اخلاق کے تین مراحل
اللہ تعالیٰ نے جو نظام زندگی قائم فرمایا ہےاس میں چیزیں فی الفور وجود نہیں پکڑ تیں بلکہ تدریجی مراحل سے گزر کر ہی نشوونما پاتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے کاموں میں ایک تسلسل اور تدریج کا عمل ملتا ہے۔ جتنی کسی مخلوق میں ترقی کی گنجائش ہو گی اتنا ہی اس کے ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلہ میں داخل ہوتے ہوئے لمبا عرصہ لگے گا۔ جانور کا بچہ پیدائش کے چند گھنٹوں بعد پاؤں پر کھڑا ہو جاتا ہے اور چلنے کے قابل ہو جاتا ہے جبکہ انسان کے بچے کو سال بعض دفعہ دو دو سال لگ جاتے ہیں۔ جانور میں یہ امر طبعی طور پر واقع ہوتا ہے جبکہ انسان کے بچوں کو اسے باقاعدہ سکھلانا پڑتا ہے۔ آپ ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلہ میں بغیر تربیت یا پریکٹس کے داخل نہیں ہو سکتے۔ پہلے مرحلے سے سیدھا تیسری مرحلے میں داخل نہیں ہوا جاسکتا جس طرح جسمانی نظام تدریج کے مراحل سے گزرتا ہے۔ اسی طرح انسان اخلاقی اور معاشی طور پر مدارج سے گزرتا ہے مگر افسوس کہ ہم نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
پہلا مرحلہ وہ ہے جہاں حیوانیت کے درجہ سے نکل کر انسان انسانیت کے درجہ میں داخل ہوتا ہے۔ حیوان کو صرف اپنی ذات سے غرض ہوتی ہے۔ اسے اگر بھوک لگی ہو اور دوسرا حیوان قریب بھوک سے مر رہا ہو تب بھی اسے اپنی بھوک سے غرض ہو گی ۔وہ اپنی بھوک کم کر کے کچھ خوراک دوسرے حیوان کے لیے نہ چھوڑے گا کہ اس کی جان بچ جائے ۔مگر انسان اگر وہ بہیمیت کے درجہ سے نکل کر انسانیت کے درجہ میں داخل ہو چکا ہو تو وہ دوسرے انسان کو بھوکا مرتا نہیں دیکھ سکتا ۔وہ اپنا پیٹ کاٹ کر بھی دوسرے کی جان بچانے کی کوشش کرے گا۔ اسی طرح وہ دوسروں کے جذبات کا بھی خیال رکھے گا۔ ہم انسانوں میں سے بیشتر طبقہ مشکل سے ہی بہیمیت کے درجہ سے نکل کر انسانیت کے درجہ میں داخل ہوتا ہے۔
دوسرا مرحلہ انسانیت کے درجہ سے گزر کر بااخلاق انسان بننےکا درجہ آتا ہے۔ اس مرحلہ میں جب تک انسان کو باقاعدہ تربیت نہ دی جائے اور اس پر عمل بھی نہ کروایا جائے وہ اس درجہ میں داخل نہیں ہوسکتا۔ بااخلاق انسان وہ ہوتا ہے جو دوسروں کی تکلیف کا خیال رکھتا ہے ۔وہ کوئی ایسا عمل نہیں کرتا جس سے نہ صرف دوسروں کو کوئی جسمانی تکلیف پہنچے بلکہ جذباتی تکلیف بھی نہ پہنچے۔ وہ نہ صرف خود پاک صاف رہتا ہے بلکہ ماحول کو بھی پاک صاف رکھتا ہے۔ وہ کوڑا کرکٹ اپنے گھر سے نکال کر سڑک پر نہیں پھینک دیتا۔ وہ بازار میں چلتے ہوئے دوسروں کے لیے تکلیف اور رکاوٹ کا موجب نہیں بنتا ۔اسے اگر راستہ میں کوئی تکلیف دینے والی چیز نظر آتی ہے تو وہ اسے اپنے ہاتھوں سے دور کر دیتا ہے۔ بچوں سے پیار کا سلوک کرتا ہے عورت کو عزت کا مقام دیتا ہے۔ تمام معمر لوگ اس کے نزدیک قابل احترام ہوتے ہیں۔ وہ عمر رسیدہ لوگوں کے لیے گاڑی یا بس میں یا کسی بھی پبلک مقام پر اپنی سیٹ چھوڑ دیتا ہے۔ بوڑھے اور بےسہارا آدمی کو سڑک پار کرنے میں مدد دیتا ہے۔ وہ جھوٹ اور سفارش سے ناجائز کام نہیں کرواتا وہ امین اور دیانت دار ہوتا ہے۔غرض اس کا وجود معاشرہ کے لیے ایک نعمت کا درجہ رکھتا ہے نہ کہ زحمت کا جب وہ یہ مقام اور درجہ حاصل کر چکا ہوتا ہے تب کہیں جا کر وہ با خدا انسان بننے کا اہل بنتا ہے جہاں پہنچ کر وہ حقوق اللہ ایک جذبہ سے ادا کرتا ہے اور اللہ کی مخلوق پر رحمت کا سایہ بن کر چھایا رہتا ہے۔ ان سے نیکیاں اس طرح عمل میں آتی ہیں گویا وہ ان کی فطرت کا حصہ ہیں اور ایک معمولی امر ہیں۔ اسی لیے ان کی نظر میں بعض اوقات وہ امور گناہ ہوتے ہیں جو دوسروں کی نظر میں نیکیاں ہوتی ہیں اس لیے کہ ان کی معرفت اور بصیرت بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفی کہتے ہیں حسنات الابرار سیئات المقربین۔ ان سے نیکیاں اس طرح عمل میں آتی ہیں جس طرح ماں کی محبت بچے کے لیے جوش مارتی ہے۔
جب بھی ہم یا معاشرہ یا ہمارے ادارے ان مراحل کا خیال نہیں رکھیں گے اور انسان کو سیدھا با خدا انسان بنانے کی بے سود کوشش کریں گے وہ اللہ کے قائم کردہ نظام سے بغاوت کر رہے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بھی قانون ہے کہ جو بھی قانون قدرت اور نظام کی خلاف ورزی کرتا ہے اور ایک سال کے بچہ سے وہ توقعات رکھتا ہے جو جوان اور بالغ آدمی سے ہونی چاہئیں وہ خود اپنا نقصان کر رہا ہوتا ہے اور احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرہ میں mutation (ایسی جینیاتی تبدیلی جو اولاد میں منتقل ہو کر موروثی تبدیلیاں پیدا کر سکتی ہے) پیدا ہوتی ہے جہاں جسم تو پوری طرح نشوونما پا جاتا ہے مگر دماغ اور شعور ایک بچے کی حالت تک ہی رہتا ہے۔ اپنے اردگرد غور سے دیکھیں۔ آپ کو اس کے چلتے پھرتے نمونے ہر طرف نظر آئیں گے ۔کوئی بااخلاق نوجوان ایسا نہ ہونا چاہیے جو اپنے استادوں کا والدین کے درجہ پر احترام نہ کرے۔کون با اخلاق نوجوان تعلیمی اداروں کو آگ لگاتاپھرے گا۔ انہیں تعلیم نہیں سیاست کا اکھاڑہ بنائے گا۔با اخلاق وہ ہے جو دوسروں کو تکلیف پہنچنے پر معذرت کرے، لائن توڑ کر آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرے گویا دوسروں کا وقت کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ سفارش سے اپنا کام نہ چلائے۔ نقل نہ کرے۔ اپنے سے قابل لڑکے کا حق مارنے کی کوشش نہ کرے۔ عورتوں سے تہذیب سے بات کرنے سے عاری نہ ہو۔
ایسا معاشرہ جہاں چور بازاری ہو۔ ناجائز منافع کو شیر مادر سمجھا جائے اور ایسا کرتے ہوئے وہ کبھی خدا کے خوف سے نہ کانپیں۔ جہاں جھوٹ معمول ہو۔ ایسی سوسائٹی تو جنگل سے بھی بدتر ہے پہلے آپ اس سوسائٹی اور معاشرہ کو انسانی سوسائٹی تو بنالیں پھر جا کر بااخلاق بنانے کی کوشش کریں اور آپ ایسی سوسائٹی کو سیدھے باخدا بنانا چاہتے ہیں ؟
اس عمل میں آپ کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں یہ تو اللہ کے قانون کے خلاف ہے۔ یہ اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ معاشرے کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ایک قدم کے بعد دوسرا قدم اٹھائیں۔ پہلے آدمی کو انسان بننے دیںپھر اس کی تربیت کے ذریعہ اسے بااخلاق انسان بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ بعض دفعہ ہم ان باتوں پر زور دینا شروع کر دیتے ہیں جن کا اخلاق سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ جب انسان خدا کی خاطر اس کے قانون کی پیروی کرتے ہوئے بااخلاق انسان بن جاتا ہے تب ہی جا کر اس میں اہلیت پیدا ہوتی ہے کہ وہ باخدا انسان بن سکے۔ اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ کار نہیں ! ایسا معاشرہ جو ابھی آداب انسانیت بھی پوری طرح نہ سیکھ سکا ہو اسے کس طرح سیدھا با خدا انسان بنا سکتے ہیں؟ ہر ایک مرحلہ کے درمیان ایک خلیج ہوتی ہے جو پار کرنے کے بعد ہی دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ اگر آپ چلنے کے قابل تو ہوئے نہ ہوں اور پرواز کی کوشش کریں تو آپ اوندھے منہ گر جائیں گے۔ کاش ہم اللہ کے قانون اور مقرر کردہ مراحل کو سمجھیں اور پھر اس کے مطابق اس سمت میں معاشرہ کو قدم بہ قدم آگے بڑھائیں۔