کتب مینار (قسط ۳۵) شفیع الوریٰ
سیالکوٹ چھاؤنی کی مسجد کے امام الصلوٰة اور خطیب جناب مولوی مبارک علی صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی سعادت پائی۔ آپ حضرت مولوی فضل احمد صاحب کے فرزند تھے جو ایک بزرگ اور عالم باعمل تھے اورحضرت اقدس مسیح موعودؑکے والد محترم حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کے حکم پر بچپن کے زمانہ میں حضورؑ کوبچوں کے لیے مروجہ بعض کتب کے ابتدائی اسباق پڑھایا کرتے تھے۔کتاب’’ ۳۱۳ اصحاب صدق و صفا‘‘ مرتبہ نصر اللہ خاں ناصر اور عاصم جمالی کے مطابق رجسٹر بیعت میں مولوی مبارک علی صاحب کا نام ۲۲۶ نمبر پر درج ہے۔آپ نے ۲۸؍ مئی ۱۸۹۱ء میں بیعت کی اور آپ کے نام کے آگے پتا میں غوث گڑھ، تحصیل سرہند، ریاست پٹیالہ درج ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑنے اپنی تصنیف ازالہ اوہام میں ان مخلصین کے ذکر میں جو دینی مہمات میں حضور علیہ السلام کی مدد کی صلاحیت رکھتے تھے، ۳۸ نمبر پر لکھا ہے کہ ’’حبّی فی اللّٰہ مولوی محمد مبارک علی صاحب…حضرت عیسیٰ ابن مریم کی وفات کے بارے میں ایک رسالہ انہوں نے تالیف کیا ہے جو چھپ کر شائع ہوگیا ہے جس کا نام قول جمیل ہے۔ اس عاجز کا ذکر بھی اس میں کئی جگہ کیا گیا ہے۔ ‘‘
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد سوم۔ صفحہ ۵۴۲)
مصنف کتاب مولوی مبارک علی صاحب کے بارہ میں ملتا ہے کہ آپ فارسی اور اردو کے بلند پایہ شاعر تھے ۔ آپ کا منظوم کلام اخبار الحکم میں با قاعدگی سے شائع ہوتا رہا۔ آپ نے صداقت حضرت مسیح موعودؑ کے موضوع پر بعض کتب تحریر کیں ۔ آپ کی تصنیف ’القول الجمیل‘ حضرت مسیح موعود کی صداقت پر ابتدائی کتب میں شامل ہے جس کا ذکراس سلسلہ تعارف کتب صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں آچکا ہے۔
یاد رہے کہ مولفین کتاب ’’ ۳۱۳ اصحاب صدق و صفا‘‘ نے لکھا ہے کہ مولوی ابویوسف مبارک علی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد نظام خلافت سے وابستہ نہ ر ہے اور ان کا تعلق انجمن اشاعت اسلام لاہور سے ہی رہا۔
زیر نظر کتاب مطبع پنجاب پریس سیالکوٹ سے منشی غلام قادر فصیح صاحب مالک و مہتمم کے زیر انتظام شائع ہوئی۔ اس کتاب کے زیر نظر ایڈیشن کے ۴۰۰ نسخے تیار ہوئے۔ اور کاتب کی لکھائی میں اس کتاب کے قریباً سوا سو صفحات ہیں۔
گو اس کتاب میں کہیں بھی واضح طور پر کتاب کا سنہ تالیف یا اشاعت درج نہیں ہے لیکن ٹائٹل پر درج عبارت سے قرینہ لیا جاسکتاہے کہ یہ کتاب اسی زمانہ کی ہے جس میں مؤلف موصوف صداقت حضرت مسیح موعودؑ پر اپنے رسالہ ’’القول الجمیل‘‘ کو اپنے تعارف میں وجہ فخر تصور کرتے تھے۔
اس کتاب کے اصل اردو متن سے قبل ایک عربی قصیدہ درج ہے جو ایک صفحہ پرپھیلے ہوئے ۲۳ اشعار پر مشتمل ہے۔ ان اشعار میں غلو کو پسند کرنے والے نصاریٰ کو ساکت کرنے کے لیے سید المرسلین ﷺ کی بلند شان بیان ہوئی ہے۔
اس منظوم عربی کلام کے بعدچار صفحات پر پھیلی ہوئی فارسی زبان کی بعض منظوم دعائیں ہیں۔ اوربعدہ کتاب کے صفحہ ۵ سے ۸ پر عربی زبان میں کتاب کی وجہ تالیف درج ہے۔ اور بعض دعائیں لکھی گئی ہیں۔
صفحہ ۹ پر بعد بسم اللہ عنوان لکھاہے:
’’ تمہارا کون شفیع ہے حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم یا انجیلی مسیح‘‘
اس ضمن میں اسلام اور عیسائیت پر تمہیدی کلمات لکھ کر موازنہ کے رنگ میں ایک طویل بحث درج کی گئی ہے۔ اور جابجاضروری حواشی لاکر اپنے منطوق کو تقویت دی گئی ہے۔
صفحہ ۱۱ پر قرآن کریم کے من جانب اللہ ہونے، اسلام کے سچا دین ہونے اور خدا تعالیٰ کی رضامندی کا اعلیٰ وسیلہ ہونے کا ذکر کرکے حاشیہ میں وہی زریں اصول لکھا ہے جو حضرت مسیح موعودؑ نے موازنہ مذاہب کے میدان کارزار میں بڑی شان سے متعارف فرمایاہے۔
صفحہ ۱۳ پر اس سوال کا جواب دیا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی راہ ایک ہی ہے توپھر اس کے لیے متعدد کتابیں اور متعدد نبی کیوں بھیجے گئے۔ کیوں نہ ایک ہی کتاب اور ایک نبی کافی ہوا؟
کتاب کے صفحہ ۱۹ پر’’ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی پیدائش کا مختصر حال ‘‘کے عنوان کے تحت بحث موجود ہے۔ غرض کتاب کے صفحہ ۳۸ تک’’تلک عشرہ کاملہ‘‘ لکھ کر دس کامل نشان قرآن کریم سے عیسائیوں کو ملزم کرنے کے لیے درج کیے گئے ہیں۔
پھر صفحہ ۳۹ پر حضرت مسیح کی پیدائش کا مختصر حال از اناجیل بتایا گیا ہے۔ اس کے بعد حضرت مسیح کے معجزات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ صفحہ ۴۱ کے حاشیہ میں اپنا یہ قطعہ بھی لکھا ہے:
خاک جینا ہے ایسے بندوں کا
جن کا اپنا خدا ہی مردہ ہے
کام دیتی ہے کب وہ چوبِ خشک
ہر طرف سے جو کرم خوردہ ہے
حضرت مسیح کے معجزات پر روشنی ڈالنےکے بعد صفحہ ۴۹ سے ’’حضرت محمد ﷺ کی روحانی تاثیر‘‘ کا باب شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد حضرت محمد ﷺ کی شجاعت، استقامت اور حلم کا بیان ہے۔جس میں ثقہ تاریخ سے چند واقعات بطور نمونہ پیش کیے گئے ہیں۔
اس کے بعدکتاب میں حضرت مسیح کی روحانی تاثیر پر مواد لایاگیا ہے۔
صفحہ ۵۵ پر ’’آنحضرت ﷺ کے صحابہ اور حضرت مسیح کے چیلے ‘‘ کا عنوان بنا کر اردو اور عربی میں منظوم کلام درج کیا گیا ہے۔
صفحہ ۶۰ پر’’ حضرت مسیح ؑ کی شجاعت اور استقامت کا بیان‘‘ ہے۔
صفحہ ۶۴ پر ’’حضرت مسیح کی چند پیشگوئیاں ‘‘ بطور نمونہ مع حوالہ لکھی گئی ہیں۔ بعدہ حضرت محمد ﷺ کی دس پیشگوئیاں بطور نمونہ درج کرکے ’’عیسائیوں کی کج فہمی‘‘ پر سے پردہ اٹھایا ہے۔
اس کتاب کے صفحہ ۱۰۱ پر ’’حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اور حضرت مسیح کی سیرتوں کا مقابلہ ‘‘ پیش کیا گیا ہے۔
کتاب کے آخر پر ’’نتیجہ‘‘ کے عنوان کے ماتحت لکھا:
’’پس جب یہ ثابت ہوا کہ قرآن کریم ہی کامل کتاب ہے اور نبی برحق حضرت محمد ﷺ ہی دنیا میں اپنے کامل معیار کی رو سے کھرے اور بے عیب و نقص… اور اپنے مقاصد رسالت میں اعلیٰ درجہ کے کامیاب ہیں اور بموجب حضرت مسیح کے اس قول کے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ اپنے ثمرات اور نتائج کی جہت سے نہایت سرسبز اور برومند درخت ہیں۔ تو ثابت ہوا کہ اسلام ہی ایک سچا اور صحیح مذہب اور خدا تعالیٰ کی رضامندی کا اعلیٰ وسیلہ ہے اور آنحضرت ﷺ ہی تمام دنیا کے لئے کامل ہادی اور سب گناہگاروں کے لئے مقبول الشفاعت، معصوم شفیع ہیں۔ فالحمدللہ علی ذالک ‘‘ (صفحہ ۱۱۴)
کاتب کی لکھائی میں تیار ہونے والی اس کتاب کے آخر پر ایک تصحیح نامہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ جس میں صفحہ نمبر،سطر متن، سطر حاشیہ درج کرکے پہلے غلطی بتا کر اس کی درستگی کا چارٹ پیش کیا گیا ہے۔ جس میں کتاب کی ۴۱ اغلاط کی نشاندہی ہے۔
"کتاب مینار” شیئر کرنے کا شکریہ۔ میری عاجزانہ تجویز یہ ہے کہ الفضل کو اس مضمون میں مذکور کتابوں کا "ہائپر لنک” فراہم کرنا چاہیے تاکہ قاری اسے کہیں اور پڑھ سکیں۔ جزاک اللہ اور اللہ تعالیٰ الفضل کی پوری ٹیم کو ان کے شاندار کام کے لیے برکت عطا فرمائے۔