علامات المقربین(قسط نمبر ۲)
خدا سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار
جو سب کچھ ہی کرتے ہیں اس پر نثار
پیار :pyaar محبت: love
نِثار:nisaar قربان کرنا، فدا کرنا، To sacrifice۔
اللہ تعالیٰ سےسچا پیار کرنے والے جو بھی ان کے پاس ہوتا ہے سب کچھ یعنی سو فی صد اس کی راہ میں قربان کردیتے ہیں۔ مثلاً انسان کی زندگی، صحت، مال اسباب، صلاحیتیں، وقت اور اولاد ہر نعمت اسی نے ہی دی ہے ہمارا اپنا جو کچھ بھی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ اس کی شکر گزاری میں سب کچھ اس کی امانت سمجھتے ہوئے اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دین کے لیے پیش کردیتے ہیں۔ اس کی عطا کی ہوئی نعمتوں میں سے جتنا زیادہ اس کی راہ میں پیش کرتے ہیں اتنا ہی اسے خوش کرتا ہے۔
اسی فکر میں رہتے ہیں روز و شب
کہ راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب
روزو شب: roz o shab، دن رات، Day and night
راضی :raazi،خوش: Happy
دلدار:dildaar، محبوب، معشوق، تسلّی دینے والا، Beloved, possessing or delighting the heart
خدا تعالیٰ سے سچا پیار کرنے والےسارا دن اور ساری رات ایک ایک لمحہ اس گہرے غور و فکر میں رہتے ہیں کہ اپنے معبود کو کس طرح خوش کریں۔ کوئی ایسا کام نہ ہو جس سے وہ ہم سے ناراض ہو۔جس سے پیار ہوتا ہے وہی ہماری سوچ فکردھیان اور خیال میں رہتا ہے جو دنیا سے پیار کرتے ہیں وہ دنیا کا زیادہ سے زیادہ عیش و آرا م اورمال و دولت حاصل کرنے کا سوچتے ہیں۔ طالب علم پڑھائی کا سوچتا ہےکہ اچھے نمبر کیسے لے۔ کھلاڑی کھیلوں میں سب سے اوپر رہنے کا سوچتا ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والے کا ذہن ہر وقت اس کھوج میں رہتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو زیادہ سے زیادہ کس طرح خوش کرسکتا ہے۔
اُسے دے چکے مال و جان بار بار
ابھی خوف دل میں کہ ہیں نابکار
نابکار: naabkaar بیکار:Good for nothing, useless, unworthy
متقی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے عطا کیے ہوئے مال میں سے بار بار مالی قربانی کرکے اور اپنی جان یعنی خود کو خدمت کے لیے پیش کرکے بھی یہ ڈر رہتا ہے کہ ہم نے کچھ نہیں کیا۔ ہم تو نکمے اور بےکار رہ گئے اس سے بڑھ کر قربانی کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی زیادہ خوشنودی کے لیے زیادہ قربانی کی ضرورت ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے جو برکت اور دلی سکون ملتا ہے وہ مزید قربانی کا شوق پیدا کرتا ہے۔
مال الگ کرنا آسان نہیں ہوتا وہی بشاشت سے قربانی کرسکتا ہے جو اللہ جل شانہ کی ذات وصفات پر دل سے ایمان لاتا ہو، اسلام کو دین حق اورزمانے کے امام کوبر حق مانتا ہو اور اس کی آواز میں آواز ملا کر اسلام کی اشاعت کا جذبہ رکھتا ہو۔
لگاتے ہیں دل اپنا اس پاک سے
وہی پاک جاتے ہیں اس خاک سے
خاک: khaak، مادی دُنیا Material world
جو لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں اس پاک مقدس مطہر لطیف ہستی سے وابستہ ہوکر ہر پاک چیز کو پسند کرتے ہیں۔ ہر قسم کی گندگی سے دور رہتے ہیں اس طرح وہ خود پاک ہوجاتے ہیں۔وہ رہتے تو اس خاکی دنیا میں ہیں لیکن خاک میں لتھڑتے نہیں دنیا اور دنیا داری سے واسطہ نہیں رکھتے۔ اس کی آلائشوں سے دور رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہوکر پاک صاف تقوٰی شعار ہونے کی حالت میں اس کے دربار میں حاضر ہوجاتے ہیں۔
نظم کے آخر میں حضرت اقدس ؑ نے یہ دعا تحریر فرمائی ہے’’خدا تعالیٰ اس خصلت اور ہمت کے آدمی اس امت میں زیادہ سے زیادہ کرے آمین ثم آمین ‘‘
٭…٭…٭