دعا کے قبول نہ ہونے میں حکمت
حضرت مولانا غلام رسول قدسی راجیکی صاحبؓ بیان کرتے ہیں: ’’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں ایک مناظرہ میں شرکت کے لئے لاہورسے بعزم حافظ آباد(ضلع گوجرانوالہ) رات کے وقت روانہ ہوا۔حافظہ آباد کے لئے گاڑی سانگلہ ہل جنکشن سے تبدیل ہوتی تھی۔میرے پاس کافی سامان تھا۔جب لاہور والی گاڑی سانگلہ ہل پہنچی تو تین چار بجے کاوقت تھا۔اتفاق سے کوئی قلی نہ مل سکا میں نے پلیٹ فارم پر اتر کر دریافت کیا کہ حافظ آباد جانے والی گاڑی کب روانہ ہوگی۔ایک شخص نے بتایا کہ وہ گاڑی سامنے کے پلیٹ فارم پر تیار کھڑی ہےاور روانہ ہونے والی ہے۔میں اپنا سامان خود ہی اٹھا کر افتاں وخیزاں پلیٹ فارم کی سیڑھیوں پر چڑھا۔ابھی دوسرے پلیٹ فارم پر نیچے اترا ہی تھا کہ گاڑی چل پڑی۔میں اس کام کی اہمیت کے پیش نظر دوڑتاہوا اور دعا کرتاہوا گارڈ کے ڈبے تک جاپہنچا اور بڑے الحاح سے اُسے کہا کہ مجھے بہت ضروری کام ہےگاڑی ذرا روکیں یا آہستہ کریں تا کہ میں سوار ہوجاؤں۔میں اسی طرح گاڑی کے ساتھ ساتھ دوڑتا جاتاتھا اور اللہ تعالیٰ سے بڑے تضرع سے دعا کر رہاتھاکہ پلیٹ فارم ختم ہوگیا اور گاڑی بھی زیادہ تیز ہوگئی۔
میں سخت مایوس اور رنجیدہ ہوا یہ کام سلسلہ کا تھا۔مجھ سے جہاں تک ہوسکا میں نے کوشش کی اور نہایت عاجزی سے اللہ تعالیٰ کے حضور بھی عرض کرتا رہا لیکن اس نے میری التجا کو نہ سنااور میری دعا کو جو نہایت اہم مقصد کے لئے تھی منظور نہ فرمایا۔اب میں کیا کرتا مجھے سخت درد اور دکھ محسوس ہورہا تھا۔اسی حالت میں میں پلیٹ فارم پر بیٹھ گیا۔ایک شخص نے مجھے اس طرح دیکھ کرافسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ کو کہاں جانا تھا؟افسوس ہے کہ آپ گاڑی سے رہ گئے۔میں نے کہا کہ مجھے ایک نہایت ضروری کام کے لئے حافظ آباد پہنچنا تھا۔
اس نے کہا کہ حافظ آباد کی گاڑی تو وہ سامنے کھڑی ہےاور چند منٹ میں روانہ ہوگی۔یہ گاڑی تو لاہور جارہی ہے۔جونہی میں نے یہ بات سنی میرے شکوہ و شکایت کے خیالات جذبات تشکر سے بدل گئے۔ میں نے حافظ آباد جانے والی گاڑی میں سوار ہوکر خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ شکر ادا کیا کہ کس طرح اس نے میری دعا کو جو میرے لئے بہت ہی نقصان دہ تھی اور جس کے قبول ہونے کے لئے میں تضرع سے درخواست کررہاتھا رد کر کے مجھے تکلیف اور نقصان سے بچالیا۔اگر میری دعا قبول ہوجاتی اور میں گاڑی میں سوارہوجاتا جو میں غلطی سے حافظ آباد جانے والی سمجھ رہا تھا اور جو دراصل لاہور جانے والی تھی تو میں بروقت حافظ آباد نہ پہنچ سکتا اور نقصان اٹھاتا۔
اس واقعہ سے مجھے اللہ تعالیٰ نے سمجھایا کہ دعاؤں کے ردّ ہونے میں بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کی خاص مصلحتیں کارفرما ہوتی ہیں جو سراسر انسان کے فائدہ کے لئے ہوتی ہیں۔ جن کو انسان اپنے ناقص علم کی وجہ سے نہیں سمجھتا ورنہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر وقت دنیا پر اپنا سایہ کئے ہوئے ہے۔ الحمدللہ رب العالمین۔‘‘(حیات قدسی)
(مرسلہ: تابندہ بشریٰ۔ آئیوری کوسٹ)