خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب فرمودہ ۱۱؍ نومبر ۲۰۲۲ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے) یوکے
سوال نمبر۱: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت ابو بکرؓ کے علم انساب عرب میں کمال کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت ابوبکرؓ کو انسابِ عرب بالخصوص قريش کے نسب کا علم سب سے زيادہ ہے۔ چنانچہ جب قريش کے شعراء نے آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کي ہجو ميں اشعار کہے تو حضرت حسان بن ثابتؓ کے سپرد يہ خدمت ہوئي کہ وہ اشعار ميں ہي ان کے ہجو کا جواب ديں ۔ حضرت حسانؓ جب آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کي خدمت ميں حاضر ہوئے تو آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے انہيں فرمايا کہ تم قريش کي ہجو کيسے کہو گے جبکہ مَيں خود بھي قريش ميں سے ہوں ۔ اس پر حضرت حسانؓ نے عرض کيا کہ يا رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم! ميں آپؐ کو ان سے ايسے نکال لوں گا جيسے آٹے سے بال يا مکھن سے بال نکال ليا جاتا ہے۔ اس پر آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے انہيں فرمايا کہ تم حضرت ابوبکرؓ کے پاس جاؤ اور ان سے قريش کے نسب کے بارے ميں پوچھ ليا کرو۔ حضرت حسانؓ کہتے تھے کہ پھر ميں اشعار لکھنے سے پہلے حضرت ابوبکرؓ کي خدمت ميں حاضر ہوتا اور وہ ميري قريش کے مَردوں اور عورتوں کے بارے ميں راہنمائي فرماتے۔ چنانچہ جب حضرت حسانؓ کے اشعار مکہ جاتے تو مکہ والے کہتے کہ ان اشعار کے پيچھے ابوبکر کي راہنمائي اور مشورہ شامل ہے۔
سوال نمبر۲: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت ابو بکرؓ کے اشعار کہنے کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت ابوبکرؓ گو کہ باقاعدہ شاعر تو نہ تھے ليکن شعري ذوق خوب تھا۔ حضرت ابوبکر صديقؓ کے سيرت نگاروں نے يہ بحث اٹھائي ہے کہ آپؓ نے باقاعدہ طور پر شعر کہے تھے يا نہيں اور کچھ سيرت نگاروں نے نفي کي ہے کہ آپؓ نے اشعار کہے ہوں گے البتہ بعض سيرت نگاروں نے حضرت ابوبکرؓ کے کچھ اشعار کا بھي ذکر کيا ہے۔ اسي طرح حضرت ابوبکرؓ کے اشعار پر مشتمل، پچيس قصائد پر مشتمل ايک مخطوطہ جو کہ ترکي کے کتب خانے سے دستياب ہوا ہے وہاں پڑا ہوا ہے۔ بيان کيا جاتا ہے کہ يہ حضرت ابوبکرؓ کے اشعار ہيں۔ اس ميں کسي لکھنے والے نے يہاں تک لکھا ہے کہ مجھے ان اشعار کي حضرت ابوبکرؓ کي طرف نسب کي تصديق الہامي طور پر ہوئي ہے۔ طبقاتِ ابنِ سعد اور سيرت ابنِ ہشام نے يہي لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے کچھ اشعار کہے تھے۔ آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کي وفات پر آپؐ کي تدفين کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے اشعار يہ بيان کيے جاتے ہيں يعني ترجمہ يہ ہے کہ اے آنکھ! تجھے سيد دو عالَم صلي اللہ عليہ وسلم پر رونے کے حق کي قسم! تُو روتي رہ اور اب تيرے آنسو کبھي نہ تھميں۔ اے آنکھ !خِنْدِفيعني قبيلہ قريش کے بہترين فرزند پر آنسو بہا جو کہ شام کے وقت لحد ميں چھپا ديے گئے ہيں ۔ پس بادشاہوں کے بادشاہ، بندوں کے والي اور عبادت کرنے والوں کے رب کا آپ صلي اللہ عليہ وسلم پر درود ہو۔ پس حبيب کے بچھڑ جانے کے بعد اب کيسي زندگي۔ دس جہانوں کو زينت بخشنے والي ہستي کي جدائي کے بعد کيسي آراستگي۔ پس جس طرح ہم سب زندگي ميں بھي ساتھ ہي تھے ،کاش موت بھي ہم سب کو ايک ساتھ گھيرے ميں لے ليتي۔
سوال نمبر۳: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت ابو بکرؓ کےفہم قرآن کے حوالہ سے کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ حضرت ابوبکرؓ جن کو قرآن مجيد کا يہ فہم ملا تھا کہ جب رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم نے يہ آيت اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي(المائدہ:4)پڑھي تو حضرت ابوبکرؓ رو پڑے۔کسي نے پوچھا کہ يہ بڈھا کيوں روتا ہے؟ تو آپؓ نے يعني حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ مجھے اس آيت سے پيغمبر خدا، رسولِ اکرم صلي اللہ عليہ وسلم کي وفات کي بو آتي ہے۔ حضرت مسيح موعود عليہ السلام فرماتے ہيں کہ انبياء عليہ السلام بطور حکام کے ہوتے ہيں جيسے بندوبست کا ملازم جب اپناکام کر چکتا ہے تو وہاں سے چل ديتا ہے۔ اسي طرح انبياء عليہم السلام جس کام کے واسطے دنيا ميں آتے ہيں جب اس کو کر ليتے ہيں تو پھر وہ اس دنيا سے رخصت ہو جاتے ہيں ۔ پس جب اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ کي صدا پہنچي تو حضرت ابوبکرؓ نے سمجھ ليا کہ يہ آخري صدا ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کا فہم بہت بڑھا ہوا تھا اور يہ جو احاديث ميں آيا ہے کہ مسجد کي طرف سب کھڑکياں بند کي جاويں۔ يہ کھڑکي کي وضاحت بھي حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے فرما دي کہ کھڑکياں بند کرنے سے کيا مراد ہے۔ فرمايا کہ يہ جو حديث ميں آيا ہے کہ مسجد کي طرف سب کھڑکياں بند کر دي جاويں مگر ابوبکر کي کھڑکي مسجد کي طرف کھلي رہے گي اس ميں يہي سرّ ہے کہ مسجد چونکہ مظہر اسرارِ الٰہي ہوتي ہے اس ليے حضرت ابوبکر صديق ؓکي طرف يہ دروازہ بند نہيں ہو گا۔ اللہ تعاليٰ کے اسرار، راز، باتوں ميں گہرائي، اللہ تعاليٰ کي باتوں ميں جو حکمت ہے وہ حضرت ابوبکر صديق رضي اللہ تعاليٰ عنہ پر ہميشہ کھلي رہے گي۔ بعد ميں بھي کھلتي چلي جائے گي۔ …غرض مدعا يہي تھي کہ حضرت ابوبکرؓ کو فہم ِقرآن سب سے زيادہ ديا گيا تھا اس ليے حضرت ابوبکرؓ نے يہ استدلال کيا۔
سوال نمبر۴: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت ابو بکرؓ کے علم ’’ تعبیر الروٴیا‘‘ میں کمال کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت ابوبکرؓ کو تعبير الرؤيا کا فن بھي بہت آتا تھا۔ لکھا ہے کہ علم تعبير ميں حضرت ابوبکر صديقؓ بڑا ملکہ رکھتے تھے۔ علم تعبير ميں آپؓ کو سب سے زيادہ فوقيت حاصل تھي۔ يہاں تک کہ حضور سرورِ کائنات صلي اللہ عليہ وسلم کے عہدِمبارک ميں آپؓ خوابوں کي تعبير بتايا کرتے تھے۔ امام محمد بن سيرينؒ فرماتے ہيں کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صديقؓ سب سے بڑے معبرّ تھے۔
سوال نمبر ۵: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آنحضرتﷺ پر سب سے پہلے اسلام لانے کی بابت کیا تفصیل بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا: حضرت مرزا بشير احمد صاحبؓ نے اپني تصنيف سيرت خاتم النبيين ميں تفصيلي نوٹ لکھا ہے جس ميں وہ لکھتے ہيں اور انہوں نے يہ بحث کي ہے کہ سب سے پہلے نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم پر کون ايمان لايا تھا؟ چنانچہ آپؓ لکھتے ہيں کہ آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم نے جب اپنے مشن کي تبليغ شروع کي تو سب سے پہلے ايمان لانے والي حضرت خديجہ ؓتھيں جنہوں نے ايک لمحہ کے ليے بھي تردّد نہيں کيا۔ حضرت خديجہؓ کے بعد مَردوں ميں سب سے پہلے ايمان لانے والے کے متعلق مؤرخين ميں اختلاف ہے۔ بعض حضرت ابوبکر عبداللہ بن ابي قحافہ کا نام ليتے ہيں ۔ بعض حضرت عليؓ کا جن کي عمر اس وقت صرف دس سال کي تھي اور بعض آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت زيد بن حارثہؓ کا۔ مگر ہمارے نزديک يہ جھگڑا فضول ہے۔ حضرت عليؓ اور زيد بن حارثہؓ آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کے گھر کے آدمي تھے اور آپؐ کے بچوں کي طرح آپؐ کے ساتھ رہتے تھے۔ آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کا فرمانا تھا اور ان کا ايمان لانا۔ (يعني جو آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم نے فرما ديا اس پر ان کو يقين تھا اور ايمان تھا اس ليے يہ کہنا کہ آپ ايمان لائے تو يہ کوئي ايسي بات نہيں ہے کيونکہ ان کي عمر چھوٹي تھي اور گھر کے فرد تھے) بلکہ ان کي طرف سے تو شايد کسي قولي اقرار کي بھي ضرورت نہ تھي۔ پس ان کا نام بيچ ميں لانے کي ضرورت نہيں اور جو باقي رہے ان سب ميں سے حضرت ابو بکر رضي اللہ تعاليٰ عنہ مسلمہ طور پر مقدم اور سابق بالايمان تھے۔
سوال نمبر ۶: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت ابو بکرؓ کی مالی تحریکات میں شمولیت کے حوالہ سے کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: آپؓ (حضرت مصلح موعودؓ)لکھتے ہيں کہ ’’مومن ايسي تحريکوں پر گھبراتا نہيں‘‘ يعني مالي تحريکوں پر يا قرباني کي تحريکوں پر ’’بلکہ خوش ہوتا ہے اور اس کو فخر ہوتا ہے کہ تحريک سب سے پہلے مجھ تک پہنچي۔ وہ ڈرتا نہيں بلکہ اس پر اس کو ناز ہوتا ہے اور خدا تعاليٰ کا وہ شکريہ ادا کرتا ہے اور سب سے زيادہ اس کي راہ ميں قرباني کرتا ہے اور درجہ بھي سب سے بڑھ کر پاتا ہے۔ کيا کوئي کہہ سکتا ہے کہ جو جو قربانياں حضرت ابوبکرؓ نے کيں يا جس جس خدمت کا ان کو موقع حاصل ہوا ہے وہ آرزو کرتے تھے کہ مجھے سب سے پہلے ان قربانيوں کا کيوں موقع ملا۔‘‘ کبھي سوچا ہوگا، خواہش کي ہو گي کہ کيوں مجھے موقع ملا۔ ’’انہوں نے بڑي خوشي کے ساتھ اپنے آپ کو خطرات ميں ڈالا اور خدا کي راہ ميں تکليفيں اٹھائيں ۔ اس لئے انہوں نے وہ درجہ پايا جو حضرت عمرؓ بھي نہ پا سکے۔ کيونکہ جو پہلے ايمان لاتا ہے اس کو سب سے پہلے قربانيوں کا موقع ملتا ہے حالانکہ خطرات حضرت عمرؓ کے ايمان لانے کے وقت بھي تھے۔ تکليفيں دي جاتي تھيں۔ نمازيں نہيں پڑھنے ديتے تھے۔ صحابہ وطنوں سے بے وطن ہو رہے تھے۔ پہلي ہجرتِ حبشہ جاري تھي۔ ترقيوں کا زمانہ ان کے ايمان لانے کے بہت بعد شروع ہوا مگر پھر بھي جو مرتبہ حضرت ابوبکرؓ کو ابتدا ميں ايمان لانے اور ابتداء ميں قربانيوں کا موقع ميسر آنے کي وجہ سے حاصل ہوا، حضرت عمرؓ اس کي برابري نہ کر سکے۔ يہي وجہ ہے ايک دفعہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کا اختلاف ہو گيا توآپؐ نے فرمايا کہ تم لوگ جس وقت اسلام سے انکار کر رہے تھے اس وقت ابوبکر نے اسلام کو قبول کيا اور جس وقت تم اسلام کي مخالفت کر رہے تھے اس نے اسلام کي مدد کي اب تم اس کو کيوں دکھ ديتے ہو۔ تو ان کے پہلے ايمان لانے اور قربانيوں کا اظہار آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا حالانکہ تکليفيں حضرت عمرؓ نے بھي اٹھائيں اور قربانياں انہوں نے بھي کي تھيں۔ پس حضرت ابوبکرؓ کو اس سبقت پر فخر حاصل تھا۔ کيا کوئي کہہ سکتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ يہ چاہتے ہوں گے کہ کاش! فتح مکہ کے وقت ان کو ايمان لانے کا موقع ملتا بلکہ اگر دنياکي بادشاہت کو بھي ان کے سامنے رکھ ديا جاتا تو حضرت ابوبکرؓ اس کو نہايت حقير بدلہ قرار ديتے اور منظور نہ کرتے بلکہ وہ اس مرتبہ کے معاوضہ ميں دنيا کي بادشاہت کو پاؤں سے ٹھوکر مارنے کي تکليف بھي گوارا نہ کرتے۔‘‘پس يہ ان کي قربانيوں کا صلہ تھا اور اس طرح اللہ تعاليٰ درجہ بہ درجہ صلہ ديتا ہے۔
سوال نمبر ۷: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت ابو بکرؓ کے اخلاق فاضلہ کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت مصلح موعود رضي اللہ تعاليٰ عنہ بيان فرماتے ہيں کہ ’’ابوبکرؓجيسا انسان جس کا سارا مکہ ممنونِ احسان تھا۔ وہ جو کچھ کماتے تھے غلاموں کو آزاد کرانے ميں خرچ کر ديتے تھے۔ آپؓ ايک دفعہ مکہ کو چھوڑ کر جا رہے تھے کہ ايک رئيس آپؓ سے راستہ ميں ملا اور اس نے پوچھا ابوبکر تم کہاں جا رہے ہو؟آپؓ نے فرمايا اس شہر ميں اب ميرے لئے امن نہيں ہے ميں اب کہيں اَور جا رہا ہوں ۔ اس رئيس نے کہا تمہارے جيسا نيک آدمي اگر شہر سے نکل گيا تو شہر برباد ہو جائے گا۔ ميں تمہيں پناہ ديتا ہوں تم شہر چھوڑ کر نہ جاؤ۔ آپؓ اُس رئيس کي پناہ ميں واپس آ گئے۔ آپؓ جب صبح کو اٹھتے اور قرآن پڑھتے تو عورتيں اور بچے ديوار کے ساتھ کان لگا لگا کر قرآن سنتے کيونکہ آپؓ کي آواز ميں بڑي رِقّت، سوز اور درد تھا اور قرآن کريم چونکہ عربي ميں تھا ہر عورت، مرد، بچہ اس کے معني سمجھتا تھا اور سننے والے اس سے متاثر ہوتے تھے۔ جب يہ بات پھيلي تو مکہ ميں شور پڑ گيا کہ اس طرح تو سب لوگ بے دين ہو جائيں گے۔ آخر لوگ اُس رئيس کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ تم نے اس کو پناہ ميں کيوں لے رکھا ہے۔ اس رئيس نے آ کر آپؓ سے کہا کہ آپ اس طرح قرآن نہ پڑھا کريں ۔ مکہ کے لوگ اس سے ناراض ہوتے ہيں ۔ حضرت ابوبکرؓنے فرمايا پھر اپني پناہ تم واپس لے لو ميں تو اس سے باز نہيں آ سکتا۔ چنانچہ اس رئيس نے اپني پناہ واپس لے لي۔ يہ آپؓ کے تقويٰ اور طہارت کا کتنا زبردست ثبوت ہے۔ محمد رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کے وہ لوگ شديد دشمن تھے اور آپ کو گالياں بھي ديا کرتے تھے ليکن ابوبکرؓکي پاکيزگي کے وہ اتنے قائل تھے کہ اس رئيس نے کہا آپ کے نکل جانے سے شہر برباد ہو جائے گا۔‘‘