(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۲؍ اپریل ۲۰۲۲ء)
ہم اپنے آپ کو مومن کہتے ہیں، مسلمان کہتے ہیں، یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر عمل کرتے ہوئے، آپؐ پر اپنے ایمان کو کامل کرتے ہوئے اس بات کو بھی مانا ہے کہ آپؐ کی پیشگوئی کے مطابق جس مسیح و مہدی نے آنا تھا وہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے وجود میں آ چکا ہے اور اب دین اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا کام اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق اس مسیح و مہدی کے ہاتھ سے ہی ہونا ہے۔ پس ہمارا فرض ہے کہ اپنے اندر اسلام کی حقیقی روح کو قائم رکھنے کے لیےمسیح موعود علیہ السلام سے ہی راہنمائی لیں۔
چنانچہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ تقویٰ کے متعلق آپؑ کیا ارشاد فرماتے ہیں تو اس مضمون سے بھی ہمیں آگاہی ہوتی ہے کہ تقویٰ کیا ہے؟ جیسا کہ میں نے کہا کہ ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم ایمان لانے والوں میں شامل ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں تو پھر سنو کہ ایمان کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ انسان تقویٰ اختیار کرے اور پھر فرمایا کہ تقویٰ کیا ہے؟ پھر اس کا جواب یہ ہے کہ ہر قسم کی بدی سے اپنے آپ کو بچانا۔ اب اگر ہم جائزہ لیں تو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ہمیں اپنے جائزہ سے ہی پتہ چل جائے گا کہ کیا ہم تقویٰ کا حق ادا کرتے ہوئے حقوق اللہ کی ادائیگی کر رہے ہیں۔ کیا ہم تقویٰ پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق ادا کر رہے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا کہ یہ بات کہ تقویٰ کیا ہے اس وقت تک پتہ نہیں چل سکتی جب تک ان باتوں کا مکمل علم نہ ہو۔ علم حاصل کرنا ضروری ہے کیونکہ بغیر علم کے کوئی چیز حاصل ہی نہیں ہو سکتی، اس کو آدمی پا ہی نہیں سکتا۔ آپؑ نے فرمایا کہ یہ علم حاصل کرنے کے لیے کہ کیا اللہ تعالیٰ کے حق ہیں؟ کیا بندوں کے حق ہیں؟ کن باتوں سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے؟ کن باتوں کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اس کے لیے بار بار قرآن شریف کو پڑھو۔ فرمایا اور تمہیں چاہیے کہ جب قرآن شریف پڑھ رہے ہو تو بُرے کاموں کی تفصیل لکھتے جاؤ اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل اور تائید سے کوشش کرو کہ ان بدیوں سے بچتے رہو۔ آپؑ نے فرمایا کہ یہ تقویٰ کا پہلا مرحلہ ہو گا۔
…تو اس سوچ سے [قرآن کریم] پڑھنا چاہیے کہ اس کے اوامر و نواہی پر ہم نے غور کرنا ہے اور بُرے کاموں سے رکنا ہے اور اچھے کاموں کو ادا کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ آپؑ نے فرمایا قرآن شریف میں اوّل سے آخر تک اوامر و نواہی اور احکام الٰہی کی تفصیل موجود ہے۔ پس ہمیں ان چیزوں کو دیکھنا ہو گا، ان پر غور کرنا اور ان پر عمل کرنا ہو گا اور یہی ایک مومن کی نشانی ہے۔ آپؑ نے اس بات کو بڑے زور سے بیان فرمایا کہ جب تک انسان متقی نہیں بنتا اس کی عبادات اور دعاؤں میں قبولیت کا رنگ پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے، جیسا کہ فرماتا ہے۔ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ۔ (المائدہ:۲۸) یعنی بےشک اللہ تعالیٰ متقیوں کی ہی عبادت کو قبول فرماتا ہے۔ فرمایا یہ سچی بات ہے کہ نماز روزہ بھی متقیوں کا ہی قبول ہوتا ہے۔ پھر اس کا جواب دیا کہ عبادات کی قبولیت کیا ہے؟ اور اس سے مراد کیا ہے؟ قبولیت کیا چیز ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ نماز قبول ہو گئی ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ نماز کے اثرات اور برکات نماز پڑھنے والے میں پیدا ہو گئے ہیں۔ جب تک وہ برکات اور اثرات پیدا نہ ہوں، فرمایا اس وقت تک نری ٹکریں ہی ہیں۔ پس ہمیں دیکھنا ہو گا کہ کیا ہمارا رمضان، ہمارے روزے ہمیں اس معیار پر لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ آپؑ نے فرمایا کہ عیبوں اور برائیوں میں اگر مبتلا کا مبتلا ہی رہا تو تم ہی بتاؤ کہ اس نماز نے اس کو کیا فائدہ پہنچایا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ نماز کے ساتھ اس کی برائیاں اور بدیاں جن میں وہ مبتلا تھا کم ہو جاتیں اور نماز اس کے لیے ایک عمدہ ذریعہ ہے۔ فرمایا پس پہلی منزل اور مشکل اس انسان کے لیے جو مومن بننا چاہتا ہے یہی ہے کہ بُرے کاموں سے پرہیز کرے اور اس کا نام تقویٰ ہے۔(ماخوذ از ملفوظات جلد ۸ صفحہ ۳۷۴تا ۳۷۷ ایڈیشن۱۹۸۴ء)
… اصل تقویٰ کیا ہے اور کس قسم کا تقویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ اس بارے میں ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ ’’اصل تقویٰ جس سے انسان دھویا جاتا ہے اور صاف ہوتا ہے اور جس کے لئے انبیاء آتے ہیں وہ دنیا سے اٹھ گیا ہے۔ کوئی ہو گا جو قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰىہَا (الشمس:۱۰) کا مصداق ہو گا۔‘‘ یعنی جس نے اس کو پاک کیا وہ اپنا مقصد پا گیا۔ فرمایا: کوئی ہو گا جو قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰىہَا کا مصداق ہو گا۔ ’’پاکیزگی اور طہارت عمدہ شے ہے۔ انسان پاک اور مطہر ہو تو فرشتے اس سے مصافحہ کرتے ہیں۔ لوگوں میں اس کی قدر نہیں ہے ورنہ ان کی لذات کی ہر ایک شے حلال ذرائع سے ان کو ملے۔ چور چوری کرتا ہے کہ مال ملے لیکن اگر وہ صبر کرے تو خدا تعالیٰ اسے اَور راہ سے مالدار کر دے‘‘ گا اور یہ چوری صرف ظاہری چوری نہیں ہے۔ بعض کاروباری لوگ بھی جو اپنی غلط قسم کی چیزیں بیچتے ہیں وہ بھی اسی زمرے میں آ جاتی ہیں۔ ’’اسی طرح زانی زنا کرتا ہے اگر صبر کرے تو خدا تعالیٰ اس کی خواہش کو اَور راہ سے پوری کر دے جس میں اس کی رضا حاصل ہو۔ حدیث میں ہے کہ کوئی چور چوری نہیں کرتا مگر اس حالت میں کہ وہ مومن نہیں ہوتا اور کوئی زانی زنا نہیں کرتا مگر اس حالت میں کہ وہ مومن نہیں ہوتا۔‘‘ یعنی کہ ایمان جب دل سے نکل جاتا ہے تو اسی وقت پھر انسان سے اس قسم کی حرکتیں ہوتی ہیں۔ فرمایا کہ ’’جیسے بکری کے سر پر شیر کھڑا ہو تو وہ گھاس بھی نہیں کھا سکتی تو بکری جتنا ایمان بھی لوگوں کا نہیں ہے۔‘‘ گناہوں اور برائیوں کو جب انسان کرتا ہے تو اس وقت یہ احساس ہونا چاہیے کہ خدا تعالیٰ ہمیں ہر وقت دیکھ رہا ہے۔ فرمایا کہ ’’اصل جڑ اور مقصود تقویٰ ہے۔ جسے وہ عطا ہو تو سب کچھ پا سکتا ہے بغیر اس کے ممکن نہیں ہے کہ انسان صغائر اور کبائر سے بچ سکے۔‘‘ چھوٹے گناہوں اور بڑے گناہوں سے بچے۔ ’’انسانی حکومتوں کے احکام گناہوں سے نہیں بچا سکتے حکام ساتھ ساتھ تو نہیں پھرتے کہ ان کو خوف رہے۔ انسان اپنے آپ کو اکیلا خیال کر کے گناہ کرتا ہے ورنہ وہ کبھی نہ کرے اور جب وہ اپنے آپ کو اکیلا سمجھتا ہے اس وقت وہ دہریہ ہوتا ہے۔‘‘ ایمان اس کے اندر کوئی نہیں ہوتا۔ خدا اس کے دل سے نکل چکا ہوتا ہے۔ وہ اس وقت دہریہ ہو جاتا ہے ’’اور یہ خیال نہیں کرتا کہ میرا خدا میرے ساتھ ہے وہ مجھے دیکھتا ہے ورنہ اگر وہ یہ سمجھتا‘‘ کہ خدا دیکھ رہا ہے ’’تو کبھی گناہ نہ کرتا۔ تقویٰ سے سب شے ہے۔ قرآن نے ابتدا اسی سے کی ہے۔ إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ (الفاتحہ:۵) سے مراد بھی تقویٰ ہے کہ انسان اگرچہ عمل کرتا ہے مگر خوف سے جرأت نہیں کرتا کہ اسے اپنی طرف منسوب کرے اور اسے خدا کی استعانت سے خیال کرتا ہے اور پھر اسی سے آئندہ کے لئے استعانت طلب کرتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتا ہے۔ اگر نیکی کی بھی تو یہ نہیں کہ میرا کوئی کمال ہے میرا دل نیک ہے یا میں بہت اعلیٰ نیکی کے معیار پر پہنچ گیا ہوں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے مجھے اس نیکی کی نماز پڑھنے کی توفیق دی، دعا کرنے کی توفیق دی۔