جو مزاجِ غم کو سمجھ سکے اسی چارہ گر کی تلاش ہے
پاکستان میں قومی اسمبلی کی پانچ سالہ معیاد مکمل ہونے پر پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت رخصت ہو چکی ہے اور ایک نگران سیٹ اَپ کی قیادت میں عنان حکومت سنبھال چکا ہے۔ سینیٹر انوارالحق کاکڑ نگران وزیر اعظم مقرر ہوئے ہیں۔ صدر نے سمری پر دستخط کر دیے ہیں۔ تجزیہ نگار یہی بتاتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کی حکومت نے آئی ایم ایف سے کیے معاہدہ کا پاس نہیں رکھا جس کی بدولت آئی ایم ایف نے قرض کی بقیہ اقساط ادا کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا جس کی وجہ سے ملک نے ڈیفالٹ ہو جانا تھا۔ اس خطرناک صورتِ حال سے ملک کو نکالنے کے لیے تحریکِ عدم اعتماد لائی گئی اور قومی اسمبلی کی بقیہ مدت کے لیے نو۹ سیاسی پارٹیوں کی مشترکہ حکومت بوجہ مجبوری بنائی گئی۔ لیکن اس تبدیلی پر تحریکِ انصاف نے جو ردعمل دکھایا اس سے ملک کو سیاسی اور معاشی دونوں اعتبار سے شدید دھچکہ لگا۔داخلی طور پر غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے عالمی رہنماؤں کی طرف سے بھی پاکستان کو بے توجہی کا سامنا کرنا پڑا۔
اب جبکہ الیکشن کروانے کے لیے ایک نگران سیاسی سیٹ اَپ معرض وجود میں آرہا تھا تو اپنے آخری چند دنوں میں سیاسی جماعتوں نے قوانین میں پے در پے من مانی تبدیلیاں کی ہیں۔ ایک ایک دن میں درجن بھر سے زائد قوانین کے بخیے ادھیڑ دیے گئے۔ قومی اسمبلی میں تو اس کھلی دھاندلی کے خلاف ایک بھی آواز نہیں سنائی دی البتہ سینٹ میں چند لوگوں نے جلد بازی کے اس طریق کار کے خلاف آواز ضرور اٹھائی۔ اسی لیے ایک دو قانونی تبدیلیاں قائمہ کمیٹی کے حوالے کر دی گئیں۔ پیمرا کی ترمیم حکومت نے واپس لے لی۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ اس ساری کار گزاری کی پیچھے ملک کا مفاد نہیں بلکہ سیاست دانوں کا ذاتی مفاد کار فرما تھا۔ ان آخری ایام کی کارروائی سے صاف معلوم ہو رہا تھا کہ یہ فیصلے آئندہ الیکشن کو ذہن میں رکھ کر کیے جا رہے ہیں۔ قوانین میں غیر ضروری ترامیم اپنا ووٹ بنک بڑھانے کی خاطر کی جا رہی ہیں۔ خصوصاً مذہبی قوانین کو بار بار چھیڑنا صاف بتاتا ہے کہ یہ کام مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا میں قوانین میں ترمیم کرتے وقت تجربہ اور مثالوں کے ساتھ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ یہ ترمیم کرنا کیوں ضروری تھا جبکہ پاکستان میں نہ تو قائمہ کمیٹی میں بحث ہوئی اور نہ ہی قومی اسمبلی میں اراکین کو رائے کا اظہار کرنے دیا گیا اور ایک ہی دن میں پندرہ ترامیم پر ووٹنگ کروا کر انہیں پاس کروا لیا گیا۔ قومی اسمبلی میں کسی ایک رکن نے نہیں پوچھا کہ چھہتر سال میں جو ہم نے مذہبی قوانین بنائے اور بگاڑے ان سے ہم نے کیا حاصل کیا۔ ملک کے نصیب کس قدر جاگے اور معاشرے میں اسلامی اقدار کا کونسا پہلو دوسروں کے لیے قابل مثال ٹھہرا۔
انگریزی روزنامہ ڈان میں ۶؍ اگست کو دانشور، تجزیہ نگار ندیم فاروق پراچہ کا حقیقت پسندانہ مضمون شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے آئین پاکستان میں کی جانے والی دوسری ترمیم اور ضیاء الحق کی طرف سے ۱۹۸۴ء میں جاری کیے جانے والے آرڈیننس کے معاشرے پر پڑنے والے منفی اثرات کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے ایک ایک کر کے وہ تمام نقصانات گنوائے ہیں جن کی وجہ سے معاشرہ پستی کا شکار ہوا اور اہلِ معاشرہ آپس میں ایک دوسرے سے پیار کی بجاے نفرت میں مبتلا ہوتے چلے گئے اور پاکستان ترقی کی بجائے زوال پذیر ہوا۔ اب جبکہ پاکستانی کشکول کے ڈھنڈورے کا چرچا روز اخبارات کی زینت بن رہا ہے ہمیں اتحاد اور بھائی چارے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ منزل برداشت اور رواداری کے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتی لیکن اتحاد و یگانگت کی ہر دلیل رد کرکے قومی اسمبلی نے صحابہ رضوان اللہ علیہم کے خلاف توہین آمیز کلمات استعمال کرنے کی سزا تین سال سے بڑھا کر دس سال مقرر کر دی ہے۔ سینٹ میں بھی یہ بل ایسے ہی ماحول میں پاس ہوا۔ ایک واحد شیریں رحمان تھیں جنہوں نے توجہ دلائی کہ ہم نے ابھی تک بل دیکھا تک نہیں ہے۔ ہمیں سب کے احترام کا خیال ہے لیکن اس بل کو غور وفکر کے بغیر محض مذہب کے نام پر منظور نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن سینٹ میں شور پڑ گیا کہ نہیں آج ہی رائے شماری کروائی جائے۔
پاکستانی سیاست میں مذہب اس حد تک حاوی ہو چکا ہے کہ لوگ اختلافِ رائے رکھنے کے باوجود اس کا اظہار کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ ووٹ بنک کم ہو جانے کا خطرہ لوگوں کو خاموش ہو جانے پر مجبور کر دیتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے رانا ثناء اللہ اور سردار صادق نے ووٹ لینے کی خاطر جو معاہدہ تحریکِ لبیک کے ساتھ کیاہے اس کے نتیجہ کے طور پر کالعدم تحریک لبیک ایک بار پھر کھل کر خلافِ قانون کارروائیاں کرنے پر اتری ہوئی ہے۔ ان کا نشانہ جماعتِ احمدیہ کی مساجد ہیں۔ تحریکِ لبیک کے جتھے تواتر کے ساتھ کارروائیاں کر رہے ہیں اور پولیس ان کے آگے بھیگی بلی بنی ہوئی ہے۔ آئے روزجماعت احمدیہ کی طرف سے با تصویر پریس ریلیز جاری کی جا رہی ہیں جن کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ احمدیہ قبرستان اور مساجد کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ احمدی خوف میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہزارہ برادری اپنی جگہ پریشان ہے۔ ہندو ہزاروں کی تعداد میں ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ امریکن ریسرچ ادارے Gatestone نے ۸؍ اگست کو پاکستان کے حوالے سے جو رپورٹ شائع کی اس میں پاکستان میں مسیحی برادری جس خوف میں مبتلا ہے اس کی مثالیں دی گئی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق سویڈن میں ہونے والی قرآنِ کریم کی بے حرمتی کے خلاف پاکستان میں نکالنے جانے والے جلوسوں میں مسیحی پاکستانیوں کی قیادت بھی موجود تھی۔ اس کے باوجود گرجا گھروں پر حملے کیے گئے۔ لوگوں کو خوف زدہ کیا جا رہا ہے۔ Gatestone اس کا ذمہ دار حکومت کو قرار دیتا ہے جس نے سرکاری طور پر یوم تقدیس کا اعلان کیا۔ ان کے نزدیک جب بھی مذہبی معاملات کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہوگی انتہا پسند مذہبی عناصر اس کا غلط فاہدہ اٹھائیں گے۔اور یہ بات جماعت احمدیہ کے بارے میں صادق آتی ہے۔ تحریک لبیک پندرہ مساجد کے مینار گرا چکی ہے۔ بعض مینار مسمار کرتے وقت خود پولیس موجود تھی۔ بورے والہ میں تو پولیس تباہ شدہ میناروں کا ملبہ بھی ساتھ لے گئی جبکہ یہ مینارے ۵۳؍سال قبل تعمیر ہوئے تھے۔
مسلم لیگ (ن) اور تحریک لبیک کے معاہدے سے پاکستان کے اندر خلفشار بڑھ رہا ہے۔ مزید برآں جو معاہدہ تحریکِ انصاف اور تحریک طالبان پاکستان کی افغانستان میں موجود قیادت کے درمیان ہوا اس کے بعد پاکستان کے سرحدی علاقہ میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ بیرسٹر سیف کے کہنے پر پاکستان کی جیلوں میں بند تحریک طالبان کے قیدی رہا کیے گئے اور اب انٹرنیشنل پریس بتا رہا ہے کہ رہائی پانے والے سب افغانستان اپنے ساتھیوں سے جا ملے ہیں اور پلاننگ کے ساتھ پاکستان آ کر خودکش حملے کر رہے ہیں اسی لیے پاکستان کے سپہ سالارِ اعظم کا پشاور کے گرینڈ جرگہ میں دیا جانے والا بیان نئی حکومت کے لیے غور طلب ہے۔ بطور صحافت کے طالب علم کے میں توقع رکھتا ہوں کہ نگراں وزیراعظم جناب۔ سپہ سالار جنرل عاصم منیر کے اس بیان کو دونوں کالعدم تنظیموں تحریک لبیک اور تحریک طالبان پاکستان کے پس منظر میں ایک ہی آنکھ سے دیکھیں گے اور ایک ہی تلوار سے دونوں کا قلع قمع کرنے کا جرأت مندانہ قدم اٹھایں گے۔ جنرل عاصم منیر نے کہا ہے
اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے۔ جنہوں نے دین کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا ان کو جواب دینا ہو گا۔ جو لوگ امن کو برباد کرنا چاہتے ہیں وہ ہم میں سے نہیں ہیں۔ یہ خوارج کون سی شریعت لانا چاہتے ہیں۔ دہشت گردوں کے پاس ریاست کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ انہیں ریاستی رٹ تسلیم کرنا پڑے گی اور اگر وہ اپنی غلط روش پر گامزن رہے تو انہیں ختم کر دیا جاے گا۔
سپہ سالار کا یہ بیان ان کے عزم کا اظہار ہے اور پاکستان کی نگران حکومت کی قابلیت کا امتحان۔ نگران وزیراعظم کو اپنے سپہ سالار کی ڈھال بن کر امید کو یقین میں بدلنا ہوگا تا ملک کا ہر شہری بلا تفریق مذہب و فرقہ امن و سکون کی زندگی بسر کر سکے اور ملک ترقی کی جانب رواں دواں ہو۔
٭…٭…٭