حاصل مطالعہ
ارشاد نبویﷺ
اپنی ساری حاجتیں اور ضرورتیں اپنے ربّ سے مانگو
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:
تم میں سے ہر ایک اپنی ساری حاجتیں اور ضرورتیں اپنے رب سے مانگے، یہاں تک کہ جوتے کا تسمہ اگر ٹوٹ جائے تو اسے بھی اللہ ہی سے مانگے۔(جامع ترمذی کتاب الدعوات عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باب لیسأل الحاجۃ مھما صغرت)
ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام
درود شریف حصول استقامت کا ذریعہ
’’درود شریف جو حصول استقامت کا ایک زبردست ذریعہ ہے بکثرت پڑھو۔ مگر نہ رسم اور عادت کے طور پر بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حسن اور احسان کو مدنظر رکھ کر اور آپ کے مدارج اور مراتب کی ترقی کے لیے اور آپ کی کامیابیوں کے واسطے۔اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قبولیتِ دعا کا شیریں اور لذیذ پھل تم کو ملے گا۔‘‘(ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۳۸ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
تقویٰ اور زبان کا تعلق
’’زبان سے ہی انسان تقویٰ سے دور چلا جاتا ہے۔زبان سے تکبر کر لیتا ہے اور زبان سے ہی فرعونی صفات آجاتی ہیں اور اسی زبان کی وجہ سے پوشیدہ اعما ل کو ریا کاری سے بدل لیتا ہے اور زبان کا زیاں بہت جلد پیدا ہوتا ہے۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص ناف کے نیچے کے عضو اور زبان کو شر سے بچاتا ہے اس کی بہشت کا ذمہ دار میں ہوں۔حرام خوری اس قدر نقصان نہیں پہنچاتی جیسے قول زور۔اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ حرام خوری اچھی چیز ہے۔یہ سخت غلطی ہے اگر کوئی ایسا سمجھ بیٹھے۔میرا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص جو اضطراراً سؤر کھا لے،تو یہ امر دیگر ہے۔لیکن اگر وہ اپنی زبان سے خنزیر کا فتویٰ دے دے تو وہ اسلام سے دور نکل جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے حرام کو حلال ٹھیراتا ہے۔غرض اس سے معلوم ہوا کہ زبان کا زیاں خطرناک ہے۔اس لئے متقی اپنی زبان کو بہت ہی قابو میں رکھتا ہے۔اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نہیں نکلتی جو تقویٰ کے خلاف ہو۔پس تم اپنی زبانوں پر حکومت کرو،نہ یہ کہ زبانیں تم پر حکومت کریں اور اناپ شناپ بولتے رہو۔
ہر ایک بات کہنے سے پہلے سوچ لو کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔اللہ تعالیٰ کی اجازت اس کے کہنے میں کہاں تک ہے۔جب تک یہ نہ سوچ لو مت بولو۔ایسے بولنے سے جو شرارت کا باعث اور فساد کا موجب ہو،نہ بولنا بہتر ہے،لیکن یہ بھی مومن کی شان سے بعید ہے کہ امر حق کے اظہار میں رکے۔اس وقت کسی ملامت کرنے والے کی ملامت اور خوف زبان کو نہ روکے۔دیکھو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اپنی نبوت کا اعلان کیا تو اپنے پرائے سب کے سب دشمن ہو گئےمگر آپ نے ایک دم بھر کے لئے کبھی کسی کی پروا نہ کی۔یہاں تک کہ جب ابو طالب آپ کے چچا نے لوگوں کی شکایتوں سے تنگ آکر کہا۔اس وقت بھی آپ نے صاف طور پر کہہ دیا کہ میں اس کے اظہار سے نہیں رک سکتا۔آپ کا اختیار ہے، میرا ساتھ دیں یا نہ دیں‘‘۔(ملفوظات جلد۱، صفحہ ۳۸۲، مطبوعہ قادیان ۲۰۱۸ء)
قبولیتِ دعا کے دو ذرائع
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریر فرمایا ہے: ’’دعائیں انہی لوگوں کی قبول ہوں گی جو اقامۃصلوٰۃ کرنے والے ہوں گے۔ جو لوگ نمازیں باقاعدہ اور بلا سخت معذوری کے باجماعت ادا نہیں کرتے ان کی دعا کم سُنی جاتی ہے۔ اسی طرح یہ دعا انہی کی سنی جائے گی جو اخلاص سے اسلام کے لئے مالی قربانیاں کرنے والے ہوں گے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ۳ صفحہ ۴۸۱)
ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ
احمدی بزرگوں کا ذکر ِخیر
’’میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے ایسے بزرگ آباء و اجداد جنہوں نے…غیر معمولی دینی ترقیات حاصل کیں، غیرمعمولی قربانیاں دیں اوران کا ذکر اگلی نسلیں بھول رہی ہیں اور اُن کے ماں باپ بھی اس ذکر کو زندہ نہیں رکھتے۔ نتیجۃً وہ کتابوں کے پھول بنتے جا رہے ہیں… یہ زندہ رہنے کا انداز نہیں ہے۔ قرآنِ کریم نے ہمیں زندگی کا جو راز سمجھایا ہے اس کی رُو سے آپ کو اپنے آباء و اجداد کے ذکر کو لازماً زندہ رکھنا ہو گا۔وہ سارے خاندان جن کے آباء و اجداد میں صحابہ یا بزرگ تابعین تھے اُن کو چاہئے کہ وہ اپنے خاندان کا ذکرِ خیر اپنی آئندہ نسلوں میں جاری کریں… تمام دنیا کی جماعتوں کو احمدی بزرگوں کی یادوں کو تازہ کرنے کی مہم چلانی چاہئے… سب سے زیادہ زور اس بات پر ہونا چاہئے کہ آنے والی نسلوں کو اپنے بزر گ وآباء و اجداد کے اعلیٰ کردار اور اعلیٰ اخلاق کا علم ہو۔ اُن کی قربانیوں کا علم ہو۔‘‘(خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرمودہ ۳۰؍اپریل۱۹۹۳ء)
ہر اہم کام سے پہلے استخارہ کرنا
حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ روایت کرتے ہیں: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا یہ طریق عمل تھا کہ ہر ایک اہم کام کے شروع کرنے سے پہلے ضرور دعا کیا کرتے تھے اور دعا بطریق مسنون دعائے استخارہ ہوتی تھی۔ استخارہ کے معنی ہیں خدا تعالیٰ سے طلبِ خیر کرنا۔ استخارہ کے نتیجہ میں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ کوئی خواب آجائے جیسا کہ آج کل کے بعض صوفی استخارہ کرتے ہیں یعنی خدا تعالیٰ سے خیر طلب کرتے ہیں یہ طریق مسنون نہیں۔ اصل مقصد تو یہ ہونا چاہیئے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے خیر حاصل ہو اور دعائے استخارہ سے اللہ تعالیٰ ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے کہ جو کام ہمارے لئے بہتری اور بھلائی کا ہو وہ آسان ہو جاتا ہے۔ بغیر دقتوں کے حاصل ہو جاتا ہے اور قلب میں اس کے متعلق انشراح اور انبساط پیدا ہو جاتا ہے۔
عموماً استخارہ رات کے وقت بعد نماز عشاء کیا جاتا ہے۔ دو رکعت نماز نفل پڑھ کر التحیات میں درود شریف اور دیگر مسنون دعاؤں کے بعد دعائے استخارہ پڑھی جاتی ہے اور اس کے فوراً بعد سو رہنا چاہیئے اور باتوں میں مشغول ہونا مناسب نہیں ہوتا۔لیکن حسب ضرورت دوسرے وقت بھی استخارہ کیا جا سکتا ہے۔ (سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی، حصہ پنجم صفحہ ۴۹۰، ایڈیشن اگست ۲۰۱۶ء)
بہت برجستہ جواب
حضرت قاضی محمد نذیر صاحب فاضل مرحوم ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہیں۔ ایک دفعہ ضلع سیالکوٹ میں ان کا پیر نادر شاہ صاحب سے ایک مناظرہ ختم نبوت کے موضوع پر ہو رہا تھا۔ پیر صاحب جب بحث میں عاجز آگئے تو انہوں نے ایک مولوی کو کھڑا کر دیا اور اسے کہا کہ تم یہ اعلان کر دو کہ میں اسی طرح خدا کا نبی ہوں جس طرح مرزا صاحب نبی ہیں۔ اور پیر صاحب حضر ت قاضی صاحب سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ اب اسے جھوٹا ثابت کرو۔
اس پر قاضی صاحب اٹھے اور مجمع کو مخاطب کر کے کہا کہ دوستو! خدا کا شکر ہے کہ جو مسئلہ ان کے اور پیر صاحب کے درمیان زیر بحث تھا وہ حل ہو گیا ہے۔ بحث یہ تھی کہ رسول کریم ﷺ کے بعد آپ کی امت میں نبی آسکتا ہے یا نہیں۔پیر صاحب نے عملاً تسلیم کر لیا ہے کہ آسکتا ہے۔ یہ دیکھئے پیر صاحب کانبی آپ کے سامنے کھڑا ہے! اب وہ چاہتے ہیں کہ میں اسے جھوٹا ثابت کروں تو مجھے اس کو جھوٹا ثابت کرنے کی ہر گز کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اسے خدا تعالیٰ نے نہیں بھیجا بلکہ ابھی ابھی پیر صاحب نے آپ سب کے سامنے اس سےنبوت کا دعویٰ کروایا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے شخص کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ یہ جواب سن کر پیر صاحب مبہوت رہ گئے اور جس غیر از جماعت دوست کو انہوں نے اپنی طرف سے مناظرہ میں ثالث بنایا ہوا تھا اس نے اسی وقت اپنے احمدی ہونے کا اعلان کر دیا!(بحوالہ میدان تبلیغ میں تائید الٰہی کے ایمان افروز واقعات، صفحہ ۲۲)