جلسہ سالانہ برطانیہ ۲۰۲۳ء کے دوسرے اجلاس کی روداد
جلسہ سالانہ کے دوسرے روز کا پہلا اجلاس صبح ٹھیک دس بجے شروع ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت مکرم محمد لقمان Adio Bissiriou صاحب امیر جماعت بینن نے کی۔ سورۃ القصص کی آیات ۷۱تا ۷۵کی تلاوت قرآن کریم مع اردو ترجمہ مکرم راحیل احمد صاحب نے پیش کی۔ بعد ازاں مکرم ندیم زاہد صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کے منظوم کلام
وہ آیا منتظر تھے جس کے دن رات
معمہ کھل گیا روشن ہوئی بات
سے چند اشعار خوش الحانی سے پڑھے۔
اس اجلاس کی پہلی تقریر مکرم محمد ابراہیم اخلف صاحب (سیکرٹری تبلیغ جماعت احمدیہ یوکے)نےکی۔ آپ کی تقریر کا عنوان ’’حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات کی روشنی میں ضرورت امام‘‘تھا۔ یہ تقریر انگریزی زبان میں تھی۔
انہوں نے آغاز میں سورة الکہف آیت ۲۹کی تلاوت کی اور کہا کہ یہ ایک بہت بڑا موضوع ہے جسے دستیاب محدود وقت میں مکمل طور پر پیش کرنا مشکل ہے؛ ایک ایسا موضوع جو ہمیں مسلسل اللہ تعالیٰ کے خوف میں رہنے پر مجبور کرتا ہے؛ ایک ایسا موضوع جس پر جب عمل کیا جاتا ہے تو انسان کو پاکیزگی اور راستبازی کو اپنانے میں مدد ملتی ہے۔
مقرر نے احادیث پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہماری توجہ اس طرف مبذول کراتی ہیں کہ ہر مومن کو چاہیے کہ وہ امام صالح کی تلاش میں اپنی جد و جہد جاری رکھے۔آپ نے یہ حدیث پیش کی کہ جو شخص اس حالت میں فوت ہو جائے کہ اس نے اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانا ہو وہ جہالت کی موت ہے۔
ہم سب کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم اپنے ایمان اور یقین میں اضافہ کرنے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے مقصد کو سمجھنے کے لیے امام کی ضرورت کو بھی مکمل طور پر سمجھیں۔حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود ؑ بلا شبہ اب واحد پناہ گاہ ہیں۔ وہ زمانے کی امید ہیں۔ یہ وہی نور ہے جو سینا پر چمک رہا تھا، جس نے گلیل کے ماہی گیروں کی زندگیوں کو روشن کیا، جس نے فاران کی بلندیوں سے دنیا کو روشن کیا، جو قادیان سے دریائے بیاس کے اونچے کنارے پر طلوع ہوا، جو اب روشن ہو رہا ہے اور آہستہ آہستہ پوری دنیا کے اندھیرے کو دور کرے گا۔
حضرت مسیح موعود ؑکی آمد معاشی، سیاسی، اخلاقی، سماجی طور پر افراتفری کے دور میں ہوئی، مختلف متحارب قوتوں کی کشمکش سے قرآنی پیشگوئیاں پوری ہوئیں۔
درحقیقت انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے اوائل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت میں ایسے مفکرین پیدا ہو رہے تھے جو الہامی اور مذہبی عقیدے کے لیے استعارے لکھ رہے تھے۔ مارکس اور میکس ویبر نے سیکولرائزیشن تھیسس کے نظریے پیش کیے، یہ نظریہ کہ جدید ٹیکنالوجی، سائنس اور ثقافت کے سامنے مذہب زوال پذیر ہو جائے گا۔پھر Nietzsche نے خدا کو مردہ قرار دیا تھا اور بعد میں فرائیڈ نے مذہبی عقیدے کو ایک وہم کے طور پر دیکھا۔
انیسویں صدی میں جہاں ایک طرف خدا پر ایمان کو فروغ دیا جا رہا تھا، وہیں دوسری طرف یہ وہ دور تھا جب عیسائی مشنری شمال و جنوب اور مشرق و مغرب سے ہندوستان آ رہے تھے۔ مسلمان مزاحمت کرنے کی اپنی طاقت مکمل طور پر کھو چکے تھے۔ کوئی ایسا نہیں تھا جو عیسائیت کو چیلنج کر سکے اور ان عیسائی مشنریوں کے فریب کو بے نقاب کر سکے۔ یہ وہ دور تھا جب کچھ سید (ہمارے پیارے آقا محمد ﷺ کی اولاد)، ممتاز علماء، مزارات کے متولی اور روحانی پیشوا بھی عیسائیت کے دائرے میں داخل ہو رہے تھے اور یہاں تک کہ اسلام کے خلاف انتہائی فحش کتابیں طبع ہونی شروع ہوئیں۔حضرت مسیح موعودؑ نے ان حالات کو حقیقۃ الوحی کے عربی ضمیمہ ’’الاستفتاء‘‘ میں بیان کیا ہے۔
پھر مقرر نے قرآنی پیشگوئیوں میں ذوالقرنین کی پیشگوئی کے ظہور کو پیش کیا۔ پھر انہوں نے مسلمانوں کی اندرونی حالت اور وقت کی نازک ضرورت کے بارہ میں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کی طرف دیکھا اور دیکھا کہ فساد پھیلا ہوا ہے، دین میں کمی ہے، دل سخت ہو گئے ہیں اور سینے تنگ ہو رہے ہیں۔
یہ درحقیقت ان آیات کا مطلب ہے جو میں نے شروع میں تلاوت کی ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میںمسلمان بدقسمتی اور مصیبت سے دو چارہوںگے۔ وہ مادی آسائشوں اور عیش و عشرت کی زندگی کے حصول میں مکمل طور پر گم ہو جائیں گے۔ لیکن ان کی نجات ان کے عقائد اور ان کی زندگی میں انقلابی تبدیلی میں مضمر ہوگی۔
بہت سے مسلمان علماء دھوکے دینے والے بادلوں کی طرح ہوں گے جن میں بارش نہیں ہوتی۔ ان کے پاس لمبی داڑھی، غصیلے چہرے، بری زبانیں اور گمراہ دلوں کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔یہ وہ زمانہ تھا جب قادیان سے حضرت مرزا غلام احمد صاحبؑ نے مسیح موعود اور امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا او رکہا کہ میں مسیح موعود اور مہدی ہوں جسے رب العالمین نے بھیجا ہے۔
آپ نے ایک عربی شعر میں اس بات کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے:
الوقتُ يدعو مصلحًا ومجدّدًا
فارْنوا بنَظرٍ طاهرٍ وجَنانِ
أتظنُّ أنّ اللّٰهَ يُخلفُ وَعدَهُ
أفأنتَ تُنكِرُ موعدَ الفُرقَانِ
وقت مصلح اور مجدد کا مطالبہ کر رہا ہے، لہٰذا خالص آنکھ اور دل سے دیکھو۔
کیا تم سمجھتے ہو کہ اللہ نے اپنا وعدہ توڑا ہے؟ کیا تم قرآن کے وعدے سے انکار کرتے ہو؟
پھر مقرر نے اس دور میں سلامتی کا قلعہ حضرت مسیح موعودؑ کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ امام زمانہ ذوالقرنین کی تعمیر کردہ دیوار کی مانند ہے۔ لوہے سے بنی وہی دیوار جس پر تانبا ڈالا گیا تھا، اب وہ دیوار اور زیادہ مضبوط ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دوبارہ تعمیر کیاہے۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو، حضرت مسیح موعودؑ کے خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ کو مضبوطی سے تھامے رہو، جو دوسری قدرت کے مظہر ہیں۔ یہ اس سیلاب کے وقت میں وہ رسی ہیں، جسے مضبوطی سے پکڑنا ہمیں ڈوبنے سے نجات دلائے گا۔ یہ وہ دیوار ہیں جو ہمیں شیطانی حملوں سے محفوظ رکھے گی۔ البتہ اس بات سے آگاہ رہیں کہ ایک احمدی مسلمان تبھی محفوظ رہ سکتا ہے جب اس کا دل خدا کی محبت میں تانبے کی طرح پگھل جائے۔
جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک نظم میں لکھا ہے:
صدق سے میری طرف آؤ اِسی میں خیر ہے
ہیں درندے ہر طرف مَیں عافیت کا ہوں حصار
پُشتیِ دیوارِ دیں اور مامنِ اسلام ہُوں
نارسا ہے دستِ دشمن تا بفرقِ ایں جدار
(براہین احمدیہ جلد ۵ صفحہ ۲۰۳)
پھر مقرر نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو بتایا کہ مسیح ابن مریم فوت ہوچکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تُو آیا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے اقتباسات پیش کیے جہاں آپ نے اس کے بارہ میں تفصیل سے بیان فرمایا ہے اور کہا کہ حضرت مسیح موعود ؑ بھی امام زمانہ ہیں۔ لفظ امامت کا جب ترجمہ کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے راہنمائی کی طاقت۔ یہ کوئی عارضی عہدہ نہیں ہے، جو اسے بعد میں دیا جاتا ہے، در حقیقت بصیرت اور فہم و فراست کی دیگر تمام صلاحیتوں کی طرح امامت بھی آگے بڑھنے اور الٰہی معاملات میں سب سے آگے بڑھنے کی طاقت ہے۔ اور امامت کی اصطلاح کا یہی مطلب ہے۔
پھر مقرر نے عہد حاضر کے امام کی خصوصیات کا ذکر کیا اور بتایا کہ امام الزمان اول اعلیٰ درجے کی اخلاقی طاقت رکھتا ہے۔ دوم امام الزمان نیک اعمال میں، معرفت الٰہی حاصل کرنے میں اور خدا سے محبت اور علم حاصل کرنے میں باقی دنیا سے آگے نکل جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اسے علوم الٰہی کے بارے میں ہمہ جہت علم عطا کرتا ہے اور ان کے ہم عصروں میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو قرآنی حقائق کے علم، روحانی برکات اور ناقابل تردید استدلال میں ان کے برابر ہو۔
سوم یہ کہ امام الزمان کا عزم بہت بلند ہوتا ہے۔ اسے زمانے کے ائمہ کرام کی طرف سے آزمائشوں اور آفات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
چہارم یہ کہ امام زمانہ خدا پرتوکل میں بڑھ کر ہے۔ پنجم یہ کہ امام زمانہ کو ایک کے بعد ایک کشف اور وحی ملتی رہتی ہے۔
پھر مقرر نے امام الزمان کے فارسی النسل ہونے پر روشنی ڈالی اورسور ة الجمعہ کی آیت اور اس کے تعلق میں ایمان کے ثریا ستارے پر پہنچنے اور فارس الاصل کے واپس لانے کا ذکر کیا۔
پھر بتایا کہ زمانے کا امام ہستی باری تعالیٰ کو ظاہر کرتاہے۔ اس بارہ میں حضرت مسیح موعودؑ کے اقتباسات پیش کیے۔
محترم مقرر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے قیام کا ذکر کیا اور کہا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ اس نے مجھے اس لیے بھیجا ہے تاکہ میں ثابت کر سکوں کہ نبی ﷺ زندہ نبی ہیں۔
نشانات کے ذکر میں مقرر نے کہا کہ امام الزمان حضرت مرزا غلام احمدعلیہ السلام کے لیے اللہ تعالیٰ نے رمضان کے مہینے میں سورج گرہن اور چاند گرہن لگائے اور زمین پر بے شمار نشانیاں ظاہر کیں، اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے عمل کے مطابق ان کی سچائی ثابت ہوئی۔ حضرت مسیح موعود ؑنے ایک فارسی شعر میں اس کا بڑی خوبصورتی سے اظہار کیا ہے:
آسماں بارد نشان اَلْوَقت می گوید زمیں
ایں دو شاہد از پئے من نعرہ زن چوں بیقرار
آسمان نشانات کی بارش کرتا ہےاور زمین کہتی ہے اب وقت آ گیا ہےکہ یہ دونوں گواہ میرے لیے گواہی دینے کے لئے تیار ہیں۔
پھر طاعون کا ذکر کیا کہ طاعون کے ہندوستان میں داخل ہونے کے دو سال بعد فروری ۱۸۹۸ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کئی پیشگوئیاں کیں جنہیں اجتماعی طور پر طاعون کی پیشگوئی کے نام سے جانا جانے لگا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ طاعون خدا کی طرف سے خاص طور پر ان لوگوں کو سزا دینے کے لیے بھیجا گیا تھا جنہوں نے آپ کے دعووں کا انکار کر دیا تھا اور جنہوں نے گرہن کے نشان کا انکارکیا تھا، جو خدا کی طرف سے اس قدر حیرت انگیز گواہی تھی کہ ان نشانیوں کو دیکھنے کے بعد آپ کے اور آپ کی جماعت کے مخالفوں سے عذاب کے ذریعہ نمٹا جائے گا۔ آپ کی کتاب نور الحق کے صفحہ ۳۵ تا ۳۸ میں لکھا ہے کہ میں نے اپنی پیشگوئی درج کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ رمضان کے مہینے میں ہونے والے چاند اور سورج گرہن آنے والے عذاب کے پیش خیمہ تھے۔ اس کے مطابق اس ملک میں اتنا بڑا طاعون پھیل گیا کہ اب تک تقریباً تین لاکھ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
آخر کار پیشگوئی کے مطابق، ہندوستان سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک تھا، جہاں دنیا بھر میں کل ۱۵ ملین میں سے تقریباً ۱۰ ملین اموات ہوئی تھیں۔
مقرر نے کہا کہ یہ اللہ کا خالص فضل ہے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قبول کر لیا ہے۔ آپ نے اپنی کتاب الوصیت میں دوسری قدرت کی پیشگوئی فرمائی۔ یاد رکھیں کہ بیعت کا واحد مقصد توبہ نہیں ہے۔ بیعت کا اصل مقصد اپنے آپ کو امام الزمان کے تابع کرنا اور غلام بنانا اور اس کے بدلے میں علم، روحانی بصیرت اور برکات حاصل کرنا ہے جو ایمان کو مضبوط بنانے اور روحانی بصیرت کو تیز کرنے اور خدا کے ساتھ خالص تعلق قائم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ یہ دنیا اور اس کے نتیجے میں آخرت کے جہنم سے نجات فراہم کرتا ہے۔ اور دنیا کے اندھے پن کو دور کرنے کے بعد یہ انسان کو آخرت کے اندھے پن سے محفوظ رکھتا ہے۔
حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ اس دور میں دوسری قدرت کے مظہر ہیں اور حقیقی امامت کے نائب، زمین پر اللہ تعالیٰ کے سب سے عاجز بندے ہیں۔ ہمیں اپنی دعاؤں، خاص طور پر تہجد میں پوری طرح مشغول رہنا چاہیے! ہمیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔
بعد ازاں موصوف مقرر نے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کنندگان سے توقعات پیش کیں اور کہا کہ یہ درود شریف میں مشغول ہونے اور اسلام اور آنحضرت ﷺ کی عزت و عظمت کو قائم کرنے کا وقت ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا ہےکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے رسول اللہ ﷺ کی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ قائم کرنے اور دنیا کو قرآن کریم کی سچائیوں کو ظاہر کرنے کے لیے بھیجا ہے۔
مقرر نے آخر میں کہا کہ جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۲۳ء کے موضوع کے مطابق جو تبلیغ ہے، میں اس تقریر کے آخری الفاظ پڑھتا ہوں:
یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ۔ قُمۡ فَاَنۡذِرۡ۔ وَرَبَّکَ فَکَبِّرۡ۔ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرۡ۔ وَالرُّجۡزَ فَاہۡجُرۡ۔ وَلَا تَمۡنُنۡ تَسۡتَکۡثِرُ۔ وَلِرَبِّکَ فَاصۡبِرۡ۔
السلام علیکم کہہ کر تقریر ختم کی۔
اگلی تقریر فہیم یونس قریشی صاحب(نائب امیر جماعت احمدیہ امریکہ)کی تھی جن کی تقریر کا عنوان تھا’’ ہستی باری تعالیٰ کے سائنسی دلائل‘‘۔
تقریر کے آغازمیں انہوں نے بچے کی پیدائش اور اس کے رونے سے ماں کی چھاتیوں میں دودھ اتر آنے کی مثال پیش کرتے ہوئے اس کی ایک حسّاس سائنسی توجیہ پیش کی۔ کہ رونے کی آواز ماں کے کانوں سے اس کے دماغ تک پہنچتی ہے اور پھرماں کے posterior pituitary(جو کہ چنےکے سائز کا ایک گلینڈہے) سے ایک ہارمون نکلتا ہے جسے oxytocinکہتے ہیں۔ اس کے اثر سے ماں کی چھاتیوں میں اُس روتے بِلکتے بچے کے لیے دودھ اُتر آتا ہے۔ ایم آر آئی سکین سے پتا چلتا ہے کہ یہ عمل صرف سیکنڈز میں مکمل ہو جاتا ہے اور یہ ماں کے اختیار میں بھی نہیں ہوتا۔ماں اور بچے کا یہ تعلق ایک تمثیل ہے لیکن اس تمثیل میں آج ہمیں سائنسی طور پر ہستی باری تعالیٰ تک پہنچنےکا راستہ ڈھونڈنا ہے۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بیشتر ورچول(virtual) ملاقاتوں میں فرمایا ہے کہ’’ پہلےہمیں اپنے بچوں کوسنبھالنے کی ضرورت ہے تا کہ وہ ان دہریوں کے اثر میں نہ آجائیں۔‘‘ ہمیں اپنے بچوں کو بتانا ہے کہ اسلام احمدیت اللہ تعالیٰ پر اندھے ایمان کی بات نہیں کرتی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے تفسیرِکبیر میں فرمایا ہےکہ ’’یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ کا مطلب اندھا ایمان نہیں۔ اس کا مطلب ہے اُن چیزوں پر ایمان جو حواس خمسہ سے معلوم نہیں کی جا سکتیں۔‘‘ اور یہ کہ’’قرآن خدا کا قول ہے اور سائنس خدا کا فعل ہے‘‘
اس لیےیہ گفتگو ہمیں قرآن شریف کی روشنی میں کرنی ہے۔ ایک دہریہ یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ میں قرآن کی بات کیوں مانوں؟ ٹھیک بات ہے۔ لیکن ہم قرآن کو اس لیے پیش کرتے ہیں کہ قرآن سائنسی تقاضوں پر پورا اُترتا ہے۔یہ خدا کی طرح چھپی ہوئی چیز نہیں۔ اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔اس کے دلائل کو تجربے سے گزارا جا سکتا ہے۔ آپ حیران ہوںگے کہ قرآن شریف کے بتائے ہوے سائنسی راستے پر چلنے سے، اُسی طرح ہستی باری تعالیٰ پر یقین مل جاتاہےجیسےہمیں بچپن میں رونے سے ماں کی محبت مل جاتی تھی…
محترم مقرر صاحب نے چند جدید سائنسی تحقیقات پیش کیں جو قرآن میں پہلے ہی مذکور تھیں:
۱۔ سکولز میں سائنس میں پڑھایا جاتا ہے کہ سولہویں اور سترھویں صدی میںCopernicus, GalileoاورKepler جیسے سائنٹسٹس نے دریافت کیا تھا کہ سورج اور زمین ساکت نہیں بلکہ اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ۱۴۰۰ سال پہلے سورۃالانبیاء کی آیت ۳۳ میں فرمایا:’’وہی ہے جس نے رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو پیداکیا۔ سب (اپنےاپنے)مدارمیں رَواں دَواں ہیں۔‘‘
۲۔ سکول میں بائیولوجی اور فزکس میں پڑھایا جاتاہے کہ سائنس نے ہر چیز کا جوڑا(یعنی pairs) دریافت کیے ہیں۔لیکن سینکڑوں سال پہلےقرآن شریف سورہ یٰسین کی۳۷ آیت میں فرماتا ہے:’’پاک ہے وہ ذات جس نے ہر قسم کے جوڑے پیدا کیے ہیں اس میں سے بھی جس کو زمین اگاتی ہے اور خود ان کی جانوں میں سے بھی اور ان چیزوں میں سے بھی جن کو وہ نہیں جانتے۔‘‘
آیت کے آخری حصہ کے بارہ میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یہ آخری حصہ قابلِ غور ہے۔’’اُن چیزوں میں سے بھی جن کو وہ نہیں جانتے‘‘۔matter یعنی مادہ کا جوڑا antimatter کو Dirac Paul نے ۱۹۳۳ء میں دریافت کر کے نوبیل انعام حاصل کیا۔ ایٹم کے اندر پروٹونز اور نیوٹرونز کے جوڑے کو Rutherford اور Chadwick نے ۱۹۰۹ء اور۱۹۳۲ء میں دریافت کیا۔Gellman اور Zweig نے ۱۹۶۴ءمیں ان پروٹونز اور نیوٹرونز کے اندر اس سے بھی چھوٹے subatomic پارٹیکلز Quarks کو دریافت کیا۔ یہ سوچ کر رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں کہ ایک ریت کے ذرہ میں۹۰کروڑ کوارکس ہیں۔ یہ ہم نہیں جانتے تھے۔
ایک طرف لاکھوں پاؤنڈزکی لیبارٹریزمیں کام کرنے والے نوبیل پرائزز جیتنے والےسائنسدان اور دوسری طرف عرب کے صحراؤں میں ایک اُمیّ رسولﷺ جولکھنا پڑھنا نہیں جانتا۔ اگر اس کائنات کا کوئی خالق نہیں،کوئی خدا نہیں، توکس نے یہ سائنسی راز رسول اللہﷺ پر کھول دیے؟ اگر یہ محض اتفاق ہے تو دوسرے مذاہب کی کتابوں میں ایسے اتفاق کیوں نہیں ملتے؟
۳۔ سمندروں کی سائنس یعنی Oceanography میں کروڑوں پاؤنڈز کی تحقیق کے بعد سائنس نے دریافت کیا کہ سمندر کو پانی کی تین تہوں نے ڈھانپ رکھا ہے۔ پہلے ۲۰۰ میٹرز کو یوپھوٹک زون(Euphotic zone) کہتے ہیں، جہاں تک روشنی جاتی ہے۔ پھر ۲۰۰ سے۱۰۰۰ میٹر کی تہ کوڈیسوپھوٹک زون (Dysphotic zone) کہتے ہیں، جہاں جھٹ پٹہ سا رہتا ہے۔ ہلکی روشنی۔ لیکن ایک کلومیٹر کے بعد مکمل اندھیرا ہے۔اسے اپھوٹک زون (Aphotic zone) کہتے ہیں۔
آنحضرت ﷺنےکبھی سمندروں کا سفر نہیں کیا۔ اگر قرآن خدا کا کلام نہیں تو سورہ نورآیت ۴۱ میں یہ کیسے آگیا کہ’’یا (ان کے اعمال) اندھیروں کی طرح ہیں جو گہرے سمندر میں ہوں جس کو موج کے اوپر ایک اور موج نے ڈھانپ رکھا ہو اور اس کے اوپر بادل ہوں۔ یہ ایسے اندھیرے ہیں کہ اُن میں سے بعض بعض پر چھائے ہوئے ہیں۔ جب وہ اپنا ہاتھ نکالتا ہے تو اسے بھی دیکھ نہیں سکتا۔ ‘‘
آج جب آکسیجن سلنڈرز کی مدد سے تیراک سمندروں کی گہرائیوں میں جا سکتے ہیں تو گواہی دیتے ہیں کہ ایک کلومیٹر کے بعدسمندر میں ایسا اندھیرا ہے کہ انسان کو اپنا ہاتھ تک نظر نہیں آتا۔
۴۔ کائنات کی سائنس یا cosmology پڑھنے والے طلبہ جانتے ہیں کہ پچھلے ۱۰۰ سال میں Edwin Hubble نے دریافت کیا کہ ہماری کائنات پھیل رہی ہے یعنی اس کا کوئی آغاز ہے۔ اس سے بگ بینگtheory وجود میں آئی اور پھر بلیک ہولز کی دریافت ہوئی۔ کیا یہ بھی اتفاق ہےکہ سورہ انبیاء کی آیت ۳۱ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’کیا کفّار نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں بند تھے پس ہم نے ان کو کھول دیا؟‘‘
مزید غور کریں تو ایک اور لطیف نکتہ سمجھ میں آتا ہے… اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَوَلم یَرَا… یعنی کیا اُس نےنہیں دیکھا۔ پہلے سائنس کہتی تھی کہ ایک بلیک ہول کو نہیں دیکھا جا سکتاکیونکہ روشنی بھی اس میں سے نکل نہیں سکتی۔ آج خاص آلات سے سائنسدان بگ بینگ کی حرارتcosmic microwave background کو دیکھ سکتے ہیں۔Event Horizon Telescope کی بدولت…پچھلے چار سال میں بلیک ہولزکی تصویریں بھی ساری دنیا نے دیکھی ہیں۔کیا یہ سب دیکھ کر بھی ہم ہستی باری تعالیٰ کو ماننے سے انکار کر دیں؟
۵۔قرآن کے سائنسی دلائل نےاولاد کے بارہ میں بھی راہنمائی کی ہے۔ اولاد نرینہ کی خواہش کے سبب دنیا میں ماؤں کو قصوروار ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔ طعنے بھی کسے گئے اور ظلم بھی ہوئے۔لیکن بیسویں صدی کے شروع میں بہت سے سائنسی تجربات سے ثابت ہوگیاکہ ہونے والے بچے کی جنس کا تعلق تو صرف مرد کے جرثومے یا کروموسوم سے ہوتا ہے۔عورت کا تو اس میں کوئی ہاتھ نہیں۔مغربی دنیا کے لیے یہ ایک حیران کن سائنسی انکشاف تھا۔لیکن اس اُمّی نبی کو یہ حقیقت کس نے بتائی؟اللہ تعالیٰ سورہ نجم کی آیت ۴۶ میں فرماتا ہے ’’اسی نے نطفہ سے نر اور مادہ کو پیدا کیا۔‘‘ قرآن اور سائنس تو ہماری سب ماؤں کے حق میں کھڑے ہیں۔
اگر ہم قرآن کے سارے سائنسی دلائل کا ذکر کریں جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں تو ہمیں شام ہو جائے گی۔
پہاڑ ساکت نہیں بلکہ بادلوں کی طرح چل رہے ہیں۔(سورہ نمل: ۸۹)۔ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی۔ (سورہ انبیا:۳۱)۔ جلد سب سے زیادہ درد کو محسوس کرتی ہے۔(النساء:۵۷)
جنینیت یا امبریولوجی کی تفصیل (المؤمنون آیت ۱۴) ، جنیٹک انجنیئرنگ (النساء آیت ۱۲۰)، گریویٹی یعنی کشش ثقل (سورۃ الرعد آیت ۳)، ایسڈ رین (سورۃ الواقعہ ۷۱)، واٹر سائیکل (الذاریات آیت ۳) میں بیان ہوا۔ اور بہت سی آیات ہیں جو نظریہ ارتقا یا ایولیوشن کی جزوی تائید کرتی ہیں۔قرآن نےتو سائنسی دلائل کے انبار لگا دیے ہیں۔
اس مقام سے آگے دو رستے نکلتے ہیں۔ایک دہریت کا رستہ ہے جس کے بارے میں Quantum physics کا ایک بانی Werner Heisenbergکہتا ہے کہ ’’سائنس کے گلاس سے پہلا گھونٹ پیتے ہی آپ دہریہ ہو جائیں گے۔… لیکن اسی گلاس کے پیندے میں خدا آپ کا انتظار کرہاہے۔‘‘یہ ہے وہ دوسرا راستہ۔ یقین کا راستہ۔ لیکن اس راستے پر چلنے والے وہ ہیں جو سائنس کے پہلے گھونٹ کے بعد رُک نہیں جاتے،تکبر نہیں کرتے،عاجزی سے اپنی تحقیق جاری رکھتے ہیں۔
محترم مقرر صاحب نے دہریوں کے ساتھ گفتگو میں پیش آمدہ بعض سوالات پیش کرتے ہوئے ان کے مختصراً جوابات بھی پیش کیے۔
٭… اگر یہ کائنات خدا نے بنائی ہے تو پھروہ خدا کہاں ہے؟ نظر کیوں نہیں آتا ؟
دہریت کے راستے پر چلنے والوں کا یہ سوال تو ایسے ہی ہے جیسے ایک بچہ، پیدائش سے پہلے اپنی ماں کے پیٹ میں یہ اعتراض کرے کہ چونکہ ماں نظر نہیں آتی اس لیے ماں کی ہستی کا انکار کرتا ہوں۔ اور یقین کے راستہ پر چلنے والا یہ کہے گا کہ ماں تو ہر طرف ہے… جیسے الیکٹرومیگنیٹک سپیکٹرم کی شعاعیں ہمارے ہر طرف ہیں لیکن ہم اس کے ہزار حصوں میں سے نو سو چھیانوے حصوں کو نہیں دیکھ سکتے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں ’’جس کو خدائی کا جلوہ دیکھنا ہے اسے چاہئے کہ دعا کرے۔ ان آنکھوں سے وہ نظر نہیں آتا بلکہ دعا کی آنکھوں سے نظر آتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد۳صفحہ۶۱۸)
٭… اگر دنیا اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے تو اللہ تعالیٰ کو کس نے بنایا ہے ؟
یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ احمد نے اس کمرے کو پینٹ کیا ہے تو احمد کو کس نے پینٹ کیا ہے ؟ اسے’’کیٹگری مسٹیک ‘‘کہتے ہیں یعنی کسی چیز کو غلط زمرہ میں پرکھنا۔ خدا ہماری طرح مادہ سے نہیں بنا…لطیف الخبیر ہے۔ یقین کے راستہ پر چلنے والے جانتے ہیں کہ جیسے سائنسی طور پر ہم روشنی کی رفتار سے تیز سفر نہیں کر سکتے،اُسی طرح اِس روحانی اسرار کو ہم ایک مادی ز ندگی میں تو نہیں سمجھ سکتے۔
٭… ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ میں کسی اَن دیکھی ہستی کی غلامی کیوں کروں ؟ میں آزاد ہوں۔
اچھا، یہ آزادی ہے!؟ یا آپ دنیاوی خداؤں کو پوج رہے ہیں؟ ہستی باری تعالیٰ کے منکرین تو سب سے بڑے غلام ہیں۔ فیس بک، Likes، YouTube ویوز،retweets کے غلام۔فلمی اداکاروں، گلوکاروں، فن پاروں کے غلام۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے ستائیس سال پہلے اِسی جلسہ سالانہ میں فرمایا تھا:’’وہ انسان جس نے کسی نہ کسی کو ضرور پوجنا ہے،جب وہ خدا کو نہیں پوجتا تو اس کے محبوب ذلیل سے ذلیل تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یقین کے راستہ پر چلنے والے ان مصنوعی خداؤں سے آزاد رہتے ہیں۔ ‘‘
پس ہمیں اپنے بچوں کو بتانا ہے کہ دہریت کا راستہ سائنس کا راستہ نہیں، بلکہ تکبر کا راستہ ہے۔اسی تکبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے Richard Dawkinsکو قرآن شریف کی volume commentary۔5اور اسلامی اصول کی فلاسفی کا انگریزی ترجمہ بھجوایا تھا لیکن اُس نے تکبر سے کام لیتے ہوئے کہا کہ آپ میری کتاب پڑھیں۔مجھے آپ کی کُتب پڑھنے کی ضرورت نہیں۔
یہ نام نہاد فلاسفرز اپنے تکبر اور لاف وگزاف کو سائنس کا نام دیتے ہیں۔اسی لیے تو حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا :
آوازآرہی ہے یہ فونو گراف سے
ڈھونڈو خدا کو دل سے نہ لاف وگزاف سے
سائنس ہمیں اس گلاس کے پیندے تک نہیں پہنچا سکتی جس کا Heisenberg نے ذکر کیا تھا۔حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں : ہم اس حیی وقیوم کو محض اپنی ہی تدبیروں سے ہرگز نہیں پا سکتے۔لیکن دعاؤں کی قبولیت سے پا سکتے ہیں۔
یہ ہے یقین کا راستہ۔جب بچپن میں بھوک لگتی تھی تو ہم ماں پر شک نہیں کرتے تھے۔ بحث نہیں کرتے تھے۔ اس کی موجودگی کا انکار نہیں کرتے تھے اور اونچا روتے تھے۔ ہمارے پاس ماں تک پہنچنے کی طاقت نہیں تھی لیکن ہماری چیخیں سن کر ماں ہم تک پہنچ جاتی تھی۔ خدا تک بھی ہم اپنی طاقت سے نہیں پہنچ سکتے لَا تُدۡرِکُہُ الۡاَبۡصَارُ وَہُوَ یُدۡرِکُ الۡاَبۡصَارَیعنی نظریں اس تک نہیں پہنچ سکتی لیکن وہ نظروں تک پہنچتا ہے۔
آخر وہ عظیم نبی ﷺ جو پیدا ہوا تو ایک یتیم بچہ تھا،جس کی ماں چھ سال میں اُسے چھوڑ گئی،اُس نے غار حرا کی تاریکی میں کس کرب سے دعائیں کی ہوں گی کہ خدا اس تک پہنچ گیا۔بہت سال بعد بھی ایک صحابی فرماتے ہیں: ’’میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا جب وہ نماز پڑھ رہے تھے۔اُن کی چھاتی سے رونے کی وجہ سے ایسے آواز آرہی تھی جیسے کیتلی میں پانی ابل رہا ہو۔‘‘
یہی یقین کا راستہ آپ کے غلامِ صادق نے اپنایا۔ ایک روایت ہے کہ طاعون کے دنوں میں ایک رات میں نے مسیح موعودؑ کو سجدہ ریز اس طرح گڑگڑاتے ہوئے دیکھا ہے جیسے ہنڈیا اُبل رہی ہو۔قریب ہو کرمیں نے سنا تو آپ دعا کررہے تھے کہ اےاللہ، اس عذاب سے دنیا کو بچا لے۔
ہمیں اپنے بچوں کو بتا نا ہے کہ ہر سچا احمدی اسی یقین کے راستے سے ہستی باری تعالیٰ کا حتمی ثبوت پاتا ہے اور وہ راستہ نمازوں میں گڑگڑانا ہے۔ دعاؤں کی قبولیت ہے۔ ایک زندہ خدا کو محسوس کرنا،اس کا تجربہ کرنا ہے۔ دہریوں کے لیے بھی ہمیں دعائیں کرنی ہیں۔ ہم نے دماغوں کو ہرانا نہیں بلکہ دلوں کو جیتنا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ایک بچہ جب بھوک سے بے تاب ہو کر دودھ کے لیے چِلاّتا اورچیختا ہے تو ماں کے پستان میں دودھ جوش مار کر آجاتا ہے۔ بچہ دعا کا نام بھی نہیں جانتا لیکن چیخیں دودھ کو کیوں کر کھینچ لاتی ہیں۔کیا ہماری چیخیں جب اللہ تعالیٰ کے حضور ہوں تو وہ کچھ نہیں کھینچ کر لا سکتیں؟ آتا ہے اور سب کچھ آتا ہے۔ مگر آنکھوں کے اندھے جو فاضل اور فلاسفر بنے بیٹھے ہیں وہ دیکھ نہیں سکتے۔
ڈھونڈو خدا کو دل سے نہ لاف وگزاف سے
اگلی تقریر مکرم ڈاکٹر زاہد احمد خان صاحب(صدر قضا بورڈ برطانیہ) نے کی۔ آپ کی تقریر کا عنوان تھا ’’خلافت ہی تنظیم کی ضامن ہے‘‘۔ یہ تقریر انگریزی زبان میں تھی۔
میں ایک ایسے موضوع پر بات کرنا باعث اعزاز خیال کرتا ہوں جو میرے اور ہر احمدی کے دل کو عزیز ہے۔ خلافت کے کسی بھی پہلو پر بات کرنا موجودہ دور میں نہ صرف امت مسلمہ بلکہ انسانیت کی نجات کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ تقریر کے عنوان میں تنظیم کو نظام زندگی یا معاشرے میں قائم نظام کے طور سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر کسی کو اس بات کے زندہ ثبوت کی ضرورت ہے کہ خلافت تنظیم کی ضامن ہے تو صرف حدیقة المہدی میں ہماری موجودگی اور ایم ٹی اے کے ذریعے دنیا بھر میں لاکھوں افراد کی شرکت اس کا ایک ثبوت ہے۔ بہرحال اس نظام کے پیچھے ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کا دستِ راہنمائی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ خلفاء زمین پر اس کے نمائندے ہیں اور اس طرح انسانی تاریخ کے ہر دور میں معاشرے کے ہر طبقے کے لیے نظم و ضبط قائم کرنے میں موجود رہے۔ یہ اثر نہ صرف بین الاقوامی سطح پر بلکہ انفرادی سطح پر بھی محسوس کیا جاتا ہے۔ جو نظام ہم اپنی زندگیوں میں دیکھتے ہیں، خلافت اس کی ضامن بھی ہے۔ جب ہم نظم و ضبط کی بات کرتے ہیں تو یہ ہمارے وجود کے بہت سے پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ مثال کے طور پر نظامِ تخلیق اور اس کا کمال آغاز میں پڑھی جانے والی آیات میں خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔
مقرر نے سورۂ ملک کی ابتدائی پانچ آیات کا ترجمہ پیش کیا اور کہا کہ ان میں اللہ تعالیٰ نے نظام کائنات میں کمال کا بیان فرمایا ہے۔ یہ آیات مادی کائنات کے نظام کے کمال کی بات کرتی ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے قرآن مجید کے پوشیدہ خزانوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے بڑی خوبصورتی سے وضاحت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک عالَم نہیں بلکہ دو عالم پیدا کی ہیں۔ ایک مادی عالم اور دوسری روحانی عالم۔ دونوں میں کمال پایا جاتا ہے۔
روحانی عالم کا کمال انسانِ کامل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت میں اپنے عروج پر پہنچا۔ ان کی آمد ایک ایسے وقت میں ہوئی جب قرآن کریم کے مطابق بحر و بر میں فساد ظاہر ہو چکا تھا۔اور اس وقت ایک امام کی ضرورت تھی۔
سورہ نور میں بیان ہے کہ اللہ خود نور ہے اور وہ آسمانی نور کواپنے انبیاء پر نازل فرماتا ہے،پھر خلفاء ہیں جو اس کی حفاظت کرتے ہیں اور لوگوں کی راہنمائی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نبی کے بعد اس نور کو بجھانے کی اجازت نہیں دیتا اور خلافت کا نظام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ آسمانی نور کو دور دور تک پھیلایا جائے اور دنیا کو روشن تر کرتا رہے۔یہ وہ خلافت علی منہاج النبوة ہے جس کا وعدہ سور ہ نور آیت ۵۶ میں دیا گیا ہے۔ اس آیت میں خلافت کے وعدہ کے ساتھ اس کی بعض خصوصیات اور مقاصد کو خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے، جنہیں ہم نے اپنی زندگی میں خلافت احمدیہ کے ذریعے پورا ہوتے بھی دیکھا ہے، جو ایک طرح خلافت راشدہ کا تسلسل ہے۔
معاشرے میں یا افراد کے اندر نظام صرف امن کی صورت میں قائم ہو سکتا ہے۔ خلافت کی صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ یہ خوف کو امن میں بدل دیتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا تھا۔ یہ خوف کی کیفیت تھی، جس کا تجربہ صحابہ کرام نے پہلے نہیں کیا تھا۔ یہ اللہ کا لازمی وعدہ ہے اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ کس طرح خلافت اس کے پیدا کردہ نظام کی ضامن تھی۔
رسول اللہ ﷺ کے تمام اصحاب نہ صرف دنیوی بلکہ روحانی لحاظ سے بھی بڑے بڑے پہاڑ تھے۔ وہ ایک ایسا نظام قائم کرنے میں کامیاب رہے جو حکومتی، شہری، معاشی اور عدالتی نظام سے لے کر عوامی کاموں کے شعبوں تک اور پھر ایک منظم فوجی نظام تک پھیلا ہوا تھا۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس وقت خلفائے راشدین کس طرح اس نظام کے ضامن تھے جو انہوں نے قائم کیا تھا۔
دنیا میں ایک بار پھر اندھیرا چھا جانے کےبعداللہ تعالیٰ نے اس زمانے کا امام بھیجا اور خلافت علی منہاج النبوة ایک بار پھر قائم ہو ئی۔خلافت احمدیہ کی ۱۱۵ سالہ تاریخ ایک بار پھر اس بیان کی عکاسی کرتی ہے کہ صرف خلافت ہی حقیقی نظام کی ضامن رہی ہے۔کس طرح ہر خلیفہ کی بصیرت افروز راہنمائی کے نتیجے میں جماعت احمدیہ نے دنیا بھر میں ترقی کی ہے۔ چاہے وہ انفرادی، قومی یا بین الاقوامی سطح پر۔ خلیفہ کی ذاتی دلچسپی کامیابی کی کلید رہی ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے وسائل کی کمی کے باوجود جماعت کو منظم اور متحد کیا اور ذاتی طور پر احباب جماعت کی روحانی تربیت کی۔ خوف کی حالت کو امن میں منتقل کیا۔ اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے جو شاندار نظام قائم کیا جس میں معاشرے کے ہر پہلو کا خیال رکھا گیا۔ بہترین انتظامی ڈھانچہ، ذیلی تنظیمیں، معاشی نظام، قضائی نظام وغیرہ۔ جس سے آج ہم خلیفہ وقت کی راہنمائی میں انفرادی اور جماعتی طور پر فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ سب صرف اس لیے ممکن ہوا ہے کیونکہ صرف خلافت ہی اس کامیابی کی ضامن ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی دور اندیشی نے نسبتاً کم عرصے میں ایک ایسا نظام قائم کیا جس کے قیام میں دنیاوی اداروں کو صدیاں لگ جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں رائج سوشلزم، مارکسزم، نازی ازم اور فاشزم جیسے مختلف نظاموں کے بارے میں بصیرت عطا کی تھی اور وہ ان کی خامیوں سے آگاہ تھے۔ وہ نظام وقت کی آزمائش پر پورا اترا ہے، آج دنیا بھر میں جماعت احمدیہ اسی نظام کے ساتھ چل رہی ہے اور ہمارے منصوبے اور پیش رفت اسی نظام کے ساتھ چل رہے ہے۔
خوف کا امن میں تبدیل ہوجانا ہر خلیفہ کی وفات پر دیکھا گیا ہے۔ مخالفین یہ سوچ کر خوش ہوتے ہیں کہ اب اس جماعت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ البتہ اللہ تعالیٰ جس نے انسانیت کی نجات کے لیے جماعت قائم کی ہے وہ اگلے خلیفہ کے ہاتھ تلے جماعت کو متحد کرکے اپنی عظمت کا اظہار کرتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی میں ان بیس سالوں میں ہم نے ترقی اور کامیابی کی رفتار کو بڑھتے دیکھا ہے ہے۔ اس زمانہ میں دنیا بھر میں مساجد کی تعمیر اور انہیں نمازیوں سے بھرنے کی پیش رفت۔ جامعات کا قیام، مربیان و مبلغین کی تربیت پھر مسیح الزمان کے پیغام کو زمین کے کونے کونے تک پہنچانے کا ہر ذریعہ استعمال کرتے ہوئے۔ ایک ایم ٹی اے چینل سے آٹھ تک جانا، اور کثیر لسانی صلاحیت پر جانا۔ خلیفہ وقت کی توجہ سے ہی ان کا حصول ممکن ہوا ہے تاکہ ہم اللہ کے ساتھ ذاتی تعلق قائم کرسکیں۔
یاد رکھیں کہ ہمارے امام نے ہمیں اپنے خیالات میں ایک فرد کے طور پر دیکھا ہے۔وہ سونے سے قبل چشمِ تصور سے ہر احمدی کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔یہ زمین پر خدا کا نمائندہ ہے، اور وہ ہماری انفرادی زندگیوں میں بھی نظم و ضبط کی ضمانت دیتا ہے۔ اور ہمارا کام اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہے۔ گذشتہ بیس سالوں میں دنیا نے افراتفری کا سامنا کیا ہے، حضور انور وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے دنیا بھر میں امن قائم کرنے کا پیغام دیا ہے۔
دنیا میں امن نہیں تھا، اقوام متحدہ، نیٹو، یورپی یونین، عرب لیگ اور دیگر انسانوں کے قائم کردہ ادارے عالمی امن کے قیام میں ناکام ہو چکے تھے۔ ہمارے پیارے امام نے مقتدر حلقوں میں اپنے بے شمار مکالموں کے ذریعے انہیں ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور ساتھ ہی انہیں امن کے ضامن طور پر اللہ تعالیٰ سے رابطہ قائم کرنے کی تلقین کی۔ جہاں وہ خود ذاتی طور پر نہیں جا سکتے تھے، وہاں سیاسی اور مذہبی عالمی راہنماؤں کے نام امن کے حوالہ سے خطوط بھجوائے۔ انہی اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد، دنیا بھر کے اراکین پارلیمنٹ اور پالیسی ساز حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ سے ذاتی طور پر راہنمائی حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں کہ کس طرح ایسی تبدیلیاں لائی جائیں جو دنیا میں امن کی ضامن ہوں۔یہ حقیقی خلافت ہے جس کا تعلق سیاسی طاقت سے نہیں بلکہ پوری انسانیت سے ہے۔
اسلام کے خلاف مظالم کے پیش نظر بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ چاہے وہ قرآن جلانے کے واقعات ہوں، رسول اللہﷺ کے کارٹون ہوں، یا چارلی ہیبڈو کے واقعات کی طرح مسلمانوں کے گھٹنے ٹیکنے کا گھناؤنا رد عمل ہو۔ حضرت امیر المومنین نے اپنے خطباتِ جمعہ اور تقاریر کے ذریعے، حقیقی اسلامی ردعمل دینے اور امن و رواداری کی تلقین فرمائی۔
ہماری جماعت کی تاریخ احمدیوں کے خلاف مظالم سے بھری پڑی ہے۔ یہ ہمیشہ خلافت ہی رہی ہے جس نے اس دل دہلا دینے والے وقت میں ہماری راہنمائی کی ہے۔یوم خلافت کے ایک دن بعد ۲۸؍ مئی ۲۰۱۰ء ہر احمدی کے لیے دردناک دن تھا۔ اس دن ۸۶؍ احمدیوں کو شہید کیا گیا۔ احمدی غمگین اور صدمے میں تھے۔ہمارے جذبات کو امن میں بدلنے کاکام ایک شخص پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ اسی دن جب حضور انور نے جمعہ کا خطبہ دیا تو بڑے سکون اور آرام دہ آواز کے ساتھ ہمارے زخموں پر مرہم لگنا شروع ہو گیا۔اس کا اثر فوری طور پر ہوا، ہم پر امن کا نزول ہوا۔ حضور کے الفاظ کی شفا بخش طاقت خوف کے بعد امن لانے کے اللہ کے وعدے کا منہ بولتا ثبوت تھی۔
کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ حضور پر کیا گزر رہی تھی لیکن انہیں دوسرے لاکھوں لوگوں کو تسلی دینا اور امن میں رکھنا تھا اور بالکل یہی انہوں نے اپنے الفاظ کے ذریعے کیا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ خلیفہ ہیں جنہیں اللہ کی نصرت حاصل ہے، ورنہ یہ انسانی طور پر ممکن نہیں تھا۔ حضور انور نے ذاتی طور پر مرحومین کے ہر خاندان سے بات کی اور انہیں تسلی دی۔ پھر حال ہی میں برکینا فاسو میں ہمارے بھائیوں کو بھی اسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ احمدیت کے نو چمکتے ستارے ایک انتہائی گھناؤنے واقعہ میں شہید ہوئے۔ ایک بار پھر یہ خلیفہ کے الفاظ تھے جو ہمارے لیے دلوں پر امن لائے۔
خلافت احمدیہ نے ہر موڑ پر مصائب کا سامنا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے تحت مختلف اسکیمیں یا نظام قائم کیے ہیں جو کامیابی کی ضمانت ثابت ہوئے ہیں۔ ۱۹۳۴ء کے مشکل وقتوں میں خلیفہ وقت نے تحریک جدید منصوبے کا اعلان کیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ آج ہم اس منصوبے کے ثمرات حاصل کر رہے ہیں، اس لیے خلافت اس نظام کی ضمانت تھی، اور جو لوگ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ فاتح ہوں گے، ان کے پاس کچھ بھی باقی نہیں رہا، جبکہ دوسری طرف یہ تحریک جدید کا منصوبہ تھا جس نے اسلام احمدیت کے پیغام کو زمین کے کونے کونے تک پہنچایا۔ پھر وقف جدید کی تحریک بھی دیہی علاقوں میں اثر انداز ہوئی۔
دنیا کے مختلف حصوں میں معاشرے کے مختلف طبقوں کے حالات سے تمام خلفاء پریشان رہے اور انہوں نے ان کے مصائب کو دور کرنے کے لیے بہت سے منصوبے بنائے ہیں۔ انسانیت کی خدمت کا آغاز قادیان سے حضرت مسیح موعودؑ نے دارالضیافت کے قیام سے کیا اور آج دنیا بھر میں انسانی ہمدردی کے لیے ہیومینٹی فرسٹ، IAAAE یا مختلف طبی تنظیموں کا جال بچھایا گیا ہے۔ یہ معاشی، سماجی، طبی امداد سے لے کر مدد فراہم کرنے میں ایک طویل سفر طے کر چکے ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے ان سب کو عالمی سطح پر پہنچایا ہے۔ رضاکاروں کو حضور کے ذاتی وژن اور ہر قدم پر ان کی راہنمائی حاصل رہی جو ان کی کامیابی کی کلید رہی ہے۔
IAAAEکئی دہائیوں سے اپنے انسانی ہمدردی کے منصوبوں میں سب سے آگے رہا ہے۔ حضور کی افریقہ میں زندگی کے اپنے تجربے کے ساتھ، انہوں نے منصوبوں کی قیادت کی ہے، جن میں گاؤں کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ اس کے چیئرمین تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ حضور ہر منصوبے کے ہر پہلو کو آگے بڑھاتے ہیں اور آپ کی ہدایت پر عمل درآمد بار بار کامیابی کی ضمانت رہا ہے۔
ہمارے پیارے امام نے اکیلے ہی دنیا بھر میں روحانی اور دنیاوی منصوبوں کا ایک ایسا نظام قائم کیا ہے جس میں ایک طرف امن پیدا ہوتا ہے، اور اللہ کے ساتھ تعلق مضبوط ہوتا ہے اور دوسرے انسان کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے۔
امت مسلمہ کو اس بات کا احساس ہے کہ ان کے درمیان جس چیز کی کمی ہے وہ ایک امام اور خلیفہ ہے جو تمام مسلمانوں کو متحد کرے گا اور انہیں کامیابی کی راہ پر گامزن کرے گا۔ اپنی کوششوں کے باوجود وہ متحد ہونے میں ناکام رہے ہیں اور ناکام رہیں گے۔ یہ صرف خلافت علی منہاج النبوةہے جس کا وعدہ قرآن مجید نے کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی کی ہے۔ اور ہم وہ خوش قسمت لوگ ہیں جن کے درمیان یہ خلافت ہے جس نے ہمیں متحد کیا ہے اور جس نے ہمارے نظام اور کامیابی کی ضمانت دی ہے۔
محترم مقرر صاحب نے غیر مبائعین کی مثال دے کر کہا کہ آج تاریخ گواہ ہے کہ خلافت کے بنائے ہوئے نظام کے تحت جماعت احمدیہ کو اللہ کی حمایت حاصل ہے اور اسلام کا پیغام زمین کے کونے کونے تک پہنچ چکا ہے اور لاکھوں لوگ اس جھنڈے تلے جمع ہو کر انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں اور اسلامی تعلیم پر عمل پیرا ہیں۔جبکہ خلافت سے محروم رہنے والوں نے ترقی کی کوششیں کیں لیکن اللہ کی مدد سے نوازے نہیں گیا۔
Gillingham میں ایک آئرش مصنف ڈیکلن (Declan) نے اسلام کے فرقوں پر کئی کتابیں لکھی ہیں۔ حال ہی میں وہ پاکستان کا دورہ کرنے کے بعد ابھی واپس آئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ لاہوری احمدیوں سے ملاقات کے لیے لاہور گئے تھے اور انہوں نے ان کے سالانہ جلسہ میں شرکت کی تھی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کتنے لوگوں نے شرکت کی، تو ان کے جواب نے مجھے حیران کر دیا۔ انہوں نے کہا قریباً دو سو۔ مجھے لگا کہ میں نے ان کی بات غلط سنی، اس لیے میں نے دوبارہ پوچھا، تو کہاکہ تقریباً دوسو۔ یاد رہے کہ ربوہ میں ہمارے آخری جلسہ ۱۹۸۳ء میں حاضری چوتھائی ملین تھی۔اعداد و شمار کو ایک طرف رکھتے ہوئے، پیش رفت کا کوئی موازنہ نہیں ہے۔ یہ صرف خلافت ہی ہے جو نظام کی اور کامیابی کی ضامن ہے، جس کا ہم دیکھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ نے مشاہدہ کیا ہے۔ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ایک اہم ذمہ داری ہمارے کندھوں پر آتی ہے۔ خلافت ایک نعمت ہے جو اللہ نے ہمیں عطا کی ہے۔
مقرر نے کہا کہ دنیا بہت مشکل وقت سے گزر رہی ہے اور ہمیں کچھ انتہائی مشکل اور سنجیدہ حالات کا سامنا ہے۔ امت مسلمہ بیابان میں گم ہو چکی ہے، وہ الگ تھلگ ہیں، ایک ایسا جسم جس میں روح نہیں ہے، دل نہیں ہے۔ دنیا بالعموم خالق کائنات پر ایمان سے منہ موڑ رہی ہے۔ دنیا کو معاشی چیلنجز کا سامنا ہے۔ آب و ہوا اور گلوبل وارمنگ، انصاف کا فقدان، عالمی بحران جیسے مسائل اور چیلنجز وسیع ہیں۔ لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ اس کا حل موجود ہے اور یہ کامیابی کے ضامن کے ساتھ آتا ہے۔
میں نے اپنی گفتگو سے بتایا ہے کہ کس طرح خلافت احمدیہ نظام کی ضامن ہے اور ان تمام مسائل کا حل ہے۔گذشتہ ۲۰ سال سےاس بات کا جیتا جاگتا ثبوت پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کا وجود ہے کہ کس طرح انہوں نے چیلنجوں سے نمٹا ہے اور کس طرح اپنی عالمی کوششوں کے ذریعے ان مشکلات کا حل پیش فرمایا۔
یہ کوششیں انفرادی طور پر اور پھر ایک جماعت کے طور پر ہماری اپنی زندگیوں میں نظام قائم کرنے کے لیے ہیں۔
اس موقع پر ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہماری ذمہ داری کیا ہے۔ سب سے پہلے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھا جائے جو ہمارے درمیان خلافت کی شکل میں ہے۔ اللہ مجھے اور آپ سب کو اپنے پیارے امام کے حکمت کے ان الفاظ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین