حسد کی بیماری کو کوئی معمولی چیز نہ سمجھیں
حسد کی بیماری کو کوئی معمولی چیز نہ سمجھیں۔ تمام زندگی کی نیکیاں حسد کے ایک عمل سے ضائع ہو سکتی ہیں۔ ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ مسلمان آگ میں داخل نہیں ہو گا جس نے کسی کافر کومارا ہو گا اور پھر میانہ روی اختیار کی ہو اور مومن کے پیٹ میں اللہ کی راہ میں پڑی ہوئی غبار اور جہنم کی پیپ دونوں جمع نہیں ہوں گے اور نہ کسی شخص میں ایمان اور حسد جمع ہو سکتا ہے۔ (سنن نسائی، کتاب الجہاد باب فضل من عمل فی سبیل اللہ علی قدمہ حدیث نمبر3109)
یعنی اس موجودہ زمانے کے لئے اصل میں بعد والی دونوں چیزیں ہیں۔ یعنی حسد کرنے والے کی حالت ایسی ہے جیسے جہنم کی پیپ پینے والے کی۔ اللہ تعالیٰ پر جو ایک مومن کا ایمان ہے، حسداس کو ضائع کرنے کا بھی باعث بنتا ہے۔ یا حسد کرنا جو ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر جہنم میں لے جانے والی چیز ہے۔ پس یہ انتہائی خوف کا مقام ہے۔ یہ حسد کرنے والے دوسرے کوعارضی اور وقتی طور پر جو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اس کا تو مداوا ہو جاتا ہے لیکن یہ اس حسد کی وجہ سے اپنے ایمان کو ضائع کرکے پھر جہنم اپنے اوپر سہیٹر رہے ہوتے ہیں۔ اس لئے کسی کی ترقی دیکھ کر، کسی کا خلافت کے ساتھ زیادہ قرب دیکھ کر، کسی پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش دیکھ کر حسد کرنے کی بجائے اس پر رشک کرنا چاہئے اور خودوہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔… ایک سچے مسلمان کی نشانی، ایک سچے احمدی کی نشانی اور اس کا مقام یہ ہے کہ مغموم القلب بننے کی کوشش کرے۔ گناہوں سے بچے، اپنے دل کے ٹیڑھے پن کو دُور کرے، بغض، کینہ اور حسد سے بچتے ہوئے اپنے پر جہنم حرام کرے اور اس دنیامیں بھی پُرسکون زندگی کی وجہ سے جنت حاصل کرنے والا ہو اور آخرت میں بھی جنت کا وارث بنے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۶؍مئی ۲۰۰۶ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۶؍جون ۲۰۰۶ء)