برکت ہمیشہ نظام جماعت کی اطاعت اور اس کے ساتھ وابستہ رہنے میں ہی ہے
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ وَّ اَحۡسَنُ تَاۡوِیۡلًا۔ (سورۃ النساء آیت:60)
اس کا ترجمہ ہے اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکاّم کی بھی، اور اگر تم کسی معاملے میں اُوْلُوالْاَمْر سے اختلاف کرو تو ایسے معاملے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دیا کرو۔ اگر فی الحقیقت تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے والے ہو۔ یہ بہت بہتر طریقہ ہے اور اپنے انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔
کسی بھی قوم یا جماعت کی ترقی کا معیار اور ترقی کی رفتار اس قوم یا جماعت کے معیار اطاعت پر ہوتی ہے۔ جب بھی اطاعت میں کمی آئے گی ترقی کی رفتار میں کمی آئے گی۔ اور الٰہی جماعتوں کی نہ صرف ترقی کی رفتار میں کمی آتی ہے بلکہ روحانیت کے معیار کے حصول میں بھی کمی آتی ہے۔ اسی لئے خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار دفعہ اطاعت کا مضمون کھولا ہے۔ اور مختلف پیرایوں میں مومنین کو یہ نصیحت فرمائی کہ اللہ کی اطاعت اس وقت ہو گی جب رسول کی اطاعت ہو گی۔ کہیں مومنوں کو یہ بتایا کہ بخشش کا یہ معیار ہے کہ وہ خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کریں اور تمام احکامات پر عمل کریں تو پھر مغفرت ہو گی۔ پھر فرمایا کہ تقویٰ کے معیار بھی اس وقت قائم ہوں گے بلکہ تم تقویٰ پر قدم مارنے والے اس وقت شمار ہوگے جب اطاعت گزار بھی ہو گے۔
اور جب تم اپنی اطاعت کے معیار بلند کر لو گے تو فرمایا تم ہماری جنتوں کے وارث ٹھہرو گے۔ تو اس طرح اور بھی بہت سے احکام ہیں جو مومنوں کو اطاعت کے سلسلہ میں دئیے گئے ہیں۔ یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں بھی خداتعالیٰ نے اطاعت کے مضمون کو ہی بیان فرمایاہے، یہ فرمانے کے بعد کہ اے مومنو! اے وہ لوگو! جو یہ دعویٰ کرتے ہو کہ ہم اللہ پر بھی ایمان لائے اور اس کے رسول پر بھی ایمان لائے ہمیشہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی پیروی کرو۔ اور پھر ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ تمہارے جوعہدیدار ہیں، تمہارے جو امیر ہیں تمہارا جو بنایا ہوا نظام ہے، جو نظام تمہیں دیا گیا ہے اس کی بھی اطاعت کرو۔ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اختلاف کی صورت میں اللہ اور رسول کی طرف معاملہ لوٹانے کا حکم ہے۔ یعنی یہ کہ اگر اختلاف ہو تو قرآن اور حدیث کی طرف جاؤ۔ وہاں سے دیکھو کہ کیا حکم ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اختلاف کی صورت میں ہر کوئی، جس کو علم نہ بھی ہو اپنے مطابق خود ہی تشریح و تفسیر کرنے لگ جائے کیونکہ پہلی بات تو یہ ہی ہے کہ جب آپس میں لوگوں کے اختلاف ہو جاتے ہیں تو کیونکہ تمام معاملات، ہدایات اور احکامات کی تشریح اور تفسیر کا کسی کو پتہ نہیں ہوتا، بعض ایسے احکامات ہیں جو تفسیر طلب ہوتے ہیں اور ہر ایک کو اس کا علم نہیں ہوتا اس لئے قرآن و حدیث کے حوالے لینے کے لئے جو اس کا علم رکھنے والے ہیں ان سے بھی پوچھنا پڑے گا، ان کی طرف بھی جانا پڑے گا۔ اسلام کے ظلمت کے زمانے میں بھی، جو ہزار سال تاریکی کا دور گزرا ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ مفسرین او رمجددین پیدا فرماتا رہا جو دین کا علم رکھتے تھے اور وہ اپنے اپنے علاقے میں رہنمائی فرماتے رہے۔ لیکن اس زمانے میں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ ہے، جن کو اللہ تعالیٰ نے حَکَمْ اور عَدَلْ بنا کر بھیجا ہے اس دور میں تو قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کا صحیح فہم اور ادراک صرف اور صرف حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہی ہے۔ اب آپؑ جو بھی تفسیر و تشریح کسی بھی حکم کی فرمائیں گے وہی صحیح تفسیر و تشریح ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے براہ راست آپؑ کو سکھایا ہے۔ پس ہم خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسے زمانے میں پیدا فرمایا اور بہت سے ہمارے مسائل حل کر دئیے جن کے لئے پہلے لوگ لڑتے رہے۔ اور فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِکے حکم پر عمل کرنے کے لئے آسانی پیدا فرما دی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان معارف اور ان مسائل کو سمجھنے کا بے انتہا خزانہ ہمیں عطا فرما دیا۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق ایک ایسا نظام بھی ہم میں جاری فرما دیا کہ ہر مسئلے کے حل کے لئے، ہمیں اللہ اور رسول کے حکموں کو سمجھنے کے لئے آسانیاں پیدا ہو گئیں۔ پس ہم اس بات پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے کہ اس نے ہمیں اپنے پر اور یوم آخرت پر ایمان میں اور بھی مضبوط کر دیا۔ اور اس طرح ہمارے معاملات کے انجام کو بھی بہتر کر دیا اور ہمیں بھی اپنے اس حَکَمْ اور عَدَلْ کی پیروی کرنے پر بہتر انجام کی خبر دے دی۔ پس ہم سب پر فرض بنتا ہے کہ ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعداللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق قدرت ثانیہ کے اس جاری نظام کی بھی مکمل اطاعت کریں اور اپنی اطاعت کے معیاروں کو بلند کرتے چلے جائیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ اطاعت کے معیاروں کو حاصل کرنے کے لئے قربانیاں بھی کرنی پڑتی ہیں اور صبر بھی دکھانا پڑتا ہے۔ پھر دنیاوی لحاظ سے بھی جو حاکم ہے اس کی دنیاوی معاملات میں اطاعت ضروری ہے۔ کسی بھی حکومت نے اپنے معاملات چلانے کے لئے جو ملکی قانون بنائے ہوئے ہیں ان کی پابندی ضروری ہے۔ آپ اس ملک میں رہ رہے ہیں یہاں کے قوانین کی پابندی ضروری ہے بشرطیکہ قوانین مذہب سے کھیلنے والے نہ ہوں، اس سے براہ راست ٹکر لینے والے نہ ہوں جیسا کہ پاکستا ن میں ہے۔ احمدیوں کے لئے بعض قوانین بنے ہوئے ہیں تو صرف اُن قوانین کی وہاں بھی پابندی ضروری ہے جو حکومت نے اپنا نظام چلانے کے لئے بنائے ہیں۔ جو مذہب کا معاملہ ہے وہ دل کا معاملہ ہے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ قانون آپ کو کہے کہ نماز نہ پڑھو اور آپ نماز ہی پڑھنا چھوڑ دیں۔ تو بہرحال جو بھی نظام ہو، دنیاوی حکومتی نظام ہو یا جماعتی نظام یا مذہبی نظام اُن کی اطاعت ضروری ہے۔ سوائے جو قانون، جیسا کہ میں نے کہا، براہ راست اللہ اور اس کے رسول کے احکامات سے ٹکراتے ہوں۔ تودینی لحاظ سے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا دوسرے مسلمانوں کو فکر ہو تو ہو احمدی مسلمان کو کوئی فکر نہیں کیونکہ ہم نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اپنا بندھن جوڑ کر اپنے آپ کو اس فکر سے آزاد کر لیا ہے کہ کیا ہم خدا اور اس کے رسول کے احکام کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ اور جن امور کی وضاحت ضروری تھی کہ کون کون سے امور شریعت میں وضاحت طلب ہیں ان کی بھی ہمیں حضرت مسیح موعودؑ سے وضاحت مل گئی کیونکہ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک لائن بتا دی، تمام امور کی وضاحت کر دی کہ اس طرح اعمال بجا لاؤ تو یہ خدا اور اس کے رسول کے احکام کے مطابق ہے۔