یادِ رفتگاں

یادرفتگان پیاری امیّ جان زینب اختر صاحبہ

(طاہر محمود کُلّا۔سانکٹ گالن،سوئٹزرلینڈ)

اہلیہ چودھری محمد یعقوب کُلّا

ہماری والدہ زینب اختر صاحبہ کی پیدائش مارچ ۱۹۳۸ء میں بمقام کالووالی (نزد شاہ تاج شوگر ملز، منڈی بہاؤ الدین) ہوئی۔ آپ کے والد مولوی نور احمد صاحب (مولوی فاضل حکیم) اور دادا زبدۃ الحکماء میاں غلام رسول صاحب کا تعلق ایسے مذہبی گھرانے سے تھا جو دیگر دنیاوی علوم کے ساتھ حکمت کے شعبہ سے بھی گہرا شغف رکھتے تھے۔ امی جان نے باقاعدہ نصابی تعلیم کسی مدرسہ یا سکول سے تو نہ پائی مگر اُس زمانہ کے مروّجہ طریق کے مطابق گھر پر ہی تھوڑی بہت عربی ا ور اُردو سیکھی۔ چونکہ مطالعہ کتب کا شوق بچپن سے ہی تھا لہٰذا اس بنا پر اُردو زبان بڑی روانی سے پڑھ لکھ لیتی تھیں۔

ہمارے حقیقی نانا و نانی جان تو احمدی نہ تھے مگر ہماری والدہ کے تایا مکرم صوبیدار عبدالغنی صاحب نے دورانِ ملازمت احمدیت قبول کرنے کا شرف پایا جن کا شمار تحریکِ جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں ہوتاہے۔ اپنے تایا جان کی پُرحکمت باتوں و اندازِ تبلیغ سے متاثر ہو کر سلسلۂ احمدیت کے بنیادی لٹریچر کے مطالعہ کے بعد مزید تسلّی کی خاطر آپ اپنے تایا جان کے ہمراہ ۱۹۵۱ء کے جلسہ سالانہ میں شرکت کے لیے ربوہ گئیں تو وہاں جلسہ کے ماحول سے متاثر ہو کر بیعت کرنے کا فیصلہ کیا۔ امیّ جان بڑے اشتیاق سے ذکر کرتیں کہ ضلع گجرات کی مستورات سے ملاقات کے وقت حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ مٹی کے کچے مکان کی چھت تلے پرالی پر تشریف فرما تھے۔ دورانِ ملاقات حضورؓ کے نورانی چہرہ کو دیکھتے ہی امی جان نے بلا تأمل حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر عین عالم جوانی میں بیعت کاشرف پایا جس کے بعد گویا آپ کی زندگی کی کایا ہی پلٹ گئی۔ جماعتی کتب کا بغور مطالعہ کرتے ہوئے آپ نے دینی وفقہی مسائل سے مزید آگاہی حاصل کی۔

بیعت کے دو سال بعد آپ کے تایا جان کے ایک مخلص احمدی دوست و علاقہ کی بااثر شخصیت چودھری خوشی محمد کُلّا صاحب موضع مونگ کی سچی خواب کی بنا پر اُن کے بیٹے محمد یعقوب کُلّا صاحب سے آپ کا رشتہ طے پایا اور یوں ہمارے والدین ستمبر ۱۹۵۳ء میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ شادی کے بعد مونگ آکر زمیندارہ ماحول، سماجی مصروفیات وگھر یلو ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ آپ نے صدر جماعت محترم سید حیدر شاہ صاحب سے بہت تھوڑے عرصہ میں قرآن مجید کا لفظی و با محاورہ ترجمہ سیکھا۔اپنے تایا جان، اپنے خسر محترم اور شاہ صاحب سے فیوض پانے کی بدولت امی جان ان تینوں بزرگوں کے احسانات کا تذکرہ ہمیشہ انتہائی تعظیم سے کرتیں اور زندگی بھر ان کے لیے دُعا گو رہیں۔نماز فجر کے بعد روزانہ تلاوت قرآن کریم آپ کی پختہ عادت تھی نیز دوسروں کو قرآن کریم پڑھانا اور قرآن کریم کی حقیقی تعلیم کو سمجھنا و سمجھانا آپ کاخاص شغف تھا۔

مسجد احمدیہ مونگ کے نزدیکی اور ہمارے محلہ او راس سے ملحقہ گھروں کی بچیوں کی اکثریت اور بعض گھروں کی دو نسلوں نے بھی بلا تفریق مسلک آپ سے قرآن کریم پڑھا۔ اسی طرح آپ نے اپنے اکثر سسرالی عزیزوں اور ان کے بچوں کو بھی قرآن کریم پڑھایا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن و لڑکپن میں نماز ِفجر کی ادائیگی کے بعد مسجد سے گھر آنے پر سب سے پہلے امی جان کے ہاتھ کا ادھ رڑکا (مکھن و پنیر سمیت گاڑھی لسّی)پینے کو ملتا جس کی چاشنی و لذّت کا احساس آج تک ہے۔ پھر ہم سب بھائی بہنوں کو امی جان قرآن مجید پڑھاتیں۔ بعد ازاں ناشتہ و سکول روانگی کے ساتھ ہی دیگراحمدی و غیراحمدی بچے یسرناالقرآن و قرآن مجید پڑھنے کے لیے آناشروع ہو جاتے۔ عمر کے آخری حصہ میں قوّتِ بینائی کمزور پڑنے کے باوجود ٹی وی پر یا کسی سے تلاوتِ قرآن کریم سننے پر ساتھ ساتھ خود ہی بغیر دیکھے بڑی روانی سے ترجمہ کرتی جاتیں تاکہ ساتھ دوسرے سننے والوں کو بھی فائدہ پہنچے۔ امی جان کو قرآنی تعلیم سے گویا عشق تھا۔

آپ اوائل عمری سے ہی نماز پنجگانہ ادا کرنے والی اور جوانی کی عمر سے ہی تہجد گزار تھیں۔ عمومی طور پر شفیق ماں مگر اولاد کی تعلیم و تربیت کے ضمن میں بوقت ِ ضرورت اُستانی نما سخت منتظمہ بھی۔ جیسا کہ ہمارے گھر میں فجر کی اذان ہوتے ہی سب افرادِ خانہ کے بستر لپیٹ کرایک طرف سنبھال دینا ایک مروّجہ طریق رہا تاکہ مرد و بچے بر وقت مسجد پہنچیں اور خواتین گھر میں ہی نمازِ فجر کی ادائیگی و تلاوتِ قرآن کریم کے فوراً بعد اپنے اپنے کام بروقت سمیٹ سکیں۔

ہمارے والد صاحب کی تعیناتی بسلسلہ ملازمت اکثر و بیشتر اپنے آبائی علاقہ سے بہت دُور رہی، کبھی مشرقی پاکستان، کبھی سندھ تو کبھی صوبہ سرحد میں اور بعدازاں بحرین و سعودی عرب میں بھی مقیم رہے۔ اس سارے عرصہ میں مشترکہ خاندانی نظام کے تحت امی جان نے اپنی اولاد کی بہترین پرورش کی نیز دینی و دنیاوی اعتبار سے اولاد کی مثالی تربیت کے ساتھ ساتھ بفضلہ تعالیٰ اپنی ساری اولاد کو اعلیٰ تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ کیا۔ اس سارے عرصہ کے دوران امی جان اور ہمیں ہمارے دادا جان کی سر پرستی و شفقت بھی حاصل رہی۔ دونوں میں یہ قدرِمشترک تھی کہ دونوں نے ازخود مطالعہ و تحقیق کر کے احمدیت قبول کرنے کی سعادت پائی تھی۔ دونوں ہی تعلیم کے خواہاں، اعتدال پسند و عمدہ اخلاق کے مالک اور صائب الرائے وجود تھے۔

امیّ جان نے سلسلہ کی اکثر کُتب پڑھ رکھی تھیں۔جماعتی اخبار و رسائل کا مطالعہ تو ا ُن کا روز مرّہ کا معمول تھا۔ آپ کی یادداشت بہت اچھی تھی،تبلیغ کی غرض سےکئی قرآنی آیات و احادیث آپ کو ازبر تھیں دُرثمین، کلام محمود او ردُرعدن کے بہت سے اشعار آپ کو زبانی یاد تھے جو کہ موقع کی مناسبت سے بر محل سناتیں۔حکیمانہ نسخے توخاندانی وراثت کے طور پر آپ کا اثاثہ تھے ہی۔دیگر عزیزوں سمیت اپنی اور بچوں کی چھوٹی موٹی بیماریوں کا علاج گھر پر ہی کر لیتیں، خال خال ہی ڈاکٹر کے ہاں جانا ہوتا۔

امی جان پہلے لجنہ اماءاللہ مونگ کی سالہا سال تک سیکریڑی مال رہیں اور بعد ازاں آپ کو لمبے عرصہ تک بطور صدر لجنہ اماءا ﷲخدمات بجا لانے کی توفیق ملی۔ تربیت ِاولاد کی غرض سےتشحیذالاذہان اورمصباح مستقلاً گھر میں رکھے تھے۔جماعتی کتب بھی وقتاًفوقتاًخرید ی جاتیں اور روز نامہ الفضل مسجد سے لا کرپڑھنے کے بعد واپس کر دیا جاتا۔شروع سے ہی ہمارے گھر میں بڑے سائزکے ڈش انٹینا کے ذریعے ایم ٹی اے کی نشریات باقاعدگی سے دیکھی جاتیں۔اِس آسمانی مائدہ سے گھر کےافرادسمیت دیگرغیراحمدی عزیز واقارب بھی کبھی کبھی مستفید ہوتے رہتے۔جب تک جلسہ سالانہ پاکستان کا انعقادہوتا رہا،امی جان سمیت ہم لوگ اکثر جلسہ میں شرکت کرتے۔ ۲۰۰۶ء کے جلسہ سالانہ قادیان میں امی جان کوشمولیت کی سعادت نصیب ہوئی،جہاں آپ کو مقاماتِ مقدسہ دیکھنے اور بیت الدعا میں خصوصی طورپر دُعا کے مواقع بھی ملے۔

۱۹۹۵ء تا ۱۹۹۷ء تقریباً دوتین سال میری اور میرے اہل و عیال کی خوش قسمتی رہی کہ یہاں سوئٹزرلینڈ میں ہمیں والدین کے ساتھ رہنے کا موقع میسر رہا۔اس دوران بچوں کو اپنی دادی جان سے اُردو زبان او رقرآ ن مجید پڑھنے کا بھی موقع ملا۔۱۹۹۷ء میں میرے والدین واپس پاکستان تشریف لے گئے۔

۲۰۱۲ء میں پاکستان سے برطانیہ آمداورجلسہ سالانہ برطانیہ میں شرکت پر امی جان بہت خوش تھیں کہ عرصۂ دراز کےبعد خلیفۂ وقت کا دیدار نصیب ہوا۔ ۲۰۱۲ءتا ۲۰۱۹ء آپ اپنے تینوں بیٹوں کے ساتھ سوئٹزرلینڈ میں مقیم رہیں۔ ایک مرتبہ یوم مصلح موعودؓ میں شرکت کے لیے مسجد نور جانے کی غرض سے ہم روانہ ہوئے ہی تھے کہ میری نظر پڑی کہ امی جان نے سبز رنگ کی شنیل کے نسبتاً پرانے کپڑے زیب تن کر رکھے تھے۔میں نے گاڑی موڑتے ہوئے کہا کہ اوپر کمرے میں جا کر بہتر کپڑے بدل لیں تو انہوں نے بتایا کہ بطور صدر لجنہ اپنے سمیت دیگر لجنہ و ناصرات نے اسی سبز رنگ کے کپڑے بطور خاص یومِ مصلح موعودؓ کی مناسبت سے پاکستان میں بنوائے تھے جو کہ وہ ہر سال اس موقع پر پہنتیں،کیونکہ پیشگوئی مصلح موعودؓ کی سبز رنگ سے ایک مناسبت ہے۔ سو اسی مناسبت سے امی جان نے وہ سبز رنگ کے کپڑوں کا جوڑا بنوا رکھا تھا۔ آپ نماز جمعہ و جماعتی اجلاسات میں باقاعدگی سے حاضر ہوتیں۔ جماعتی عہدیداران و مرکز ی نمائندگان کے قیام و طعام کا انتظام بڑے سلیقے سے کرواتیں نیز گھر آئے مہمان کی خاطر مدارت میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھتیں۔

امی جان ایک خلیق و نیک بخت اور دعا گو وجود تھیں۔ پاکیزگی و صفائی کا خاص خیال رکھنے والی، دیندار، انتہا درجہ کی سلیقہ شعار، ماہِ رمضان کے روزوں کی پابند حتیٰ کہ ماہِ شوال کے چھ روزے بھی اہتمام سے رکھتیں۔ دورانِ رمضان آپ کو قرآنِ مجید کے کئی دَور مکمل کرنا نصیب ہو تے۔ صدقہ وخیرات اور چندہ جا ت کی بروقت ادائیگی کرتیں اور بسااوقات چندہ کی رقم بچوں کے ہاتھ سے سیکرٹری مال کو دلواتیں تاکہ بچوں میں بھی مالی قربانی کی اہمیت اُجاگر ہو۔ وقت کی پابند ی کرنے والی تھیں۔ پُر پیچ گفتگو و جھوٹ سے آپ کو سخت نفرت تھی۔ صاف سیدھی اور دوٹوک بات کرتیں۔ اکثر کہتیں کہ کبر و جھوٹ کو کبھی پھل نہیں لگتا بلکہ عاجزی او ر سچ کو ہی ہمیشہ پھل لگتاہے۔ اکثر اکٹھے ہونے کے موقع پر ہمیں اور اپنے نواسے نواسیوں و پوتے پوتیوں کو اپنی زندگی کے تجربات اور قبولِ احمدیت اور اس کے اثمار بہت دلکش انداز میں بیان کرتیں۔

امی جان کی بہت ہی پیاری عادت تھی کہ کھانا بہت آرام سے ٹھہر ٹھہر کر تناول کرتیں اور نماز تو انتہائی سکون اور خشوع وخضوع سے ادا کرتیں اور دورانِ نماز خدا تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کے ساتھ گِڑگڑا کر دعائیں کرتیں۔ آپ انتہائی زیرک و معاملہ فہم خاتون تھیں جوکہ امورِ خانہ داری کے علاوہ دینی و دنیاوی امور سے بھی بخوبی آگاہی رکھتی تھیں۔ ہمسایوںو عزیزوں کے چھوٹے موٹے گھریلو جھگڑوں میں صلح صفائی و لین دین کے معاملات انصاف کے تقاضوں کے مطابق نمٹانا بھی آپ کاخاص وصف تھا۔ امی جان کا اپنے غیر احمدی میکےکے تقریباًسبھی رشتہ داروں ا ور اُن کی اولاد سے بہت ہی پیار کا تعلق رہا۔ اُن میں سے بعض کی آپ فیاضانہ طریق پر مالی مدد کرتیں۔ چند ایک کو بغرض ِ روزگار آپ نے مالی انتظام کر کے مشرق ِ وسطیٰ اور یورپی ممالک میں بھی بھجوایا۔ اسی طرح آپ نے اپنی تمام قیمتی وراثتی جائیداد اپنے غیر احمدی بھتیجوں کو ہبہ کردی۔ وہ سب عزیز بھی آپ سے بے حد عزت و پیار سے پیش آتے۔ غیر احمدی عزیزوں سے اس قدر مثالی تعلقات اور ان میں سے کئی کی خواہش و اظہار کے باوجود امی جان کو ہر گز یہ گوارا نہ تھا کہ آپ کی اولاد میں سے کسی کا رشتہ غیر از جماعت رشتہ داروں میں طے پائے۔ اپنے رکھ رکھاؤ، سلیقہ، بصیرت و دیانت کی بدولت عز یز و اقارب اور جاننے والوں میں آپ کا ایک خاص مقام و احترام تھا اور ایسے ہی اوصاف کی بنا پر اپنے گھروں میں آپ مکمل با اختیار تھیں۔

امی جان گوناگوں صفات کی مالک تھیں۔ محبتِ الٰہی، عشقِ رسول ﷺ،احمدیت کی سچی عاشق اور حضرت مسیح موعودؑ و خلافتِ احمدیہ سے دِلی محبت و عقیدت رکھنے والی متقی و پرہیز گار وجود تھیں۔ احمدیت کے معاملہ میں انتہائی غیور اور دلیل کے ساتھ بات کرنے والی داعی الی اللہ۔ اوّل خویش بعد درویش کے مصداق اپنے غیر احمدی رشتہ داروں اور اپنے زیر اثر خواتین کو تبلیغِ احمدیت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتیں۔ احمدی و غیر احمدی عزیز بلا تفریق سبھی اپنے نومولود بچوں کے نام بڑی چاہت کے ساتھ آپ سے تجویز کرواتے۔آپ ہر ایک سے خداترسی، تواضع، سادگی اور رحمت و شفقت سے پیش آتیں۔ مالی تحریکات میں شمولیت و قرآنی تعلیم ایتاءِ ذی القربیٰ کے تحت بلاتفریق مسلک اپنے قریبی رشتہ داروں اور جاننے والوں کی خبر گیری سے کبھی لاپروا نہ رہتیں۔ اپنے مالی وسائل میں رہتے ہوئے محتاج و ضرورت مند کی مالی معاونت ضرور کرتیں۔ گویا حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ حقوق العباد کا بھی پورا خیال رکھتیں۔

امی جان کی اسی قسم کی خوبیوں کی گواہی اپنے ا ور غیر نہ صرف آپ کی زندگی میں دیتے رہے بلکہ آپ کی وفات کے بعد بھی احمدی و غیر احمدی عزیز، برادری کے رشتہ دار، محلے دار اور آپ کی جوانی کی عمر کی سہیلیاں اور دوسرے جاننے والے بھی دیتے ہیں۔ آپ کی وفات پر تعزیت کے لیے آنے والوں کا تانتابندھا رہا جن میں سے خواتین کی بھاری تعداد آپ کے بھلائی کے کاموں کے ضمن میں آپ کا ذکر خیر میری ہمشیر گان و اہلیہ سے کرتی رہیں۔ اکثر یت نے بتایا کہ انہوں نے زینب اختر صاحبہ سے قرآن مجید پڑھا۔ کسی نے امورِ خانہ داری کے تعلق میں اُن سے کچھ سیکھا، کسی نے کڑھائی، سلائی یا سلیقہ مندی کا کوئی اَور ہنر اُن سے سیکھا، کسی نے بوقتِ ضرورت اُن سے مالی مدد پائی، تو کسی نے تھوڑی بہت دنیاوی تعلیم پائی۔ غرض بلا تفریق کسی نہ کسی رنگ میں اپنے جاننے والوں کے لیے امی جان ایک نافع النّاس وجود تھیں۔

میں جب بھی خیریت دریافت کرنے کے لیے امی جان کو فون کرتا تو اپنا احوال بتانے یا بیماری کی تشویش کے اظہار کی بجائے میرے بیوی بچوں سمیت دوسرے بھائی بہنوں کا حال پوچھ کر تسلی پانے کے بعد اپنی صحت کے ضمن میں صرف اتنا کہتیں کہ اللہ کا بڑا فضل ہے شکر ہے بس شوگر کا لیول تھوڑا سا زیادہ ہے۔ غرض ہر حا ل میں اللہ کی شکرگزاری کا اظہار کرتیں۔ جب تک گاؤں میں ٹیلیفون کی سہولت نہ تھی تو مسلسل خط لکھتیں۔ خط کے آغاز میں دیگر دعاؤں کے علاوہ یہ دعا خصوصیت و تواتر سے لکھتیں کہ تمہیں اللہ دین و دنیا کی نعمتوں سے مالامال کرے اور اپنے غیب سے حلال و پاکیزہ رزق عطا کرے۔اپنی والدہ کی ایسی دعاؤ ں ہی کی قبولیت کے اثمار ہم سمیٹ رہے ہیں۔ والدین کے ہمراہ مجھے سوئٹزرلینڈ و یورپ سمیت پاکستان میں بھی سفر کے بہت مواقع میسر رہے۔ وہ سارے سفر میری یادوں کا دلکش سرمایہ ہیں۔ دوران سفر امیّ جان کے بیان کردہ واقعات و باتوں کا ہر ہر لفظ و فقرہ اسلام و جماعت احمدیہ سے محبت و وفا کا عکاس ہوتا۔

امی جان کا اصرار تھا کہ زندگی کے آخری چند ماہ و سال وہ اپنے گھر مونگ میں بسر کرنا چاہتی ہیں۔ اُن کی خواہش و اصرار کے پیش ِ نظر ۲۰۱۹ء سے یعنی تقریباً تین سال سے آپ کا قیام پاکستان میں تھا۔ آپ کی صرف ایک بیٹی ہی پاکستان میں ہے۔ اس سارے عرصہ میں اُنہیں اپنی والدہ کی خدمت کا بہت زیادہ موقع ملا۔ اسی طرح ہمارے ماموں کے بچوں کو بھی امیّ جان کی خدمت کا موقع ملا اور وقتاًفوقتاًہم سارے بھائی بہنوں کو بھی پاکستان میں امیّ جان کے پاس رہ کر اُن کے علاج معالجہ و خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ باوجود اپنی بیماری و تکلیف کے ایوب بھائی جان بھی مئی جون میں چند ہفتے پاکستان رہ کر امی جان کی خدمت بجالاتے رہے۔ اسی طرح چھوٹے بھائی عزیزم ناصر محمود اور ہماری ہمشیر گان بھی خدمت کی توفیق پاتی رہیں۔

سال ۲۰۲۲ء کے آغاز پر جنوری کے پہلے ہفتے میں امیّ جان کو فالج کا حملہ ہوا۔ چند منٹ کے اندر ہی فوری طبی امدادومناسب علاج کی سہولت میسر آنے پر آپ کی طبیعت سنبھلنے لگی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے چند ہفتوں کے اندرواکرکی مدد سے چلنے لگیں اور تیزی سے صحت یاب ہو رہی تھیں ۔ ایک دن بغیر واکر کی مدد کے صحن میں چہل قدمی کرتے ہوئے بہت خوش تھیں کہ اللہ نے فضل کیا ہے۔ شکرِ خدا وندی بجا لاتے ہوئے خوشی سے آپ کا چہرہ کھل اُٹھا۔ اُس دن میں نے شاید اپنی پیاری والدہ کے چہرے پر آخری خوشی کی گلابی لہر محسوس کی۔ پچھلے دو سال میں خوش قسمتی سے مجھے مع اہلیہ پاکستان میںامی جان کے پاس رہنے کا نسبتاً زیادہ موقع میسر آیا۔ میرا مشاہدہ رہا کہ باوجود ضعیف العمری و بیماری کے آپ نماز کی ادائیگی میں سُستی نہ کرتیں۔ مزاج پر سی وتیمارداری کے لیے آنےوالوں کے لیے چائے پانی کا انتظام، اسی طرح کام کرنے والی عورتوں سمیت کچھ محتاجوں کی طرف توجہ دلاکر مالی مدد کرواتیں۔

جون کے آخری دنوں میں بظاہر تو آپ کی حالت قدرے بہتر نظر آتی تھی مگر بوجہ ذیابیطس کے مرض کے اندر ہی اندر گُردے بہت حد تک متاثر ہو رہے تھے۔ منڈی بہاؤالدین میں ہی کئی قسم کے ٹیسٹ و چیک اپ کے تحت آپ کے معالج سے آپ کا علاج معالجہ جاری رہا اور بعد ازاں سی۔ایم۔ ایچ کھاریاں میں زیر علاج رہنے کے بعد امیّ جان بالا ٓخر تین جولائی ۲۰۲۲ء بروز اتوار صبح بعمرِ۸۴ سال اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِ لَیْہِ رَا جِعُوْنِ۔

بُلانے والا ہے سب سے پیارا اُسی پہ اے دل تو جاں فدا کر

امی جان کی صلہ رحمی، غریب پروری سمیت بے شمار خوبیوں و دیگر اوصاف ِحمیدہ کی بدولت آپ کی نمازِ جنازہ میں احمدی دوستوں کے علاوہ غیر احمدی عزیز و اقارب و دیگر غیرازجماعت احباب کی بھاری تعداد نے بھی شرکت کی۔ آپ کا جنازہ مورخہ ۶؍ جولائی ۲۰۲۲ء بعد از نمازِ عصر ہمارے آبائی قبرستان میں مربی صاحب ضلع نے پڑھایا۔

آپ کی تدفین آپ کے شوہر کے پہلو میں ہوئی۔ بعداز تدفین امیر صاحب ضلع نے دُعا کروائی۔

سچ ہے کہ امی جان کی وفات کے بعد اُن کے مجسم دعاگو وجود کی کمی کا اب شدّت سے احساس ہوتا ہے مگر ایسے میں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی فرمودہ اس حدیث سے دل قرار پاتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا :جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل ختم ہو جاتے ہیں مگر تین عمل ختم نہیں ہوتے۔ اوّ ل صدقہ جاریہ، دوسرے ایسا علم جس سے فائدہ اُٹھایا جائے، تیسرے ایسی نیک اولاد جو اس کےلیے دُعا کرے۔(حدیقۃ الصالحین از ملک سیف الرحمٰن صاحب صفحہ ۵۷۷)

امی جان کے تعلق میں بہت پیاری پیاری یادوں و واقعات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو کہ دل و دماغ اور ذہن میں نقش ہیں مگر مضمون کی طوالت کے پیشِ نظر محض چند یادیں ہی بغرض دعا پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔

قارئین سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری والدہ سے بے پایا ں رحمت و مغفرت کا سلوک فرماتے ہوئے انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور انہیں حضرت محمد ﷺ کی شفاعت نصیب ہو۔ اللہ تعالیٰ ہماری امی جان کو اپنے پیاروں میں شامل فرما کر جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔

مغفرت بے حساب ہو جائے

مرحمت لا جواب ہو جائے

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button