت ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ساری دنیا میں قیام امن کے لیے آنحضرت ﷺ کے مبارک اسوہ حسنہ کو عظیم مساعی کے ساتھ پیش فرما رہے ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے تمام ممالک کے سربراہوںکو خطو ط لکھنا ہو یا مختلف ایوانوں میں امن کی تعلیمات کو پیش کرنا۔ ہر میدان میں پیارے آقا کا نمونہ ہمارے سامنےموجود ہے۔ دنیا آج کھلے الفاظ میں آپ کو امن کا چیمپئین تسلیم کر رہی ہے۔ اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا کے امن کا ضامن اگر کوئی ہےتو ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنےپیارے آقا کی بابرکت قیادت میں دنیا میں امن کے قیام کے لیے آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کا بہترین عملی نمونہ پیش کرنی کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
اس اجلاس کی دوسری تقریر مکرم اظہر حنیف صاحب نائب امیر و مبلغ انچارج جماعت احمدیہ امریکہ کی تھی۔ آپ کی تقریر کا عنوان تھا’’سکول میں بچوں کو پیش آنے والی مشکلات کا حل‘‘۔ یہ تقریر انگریزی زبان میں تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس سے قبل کہ میں اپنے موضوع کے متعلق بات کروں میں ایک واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں جو اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے کہ ہمارے پیارے آقا اور امام حضور انور ایدہ اللہ نے کیونکر اس موضوع کو جلسہ سالانہ کے لیے چنا۔حضور انور ایدہ اللہ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ اس عمر میں شیطان کی جانب سے گمراہ کرنےاور اپنی طرف متوجہ کرنے کے مواقع پیدا ہوجاتے ہیں۔ دعا اور مناسب کوشش ہی اللہ کے فضل سے ہمیں اور ہمارے بچوں کو محفوظ رکھ سکتی ہے۔ یہ ایک مستقل جہاد ہے۔چنانچہ دعا، کوشش اور اللہ کی تائید سے ایک مومن خود کو اور اپنی اولاد کو شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھ سکتاہے۔نہ یہ کہ وہ ناامید ہوجائے اور مایوسی سے کوشش کرنا چھوڑ دےاور منفی سوچ اس پر حاوی ہو جائے۔منفی سوچ کی ایک مثال میرے سامنےاس وقت آئی جب مجھے کسی نے خط لکھا اور کہا کہ دنیا پیسے کے پیچھے بھاگ رہی ہے،نئی برائیاں ابھر رہی ہیں اور معاشرہ پہلے سے زیادہ برائی اور گمراہی کی طرف کھنچا چلا جارہاہے۔لکھنے والے نے لکھا کہ وہ شادی تو کرے گا لیکن وہ نہیں چاہتا کہ اس کے ہاں بچے ہوں اور بے اولاد رہنا پسند کرے گا۔
مولانا صاحب نے کہا کہ کیا مسائل کا یہی حل ہےکہ ہر شادی شدہ شخص کو یہ کہا جائے کہ وہ اولاد پیدا نہ کرے۔ تو کیا اولاد پیدا نہ کرنا اولاد کی تعلیم و تربیت کے مسائل کا حل ہے۔ہرگز نہیں۔ حضور انور ایدہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ انتہائی قنوطیت پسندی اور شیطان کے ہاتھوں شکست تسلیم کرنےکےمترادف ہے۔ اور یہ کہ اللہ کے پاس کوئی طاقت نہیں کہ باوجود ہماری کوششوں اور دعاؤں کے وہ ہمارے بچوں کو شیطان کے حملوں سے بچا سکے۔ یہ تو شیطان کے پیروکاروں کو کھلی چھوٹ دینےکے مترادف ہےکہ وہ مومنوں کی اولادوں کو جیسے مرضی تباہ و برباد کر دیں۔چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ کے کسی بھی پیروکار کو ایسی قنوطی سوچ نہیں رکھنی چاہیے۔
اللہ کے فضل سے ہم اس مسیح موعودؑ کے ماننے والے ہیں جس کو اللہ نے شیطان کو شکست دینے اور زمین پر اس کی بادشاہت قائم کرنے کےلیے بھیجا ہے۔دجال کا مطلب بھی مجسم شیطان ہے اور پرانے صحیفوں میں لکھاہےکہ کیسے آخری زمانے میں شیطان کے ساتھ جنگیں ہوں گی اور وہ آخر کار شکست کھائے گا۔ اور مسیح موعود اس کو مکمل طور پر زیر کر لے گا۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کیسے حضرت مسیح موعودؑ نے شیطانی طاقتوں کو شکست دی اور ہمیں مسائل کا مقابلہ کرنے کےلیے راہنمائی کی۔تعلیم الاسلام سکول قادیان کی تاریخ اور ضرورت بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ قادیان کا مڈل سکول آریوں کا تھا اور وہ سکول میں بتاتے کہ گوشت کھاناانسانی جبلت کے منافی ہے اور براہ راست اسلام پر اعتراضات کرتے۔آپ نے اپنا بھی واقعہ بیان کیاکہ جب آپ پرائمری سکول میں داخل ہوئے تو ایک بار گھر سے آپ کے لیے کلیجی کا گوشت بھیجا گیا تو میاں عمر الدین صاحب نے دیکھ کر کہا کہ کیا آپ بھی گوشت کھاتے ہیں۔ اور گوشت لفظ کی جگہ انہوں نے ماس کا لفظ استعمال کیا۔تو آپ نے کہا کہ یہ ماس نہیں کلیجی ہے کیونکہ آپ نے پہلی بار لفظ ماس سنا تھا۔اس پر انہوں نےکہا کہ جانور کے گوشت کو ماس کہتے ہیں۔ وہ گو کہ مسلمان تھے لیکن آریہ استادوں کی وجہ سے گوشت کھانےکو غلط بلکہ جرم سمجھتے تھے۔چنانچہ جب یہ تنقید حد سے بڑھ گئی تو حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ ہر حال میں جماعت کو اپنا پرائمری سکول کھولنا چاہیے۔(ماخوذازخطبہ جمعہ ۲۷؍ مارچ۲۰۱۵ء)
حضرت عیسیٰؑ نےکہا ہے کہ اپنے موتی سؤروں کے سامنے نہ پھینکو وہ انہیں پیروں تلے روند دیں گے۔
چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ نے نہ چاہا کہ آپ کا لخت جگر اور دوسرے مسلمان بچے جو بیش قیمت ہیروں کی طرح تھے، ایسے استادوں کےہاتھ میں رہیں جو انکی مسلم شناخت ہی ختم کردیں۔مسلمان اقلیت تھے اور معاشرتی دباؤ کی وجہ سے مسلمانوں کو ہندوؤں کی سوچ اور روایات کے مطابق چلنا پڑتا تھا۔
مسلمان بچوں کو ایسے زہر آلود ماحول سے بچانے اور انہیں اسلام کے حق میں دلائل سکھانے اور اسلام کا سچا خادم بنانے کےلیے حضرت مسیح موعودؑ نے ۳؍ جنوری ۱۸۹۸ء کو تعلیم الاسلام سکول کا آغاز کیا۔لڑکوں اورلڑکیوں کا سکول میں داخلہ کیا گیا۔آنحضور ﷺ کی یہ حدیث کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے اس بات پر شاہد ہےکہ اسلام عورتوں کی تعلیم کو بھی برابر اہمیت دیتاہے۔
تب اور اب بھی یہی ایک بہترین حل ہے جو ہر جگہ برطانیہ اور یورپ کے ممالک میں کرسچن سکولوں اور یونیورسٹیوں میں جاری ہے۔
ہمارے بچے یہاں اقلیت میں ہیں اور ان پر بالواسطہ یا بلاواسطہ معاشرتی روایات اور سکول کی پالیسیوں کا اثر ہوتا ہےجو براہ راست اسلام سے متصادم ہو رہی ہوتی ہیں۔فرانس کے سکولوں میں حجاب پر پابندی اس کی ایک مثال ہے۔
ایک لڑکی نے بتایا کہ باوجود انتہائی قابل ہونےکے اس کو ڈسپلنری بورڈ کےسامنے پیش کیا گیا جہاں اس کو ہراساں کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ ایران نہیں ہے۔(یعنی تم حجاب اتار سکتی ہو)۔ پھر اس کو الجیریا کی ایک شدت پسند تنظیم کے ساتھ جوڑا گیا۔اس کو کھیل کے میدان میں جانے سے روکا گیا اور کلاس میں بیٹھنے سے منع کیاگیا۔لوکل مسجد اور مسلمان گروہوں نے کہا کہ حجاب اتار دو لیکن میں نہیں مانی کیونکہ مجھے یہ لگا جیسے مجھے بے لباس ہونے کے لیے کہا جا رہا ہو۔
یہ باتیں اسلام لڑکیوں کی حفاظت کےلیے سکھاتا ہے یہ کوئی پرانے دقیانوسی خیالات نہیں ہیں۔یہ ایک نام نہاد ترقی یافتہ معاشرے میں لڑکیوں کی حفاظت کے لیے اور اپنے ساتھی طلبہ سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے۔ برطانیہ میں جنسی ہراسانی کو افشاء کرنے کےلیے ایک لڑکی نے Everyone‘s Invited نامی ویب سائٹ بنائی جہاں پر ایک رات میں دس ہزار سے زائد جنسی ہراسانی کے واقعات کی گواہی دی گئی۔
لڑکوں اور لڑکیوں کے الگ سکول اس قسم کی ہراسانی سے بچانے کا بہترین ذریعہ ہیں۔الائنس آف گرلز سکولز آسٹریلیا کی چیف لورن بریج کہتی ہیں کہ لڑکیاں ایسے زیادہ سیکھتی ہیں ان کی توجہ میک اپ پر نہیں ہوتی۔ان کا سکول کا سارا وقت صرف سیکھنے اور خود اعتمادی پیدا کرنےمیں صرف ہوتا ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ فرماتے ہیں(خلاصہ) بچوں کو ایسی باتیں سکھائی جارہی ہیں اور ان کو جنسیت کے متعلق ایسی تعلیم دی جارہی جس کو وہ اس عمر میں سمجھ ہی نہیں سکتے اور اس طرح سے یہ بچوں کی معصومیت کےلیے تباہ کن ہیں اور مستقبل میں برے نتائج کا باعث بنتی ہے۔
کینیڈا میں ایک استانی نے مسلمان بچوں کوجان بوجھ کر پرائیڈ منتھ ایونٹ پر حاضر نہ ہونے پر کہا کہ مسلمان بچوں کو اس میں شامل ہونا چاہیے تھا تا کہ ان کے خلاف مذہب،رنگ یا نسل کے جذبات نہ ابھریں۔
آنحضورﷺ نے دجال کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی بتائی تھی کہ مرد عورتوں جیسے اور عورتیں مردوں جیسی نظر آئیں گی۔یہ ہونا ہی تھا۔ سکولوں میں بچوں کو کہا جاتا ہے اُسے قبول کریں ورنہ ہمارے بچوں کو اس بات کا خوف ہوتا ہےکہ ان کو متعصب یا Anti Gay نہ کہہ دیا جائے۔پہلے کہا جاتا تھا کہ گوشت نہ کھاؤ اب کہا جاتا ہے حجاب اتارو۔ننگے ہو کر نہاؤ۔غیر اخلاقی کام کرو۔اسی وجہ سےحضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا تھاکہ جماعت کے اپنے سکول،کالج،یونیورسٹی ہونے چاہئیں۔
۱۹۷۶ء میں کینیڈ ا میں دو جماعتی سکولوں کا قیام عمل میں آیا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اپنے امریکہ کے دورہ کے دوران تجویز دی تھی کہ سکول چلانےکے لیے عمارت،طلبہ، اساتذہ،اور فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے۔ امریکہ میں ابھی اتنی جماعت نہیں ہے اور جو ہے وہ بہت بکھری ہوئی ہے۔ لیکن ہم اپنے بچوں کو بھول نہیں سکتے اور نہ ہی یہ برداشت کر سکتےہیں کہ وہ شیطان کے سائے میں زندگی گزاریں۔ایک منصوبہ یہ ہے کہ چھٹیوں میں بچے شہروں کے باہر مختص جگہوں میں رہیں جہاں وہ تربیت یافتہ اور اہل علم افراد کے ساتھ رہیں جو ان کو اسلام کی بنیادی تعلیم دیں۔
چنانچہ ووکیشن سکول ایک ایسا انتخاب ہےجہاں بچے کم ہوں۔حضورانور ایدہ اللہ نے حال ہی میں فرمایا تھا کہ ایسے والدین جو بچوں کو گھروں میں پڑھا سکتے ہیں وہ بچوں کی گھروں میں اخلاقی بنیاد اوراسلامی شناخت مضبوط کریں اور پھر ان کو سرکاری سکولوں میں بھیج دیں۔لیکن یہ ان والدین کے لیے ہے جن میں برداشت اور حوصلہ ہو۔اس کے علاوہ آج کل ورچوئل سٹڈی کا بھی انتخاب کیا جا سکتا ہے۔جہاں پر تربیت یافتہ اساتذہ موجود ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس فرماتے ہیں کہ جب بچے سکول سے آئیں تو ان کوایک پر سکون ماحول ملنا چاہیے۔اپنے بچوں کو ایسی باتیں بتائیں جو ان کو اللہ اور رسول ﷺکے قریب کرنے والی ہوں۔ احمدی ماں باپ کا اپنے بچوں سے دوستانہ تعلق ہونا چاہیے۔احمدی مائیں خاص طور پر اپنے بچوں میں مذہبی روایات پیدا کریں۔ماں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے سوالوں کے جواب دے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ماؤں کو حضرت اماں جانؓ کو بطور رول ماڈل اختیارکرنے کو کہا۔حضرت اماں جانؓ کی مثال ایک محبت کرنے والی ماں کی مثال ہے۔حضرت مرزا ظفر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت اماں جان ؓ کو دیکھا کہ کیسے وہ محبت کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ کی تعلیم و تربیت کرتی تھیں۔
صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب سابق امیر امریکہ فرماتے تھے کہ بہترین یونیورسٹی ہر احمدی گھر میں موجود ہے۔ مائیں بہترین استاد ہوتی ہیں۔وہ یاد کرتے تھے کہ کیسے حضرت اماں جان حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کو باہر جاتے ہوئے دعا دیا کرتی تھیں کہ خداتعالیٰ تمہار ا حامی و ناصر ہو۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اولاد کو خداتعالیٰ،دین اورخلافت کی محبت میں بڑھانے والا بنائے۔اور شیطانی حملوں سے محفوظ رکھے۔
اس کے بعد مکرم عبدالحئ سرمد صاحب نےحضرت مسیح موعودؑ کے درج ذیل منظوم کلام میں سے منتخب اشعار خوش الحانی سے پیش کیے
میں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر
میں وہ ہوں نورِ خدا جس سے ہوا دن آشکار
اس سیشن کی اگلی تقریر محترم عطاء المجیب راشد صاحب امام مسجد فضل لندن کی تھی۔ آپ کی تقریر کا موضوع تھا ’’ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علمی معجزات ‘‘
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس دورِ آخرین میں احیائے اسلام اور غلبۂ اسلام کے لیے رسول اللہ ﷺ کے غلامِ صادق حضرت مسیح موعودؑ کو مبعوث فرمایا۔ اور آپ کو اپنی جناب سے ایسا پُر معرفت علم و عرفان عطا فرمایاجس نے باطل عقائد کی دھجیاں بکھیر دیں اور اپنے باطل شکن علمِ کلام کے ذریعہ اسلام کو نہ صرف ایک نئی زندگی دی بلکہ ادیان باطلہ پر غلبہ اور برتری بھی عطا فرمائی۔ آپؑ کی زبان اور قلم کو ایسی معجزانہ عظمت عطا فرمائی اور ایسی پُر شوکت تجلیات سے نوازا جن کے سامنے سب مخالف دم بخود رہ گئے۔ آپ کی پُر تاثیر تحریرات کا قلزم ِبے کراں روحانی خزائن کی صورت میں ظاہر ہوا۔ آپ کے پُر زور اعجازی علم کلام کی برتری کا اعتراف غیروں نے بھی کیا اور آپ کو اسلام کا فتح نصیب جرنیل قرار دیا۔قدم قدم پر عظیم علمی معجزات اور نشانات آپ کی عظمت اور صداقت کے نشان بن کر مسلسل ظاہر ہوتے رہے۔
معجزہ کے لفظ کے بارہ میں بتایا کہ معجزہ کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی کام انسانی طاقت سے باہر ہو اور خدا تعالیٰ کی غیر معمولی تائید و نصرت سے ظہور پذیر ہو اور دنیا کے لوگ اس کا مقابلہ کرنے اور اس کی نظیر لانے سے بالکل عاجز اور قاصر رہ جائیں۔
امام صاحب نے قرآن مجید کے حقائق و معارف بیان کرنے کے بارہ میں بتایا کہ قرآن مجید علم و حکمت سے بھر پور خدائے واحد کا کلام ہے۔ حکمت اور دانائی کی ہر بات اور نیکی کی ہر راہ کا ذکر اس میں ہے لیکن بہت سے ایسے امور ہیں جو دنیا کے لیے معمہ بنے ہوئے تھے۔ اسلام اور دیگر مذاہب کے علماء بھی ان کی اصل حقیقت سمجھنے سے قاصر تھے۔ خدائے علیم و خبیر نے ان مشکل امور کی حقیقت قرآن مبین میں بیان فرمائی ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بن باپ پیدائش، صلیبی موت سے نجات اور طبعی وفات، عصمتِ ابنیاء، بعث بعد الموت، فرشتوں کا وجود، وحی و الہام کی حقیقت، طوفانِ نوح، فرعون کی غرقابی، معجزہ شق القمر، جنت دوزخ کا تصور، واقعہ معراج و اسراء، انسانی روح، گورو بابا نانک کا مسلمان ہونا، دعا کی حقیقت، عربی زبان کا ام الالسنہ ہونا اور اس نوعیت کے بے شمار دینی مسائل کی حقیقت کا علم اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح پاک علیہ السلام کو عطا فرمایا اور آپؑ نے قرآنی دلائل سے ان سب مسائل کو جس طرح کھول کھول کر بیان فرمایاوہ ایک لاثانی اعجاز ہے۔
تصنیفی معجزات کے بارہ میں بتایا کہ حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے ساری زندگی قلمی جہاد کیا۔ آپ کی پہلی تصنیف براہین احمدیہ ۱۸۸۰ء میں منظر عام پر آئی۔ جس نے مذہبی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا۔ اس کے بعد آپ نے ۱۹۰۸ء میں اپنی رحلت تک جو گرانقدر کتب تحریر فرمائیں ان کی تعداد ۸۰ سے زائدہے۔ یہ کتب اردو، عربی اور فارسی زبانوں میں ہیں۔ آپ کے ملفوظات کی دس جلدیں ہیں۔ اس کے علاوہ مجموعۂ اشتہارات کی تین اور مکتوبات احمدکی چارجلد یں ہیں۔ یہ سارا علمی خزانہ مجموعی طور پر قریباً بیس ہزار (۲۰,۰۰۰) صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ سب کتب روحانی خزائن کے نام سے معروف ہیں۔ دفاعِ اسلام کے اس مقدس جہاد کا آغاز حضرت مسیح پاکؑ کی شہرۂ آفاق کتاب براہین ِ احمدیہ سے ہوا۔ اس کتاب کا شائع ہونا تھا کہ مسلمانوں کے حوصلے بڑھ گئے اور خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
تفسیر نویسی میں اعجازی نشان کے بارہ میں بتایا کہ خلاصۃً اس طرح پر ہے کہ ابتدائی طور پر حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے اپنے دعویٰ کے بعد سب علماء کو عمو ماً اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کو خصوصاً عربی زبان میں تفسیر نویسی کے مقابلہ کی دعوت دی۔ لیکن گولڑوی صاحب مقابلہ کے لیے تیار نہ ہوئے۔ اس پر حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے اتمامِ حجت کے طور پر سورۃ الفاتحہ کی تفسیر ۷۰ دنوں میں لکھ کر شائع کرنے کے لیےان کو بلایا۔ کمزور صحت کے باوجود وقت مقررہ یعنی ۷۰ دن کے اندر اندر فصیح و بلیغ عربی زبان میں ایک جامع تفسیر اپنی طرف سے شائع کر دی۔ اس چیلنج پر ۱۲۲ سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن آج تک دنیا کا کوئی عالم اعجاز المسیح کے مقابلہ پر سورت فاتحہ کی تفسیر شائع نہیں کر سکا اور نہ کر سکے گا !
پھر خطبہ الہامیہ کے علمی معجزہ کےبارہ میں بتایا کہ حضرت مسیح پاکؑ کے علمی معجزات میں سے ایک اور انتہائی ایمان افروز مثال خطبہ الہامیہ کی ہے۔ حضرت مسیح پاک علیہ السلام ایک ایسے ملک میں رہتے تھے جس میں عربی زبان عوام کی زبان نہ تھی۔ اور خود مسیح موعودؑ نے نہ کبھی با قاعدہ طور پر کسی مدرسہ یا سکول یا اور کسی ادارہ میں عربی کی تعلیم حاصل کی تھی اور مزید یہ کہ آپ نہ کبھی کسی عربی ملک میں گئے اور نہ اس سے قبل آپ نے کبھی عربی میں تقریر کی تھی۔ اچانک حکم الٰہی کی اتباع میں آپ نے یہ خطبۂ عید ارتجالاً زبانی ارشاد فرمایا۔ کوئی تحریر آپ کے ہاتھ میں نہ تھی۔ بے شک یہ خدائے قادر کا ایک ایسا بے نظیر اعجازی اور امتیازی نشان ہے جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی!
اسلامی اصول کی فلاسفی کے علمی معجزہ کےبارہ میں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے سے آپ کو بشارت دے دی تھی کہ ’’ مضمون بالا رہا ‘‘۔ ۱۸۹۶ء میں لاہور میں ایک عظیم الشان جلسہ اعظم مذاہب منعقد کیا گیا۔ اس میں حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے مقرر کردہ پانچوں اہم سوالات کے جوابات خدا داد بصیرت سے ایسی عمدگی سے بیان فرمائے کہ سامعین اس محویت سے سن رہے تھے کہ جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ اخبارات نے برملا لکھا کہ یہ مضمون بالا رہا۔
تراجم کا امتیازی نشان کے بارہ میں بتایا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے علمی معجزات کے ضمن میں ایک غیر معمولی اور منفرد امتیازی بات یہ ہے کہ آپ کی کتب کے دنیا کی مختلف زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں اور بڑی کثرت سے پھیل رہے ہیں۔ آپ کی جملہ کتب اور ملفوظات کے مکمل تراجم عربی اور جرمن زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ علاوہ ازیں متعدد کتب کے تراجم معروف زبانوں میں بھی ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔
اختلافی مسائل کے معجزانہ فیصلہ جات کے بارہ میں بتایا کہ حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کے وقت مسلمانانِ عالم بہت سے اختلافی مسائل میں الجھے ہوئے تھے۔ ختم نبوت کی حقیقت اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات و ممات کے مسائل مسلمان کہلانے والوں میں باعثِ نزاع بنے ہوئے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ہر دو مسائل پر قرآن و حدیث سے معجزانہ دلائل پیش کیے کہ مذہبی دنیا میں ایک معجزانہ انقلاب بر پا ہوگیا۔ اس بارہ میں آپ کے علمِ کلام پر مبنی ایک کتاب ’’القول المبین‘‘ ہے جو پاکستان اسمبلی میں سوال و جواب کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے محضر نامہ کے ساتھ پیش کی تھی۔ وفاتِ مسیح ؑکے سلسلہ میں ازالہ اوہام میں اللہ تعالیٰ کی راہنمائی سے تیس قرآنی آیات پیش فرمائیں۔
امام صاحب نے کہا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے الہاماً مسیح موعود علیہ السلام کو سلطان القلم کے خطاب سے نوازا۔ مسیح پاک علیہ السلام نے اپنی زندگی میں جو علمی ورثہ یادگار چھوڑا وہ سارے کا سارا اس الہام کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آپ شاعر نہ تھے لیکن آپ نے عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں ہستی باری تعالیٰ، سیرت النبی ﷺ اور دیگر تبلیغی موضوعات پر لا جواب انداز میں تبلیغ کا حق ادا کیا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارہ میں آپ کا عارفانہ کلام، رسول مقبول ﷺ کی شان ِ اقدس میں آپ کا نعتیہ کلام اپنوں اور غیروں کے دلوں کو مسخر کرتا چلا جا تا ہے۔
حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی عظیم الشان علمی تصانیف کو غیر احمدی اور غیر مسلم لوگوں نے بھی بہت سراہا اور اس معجزانہ جہاد کو دل کھول کر خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔
عربی زبان کا مقولہ ہے کہ الفضل ما شھدت بہ الاعداء کہ خوبی اور فضیلت وہ ہے جس کا دشمن بھی اعتراف کرے۔
امام صاحب نے حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے قلمی جہاد کے بارہ میں غیروں کے اعترافات میں ابوالکلام آزاداورمرزا حیرت دہلوی کےتبصرہ جات پیش کیے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ عربی زبان پر پورا احاطہ کرنا معجزات انبیاء علیہم السلام میں سے ہے۔ جب آپ نے اعجاز المسیح کتاب لکھی اور اس کا جواب لکھنے کے لیے عرب علماء کو بھی دعوت دی تو کوئی ایک عالم بھی میدان ِ مقابلہ میں نہ آیا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وفاتِ مسیح کا ثبوت قرآن و حدیث سے پیش کیا تو عرب دنیا کے عالمی شہرت کے علماء مثلاً شیخ محمد عبد ہ، رشید رضا، علامہ محمود شلتوت، علامہ عدنان ابراہیم اور بہت سے علماء نے وفاتِ مسیح کی کھل کر تائید کی اور ایسے علماء کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے، اسی طرح جب آپؑ نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر عربی زبان کے ام الالسنہ ہونے کا نظریہ پیش فرمایا تو عربی زبان کے عالمگیر شہرت رکھنے والے علماء نے اس نظریہ کی تائید کی۔ مصر کے فلاسفر اور مصنف : ڈاکٹر مصطفیٰ محمود، لبنانی مصنف اور شاعر: رفیق المعلوف، عرب ڈاکٹر: سعید شربینی، سیرین شامی عالم : ڈاکٹر عبد المجید الحمیدی الویس اور مراکشی عالم : عبد اللہ بو فیم۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن و احادیث سے استنباط کے نتیجہ میں اپنی کتب میں جو انکشافات بیان فرمائے ہیں، جدید تحقیقات کی روشنی میں آج دنیا کے علمی اور تحقیقاتی حلقوں میں ان کی مقبولیت بڑھتی جا رہی ہے۔ چنانچہ حضورؑ نے صلیبی موت اور سرینگر میں وفات پانا ثابت کیا۔
حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے مقدس الفاظ آج بھی اکنافِ عالم میں گونج رہے ہیں۔ آپؑ کس تحدی اور جلال سے فرماتے ہیں:’’اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا۔ یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا۔‘‘
اس اجلاس کی آخری تقریر مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت یوکے کی تھی۔آپ کی تقریر کا موضوع دنیا کی بڑی طاقتوں کی امن کی طرف راہنمائی میں خلفائےکرام کی کاوشوں کے متعلق تھا۔
محترم امیر صاحب نے بتایا کہ باوجو د امن کی مانگ کرنے کے ہم ایک ایسی دنیا میں ہیں جس کو جھگڑوں اور ناانصافی کا سامنا ہے۔یہ بات ہمیں اس سوال پر مجبور کرتی ہےکہ باوجود ہر پہلو میں شاندار ترقی کرنے کے ہم اپنی زندگیوں میں امن کی بنیادی ضرورت کے قیام میں ناکام کیوں ہیں؟
آ ج دنیا عالمی امن کے لیے اقوام متحدہ جیسے سیاسی نظام پر تکیہ کیے ہوئے ہے۔تاہم موجودہ عالمی صورتحال اس نظام کی ناکامی پر شاہد ہے۔
یہ اس لیے ہے کیونکہ دنیا اپنے خالق سے دور ہو چکی ہے۔قرآن کریم تمام اقوام عالم کو انسانیت کی بنیاد پر مخاطب ہوتا ہے: ’’اے لوگو! یقیناً ہم نے تم کو نر اور مادہ سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔بلا شبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہےجو سب سے زیادہ متقی ہے۔ یقیناً اللہ دائمی علم رکھنے والااور ہمیشہ باخبر ہے۔(الحجرات :۴۹)
اگر ہم دنیا کی تاریخ اور مذاہب پر معروضی طور پر نظر ڈالیں توہم دیکھتے ہیں کہ ہر مذہب کے پیروکار وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حقیقی تعلیمات سے دور ہوگئے اور یہ بات اندرونی تقسیم اور اختلافات کا موجب بنی۔یہ تقسیم اور اختلاف ہم نے ساری دنیا میں دیکھا۔
یہ اس لیے کہ چودہ سو سال پہلے اسلام کے بانی نے پہلے سے بتا دیا تھا کہ ایسے روحانی تاریکی کے وقت میں انسانیت کی واپس اسلام کی حقیقی تعلیمات کی طرف راہنمائی کرنے کےلیے ایک مصلح مسیح موعود اور امام مہدی کی صورت میں خدا کی طرف سے بھیجا جائے گا۔
حضرت مسیح موعودؑ نے ہمیں اسلام کی حقیقی اور پر امن تعلیما ت سے روشناس کروایا۔یہی وجہ ہے کہ جماعت آج ’’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں ‘‘ کے مضبوط لائحہ عمل پر عمل پیرا ہے۔
آپ کی راہنمائی آنحضورﷺ کی اس مثال سے کی گئی جس نے شاید معلوم سیاسی تاریخ کی سب سے بڑی دستاویز تخلیق کی۔ مدینہ کا آئین یا عہد نامہ
یہ آئین انگریزی میگنا کارٹا سے بھی چھ سو سال پرانا ہے۔ آنحضور ﷺ نے یہ عہد نامہ بطور اقلیتی فرمانروا کے لکھا۔یہ انسانی حقوق کےلیےلکھا گیا تاریخ کا پہلا عہد نامہ ہے اور قانون کی حکمرانی کی بنیادی شکل ہے جو آج تمام ترقی یافتہ اقوام استعمال کر رہی ہیں۔
ہم نے دیکھا ہےکہ جب اسلام پر اپنی حقیقی اور خوبصورت شکل میں عمل کیا جا رہا تھاتو دنیا کو تاریخ کا وہ حصہ دیکھنے کو ملا جس کو دریافتوں کا سنہرا دور کہا جاتا ہے۔اور اس وقت ہونے والی ترقی نے یورپ کی نشأۃ ثانیہ اور روشن خیالی کا راستہ بنایا۔
آنحضور ﷺ نے ایک بار فرمایا تھاکہ’’جو تمہارے ساتھ برا کرتا ہے اس کو معاف کردو،جو تم سے تعلق کاٹتا ہے اس کے ساتھ تعلق جوڑو،جو تمہارے ساتھ براسلوک کرتا ہے اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اور سچ بولو اگرچہ وہ تمہارے اپنے خلاف کیوں نہ ہو‘‘۔ وہ ایک ایسا وجود تھے۔ جنہوں نے بہت سے مظالم کا سامنا کیا لیکن انہوں نے ہمیشہ امن اور انصاف کےلیے کوشش کی۔
آپ نے ایک ایسا ورثہ چھوڑا جسے آج مذہبی اور دین سے تعلق نہ رکھنے والے دونوں طبقات تسلیم کرتے ہیں۔ اپنے آخری خطبہ میں آنحضورﷺ نے تمام قوموں اور نسلوں کی برابری کی بات کی۔آپؐ نے فرمایا کہ اصل چیز جو سب کو ممتاز کرتی ہے وہ تقویٰ ہے۔
جیسے آپ ﷺ امن کےلیے کوشاں رہے اسی طرح آپ ﷺ کے جانشینوں نے بھی کیا۔آپﷺ کی وفات کے بعد خلاف کا نظام وجود میں آیا۔تا کہ صحیح اور حقیقی اسلامی تعلیمات کے نفاذ کی یقین دہانی ہو سکے۔
امیر صاحب نےسورۃ نور کی آیت ۵۶ پیش کرکے کہاکہ پہلے خلیفہ جو منتخب ہوئے وہ حضرت ابوبکرؓ تھے۔انہوں نے اس مثال پر عمل کیا جو ان سے پہلے قائم کر دی گئی تھی اور وہ معاشرتی درجہ بندی کی تقسیم کرنے کےلیے اس حد تک گئے جہاں تک ممکن تھا۔انہوں نے نہایت ہی مہارت سے معاملہ فہمی اور پر امن طریقہ کار سے مسلمان معاشرے کو مضبوط کیا اور اس بات کو زیادہ فوقیت دی کہ غیر ضروری جھگڑوں کو ختم کیا جائے۔
ان کی خلافت صرف دو سال چلی لیکن اس وقت آپ نے اسلام کے پر امن پھیلاؤ کا بنیادی ڈھانچہ تعمیر کر دیا۔ دوسرے خلیفہ حضرت عمرؓ اپنے انصاف کی وجہ سے بہت مشہور تھے۔انہوں نے ایک جامع قانونی نظام تشکیل دیا اور اسلامی سلطنت کو وسعت دی۔
جو معاہدہ انہوں نے یروشلم کی اسلامی فتح کے بعد کیا اس نے حفاظت کی یقین دہانی کی، مذہبی آزادی دی،اور مسیحی شہریوں کی سلامتی اور ان کے مالکانہ حقوق کوقائم رکھا۔اس بات نے مذہبی رواداری اور انصاف کی بہترین مثال قائم کی۔
انہوں نے غلامی کے معاہدوں میں بندھے لوگوں کی آزادی کے لیے عملی کام کیا تا کہ زیادہ انصاف پر مبنی معاشرہ قائم ہو۔حضرت عمرؓ اس قدر لوگوں کی بھلائی کا خیال کرتے تھےکہ رات کو بھیس بدل کر مدینہ کی گلیوں میں چکر لگاتے تھے کہ آیا کسی کو مدد کی ضرورت تو نہیں۔
حضرت عثمانؓ کی خلافت نے باوجود انتہائی مخالفت اور اندورنی انتشار کے انتظامی امورعوامی فلاح بہبوداور پرامن قراردادوں پر توجہ مرکوز کیے رکھی۔حضرت علیؓ نے اعلان کیا کہ ان کی اولین ترجیح ریاست کے اندر امن کا قیام اور قانون کا نفاذ ہے۔
حضرت علیؓ نے ہر ممکن کوشش کی کہ لڑائی اور خون خرابہ سے بچا جائے، خاص طور پر جنگ جمل میں جب ان کے سپہ سالاروں نے جنگی کارروائیوں کے متعلق سوال کیا۔تو آ پ نے کہا کہ اس وقت تک جنگ کی بات نہ کی جائے جب تک کہ امن قائم کرنے کی ساری چارہ جوئیاں نہ کر لی جائیں۔امن کی بات چیت میں ناکامی کے بعدانہوں نے کہا پہل ہماری طرف سے ہرگز نہیں کی جائے گی۔انہوں نے نصیحت کی کہ ’’دوسری طرف سے ہی جنگ کا آغاز ہونے دو اگر وہ عقل و دانش کی بات سننے کو تیار نہیں۔‘‘
حضرت علی ؓ خلافت راشدہ کے آخری خلیفہ تھے اور آپ کی وفات کے بعد یہ ملوکیت میں بدل گئی۔آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ ’’نبوت تم میں رہے گی جب تک اللہ چاہے گا،پھر اس کا اختتام ہو گا اور اس کے بعد خلافت علی منھاج النبوۃ ہو گی جب تک اللہ چاہے گاپھر اس کااختتام ہو گا اور ظالم بادشاہت آئے گی اوراس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔اس کے بعد جابرانہ آمریت آئے گی اور اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گااور پھراس کے حکم پر اس کا اختتام ہو گا۔پھر خلافت علی منھاج النبوۃ قائم ہو گی پھر آپ خاموش ہوگئے۔‘‘
اس حدیث میں مسلم امہ سے وعدہ کیا گیا ہے کہ خلافت علی منھاج النبوۃ دوبارہ واپس آئے گی۔تاہم خلافت کے قیام کے احیائے نو کے لیے ایک نبی کا آنا ضروری ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کی آمد کا بنیادی مقصد اسلامی تعلیمات کو ان کی قدیم او ر اصلی صورت میں بحالی اور تمام انسانوں کو ایک جھنڈے تلے جمع کرنا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ ایک مذہب میں اگر عفو و درگزر نہیں ہے تو وہ مذہب نہیں ہے اسی طرح ایک انسان جس میں رحم نہیں ہے وہ انسان نہیں ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی زندگی میں مذہبی اور سیاسی راہنماؤں کو اسلام کے پر امن پیغام کی طرف دعوت دی جن میں ملکہ وکٹوریہ بھی شامل ہے۔آپؑ نے مسلم امہ کو بتایا کہ اب یہ قلم کے جہاد کا وقت ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کا امن کا یہ پیغام گذشتہ ایک سو پندرہ سال سے خلفائے احمدیت آگے بڑھا رہے ہیں۔حضرت مسیح موعودؑ کے پہلے جانشین حضرت مولانا حکیم مولوی نورالدینؓ صاحب تھے۔ان کی اسلام کے لیے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ اور ان کی تعریف حضورؑ نے ایک فارسی شعر میں کی ہے۔اس کے بعد مقرر نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کی تفسیر قرآن کے اقتباس پیش کیے۔ آپ ؓ نے مبلغین کی ایک جماعت کو دنیا میں تبلیغ کے لیے بھیجا۔ان میں سے ایک چودھری فتح محمد صاحب سیال ؓ بھی ہیں۔ہماری یہاں موجودگی ان کی ہی کوششوں کا شاخسانہ ہے۔حضورؓ کا خلافت کاوقت قلیل تھا لیکن آپ کے دور میں جماعت میں اتحاد قائم ہوا۔
آپ کی وفات کے بعدمسند خلافت حضرت مسیح موعودؑ کے صاحبزادے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کے پاس آئی۔آپ ہی مصلح موعود ہیں۔حضرت مصلح موعودؓ کی ایک صفت اسیروں کی رستگاری کرنے والا ہے۔اس کے بعد مقرر نے خطبات محمود سے اقتباس پیش کیے۔
بہت سے ایسے مواقع تھے جہاں حضورؓ نے امن کے قیام کے لیے اپنا اثر ورسوخ استعمال کیا۔ ۱۹۳۰ء میں جب کشمیر کے مسلمانوں پر ڈوگرہ راجہ کے دور میں ظلم و ستم ہوا تو اس وقت کے تمام نوابوں اور مسلم لیگ کے راہنماؤں نے حضورؓ سے درخواست کی کہ اس ظلم و ستم کے خلاف مدد کریں۔چنانچہ آپؓ کی کوششوں سے ہی کشمیری مسلمانوں کو سکھ کا سانس نصیب ہوا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک ایسا وقت آیا جب یہ لگ رہا تھا کہ یہ جنگ ارض مقدس تک جا پہنچے گی۔ چنانچہ آپؓ نے جنگ کے اس پھیلاؤ کو روکنے کےلیے ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور ایک مشہور اخبار ’’زم زم‘‘ نے آپ کی کوششوں کو خوب سراہا۔اس کے بعد مقرر نے اس اخبار کا اقتباس پیش کیا۔
۱۹۴۸ءمیں جب فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں چل رہا تھا تو عربوں کی درخواست پر حضورؓ نے حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ کو امریکہ میں رکنے اور ان کا مقدمہ پیش کرنے کو کہا۔اور عربوں نے آپ کا بےحد شکریہ ادا کیا۔اس کے علاوہ حضرت چودھری ظفر اللہ خانؓ نے بہت سے عرب ممالک کی آزادی کےلیے کام کیا۔اس بات کا اظہار مصری راہنماء السید مصطفیٰ مومن نے کیا۔
اس کےعلاوہ حضورؓ نے برطانیہ میں مذاہب عالم کی کانفرنس میں بھی شرکت کی۔
حضورؓ کی ہدایت کے مطابق اس وقت کے لندن مسجد کے امام عبدالرحیم دردصاحب نے قائد اعظم کو واپس انڈیا جانے پر رضامند کیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی آمد بہت سارے انسانی خدمت کے کاموں کا پیش خیمہ بنی خاص طور پر افریقہ میں۔ آپ نے دو عظیم الشان سکیموں فضل عمر فاؤنڈیشن ( جو کہ حضرت مصلح موعود ؓ کے کاموں کو آگے لے کر چل رہی ہے) اور نصرت جہاں سکیم کا آغاز کیا۔جو مغربی افریقہ میں مستقل بنیادوں پر انسانی خدمات کا کام کر رہی ہے۔اس وقت کے گیمبیا کے برطانوی ہائی کمشنر نے نصرت جہاں سکیم کی کامیابی کا ذکر بھی کیا۔
ترقی کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ اور وہ ۱۹۷۴ء کے فسادات کی صورت میں جماعت نے سارے پاکستان میں ادا کی۔جماعت مخالف آئین سازی کے بعد احمدیوں کو ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا۔یہ اسی وقت کی بات ہے جب حضورؒ نے مسجد بشارت سپین کا بنیادی پتھر رکھتے ہوئے مشہور احمدیہ ماٹو’’محبت سب کےلیے نفرت کسی سے نہیں ‘‘ کا اعلان کیا تھا۔
افریقہ کے چھ ملکوں کے دورے کے دوران حضورؒ نے فرمایا کہ اگر دنیا یہ بات سمجھ لےکہ سب انسان برابر ہیں تو دنیا سے بہت سی مشکلات کم ہو جائیں۔
۱۹۶۷ء کی وانڈزورتھ ہال کی تاریخی تقریر میں حضورؒ نے امن کا پیغام پہنچایا اور دنیا کو حضرت مصلح موعودؓ کی تیسری جنگ سے متعلق پیشگوئی کے متعلق متنبہ کیا۔
چوتھے خلیفہؒ کے ذریعہ خلافت آگے بڑھی۔ وہ ایسا وقت تھا جب پاکستان میں ضیاء الحق نے ۱۹۸۴ء میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے حضورؒ کے لیے بطور جماعت کے سربراہ کام کرنا ناممکن بنا دیا تھا۔چنانچہ خلافت کو پاکستان سے برطانیہ ہجرت کرنا پڑی۔
آپؓ کےبرطانیہ آنے سے جماعتی کاموں میں اتنی ترقی ہوئی جو تصور سے بھی باہر ہے۔حضور انورؒ نے بہت ساری سکیموں کا اجرا کیا۔اس کے بعد امیر صاحب نے حضورؒ کی کتاب Absolute Justiceسے ایک حوالہ پیش کیا۔
انسانیت کی خدمت حضور ؒکی مختلف سکیموں کا مرکز رہا۔انسانیت کی خدمت کےلیے ایک خیراتی ادارہ ہیومینٹی فرسٹ کے نام سے قائم ہوا۔یہ ادارہ رنگ و نسل کے امتیاز کے بغیر ہر کسی کی خدمت کرتا ہے۔۱۹۹۲ء میں بلقان کی ریاستوں خاص طور پر یوگوسلاویہ میں امدادی ٹیموں کو روانہ کیا گیا۔جہاں پناہ گزینوں کے لیے خوارک،دواؤں اور کپڑوں کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا۔یہ ادارہ اب ساٹھ ممالک میں کام کر رہا ہے۔
حضورؒ نے دنیا میں امن کے قیام پر بات کی خاص طور پر گلف کرائسس کے دوران اسلام میں برابری پر بات کی۔اس عظیم ورثہ کے سبب آپ کو اک مردِخدا کہا گیا۔
۲۲؍ اپریل ۲۰۰۳ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ حضرت مسیح موعودؑ کے پانچویں جانشین بنے۔حضور انور ایدہ اللہ نے نمازوں کے قیام پر زور دیا۔
حضور انورایدہ اللہ نے دنیا میں قیام امن پر بہت زور دیا۔ آج حضور انور ایدہ اللہ کو دنیاکے امن کے قیام کے لیے کوشان سرفہرست مسلمان راہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔اپنی کتب، خطبات اور خطابات کے ذریعے حضور انور ایدہ اللہ، اللہ کی عبادت اور انسانیت کی خدمت کا درس دیتے ہیں۔
حضورانورایدہ اللہ نے کوئی موقع جانے نہیں دیا جہاں آپ نے اسلام کی امن کی تعلیمات کو بیان نہ کیا ہو۔چاہے یورپی پارلیمنٹ ہو یا کیپیٹل ہل۔آپ کے کارناموں کے سبب آپ کو امن کا علمبردار کہا جا سکتا ہے۔
۴؍ دسمبر ۲۰۱۲ء کو حضور انور ایدہ اللہ نے تیس ملکوں کے تین سو پچاس مہمانوں کے سامنے یورپی پارلیمنٹ میں خطاب فرمایا۔اس خطاب کے دوران حضور انور ایدہ اللہ نے برابری اور عالمی انصا ف کی بات کی۔
۱۱؍فروری ۲۰۱۴ء کو حضور انور ایدہ اللہ نے عالمی مذاہب کی کانفرنس سے خطاب فرمایا جو گلڈ ہال لندن میں منعقد ہوئی تھی۔اس خطاب کے دوران حضور انور ایدہ اللہ نے قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ کی زندگی سے باہمی افہام و تفہیم، درگزر اور عزت و تکریم کے متعلق بات کی۔
حضور انور ایدہ اللہ نے اپنے ہر خطاب کے ذریعے نیوکلیئر ہتھیاروںاور نیوکلیئر جنگ کے اندیشہ سے متنبہ کیا ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ کی راہنمائی میں جماعت نے بہت سے سکول،ہسپتال اور دنیا کے دور دراز علاقوں میں سہولیات مہیا کی ہیں۔
حضور انورایدہ اللہ نے بگڑتی عالمی صورتحال کے پیش نظر مختلف ممالک کے راہنماؤں کو خطوط بھی لکھے ہیں جن میں اسرائیل،ایران،امریکہ،روس اور فرانس وغیرہ شامل ہیں۔
بطورایک ماہر زراعت حضور انور ایدہ اللہ نے ترقی پذیر ممالک میں خوراک،صاف پانی اور بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے۔اس مقصد کے لیے (IAAAE) بہت سارے پراجیکٹس پر کام کر رہی ہے۔معاشی استحکام کے لئےبرکینا فاسو میں مسرور انٹرنیشنل ٹیکنیکل کالج تعمیر کیا گیا ہے۔
۲۰۰۴ء میں حضور انور ایدہ اللہ نے نیشنل پیس سمپوزیم کا آغا ز کیا جس میں زندگی کے ہر شعبے سے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ نیز وزراء،ممبران اسمبلی اور مذہبی راہنما بھی شامل ہوتے ہیں۔
۲۰۰۹ء میں حضور انورایدہ اللہ نے قیام امن کی کوششوں کے لیے احمدیہ مسلم پرائز کا آغاز کیا۔
دنیا کی کئی نامور شخصیات نےحضور انور ایدہ اللہ کو مین آف پیس(امن کےلیے کوشاں شخصیت) کا خطاب دیا گیا ہے۔
امیر صاحب نے نینسی پیلوسی کا حضور انورایدہ اللہ کے متعلق بیان شامل کیا۔وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے قیام امن کےلیے حضور انورایدہ اللہ کی خدمات کو خوب سراہا۔
حضور انورایدہ اللہ نے جماعت کو بھی نصیحت کی کہ اسلام کے امن کےپیغام کو پھیلانا آپ سب کی بھی ذمہ داری ہے۔
غیر یقینی صورتحال میں خلافت دنیا میں امن کے قیام کے لیے ایک روشن مینارے کی طرح ہے۔یہ ہر احمدی کی ذمہ داری ہےکہ خلافت کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ کے رکھے۔تا کہ وہ روحانی راہنمائی اور دنیا میں امن حاصل کر سکے۔
آخر میں میری دعا ہے کہ آنے والی نسلیں ہمیں پیار اور محبت سے یاد رکھیں۔ اللہ کرے کہ ہر شخص اور قوم ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والے ہوں۔اور انصاف اور رحم ہر قسم کی ناانصافی اور اختلاف پر غالب آجائے۔آمین
اجلاس کے اختتام پر صدرِ مجلس نے سامعین کا شکریہ ادا کیا اور اجلاس کے ختم ہونے کا باقاعدہ اعلان کیا۔