الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر ۱ میں مکرمہ منصورہ باجوہ صاحبہ کے قلم سے حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کی سیرت شامل اشاعت ہے۔
حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی مبشر اولاد اور ان پانچ تن میں سے تھے جنہیںحضورؑ نے اپنے خاندان کی بنیاد قرار دیا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:
مری اولاد سب تیری عطا ہے
ہر اِک تیری بشارت سے ہوا ہے
یہ پانچوں جو کہ نسلِ سیّدہ ہے
یہی ہیں پنجتن جن پر بِنا ہے
یہ تیرا فضل ہے اے میرے ہادی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ
حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کی پیدائش سے قبل حضورعلیہ السلام کو یہ بشارت دی گئی تھی کہ ’’آپ کو ایک فرزند عطا کیا جائے گا۔‘‘ (انوارالاسلام)۔ اس پیش خبری کے مطابق ۲۴؍مئی ۱۸۹۵ء کو آپؓ کی ولادت ہوئی۔ اس موقع پر حضورؑ نے عالمِ کشف میں یہ دو نظارے دیکھے۔ فرمایا:
ا۔ جب یہ پیدا ہوا تھا تو اس وقت عالم کشف میں آسمان پر ایک ستارہ دیکھا جس پر لکھا تھا: ’’مُعَمَّرُاللّٰہ‘‘
ب۔ اس وقت عالم کشف میں مَیں نے دیکھاکہ آسمان پر سے ایک روپیہ اُترا اور میرے ہاتھ پر رکھا گیا۔ اِس پر لکھا تھا’’مُعَمَّرُاللّٰہ۔‘‘ (تذکرہ صفحہ227 ایڈیشن پنجم)
خدا تعالیٰ نے آپؓ کے متعلق کئی بشارات بھی دیں۔ مثلاً فرمایا: عمرہ اللّٰہ علیٰ خلاف التوقع اس کو یعنی شریف احمد کو خدا تعالیٰ امید سے بڑھ کر عمر دے گا۔ (تذکرہ صفحہ609)
چنانچہ آپؓ کی زندگی میں کئی خطرناک مراحل آئے مگر اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی حفاظت فرمائی۔ مثلاً طاعون جب زوروں پر تھی تو آپؓ کو شدید بخار ہو گیا اور بے ہوشی شروع ہو گئی اور بظاہرمایوس کن علامات ظاہر ہونی شروع ہو گئیں۔ حضورؑ فرماتے ہیں کہ مجھے خیال آیا کہ اگرچہ انسان کو موت سے گریز نہیں مگر اگر لڑکاان دنوں میں فوت ہو گیاتو دشمن اس تپ کو طاعون ٹھہرائیں گے اور خدا تعالیٰ کی اس پاک وحی کی تکذیب کریں گے جو اس نے فرمایا ہے’’اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلّ مَنْ فِیْ الدَّار یعنی مَیں ہر ایک کو جو تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہے طاعون سے بچائوں گا۔‘‘ (روحانی خزائن جلد22صفحہ87)
چنانچہ حضورؑ دعا کے لیے کھڑے ہوگئے تو معاً وہ حالت میسر آگئی جو استجابت دعا کی کھلی کھلی نشانی ہے۔ ابھی حضورؑ نے تین رکعت ہی پڑھی تھی کہ کشفاً دکھایا گیاکہ آپؓ بالکل تندرست ہیں۔ جب کشفی حالت ختم ہوئی تو دیکھا کہ آپؓ چارپائی پر بیٹھے ہیں اور پانی مانگتے ہیں۔ نماز ختم کر کے حضورؑ نے بدن پر ہاتھ لگا کے دیکھا تو تپ کا نام و نشان نہیں تھا۔
ایک اَور الہام تھا: ’’امرہ اللّٰہ علیٰ خلاف التوقع‘‘یعنی خدا تعالیٰ امید سے بڑھ کر امیر کرے گا۔ چنانچہ آپؓ کی زندگی میں اُمید سے بڑھ کریُسر اور دولت مندی کے دَور بھی آئے۔ جنگ عظیم دوم کے دوران سپلائی کے کام میں آپؓ کو غیر معمولی طور پر دولت عطا ہوئی۔ پھرقادیان میں کارخانہ جاری کرنا بھی اُمید سے بڑھ کر دولت کا ذریعہ بنا۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ’’چند سال ہوئے ایک دفعہ عالمِ کشف میں اسی لڑکے شریف احمد کے متعلق کہا تھا کہ اب تُو ہماری جگہ بیٹھ اور ہم چلتے ہیں۔‘‘ (تذکرہ صفحہ۴۰۶)
اس کشف میں دراصل اشارہ تھا کہ آپؓ کی زندگی حضورعلیہ السلام کے جاری فرمودہ کاموں کے سرانجام دینے میں گزرے گی۔ چنانچہ آپؓ کی عمر کا اکثر حصہ نظارت تعلیم و تربیت اور نظارت اصلاح و ارشادکے ناظر کے طور پر کام کرتے ہوئے بسر ہوا۔ پس حضورؑ کا یہ کشف ابتداءًآپؓ ہی کے ذریعہ باحسن پورا ہوا اور بعض باتیں آپؓ کی نسل کے ذریعے پوری ہو رہی ہیں کیونکہ حضرت اقدسؑ کی قائم مقامی اور جانشینی کرنے والے اصل وجود تو آپؑ کے خلفاء ہی ہیں۔
حضورؑ فرماتے ہیں: شریف احمد کو خواب میں دیکھا کہ اس نے پگڑی باندھی ہوئی ہے اور دو آدمی پاس کھڑے ہیں۔ ایک نے شریف احمد کی طرف اشارہ کر کے کہا ’’وہ بادشاہ آیا‘‘ دوسرے نے کہا ’’ابھی تو اِس نے قاضی بننا ہے۔‘‘
نظامِ سلسلہ کے ماتحت آپؓ ایک دفعہ قاضی بھی مقرر ہوئے تھے۔ حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ تحریر فرماتے ہیں کہ اُس زمانہ میں مکرم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ سابق امیر جماعت لاہور بھی قاضی تھے۔ دونوں نے کئی کیس اکٹھے سنے۔ مکرم شیخ صاحب بیان کرتے ہیں کہ ’’مَیں نے حضرت میاں صاحب کو نہایت صائب الرائے پایا۔ آپؓ بہت جلد حقیقت کو پا لیتے تھے اور پھر اپنی رائے پرمضبوطی سے قائم ہو جاتے تھے۔ غلط نرمی اور سختی سے پوری طرح بچ کرانصاف کے ترازو کو کماحقہٗ قائم رکھتے تھے۔‘‘ حضور علیہ السلام نے اپنی اس رؤیا کی تشریح میں فرمایا تھا: ’’قاضی وہ ہوتا ہے جو تائیدِ حق کرے اور باطل کو ردّ کردے۔‘‘
پھر ’’وہ بادشاہ آیا‘‘ الہام کی گواہی ہر وہ شخص دے سکتا ہے جس کو آپؓ سے واسطہ پڑا ہو یا جس نے آپؓ کو قریب سے دیکھا ہو۔ آپؓ نے بہت شاہانہ مزاج پایا تھا۔ خرچ کرتے وقت یا خیرات کرتے وقت یہ نہیں سوچتے تھے کہ میرے پاس کچھ بچتا بھی ہے کہ نہیں۔تقسیمِ ملک کے بعد جب مالی تنگی کا زمانہ تھا اُس وقت بھی اپنی پروا نہ کرتے ہوئے ہر ضرورتمند کی مدد فرماتے۔ کوئی سائل ملتا تو فوراً جیب میں ہاتھ ڈالتے اور جو نوٹ نکلتا وہ اُس کو دے دیتے اور کبھی 100روپے کا بھی نکل آتا تو وہ بھی تھما دیتے۔ سائل حیران ہوکر دیکھتا رہ جاتا اور آپؓ آگے تشریف لے جاتے۔
آپؓ نے سات سال کی عمر میں قرآنِ مجید پڑھ لیا۔ حضرت مسیح موعودؑ اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں:
شریف احمد کو بھی یہ پھل کھلایا
کہ اُس کو تُو نے خود فرقاں سکھایا
یہ چھوٹی عمر پر جب آزمایا
کلامِ حق کو ہے فَرفَر سُنایا
برس میں ساتویں جب پَیر آیا
تو سَر پر تاج قرآں کا سجایا
ابتدائی تعلیم مدرسہ احمدیہ قادیان سے حاصل کی۔ جامعہ الازہر مصر میںچھ ماہ تک عربی میں تعلیم حاصل کی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ سے دینی علوم کے علاوہ بخاری شریف پڑھی۔ حضورؓ کے درسوں میں شامل ہوکر بھی فیض حاصل کیا۔ حضورؓ کی خاص توجہ آپؓ کوحاصل تھی۔ حضرت منشی نور محمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم سترہ اٹھارہ آدمی حضورؓ کی مجلس میںبیٹھے تھے کہ آپؓ پرخاص حالت طاری ہوئی۔ ایسے وقت میں آپؓ کے جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی تھی اور چہرہ سرخ ہو جاتا تھا۔ اس سے ہم سمجھ جاتے تھے کہ آپؓ اب کسی اَور دنیامیںمشغول ہیں۔ اس وقت حضورؓ نے فرمایا: دیکھو! تمام لوگ مسجد میں موجود ہیں۔ عرض کیا گیاکہ میاں شریف احمدصاحبؓ ابھی باہرگئے ہیں۔ ارشاد ہوا کہ انہیں فوراً بلالیں۔ حضورؓ اسی حالت میں انتظار میں رہے۔ جب آپؓ واپس تشریف لائے توحضورؓ نے ہاتھ اٹھائے اور بہت تضرّع سے لمبی دعاکی۔ دعا سے فارغ ہوکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اطلاع دی تھی کہ اس وقت مجلس میں شامل سب لوگ جنتی ہوں گے اس لیے مَیں نے چاہا کہ ہماری اس مجلس کا کوئی ساتھی اس وقت باہر نہ رہ جائے۔
قادیان سے مربیان کی جو پہلی کلاس جاری ہوئی اُس میں بھی آپؓ شامل تھے۔قرآن مجید،حدیث اور علم الکلام سے آپؓ کو خاص لگائو تھا۔ کئی دفعہ رمضان المبارک کے دوران مسجد مبارک میں بخاری شریف کا درس دیا۔ آپؓ کو تاریخ سے بھی دلچسپی تھی فوج اور صنعت و حرفت کے علوم پر بھی دسترس حاصل تھی۔ انگریزی اور عربی زبانوں میں خاص قابلیت رکھتے تھے۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ فرماتی ہیں کہ آپؓ نے ظاہری تعلیم بہت التزام سے یا کالجوں وغیرہ میں حاصل نہیں کی تھی لیکن علم وسیع اور ٹھوس تھا۔ علمِ دین کے ہر پہلو پر عبور تھا۔ عربی ایسی پڑھاتے تھے کہ چند دن میں پڑھنے والے کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتے۔
گیارہ سال کی عمر میں آپؓ کا رشتہ حضرت اقدسؑ نے حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کی بیٹی حضرت بو زینب صاحبہؓ سے تجویز فرمایا۔ ۱۵؍نومبر ۱۹۰۶ء کو حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے نکاح پڑھایا۔ ۹؍مئی ۱۹۰۹ء کو رخصتانہ ہوا۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ آپؓ کو حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ بعض لحاظ سے خاص مشابہت تھی۔ یہ مشابہت جسمانی نوعیت کے لحاظ سے بھی تھی اور حضرت مسیح موعودؑ کی طرح مزاج میں ایک لطیف قسم کا توازن پایا جاتا تھا۔ اورطبیعت میں انتہائی سادگی اور غریب نوازی تھی۔
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ فرماتی ہیں کہ میری اور آپؓ کی عمر میں بہت کم فرق تھا۔ ہر وقت کا ساتھ، اکٹھے کھیلنا کودنا۔ بچپن میں بہت شوخ و شنگ بھی تھے مگر کبھی نہیں لڑے۔ مجھے کبھی انہوں نے نہیں ستایا،بلکہ ہمیشہ میرا ہی کہنا مان لیتے۔ شادی ہوئی تو دوہرا رشتہ ہوا میرے میاں کے داماد بنے۔ کئی سال پھربو زینب بیگم کی علالت کے سلسلہ میں ہمارے ہاں ٹھہرے۔ لیکن کبھی تکرار نہیں ہوئی۔ میرا بھائی میرا بھائی ہی بنا رہا۔ لوگوں کی نظر میں یہ ایک معمولی بات ہو سکتی ہے مگر میری نگاہ میںاس بات کی بے حد قدر تھی۔
مزید فرماتی ہیں کہ آپؓ کی رائے صائب ہوتی۔ مشورہ ہمیشہ دیانتدارانہ ہوتا۔ علمِ تعبیر اللہ تعالیٰ نے ان کو خاص ودیعت فرمایا تھا۔ علمی پہلو کے علاوہ ایک نہایت شریف، اسم با مسمّٰی،نہایت صاف دل، غریب طبیعت، دل کے بادشاہ، عالی حوصلہ،صابر اور متحمل مزاج وجود تھے۔ اس لیے نہیں کہ وہ میرے بھائی تھے۔ بلکہ اس کو الگ رکھ کر کوئی بطور سچی شہادت کے مجھ سے ان کی بابت سوال کرے تو میں یہی کہوں گی اور وثوق سے کہوں گی کہ وہ ایک ہیرا تھا،نایاب،وہ سراپا شرافت تھا۔ ایک چاند تھا جو چھُپا رہا اکثر۔
حضرت نیک محمد خان صا حب بیان کرتے ہیں کہ انفلوئنزا کی وبا کے دوران آپؓ نہایت شفقت، ادب اور محبت سے دوائی اپنی اہلیہ محترمہ کو پلاتے۔ مَیںنے آپؓ کے حسن سلوک کا تذکرہ کیا تو فرمایا: آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل وعیال کے لیے اچھا ہے۔
آپؓ کوقرآن کریم اور احادیثِ مبارکہ سے عشق تھا۔ دوسروں سے بھی پڑھواتے تھے۔ تربیت کے لیے بچوں سے کثرت سے قرآن مجید سنتے تھے۔ عموماً پیار محبت سے اوردعا سے ہی نصیحت فرماتے۔ کسی بات پر زور دینا ہو تو بار بار فرماتے لیکن غصہ میں نہ آتے۔ بچیوں کو ناخن بڑھانے اور بےجا فیشن کرنے سے منع فرماتے۔ بچوں کو پڑھنے کی تلقین فرماتے اور مطالعہ کی عادت ڈالنے کے لیے اچھی کہانیوں کی کتب لا کر دیتے اور پھر وہ کہانیاں ان سے سنتے بھی۔ سائیکل چلانا سیکھنے کی تلقین فرماتے اور بندوق اور پستول سے نشانہ کرنا سکھاتے۔ آپؓ کی گفتگو میں مزاح کا پہلو بھی پایا جاتا تھا۔ لطیف ادب سے لگائو تھا۔ شعر و سخن سے دلچسپی تھی،خود بھی شعر کہتے تھے۔
آپؓ اسیرراہ مولیٰ بھی رہے۔ ۱۹۵۳ء میں آپؓ نے دو ماہ کی قید سخت کاٹی۔ اس دوران بھی آپؓ ہشاش بشاش اور مطمئن نظر آئے اور ساتھی قیدیوں کو دلچسپ واقعات اور ایمان افروز باتیں سنا کر اُن کاحوصلہ بلند کرتے رہے۔ گویا جیل میں بھی ہر روز مجلسِ عرفان سجتی تھی۔
آپؓ کچھ عرصہ فوج میں بھی رہے اور احمدیہ ٹیریٹوریل فورس کا انتظام بھی آپؓ کے سپرد رہا۔ جب آپؓ فوج میں گئے تو آپؓ کے پاس نشانہ میں اوّل آنے کا تمغہ موجود تھا۔
محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمدصاحب بیان کرتے ہیںکہ حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ صبح کی نماز کے بعد افرادِ خانہ کو اکٹھا کر کے ۱۵ یا ۲۰منٹ کا درس دیا کرتے تھے اور طریق یہ تھا کہ حاضرین میں سے کسی کوحضرت مسیح موعودؑ کی کتاب پڑھنے کو کہتے اور جس بات کی تشریح کی ضرورت ہوتی وہ فرماتے تھے۔ آپؓ بلند آواز میں سفر میں بھی تلاوت کرتے تھے۔ صحابہؓ بتاتے تھے کہ آپؓ کی آواز حضرت مسیح موعودؑ کی آواز سے ملتی تھی۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر ’ذکرِ حبیبؑ‘ کے موضوع پر کئی تقاریر بھی فرمائیں۔
حضرت مولانا ابوالعطا صاحب فرماتے تھے کہ جب کوئی نئی دکان کھلتی تو جا کر زیادہ سے زیادہ چیزیں خریدتے تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو۔ اور اگر کبھی کوئی آندھی یا طوفان آتا تو گھر سے نکلتے کہ کسی گھر کانقصان ہوگیا ہو تو اُسے پورا کروں۔ آپؓ کی ہمدردی اور سلسلہ کے لیے غیرت ایک نمونہ تھی۔ اپنے ماتحتوں کی تکلیف کا بہت احساس ہوتا تھا اور تب تک چین نہیں آتا تھا جب تک اس تکلیف کا ازالہ نہ کرلیں۔
مردانہ شجاعت آپؓ کی طبیعت کا نمایاں وصف تھا۔ قادیان میں حضرت مصلح موعودؓنے جماعت اور شعائراللہ کی حفاظت کے لیے نظارتِ خاص قائم فرمائی جس کا ناظر آپؓ کو مقرر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے آپؓ کی بیدار مغزی اور حُسنِ تدبیر سے احرار کی چالیں ناکام ہونے لگیں تو دُشمن نے آپؓ پر ایک شخص حنیفا کے ذریعے لاٹھی سے حملہ کروایا لیکن خداتعالیٰ کے فضل سے آپؓ محفوظ رہے۔
آپؓ بہت دلیر تھے۔ حضرت مرزا منصور احمد صاحبؒ فرماتے ہیں کہ لاہور میں جماعت کے خلاف جلوس وغیرہ دیکھنے کے لیے کئی دفعہ آپؓ اکیلے ہی گھر سے نکل جاتے تھے، ہم پریشان ہوجاتے لیکن آپؓ بڑے آرام اور تسلی سے واپس آرہے ہوتے تھے کہ مَیں ذرا حالات دیکھنے گیا تھا۔ اسی طرح ایک دفعہ آپؓ تانگے پہ سفر کر رہے تھے کہ اچانک تانگے کے آگے ایک سانپ پھن پھیلائے آگیا۔سواریاں چھلانگیں لگاکر اِدھر اُدھر ہو گئیں لیکن آپؓ اُ تر کر سانپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُس کی طرف بڑھے تو وہ بھاگ گیا۔
آپؓ بہت دعاگو تھے۔ ایک مرتبہ ریاست کپورتھلہ میں شکار کی غرض سے تشریف لے گئے۔ دیر ہو جانے کی وجہ سے ایک گاؤں میں رات گزارنی پڑی۔ اسی رات اُس گھر سے ایک بچہ گُم ہو گیااور باوجود تلاش کرنے کے نہ ملا۔ آپؓ کو یہ خیال گزرا کہ ان کو یہ خیال نہ آئے کہ میری آمد کی وجہ سے وہ بچے کا خیال نہ کر سکے اور وہ گم ہو گیا۔ اس پر آپؓ نے خاص توجہ سے دعا کرنی شروع کی۔ دعا کی حالت میں غنودگی میں آپؓ کو دکھایا گیاکہ ایک بوڑھا شخص بچے کو لے کر آرہا ہے۔ آپؓ نے گھر والوں کو اسی وقت اطلاع دی کہ ایک بوڑھا شخص بچے کو گھر لے کر آئے گا۔ صبح جب آپؓ کی روانگی کا وقت ہوا تو ابھی بچہ گھر نہیں پہنچا تھا۔ اس پر آپؓ نے پھر دعا کی کہ مَیں اس حالت میں گھر والوں کو چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔ اے باری تعالیٰ! میرے ہوتے ہوئے اس بچے کو گھر پہنچا دے۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک معمر شخص بچے کو لے کر آگیا اور گھر والوں نے خوشی خوشی آپؓ کو رُخصت کیا۔
اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو زبردست روحانی قوت عطا فرمائی تھی اورآپؓ کی توجہ بڑی اثر انگیز تھی۔ حضرت ڈپٹی میاں محمد شریف صاحبؓ فرماتے ہیںکہ ایک دفعہ شکار کے لیے ہم شیخوپورہ گئے اور شہر کے اردگرد جنگل میں پھرتے ہوئے دُور تک نکل گئے۔ ایک جگہ ہمیںجھونپڑی نظر آئی جس کے اندر ایک بوڑھا سکھ لیٹا ہوا درد سے تڑپ رہا تھا اس نے علاج کے لیے بہت سے تعویذ باندھ رکھے تھے۔ اس نے بتایا کہ کئی دن سے اس کا یہی حال ہے۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر ہمیں بڑا ترس آیا۔ مَیں نے حضرت میاں صاحبؓ سے دعا کے لیے عرض کیا تو آپؓ نے زیرلب کچھ دعائیں پڑھنے کے بعد اس پر دَم کیا تو اسے فوراً آرام آگیااور وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر آپؓ کا شکریہ ادا کیا اور دعائیں دیں۔
آپؓ نے اپنی بیماری کے ایّام صبرو شکر سے گزارے اور ۲۶؍دسمبر۱۹۶۱ء کو جلسہ سالانہ کے افتتاح سے دو گھنٹے قبل ساڑھے ۶۶سال کی عمر میں آپؓ نےوفات پائی۔ اُسی دن حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے جنازہ پڑھایا اور بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی۔ اس موقع پر مکرم عبدالمنان ناہید صاحب نے جو نظم کہی اُس کے چند اشعار یوں ہیں:
حدِ نظر سے دُور اِک تارا چلا گیا
لو آج ایک اَور سہارا چلا گیا
اِس مملکت کی جس سے مقدّر تھی ابتدا
وہ بادشاہ آیا اور آکر چلا گیا
یاد آرہی ہے وہ غریبانہ زندگی
اُس دل کے بادشاہ کی فقیرانہ زندگی
………٭………٭………٭………
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 27؍دسمبر2014ء میں مکرم احمد منیب صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے جو گوجرانوالہ میں احمدی خواتین پر ہونے والے ظلم و ستم کے حوالے سے کہی گئی ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:
رسم اَور چلائی ہے جو ظالم نے ستم میں
معصوم کا دَم گھُٹ گیا مادر کے شکم میں
اک اَور شہادت پہ شہادت ہے ردھم میں
تاریخ کے اَوراق میں نم اَور بھی لکھنا
رکھنا نہیں ہاتھوں سے قلم ، اَور بھی لکھنا
ظالم کے مقدّر میں ہے ظلمت کی سیاہی
اِک روز اُجڑ جائے گی یہ شہر پناہی
چھا جائے گی ہر سمت گھٹا ٹوپ تباہی
سہنا ہے اَلمناک اَلم اَور بھی لکھنا
رکھنا نہیں ہاتھوں سے قلم ، اَور بھی لکھنا
مولا ہے ، فضاؤں میں اُڑاتا ہے جو ٹکڑے
پُرنُور بناتا ہے شہیدوں کے وہ ُمکھڑے
پُرعزم ہیں ہم لوگ ، سناتے نہیں دُکھڑے
لغزش کبھی کھائے نہ قدم اَور بھی لکھنا
رکھنا نہیں ہاتھوں سے قلم ، اَور بھی لکھنا